میت کی طرف سے روزوں کی قضاء

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال: یہ جو حدیث ہے:

”من مات وعليه صوم صام عنه وليه“

(جو فوت ہوجائے اور اس کے ذمے روزے ہوں تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھے)

اس بارے میں جو کچھ میں جانتا ہوں وہ یہ کہ یہ نذر کے روزوں سے متعلق ہے، لیکن علماء میں سے کسی نے ایک پروگرام میں فرمایا کہ یہ رمضان کے روزوں کے متعلق ہے، تو کیا یہ بات صحیح ہے؟ یا پھروہی بات صحیح ہے جو میں ایک سلفی کتاب کے ذریعے جانتا تھا؟ اس بارے میں استفادہ دیجئے اجر پائيں، جزاکم اللہ خیراً۔

جواب از شیخ عبدالعزیز بن  عبداللہ بن باز رحمہ اللہ :

صواب یہی ہے کہ یہ حکم عام ہے صرف نذر کے ساتھ خاص نہیں۔ بعض آئمہ نے جیسا کہ امام احمد  اور علماء رحمہم اللہ   کے ایک گروہ نے یہ کہا ہے کہ: یہ نذر کے ساتھ خاص ہے۔ لیکن یہ قول مرجوح ہے اس پر کوئی دلیل نہیں لہذا صواب یہی ہے کہ یہ حکم عام ہے۔ کیونکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

”مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامٌ، صَامَ عَنْهُ وَلِيُّهُ“([1])

(جو فوت ہوجائے اور اس کے ذمے روزے ہوں تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھے)۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے عائشہ  رضی اللہ عنہا  سے روایت ہے۔ یہاں یہ نہيں فرمایا کہ نذر کے روزے۔ لہذا نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے کلام کی بغیر دلیل تخصیص کرنا جائز نہيں  کیونکہ نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی حدیث عام ہے جو نذر اور رمضان کے روزے سب کو عام ہے اگر ایک مسلمان ان کی قضاء کی ادائیگی میں قدرت رکھنے کے باوجود سستی کرتے ہوئے تاخیر سے کام لیتا ہے یا پھر کفارے کے روزے ہوں۔ جو کوئی بھی یہ چھوڑ جائے تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے۔ اور ولی سے مراد اس کے اقارب میں سے کوئی قریبی رشتہ دار۔البتہ اگر ان کے علاوہ بھی کوئی رکھ لے تو کافی ہوجاتا ہے۔

نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے ایک شخص نے یہ بھی پوچھا:

” يا رسول الله إن أمي ماتت وعليها صوم شهر أفاصوم عنها؟ قال: أرأيت لو كان على أمك دين أكنت قاضيه؟ اقضوا الله فالله أحق بالوفاء“ ([2])

(یا رسول اللہ! میری والدہ فوت ہوگئیں اور ان کے ذمے ایک مہینے کے روزے تھے تو کیا میں ان کی طرف سے روزے رکھوں؟ فرمایا: دیکھو اگر تمہاری والدہ کے ذمے کوئی قرض ہوتا  تو کیا تم اسے ادا کرتے؟  اللہ کا قرض بھی ادا کرو کیونکہ اللہ تعالی زیادہ حق دار ہے کہ اس کا قر ض چکایا جائے)۔

اسی طرح سے ایک عورت نے اس بارے میں آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے دریافت کیا:

” يا رسول الله إن أمي ماتت وعليها صوم شهر أفاصوم عنها؟ قال: أرأيتِ لو كان على أمك دين أكنت قاضيته؟ اقضوا الله فالله أحق بالوفاء“

(یا رسول اللہ! میری والدہ فوت ہوگئیں اور ان کے ذمے ایک مہینے کے روزے تھے تو کیا میں ان کی طرف سے روزے رکھوں؟ فرمایا: دیکھو اگر تمہاری والدہ کے ذمے کوئی قرض ہوتا  تو کیا تم اسے ادا کرتی؟  اللہ کا قرض بھی ادا کرو کیونکہ اللہ تعالی زیادہ حق دار ہے کہ اس کا قر ض چکایا جائے)۔

اور مسند احمد میں صحیح سند کے ساتھ ابن عباس w سے روایت ہے کہ ایک عورت نے پوچھا:

” يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا صَوْمُ رَمَضَانَ أَفَأَصُومُ عَنْهَا ؟ قَالَ: صُومِي عَنْ أُمِّكِ “

(یا رسول اللہ! میری والدہ فوت ہوگئیں اور ان کے ذمے رمضان کے روزے تھے تو کیا میں ان کی طرف سے روزے رکھوں؟ فرمایا: اپنی والدہ کی طرف سے روزے رکھو)۔

اس روایت([3]) سے واضح ہوا کہ یہ رمضان کے روزوں ہی کے متعلق ہے۔

اور بہت سی احادیث آئی ہيں جو اس بات پر دلالت کرتی ہيں کہ یہ رمضان اور اس کے علاوہ روزوں کی قضاء کے لیے ہے، اور کوئی وجہ نہيں اس کی نذر کے ساتھ تخصیص کرنے کی بلکہ یہ ایک مرجوح و ضعیف قول ہے اور صواب قول اس کے عام ہونے کا ہے۔

اسی طرح دلائل رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے آئے ہيں، لیکن اگر رمضان میں روزہ چھوڑنے والے کی طرف سے کوئی کوتاہی نہيں  تھی بلکہ اس نے کسی مرض یا دودھ پلانے یا حمل  کی وجہ سے روزے چھوڑے ہوں پھر وہ مریض یا حاملہ یا دودھ پلانے والی فوت ہوجائے اور اس کی قضاء نہ رکھ پائی تو پھر اس کے ورثاء پر کوئی ذمہ داری نہيں، نہ قضاء کی نہ ہی کھانا کھلانے (فدیہ) کی، کیونکہ اس کےروزے  چھوڑنے کا شرعی عذر تھا جو کہ مرض وغیرہ تھا۔

البتہ اگر کوئی اپنے مرض سے شفایاب ہوگیا ہو اور اس کے لیے روزے رکھنا ممکن تھا مگر اس نے سستی سے کام لیا تو ایسے کی طرف سے قضاء دی جائے گی، اسی طرح سے دودھ پلانے والی یا حاملہ اگر یہ اس حالت کے بعد استطاعت رکھتی تھیں کہ قضاء رکھیں  مگر سستی سے کام لیا تو ان دونوں کی طرف سے بھی قضاء رکھے جائيں گے۔ واللہ ولی التوفیق۔

[من برنامج نور على الدرب الشريط رقم 17. (مجموع فتاوى ومقالات الشيخ ابن باز 25/ 208)]

بلوغ المرام کی شرح کرتے ہوئے اسی حدیث کے تحت شیخ صالح الفوزان  حفظہ اللہ  فرماتے ہیں:

یہ بات ہمارے سامنے پہلے گزر چکی  کہ جو عذر رکھنے والے لوگ ہيں ان کے لیے افطار جائز ہے اور کبھی تو واجب  ہے جیسے مسافر، مریض، حیض ونفاس والی خواتین، ان سب پر قضاء ہے دوسروں دنوں میں۔ لیکن ان میں سے جو فوت ہوجائے اور اس کے ذمے روزے ہوں کہ جن کی قضاء باقی تھی، رمضان کے روزے ہوں یا کفارے کے، یا پھر نذر کے روزے ہوں۔ چاہے وہ اصل شریعت میں واجب ہوں یا کسی سبب کی وجہ سے واجب ہوں، یا پھر انسان کے اپنی طرف سے ہوں جیسے نذر ماننا تو یہ انسان کے اپنے سبب سے ہيں، یا رمضان (کے روزے ) میں جماع کرنا اس کا سبب بھی انسان خود ہے، اسی طرح سے مسافر بھی انسان کا اپنا سبب ہے۔

لہذا یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو فوت ہوجائے اور اس کے ذمے روزے ہوں چاہے اصل شریعت کے لحاظ سے واجب روزے ہوں  جیسے رمضان کے قضاء روزے، یا پھر نذر یا کفارے کی وجہ سے واجب ہوں، تو اس کا ولی جو کہ اس کا قریبی (رشتہ دار) ہوتا ہے اس کی طرف سے روزے رکھے۔ اور اس میں غایت درجے حکمت ہے کیونکہ جو قریبی ہوتا ہے وہ اس کا وارث بنتا ہے تو یہ بالکل مناسب بات ہے کہ وہ ان کی طرف سے پھر روزے بھی رکھے، کیونکہ جب وہ اس کی وراثت لیتا ہے اور اس سے فائدہ اٹھاتا ہے، تو پھر اگر اس پر روزے باقی ہوں تو وہ اس کی طرف سے یہ ذمہ داری اٹھائے اس میراث سے اٹھائے جانے والے فائدے کے بدلے میں۔ کیونکہ یہ قاعدہ ہے کہ:  ”أن الغُنم بالغُرم“ (غنیمت کے ساتھ ہرجانہ بھی ہوتا ہے)([4])۔ جوکہ اس حدیث (جو فوت ہوجائے اور اس کے ذمے روزے ہوں تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے) سے  حاصل ہوتا ہے۔ علماء کرام   رحمہم اللہ  کا اس مسئلے میں اختلاف ہے ، اور ان کے دو اقوال ہیں:

پہلا قول:  یہ حکم عام ہے کہ جو فوت ہوجائے  اور اس کے ذمے روزے  واجب ہوں  تو اس کا ولی اس ذمہ داری کو لے گا، چاہے وہ رمضان کے قضاء روزے ہوں یا پھر کفارے یا نذر کے روزے ہوں، اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے گا یعنی اس کا قریبی۔  کیونکہ جو حدیث ہے کہ ایک عورت نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے پاس آئی  او رسوال کیا کہ اس کی والدہ فوت ہوگئی ہيں اور ان کے ذمے روزے تھے ، کیا وہ ان کی طرف سے ادا کرے؟ فرمایا: دیکھو اگر تمہاری والدہ پر کوئی قرض ہوتا، تو کیا تم اسے ادا کرتیں؟ انہوں نے کہا: ہاں، تو فرمایا: اللہ زیادہ حقدار ہے کہ اس کا قرض چکایا جائے (یہ بھی متفق علیہ حدیث ہے جیسا کہ اوپر ذکر ہوا)۔ یہ رائے اہل علم کے ایک گروہ کی ہے کہ میت کی طرف سے  واجب روزوں کی قضاء رکھی جائے گی  چاہے  وہ اصل شریعت کے لحاظ سے ہوں یا پھر نذر ماننے کی وجہ سے ہوں۔

دوسرا قول: جو اصل شریعت کے لحاظ سے واجب ہوں وہ روزے نہيں رکھے جائيں گے، اس میں نیابت نہيں ہوسکتی جیسا کہ نماز میں نہيں ہوسکتی، چنانچہ جس طرح بلاشبہ نماز میں نیابت نہيں ہوتی کیونکہ وہ ایک بدنی عمل ہے، اسی طرح روزہ بھی ایک بدنی عمل ہے جس میں نیابت نہيں ہوسکتی۔ اور یہ اصل شریعت کے لحاظ سے واجب ہے لہذا میت کی طرف سے رمضان کے قضاء نہيں رکھے جائيں گے کیونکہ  اس میں نیابت کا دخل نہيں، لیکن اگر وہ ترکہ (وراثت) چھوڑ جائے تو اس کی طرف سے ہر روز ایک مسکین کو (فدیہ) کھلایا جائے گا ، اور اگر وہ کوئی ترکہ نہیں چھوڑ گیا اور اس کو کوئی قریبی یا مسلمانوں میں سے کوئی بھی چاہتا ہوں کہ اس کی طرف سے کھلا دے تو یہ ایک اچھی بات ہے۔ اسی قول کو شیخ تقی الدین شیخ الاسلام ابن تیمیہ و ابن القیم  رحمہما اللہ  نے اختیار فرمایا ہے۔

پہلا قول جیسا کہ گزرا  وہ عام ہے کہ میت کی طرف سے مطلقاً قضاء رکھے جائيں گے خواہ وہ اصل شریعت کے اعتبار سے واجب ہوں یا (اس اعتبار سے) واجب نہ ہوں، اس حدیث کے عموم کی وجہ سے کہ: (جو فوت ہوجائے اور اس کے ذمے روزے ہوں)یہ حکم عام ہے (تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھے)۔ لیکن دوسرے قول کے قائلین  فرق کرتے ہيں ان روزوں میں جو اصل شریعت میں واجب ہوں اور جو انسان کے اپنے عمل کی وجہ سے واجب ہوگئے ہوں۔  وہ کہتے ہیں:  بعض روایات میں آیا ہے جیسا کہ البخاری 1953  میں ہے:

”إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا صَوْمُ نَذْرٍ “

(میرا والدہ فوت ہوگئيں اور ان  کے ذمے نذر (منت) کا روزہ تھا)۔

تو یہ روایت اس حدیث کو مخصوص کردیتی ہے، کیونکہ مطلق کو مقید پر محمول کیا جاتا ہے۔ اور وہ حدیث مطلق تھی جبکہ یہ والی حدیث کہ ان کے ذمے نذر کے روزے  تھے مقید حدیث ہے۔ اور جیسا کہ میں نے آپ کے سامنے بیان کیا اسے شیخ الاسلام ابن تیمیہ و ابن القیم  رحمہما اللہ  نے اختیار فرمایا ہے۔ واللہ اعلم([5])۔

[تسهيل الإلمام بفقه الأحاديث من بلوغ المرام – كتاب الصيام – ص 228-229]


[1] أخرجه البخاري في كتاب الصوم، باب من مات وعليه صوم، برقم 1816، ومسلم في كتاب الصيام باب قضاء الصوم عن الميت، برقم 1935.

[2] أخرجه مسلم في كتاب الصيام، باب قضاء الصوم عن الميت، برقم 1937. حدیث کے الفاظ ہیں: ”يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا صَوْمُ شَهْرٍ أَفَأَقْضِيهِ عَنْهَا؟، فَقَالَ: لَوْ كَانَ عَلَى أُمِّكَ دَيْنٌ أَكُنْتَ قَاضِيَهُ عَنْهَا؟، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَدَيْنُ اللَّهِ أَحَقُّ أَنْ يُقْضَى“۔

[3] دراصل رمضان کے لفظ کے اضافے کے ساتھ یہ روایت مسند احمد کے کچھ نسخوں میں ہے اور کچھ میں نہیں۔ اسی لیے محققین کا اس بارے میں اختلاف ہے۔اس لیے بھی کہ دیگر صحیح روایات میں رمضان کا لفظ نہيں ہے۔ البتہ علامہ احمد شاکر نے تحقیق المسند  حدیث 3420 میں اس لفظ کو ثابت کیا ہے اور فرمایا:  اسنادہ صحیح۔۔۔یہ روایت صریح ہے اس بارے میں کہ بے شک سوال رمضان کے روزوں کے متعلق تھا، لیکن حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں اس جانب اشارہ نہيں فرمایا۔ اور ظاہر یوں لگتا ہے کہ یہ سوال متعدد بار پوچھا گیا کبھی نذر سے متعلق، اور کبھی رمضان سے متعلق، اور سائل کبھی مرد تھا اور کبھی عورت۔دیکھیں مسند احمد تحقیق احمد شاکر ج 3 ص 439۔واللہ اعلم (مترجم)

[4] یعنی کچھ انعام ملتا ہے تو کچھ ذمہ داری اور جوکھم(رسک) بھی مول لینے پڑتے ہیں۔

[5] التمہید 9/28 اور 20/27، واللباب 1/82، والمھذب 1/334، المغنی 3/84 اور 11/370، واحکام الاحکام 1/23، وفتح الباری 4/193 و شرح النووی علی مسلم 8/25۔

ترجمہ و ترتیب: طارق بن علی بروہی

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*