رمضان المبارک میں سلف صالحین کا حال

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

سوال: سائل رمضان المبارک میں سلف صالحین کا حال دریافت کرتا ہے؟

جواب از شیخ ربیع بن ہادی المدخلی  حفظہ اللہ :

اس کے جواب میں میں یہ کہوں گا رسول کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا حال تو معروف ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اس ماہ کے لیے باقاعدہ اتنے مستعد رہتے کہ شعبان کے اکثر ایام روزے رکھتے:

’’كَانَ يَصُومُ شَعْبَانَ كُلَّهُ، كَانَ يَصُومُ شَعْبَانَ إِلَّا قَلِيلًا‘‘([1])

(آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پورا شعبان روزہ رکھتے یا کچھ ایام چھوڑ کر تقریباً پورا شعبان روزہ رکھتے)۔

جیسا کہ عائشہ  رضی اللہ عنہا  کی حدیث میں آیا ہے۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اس ماہ مبارک کے روزے رکھتے اور اس میں اہتمام اور شدیدتر ہوجاتا تھا خصوصاً اس کے آخری عشرے میں، کیونکہ جب اس ماہ مبارک کا آخری عشرہ آتا تو آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اپنی کمر کس لیتے اور عبادت میں بہت محنت فرمایا کرتے تھے۔ اعتکاف فرماتے اور ساتھ ہی آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی ازواج مطہرات بھی اعتکاف کیا کرتی تھیں اور بہت سے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  بھی۔ یہ تمام عظیم اعمال وہ ماہ رمضان میں سرانجام دیا کرتے تھے۔ جیسے روزے کی اصل روح کے مطابق روزے رکھنا، عمل صالح ، عبادت میں محنت واحسان کرنا وغیرہ۔

اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ویسے ہی جواد وسخی تھے لیکن جب رمضان آتا تو آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سخاوت کی حد کردیتے اور تیز ہوا کی مانند اللہ کی راہ میں خرچ کرتے خصوصاً جب جبرئیل  علیہ الصلاۃ والسلام  آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے ملاقات کے لیے آتے ۔ جیسا کہ ابن عباس  رضی اللہ عنہما  کی حدیث([2]) میں ہے۔اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ہر رمضان ایک بار قرآن کریم جبرئیل  علیہ الصلاۃ والسلام  پر پڑھتے یا سناتے(اس کا دور کرتے تھے)، لیکن جب آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی حیات مبارکہ کا آخری سال تھا تو آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے جبرئیل  علیہ الصلاۃ والسلام  کو دو بار قرآن کریم سنایا۔  جیسا کہ ابوہریرہ وعائشہ  رضی اللہ عنہما  کی حدیث([3]) میں ہے۔ اور یہ اس بات کی علامت تھا کہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو اپنی قرب وفات کا احساس ہوگیا تھا۔

الغرض سلف صالحین اس ماہ مبارک میں خاص اہتمام وعنایت فرمایا کرتے تھے۔ باکثرت تلاوت قرآن کرتے، ذکر کرتے اور گناہوں سے پرہیزکرتے۔ کیونکہ روزہ اسی بات کا متقاضی ہے۔ روزہ محض کھانے پینے سے رکنے کا نام نہیں بلکہ یہ تو ہر اس چیز سے رکنے کا نام ہے جو غضب الہی کا موجب ہو جیسے گناہ وغیرہ۔ اور اللہ تعالی کی اطاعت کی جانب اور عمل میں اخلاص پیدا کرنے کی جانب پیش قدمی کرنے کا نام ہے۔

سلف  رضی اللہ عنہم  جیسا کہ امام مالک  رحمہ اللہ  کے بارے میں بیان کیا جاتا ہےکہ وہ لوگوں کو تعلیم دیا  کرتے تھے لیکن جب رمضان آتا تو اپنا اکثر وقت روزے اور تلاوت قرآن کے لیے خاص کردیتے۔

آپ اس ماہ میں تلاوت قرآن کا خاص اہتمام کریں ساتھ ہی اس پر تدبر و غور و فکر بھی کریں اور اس کی نصیحتوں ومواعظ سے نصیحت پکڑیں اور اس کے ڈراوں اور زواجر سے ڈریں وعبرت لیں۔ ساتھ ہی اس میں بیان کردہ حلال وحرام ، اور وعد و وعید اور اس جیسی دوسری باتوں کو سمجھیں۔ اسی طرح سے نفس کا تزکیہ ہوتا ہے اور دل منور ہوتے ہیں۔ یہ قرآن حیات ہے، نور ہے، ہدایت ہے۔ جیسا کہ اللہ تبارک وتعالی نے اس کا وصف بیان فرمایا:

﴿وَكَذٰلِكَ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا ۭ مَا كُنْتَ تَدْرِيْ مَا الْكِتٰبُ وَلَا الْاِيْمَانُ وَلٰكِنْ جَعَلْنٰهُ نُوْرًا نَّهْدِيْ بِهٖ مَنْ نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا ۭ وَاِنَّكَ لَـــتَهْدِيْٓ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ﴾ 

(اور اسی طرح ہم نے تمہاری طرف اپنے حکم سے اس روح (وحی) کو اتارا ہے، تم اس سے پہلے یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ کتاب اور ایمان کیا چیز ہے ، لیکن ہم نے اسے نور بنایا جس کے ذریعے سے ہم اپنے بندوں میں جس کو چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں۔ اور بے شک تم سیدھی راہ کی جانب رہنمائی کرنے والے ہو)

(الشوری: 52)

یعنی آپ سلف صالحین کے بارے میں پڑھیں ان کا جہاد، صبر، اللہ کے لیے اخلاص اور اس ماہ مبارک میں اور اس کے علاوہ بھی انتھک محنت کرنا۔ یعنی ہمیں ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ہم صرف ماہ رمضان میں ہی عبادت میں محنت کریں پھر اس کے بعد سب بھول جائیں اور اطاعت کے کام چھوڑ دیں! نہيں، بلکہ ہمیں اللہ کی عبادت، قیام اللیل اور ان تمام اطاعت الہی پر مبنی کاموں میں پیش قدمی کرتے رہنا چاہیے جو ہم تقرب الہی کے لیے رمضان میں کیا کرتے تھے۔ انہيں بھولنا نہیں چاہیے۔ بعض لوگ اس ماہ میں تو اطاعت الہی کی طرف خوب مائل ہوتے ہیں لیکن جیسے ہی یہ مہینہ ختم ہوتا ہے تقصیر و سستی کا شکار ہوکر بہت سے اطاعت پر مبنی کاموں کو بھول جاتے ہيں، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔

اس میں کوئی شک نہيں کہ اس ماہ میں ہمیں دیگر ایام سے زیادہ اہتمام کرنا چاہیے لیکن سارا سال اور ساری زندگی ہمیں اللہ تعالی کو یاد رکھنا چاہیے، اس کا ذکر کرنا چاہیے۔

﴿يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِيْرًا،  وَّسَبِّحُــوْهُ بُكْرَةً وَّاَصِيْلًا﴾ 

(مسلمانوں اللہ  تعالیٰ کا باکثرت ذکر کیا کرو، اور صبح وشام اس کی تسبیح و پاکی بیان کرو)

(الاحزاب: 41-42)

پس ایک مومن ہمیشہ اللہ تعالی کو یاد رکھتا ہے اور اس کی اطاعت کرتا ہے، اس کا تقویٰ اختیار کرتا ہے، اور اس سے ڈرتا ہے، اور اپنی زندگی کے ہر لمحے میں اس کا مراقبہ کرتا ہے (یعنی خیال رکھتا ہے کہ وہ مجھے دیکھ رہا ہے)۔

اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ ہمیں اور آپ کو اس ماہ کریم میں قیام وصیام اور اس ماہ کے واجبات کی ادائیگی کی توفیق عنایت فرمائے۔ اور ہمارے اندر اس کے فضائل کو سمیٹنے کی حرص پیدا فرمائے۔ اسی طرح سے ہم دعاء کرتے ہیں کہ وہ ہمیں ہمیشہ اپنی اطاعت اور اپنی رضامندی کے کاموں کی توفیق دیتا رہے ۔ بے شک ہمارا رب دعاؤں کا سننے والا ہے([4])۔

سوال: اس عظیم ماہ کے استقبال کے تعلق سے سلف صالحین  رضی اللہ عنہم  ورحمہم اللہ کا کیا حال ہوا کرتا تھا؟ ان کا کیا طریقۂ کار تھا؟ ان کی نشست وبرخاست کیسی تھی؟

دوسری بات: فضیلۃ الشیخ رمضان کے ان شب وروز کو غنیمت جان کر کس طرح ایک مسلمان اس کی تیاری کرے؟ جیسے علمی تیاری احکام صیام اور مفطرات (روزہ توڑنے والی چیزیں) اور اس کے احکام جاننا، بعض لوگ روزوں سے متعلق ان باتوں کا علم حاصل نہیں کرتے، لہذا شیخ صاحب ذرا اس امر پر بھی تنبیہ فرمائیں گا؟

جواب از شیخ صالح بن فوزان الفوزان  حفظہ اللہ:

بسم اللہ الرحمن الرحیم، وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، وبارک اللہ فیک۔

سلف کا حال جیسا کہ ثقات کی اسانید سے مروی شدہ کتب میں مدون ہے کہ وہ رمضان داخل ہونے سے پہلے اللہ تعالی سے دعاء فرمایا کرتے تھے کہ انہیں رمضان تک پہنچا دے اس خیر عظیم اور عام نفع کو جانتے ہوئے کہ جو اس میں پنہاں ہیں۔ پھر جب رمضان داخل ہوجاتا تو اللہ تعالی سے دعاء فرماتے ہیں کہ وہ انہیں اس میں عمل صالح کرنے میں مدد فرمائے۔ اور جب رمضان ختم ہوجاتا تو دعاء فرماتے کہ ان کے یہ اعمال بارگاہ الہی میں شرف قبولیت پاجائیں۔

جیسا کہ ارشاد الہی ہے:

﴿وَالَّذِيْنَ يُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ اَنَّهُمْ اِلٰى رَبِّهِمْ رٰجِعُوْنَ، اُولٰۗىِٕكَ يُسٰرِعُوْنَ فِي الْخَــيْرٰتِ وَهُمْ لَهَا سٰبِقُوْنَ﴾

(اور جو لوگ (اللہ کی راہ میں) دیتے ہیں جو کچھ دیتے ہیں مگر اس کے باوجود ان کے دل کپکپاتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں،  یہی ہیں جو بھلائیوں میں جلدی کرتے ہیں اور یہی ہیں جو ان کی طرف سبقت کرنے والے ہیں)

(المؤمنون: 60-61)

یعنی وہ عمل میں خوب محنت کرتے تھے پھر بھی عمل کرلینے کے بعد انہیں فکر لاحق ہوتی کہ آیا یہ قبول بھی ہوا کہ نہیں؟ یہ اس لیے کہ وہ اللہ تعالی کی کماحقہ عظمت کو پہچانتے تھے اور یہ کہ وہ صرف اور صرف اسی عمل کو قبول فرماتا ہے جو خالصتاً لوجہ اللہ کیا جائے، اور برمبنئ  صواب یعنی سنت کے مطابق بھی ہو۔ پس وہ اپنے آپ کی پارسائی بیان نہیں کرتے تھے، بلکہ ڈرتے تھے کہ ان کے اعمال باطل نہ ہوجائیں، پس اعمال قبول ہوں یا نہ ہوں اس کی فکر انہیں عمل کی ادائیگی سے زیادہ دشوار لگتی تھی۔ کیونکہ فرمان الہی ہے:

﴿اِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ﴾ 

(اللہ  تعالیٰ تو صرف تقویٰ والوں کا ہی عمل قبول کرتا ہے)

(المائدۃ: 27)

وہ اس ماہ میں عبادت کے لیے اپنے آپ کو فارغ کردیتے اور دنیاوی مصروفیات کم کردیا کرتے تھے۔ زیادہ وقت اللہ کے گھروں میں گزارتے اور کہتے کہ ہم اپنے روزوں کی حفاظت کررہے ہیں اور کسی کی غیبت نہيں کرنا چاہتے۔ اپنے ساتھ مصاحف لاتے اور کتاب اللہ کو پڑھتے پڑھاتے۔ وہ اپنے اوقات کوضائع ہونے سے بچاتے۔ فضولیات میں وقت ضائع نہیں کرتے جیسا کہ آجکل بہت سے لوگوں کا حال ہے۔ رات کے اوقات کی حفاظت کرتے قیام اللیل کے ساتھ اور دن کے اوقات کی روزے، تلاوت قرآن، ذکر الہی اور دیگر اعمال خیر کے ساتھ۔ اس میں سے ایک منٹ یا ایک لحظہ بھی وہ ضائع نہیں کیا کرتے تھے بلکہ اس میں بھی کوئی عمل خیر کرلیا کرتے تھے([5])۔


[1] صحیح بخاری 1970، صحیح مسلم 1157۔

[2] صحیح بخاری 1902، صحیح مسلم 2309۔

[3] صحیح ابن ماجہ 1444۔

[4] کیسٹ:  إزالة الإلباس عما اشتبه في أذهان الناس۔

[5] فتاویٰ  رمضانیہ۔

ترجمہ وترتیب

طارق بن علی بروہی