
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ:
لیکن ہاں اس نہایت درجے تیزی سے بچیں جو بعض آئمہ رکوع و سجود میں کرتے ہيں یہاں تک کہ ایک ہٹا کٹا جوان بھی امام کی متابعت (پیروی) کرنے میں ناکام ہوجاتا ہے، حالانکہ وہ جوان ہوتا ہے؟ تو پھر اس سے اندازہ لگائيں کسی عمر رسیدہ یا مریض شخص یا ان جیسے دیگر لوگوں کا کیا حال ہوتا ہوگا جب یہ جوان اس کے ساتھ چلنے میں ناکام ہورہا ہے۔ مجھے ایک قابل اعتماد شخص نے بتایا کہ وہ رمضان کی راتوں میں سے ایک رات کسی مسجد میں داخل ہوا جبکہ امام نماز تراویح میں تھا اور اس امام کی متابعت کرنے میں وہ ناکام ہوگیا حالانکہ وہ بالکل جوان اور پھرتیلا تھا۔ کہتا ہے کہ مجھے یوں لگا جیسے میں اس کے ساتھ کسی انگارے پر نماز پڑھ رہا ہوں۔ پھر جب میں رات کو سویا تو میں نے (خواب میں) دیکھا جیسا کہ میں اسی مسجد میں داخل ہوا ہوں اور کیا دیکھتا ہوں کہ اندر لوگ رقص کررہے ہيں، جی ہاں! رقص کررہے ہيں کیونکہ بلاشبہ اس طرح (تیزی تیزی) سے تو رقص ہی ہوتا ہے۔
میرا مقصد اس بات سے یہ ہے کہ بلاشبہ بعض آئمہ (اللہ سے ہم اپنے اور ان کے لیے ہدایت طلب کرتے ہیں) تراویح سے کھیل رہے ہوتے ہیں۔ رکعت کی تعداد کے بارے میں تو مصر رہتے ہیں حالانکہ وہ سنت ہے بلکہ تحدید کرنا تو خلاف سنت ہے۔ بہرحال سنت گیارہ رکعتیں (کہتے ہیں) مگر ساتھ ہی وہ واجب کی ادائیگی میں کوتاہی کا شکار ہوتے ہیں۔ اور بہت تیزی سے پڑھتے ہیں۔ اور علماء رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ امام کے لیے مکروہ ہے کہ وہ اتنی تیزی سے پڑھے جس کی وجہ سے مقتدی کوئی سنت ادا نہ کرسکے، اور اگر اتنی تیزی سے پڑھے کہ مقتدی واجب نہ ادا کرسکے تو وہ حرام ہے۔ کیونکہ امام امانت دار ہوتا ہے اور امانت دار کو چاہیے کہ جن کی امانت اس کے سر ہے ان کے حالات کا لحاظ کرے ، چنانچہ اتنی تیزی سے نماز پڑھنا کہ مقتدی واجب بھی ادا نہ کرسکیں جائز نہيں ہے۔
چلیں اگر کوئی شخص اس قسم کے امام کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہو جو اتنی تیزی سے پڑھتا ہے کہ مقتدی واجب بھی ادا نہیں کرپاتا، اطمینان کی حالت میں اس کی اقتداء کرنے سے عاجز ہوجاتا ہے، تو کیا اس کے لیے امام والی نماز سے نکل کر اکیلے نماز پڑھنا جائز ہے؟ جواب: جی ہاں۔
بلکہ اس پر واجب ہے کہ وہ امام سے الگ ہوجائے چاہے تراویح میں ہو یا بھی فرض نماز میں۔ جی ہاں! فرض نماز میں بھی، کیونکہ بسا اوقات جب آپ فرض نماز پڑھنے آتے ہيں تو پاتے ہيں کوئی لوگوں کونماز پڑھا رہا ہے، آپ کی نماز (باجماعت) فوت ہوچکی تھی تو آپ ان کے ساتھ شامل ہوگئے، لیکن آپ پاتے ہیں کہ وہ اتنی تیزی سے نماز پڑھا رہا ہوتا ہے کہ آپ اس کے ساتھ واجب تک ادا کرنے سے ناکام رہتے ہیں تو اس حال میں ہم یہ کہیں گے کہ اس سے الگ ہوجائیں اور انفرادی نماز کی نیت کرلیں، اور اکیلے ہی نماز کو پورا کریں، کیونکہ بلاشبہ اب آپ کے لیے ان دو باتوں کو ساتھ جمع کرنا ممکن ہی نہ رہا کہ یا تو امام کی پیروی کریں یا پھر اطمینان سے اپنی نماز کے ارکان ادا کرپائيں، دو میں سے صرف ایک بات ہی ہوسکتی ہے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شخص کے عمل کا اقرار فرمایا جو امام کی لمبی نماز پڑھانے کی وجہ سے اکیلا ہوکر پڑھنے لگا، تو پھر کسی رکن کی ادائیگی کی خاطر امام سے الگ ہوکر اکیلے پڑھنا تو بالاولی جائز ہوگا۔
(شرح الممتع على زاد المستقنع كتاب الصلاة کیسٹ 37a)
سوال: بارک اللہ فیکم۔ سائل کہتا ہے: ہمارے ملک میں زیادہ تر مساجد احناف کے ہاتھوں میں ہے اور بعض تکفیری خوارج کے ہاتھ میں بھی ہیں۔ جو احناف ہيں وہ تراویح چار چار رکعات ایک سلام کے ساتھ پڑھتے ہیں اور اتنی تیزی سے پڑھتے ہيں کہ قریب ہے کہ کوئی رکن آپ ان کے ساتھ نہ پاسکیں، پس کیا یہ افضل ہے کہ سلفی لوگ مراکز میں جمع ہوکر نماز تراویح پڑھیں یا پھر وہ گھر میں پڑھیں؟
شیخ عبید الجابری رحمہ اللہ:
نماز تراویح تو گھر میں ہی پڑھنا افضل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’صَلاةُ الْمَرْءِ فِي بَيْتِهِ أَفْضَلُ مِنْ صَلاتِهِ فِي مَسْجِدِي هَذَا إِلا الْمَكْتُوبَةَ‘‘([1])
(ہر شخص کی نماز میری اس مسجد میں نماز پڑھنے سے اپنے گھر میں ہی پڑھنا افضل ہے سوائے فرض نماز کے)۔
مصدر: ویب سائٹ میراث الانبیاء: حكم صلاة التراويح خلف من يسرع سرعة حتى لا يكاد يدرك الأركان
Be the first to comment