کیا رمضان میں درس وتدریس ترک کرکے صرف قرآن کریم پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے؟ – شیخ محمد ناصر الدین الالبانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ سے ان کی بیٹی سُکینہ بنت شیخ البانی نے سوال پوچھا:

میں نے پڑھا ہے کہ بعض آئمہ کرام رحمہم اللہ  جب رمضان آتا تھا تو  تمام مصروفیات اور دیگر علوم چھوڑ کر بس قرآن کریم کے لیے فارغ ہوجاتے تھے۔ حالانکہ وہ اہل علم ہوا کرتے تھے جن سے لوگ فتاویٰ دریافت کرتے ہیں مگر وہ لوگوں کو فتاویٰ تک دینے سے رک جاتے تھے، کیا یہ بات صحیح ہے؟ کیا اس مہینے کو محض قرآن کریم کے لیے ہی مخصوص کردینا چاہیے، اور مطالعۂ احادیث، ان کی شروحات اور قرأت کے دروس وغیرہ سب چھوڑ دینا چاہیے؟

الشیخ: اس تخصیص کی سنت میں کوئی اصل موجود نہیں لیکن جو بات سنت میں ہے وہ صحیحین[1] میں معلوم ومعروف ہے کہ اس ماہ مبارک میں باکثرت تلاوت قرآن کرنی چاہیے۔

لیکن رمضان المبارک میں دیگر عبادات جیسے طلب علم، تدریس و بیان حدیث اور اس کی شرح کو چھوڑ کر فقط تلاوت قرآن کی تخصیص کردینے کی کوئی اصل نہیں۔ اسی طرح سے اس موضوع میں دوسرے نیک اعمال بھی شامل ہوسکتے ہیں جیسے صدقہ خیرات اور لوگوں کے ساتھ بھلائی کرنا وغیرہ، مگر صرف تلاوت قرآن کے لیے سب کچھ منقطع کردینے کی کوئی اصل نہیں۔ جس بات کی اصل موجود ہے وہ اس کی کثرت کرنا ہے بس۔


[1] ’’كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَجْوَدَ النَّاسِ، وَكَانَ أَجْوَدُ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ، وَكَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ الْقُرْآنَ، فَلَرَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَجْوَدُ بِالْخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ‘‘ (صحیح بخاری 6، صحیح مسلم 2309)

(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں میں سے سب سے زیادہ سخی تھے اور رمضان میں جب جبرئیل علیہ الصلاۃ والسلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملنے آتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سخاوت کی انتہاء کردیتے، اور جبرئیل علیہ الصلاۃ والسلام  آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رمضان کی ہر رات ملاقات فرمایا کرتے تھے جس میں وہ قرآن کا دور فرماتے، پس بلاشبہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خیر میں تیز وتند ہوا سے بھی بڑھ کر سخی تھے)۔

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہمارے اصحاب فرماتے ہیں کہ سابقہ حدیثِ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی بنا پر رمضان میں باکثرت تلاوت قرآن اور اس کا دور کرنا سنت ہے۔ دور کرنے سے مراد ہے آپ کسی غیر کو پڑھ کر سنائیں اور وہ آپ کو پڑھ کر سنائے۔ (المجموع شرح المہذب 6/246) اور حافظ ابن رجب رحمہ اللہ اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں کہ: اس حدیث میں رمضان میں تلاوت قرآن کی کثرت کرنے کے مسنون ہونے کی دلیل ہے۔  (لطائف المعارف ص 169) (مترجم)۔

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: مدونۃ تمام المنۃ۔