شوال کے چھ روزے – شیخ صالح بن فوزان الفوزان

بسم اللہ الرحمن الرحیم

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’من صام رمضان و أتبعه ستاً من شوال كان كمن صام الدهر‘‘([1])

(جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو وہ ایسا ہے جیسے اس نے زمانے بھر کے روزے رکھے)۔

اس حدیث میں شوال کے چھ روزوں کی فضلیت بیان ہوئی ہے۔ یعنی جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر شوال کے چھ روزے رکھے تو اس نے دو فضیلتوں کا جمع کردیا۔

تو وہ ایسا ہوگیا گویا کہ اس نے سارے زمانے یعنی پورے سال کے روزے رکھے۔ یہاں زمانے سے مراد سال ہے۔ کیونکہ ایک نیکی دس کےبرابر ہے جس کی وجہ سے رمضان کے روزے دس ماہ کے روزوں کے برابر ہوگئے اور شوال کے چھ روزے دو ماہ کے روزوں کےبرابر ہوگئے تو یہ ملاکر پورے بارہ ماہ ہوگئے یعنی کے پورا ایک سال۔ پس جس نے رمضان کے پورے روزے رکھے پھر شوال کے چھ روزے رکھے تو گویا کہ اس کو سارے سال کے روزوں کا ثواب حاصل ہوگیا اور یہ اللہ تعالی کی جانب سے عظیم فضل وکرم ہے۔

اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمانا کہ شوال میں جس نے چھ رکھے اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس میں خواہ لگاتار روزے رکھے جائیں یا الگ الگ دونوں جائز ہیں۔اور یہ بھی جائز ہے کہ مہینے کے شروع میں رکھے یا وسط میں یا آخر میں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا شوال میں یعنی کسی بھی وقت۔

اور اس حدیث میں یہ بھی دلیل ہے کہ جس نے رمضان کے روزے ابھی پورے نہيں رکھے تو اس کے لیے شوال کے چھ روزے شروع کرنا مشروع نہيں۔

کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے۔ لہذا جس کسی نے پورے رمضان کے روزے کسی عذر کی وجہ سے چھوڑے ہوں تو وہ شوال کے چھ روزے نہ رکھے۔ بلکہ اسے جلد از جلد رمضان کے قضاء روزے رکھنے چاہیے۔ اور جس نے رمضان کے کچھ روزے شرعی عذر کی وجہ سے چھوڑے ہوں تو وہ پہلے انہیں پورا کرے پھر اگر شوال کا مہینہ باقی ہو تو اس کے روزے رکھ لے۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پھر رمضان کے بعد جو چھ روزے شوال کے رکھے۔ یعنی شوال کے چھ روزوں کو اس کے قبل رمضان کے روزے مکمل کرنے کے ساتھ ملا کر بیان کیا۔ پس اگر اس کے ذمے اگر پورے رمضان یا کچھ ایام کے قضاء روزے باقی ہوں تو اسے پہلے فرض سے شروع کرنا چاہیے، کیونکہ فرض نفل سے اولیٰ ہے۔

شوال کے چھ روزے کے جمہور اہل علم قائل ہیں اور اس بنا پر وہ ان چھ روزوں کو مستحب کہتے ہیں سوائے امام مالک رحمہ اللہ کے، کیونکہ وہ اس کے قائل نہيں، اس خدشے کے وجہ سے کہ کہیں لوگ اسے رمضان کے روزے کا تسلسل نہ سمجھنے لگیں۔ آپ اس سے سدِذریعہ چاہتے تھے کہ کہیں لوگ شوال کے ان چھ روزوں کو رمضان کے روزوں کا ہی کوئی حصہ نہ سمجھنے لگیں۔ لیکن بہرحال دلیل رائے پر مقدم ہے۔ اور سنت کی دلیل اور فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر ایک کے قول پر مقدم ہے۔ چناچہ امام مالک رحمہ اللہ اس کی موافقت نہیں کرتے اور امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے آپ کی طرف سے عذر بیان فرمایا کہ آپ کو وہ حدیث نہیں پہنچی ہوگی۔


[1] صحیح مسلم 1165 کے الفاظ ہیں: ’’مَنْ صَامَ رَمَضَانَ وَأَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوّالٍ كَانَ كَصِيَامِ الدَّهْرِ‘‘ (مترجم)

ترجمہ: طارق بن علی بروہی

مصدر: شرح كتاب الصيام من كتاب بلوغ المرام۔