عید کی رات خصوصی عبادت کرنا؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

عام طور پر لوگ اسے لیلۃ الجائزہ (انعام ملنے والی رات) کہتےہیں۔

اس بارے میں جو سنن ابن ماجہ 1782میں حدیث آئی ہے وہ ضعیف ہے۔

ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ فرمایا:

مَنْ قَامَ لَيْلَتَيِ الْعِيدَيْنِ مُحْتَسِبًا لِلَّهِ، لَمْ يَمُتْ قَلْبُهُ يَوْمَ تَمُوتُ الْقُلُوبُ

جو شخص عیدین (دونوں عیدوں) کی راتوں میں اللہ تعالی سے ثواب پانے کی خاطر قیام (اللیل) کرے گا، تو اس کا دل اس دن مردہ نہ ہوگا جس دن دل مردہ ہوجائيں گے۔

اسے امام النووی، العراقی، ابن حجر اور الالبانی رحمہم اللہ وغیرہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اسے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جھوٹ قرار دیتے ہیں۔

حافظ ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ عید کی رات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح تک سوئے رہے اور آپ نے شب بیداری نہیں فرمائی، عیدین کی رات عبادت کرنے کے متعلق کوئی صحیح روایت مروی نہیں ہے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ بھی فضیلت والی احادیث کو ضعیف قرار دے کر فرماتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی اس پوری رات کا قیام ثابت نہیں ہے۔

 [تفصیل کے لیے دیکھیں شروحات ابن ماجہ، الاذکار للنووی، مجموع فتاوی ابن تیمیہ ج 23، زاد المعاد ، فتاوی نور علی الدرب ابن عثیمین کیسٹ 23 وغیرہ]

ترجمہ و ترتیب

طارق بن علی بروہی

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*