رمضان المبارک کے قضاء روزوں کے بارے میں احکامات – شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال: اس شخص کا کیا حکم ہے جس نے رمضان کے روزوں کی قضاء میں اتنی دیر کردی یہاں تک کہ دوسرا رمضان شروع ہوگیا اور اس کے پاس کوئی شرعی عذر بھی نہیں تھا۔ کیا اس کے لیے توبہ کافی ہے یا اسے کفارہ بھی دینا لازم ہوگا؟

جواب: اسے چاہیے کہ اللہ تعالی کے حضور توبہ کرے اور ہر دن روزے کی قضاء کے ساتھ ساتھ ایک مسکین کو کھانا بھی کھلائے (البتہ بعض علماء فرماتے ہیں کہ قضاء کے ساتھ مسکین کو کھانا بھی کھلانے کی کوئی دلیل نہیں ہے، اللہ اعلم)۔ کھانا صاعِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق نصف صاع دینا ہےاس ملک میں جو غذا کھائی جاتی ہے اس میں سے چاہے کھجور ہو، یا گندم، یا چاول وغیرہ۔ بات سمجھانے کے لیے زیادہ قریب کرتے ہیں کہ تقریباً کلو اور نصف (ڈیڑھ کلو) مقدار بنتی ہے۔ اور اس کے ذمہ اس کے سوا اور کوئی کفارہ نہیں۔ جیسا کہ یہ فتویٰ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت نے دیا ہے جس میں ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی شامل ہیں۔ البتہ اگر وہ معذور تھا جیسے مرض، یا سفر کی وجہ سے یا پھر عورت تھی اور حمل یا دودھ پلانے کی وجہ سے اسے روزہ رکھنا مشکل ہوگیا تھا اور وہ معذور تھی تو اس پر سوائے قضاء کے اور کچھ نہیں۔

سوال: شریعت اسلامی کا اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جو رمضان کے روزوں کی قضاء میں تاخیر کرتا ہے کسی عذر کی وجہ سے، اور ایک دوسرا شخص ہے جو اسی کی طرح تاخیر تو کرتا ہے لیکن بغیر کسی عذر کے؟

جواب: جو کوئی کسی شرعی عذر کے تحت قضاء کو مؤخر کرے جیسے مرض وغیرہ تو کوئی حرج نہیں۔ کیونکہ فرمان الہی ہے:

﴿وَمَنْ كَانَ مَرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ﴾ 

(ہاں جو بیمار ہو یا سفر پر ہو تو اسے دوسرے دنوں یہ گنتی پوری کرنی چاہیے)

(البقرۃ: 185)

﴿فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ﴾ 

(پس جہاں تک تم سے ہو سکے اللہ تعالی سے ڈرتے رہو)

(التغابن: 16)

البتہ جس نے روزوں کی قضاء کو بغیر کسی شرعی عذر کے مؤخر کیا تو اس نے اپنے رب کی نافرمانی کی۔ اس کے ذمہ اس سے توبہ کے ساتھ قضاء ہے اور ساتھ ہی ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے۔ جس کی مقدار اپنے ملک میں کھائی جانے والی غذا چاہے چاول ہو یا کچھ اور ، اس کا نصف صاع ہے۔ اور وزن کے اعتبار سے اس کی مقدار تقریباً ڈیڑھ کلو بنتی ہے۔ اور اسے کچھ فقراء کو دے دیا جائے یا چاہے تو کسی ایک کو ہی دے دے روزوں سے پہلے یا بعد میں۔ اور اللہ تعالی ہی توفیق دینے والا ہے۔

سوال: مجھ پر کئی برس پہلے کے چار رمضانوں کے قضاء روزے باقی ہیں۔ لیکن مجھے ان کی تعداد یاد نہیں۔ میں اپنے روزوں کی قضاء اس طرح کرتی ہوں کہ جو پہلے چُھٹے ہیں انہیں پہلے رکھتی ہوں۔ مگر پھر بھی ایامِ ماضی میں چھوڑے ہوئے روزے میرے دل میں قلق کا باعث بنتے ہیں کیونکہ میں نے ان کی جگہ قضاء روزے نہیں رکھے اور نہ ہی مجھے ان کی تعداد یاد ہے۔ اتنا معلوم ہے کہ یہ چار رمضانوں کے ہیں جیسا کہ میں نے پہلے بھی ذکر کیا۔ پس آپ مجھےکیا نصیحت کرتے ہیں؟

جواب: ہم آپ کو یہ نصیحت کریں گے کہ آپ ان چھوڑے ہوئے روزوں کی جگہ حسبِ ظن قضاء روزے رکھیں ۔ آپ پر واجب ہے کہ ان رمضانوں میں جن جن روزوں کوچھوڑا تھا ان کی جگہ ظن وگمان کے مطابق ہی سہی قضاء روزے ضرور رکھیں۔  اور اس میں احتیاطی طریقہ استعمال کریں کہ اگر آپ کو گمان ہے کہ ہر سال سات یا آٹھ روزے چھوڑے تھے تو احتیاطا ً انہیں آٹھ کرلیں۔ اور اگر شک ہو کہ آٹھ تھے یا نو تو انہیں نو کرلیں۔ احتیاط سے کام لیں اور ان سب کو ضرور رکھیں۔ ساتھ ہی ان روزوں کی قضاء میں تاخیر کی وجہ سے ہر دن ایک مسکین کو کھانا بھی کھلائیں۔ جو کہ ہر دن کا نصف صاع بنتا ہے یعنی ڈیڑھ کلو تقریباً خواہ کھجور میں سے ہو یا پھلیوں میں سے یا چاول وغیرہ میں سے۔ اسی طرح سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت نے فتوی دیا ہے اس شخص کے بارے میں جو رمضان کے روزوں کی قضاء کو اتنا مؤخر کرے کہ دوسرا رمضان شروع ہوجائے تو اسے قضاء کے ساتھ ساتھ ایک مسکین کو بھی ہر روزے کے بدلے کھانا کھلانا ہوگا بشرطیکہ اس کے پاس کوئی شرعی عذر نہ تھا۔ اور آپ نے چونکہ بلاعذر ہی ان روزوں کو اتنے سال مؤخر کیا ہے تو آپ پر اللہ تعالی کے حضور توبہ واجب ہے ساتھ ہی ہر روزے کی قضاء کے ساتھ ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلانا بھی۔ اللہ تعالی آپ کی اس میں مدد فرمائے اور ہدایت دے۔

سوال: ایک لڑکی جسے اپنی شروع بلوغت میں یہ علم نہيں تھا کہ لڑکی کے ایام حیض میں جو روزے چھوٹ جاتے ہیں ان کی جگہ قضاء روزے رکھنے ہوتے ہیں۔ اس کی یہ لاعلمی دس برس تک رہی۔ پھر اس کے بعد اسے اس بات کا علم ہوگیا۔ اب وہ بڑی عمر کی ہے تو کیا اس پر ان چھوڑے ہوئے روزوں کی قضاء اب بھی واجب ہے؟ یا پھر وہ اب کیا کرے؟

جواب: آپ پر ان تمام دنوں کے روزوں کی قضاء ضروری ہے جو آپ نے چھوڑے۔ اور نیت میں جن جن سالوں کے روزے چھوڑے ہیں بالترتیب یکے بعد دیگرے ان کی نیت کرتی جائیں۔ ساتھ ہی ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا بھی کھلائیں۔ جو کہ آپ کے ملک کی غذا میں سے ایک صاع ہو۔ یہ اس صورت میں جب آپ کسی کو کھانا کھلانے کی استطاعت رکھتی ہوں لیکن اگر خود ہی فقیر ہوں جو استطاعت نہیں رکھتیں تو یہ حکم آپ پر سے ساقط ہوجائے گا۔ اور اسی طرح سے اگر بڑی عمر کی وجہ سے روزے نہیں رکھ سکتیں تو صرف مسکین کو کھانا کھلا دینا ہی کفایت کرے گا۔ اللہ تعالی ہی توفیق دینے والا ہے۔

سوال: سابقہ شعبان میں مجھے ایک مرض لاحق ہوگیاجس کی وجہ سے میں سابقہ رمضان کے روزے نہیں رکھ سکا۔ مجھے اب تک اس مرض کا سامنا ہے۔ جب میں نے ارادہ کیا کہ سابقہ رمضان کے قضاء روزے رکھنا شروع کروں تو میں صرف پانچ رکھ پایا لیکن اپنی بیماری کی وجہ سے مزید جاری نہیں رکھ سکا، کیونکہ مجھے سارا دن دوائی لینے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اور میرے معالج ڈاکٹر نے مجھے روزے رکھنے سے منع بھی کیا ہے کیونکہ یہ میری صحت پر اثر انداز ہوں گے۔ پس فضیلۃ الشیخ میں آپ سے چاہتا ہوں کہ مجھے اس بارے میں شرعی حکم سے آگاہ فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیراً۔ خصوصاً جب کہ دوسرا رمضان باذن اللہ عنقریب شروع ہونے والا ہے؟

جواب: جب تک آپ مریض ہیں آپ کے ذمہ قضاء نہیں یہاں تک کہ آپ شفایاب ہوجا‏ئیں ان شاء اللہ۔ اسی طرح سے آنے والے رمضان کواگر آپ پالیتے ہیں اور روزے رکھنا آپ کے لیے مشکل ہو تو آپ کے لیے افضل ہے کہ آپ روزے نہ رکھیں پھر ان شاء اللہ شفاءیاب ہونے پر بالترتیب پہلے اور دوسرے سال کے روزے رکھیں۔ کیونکہ فرمان الہی ہے:

﴿شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَيِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ  ۭ وَمَنْ كَانَ مَرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ  ۭ يُرِيْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ ۡ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰي مَا ھَدٰىكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ﴾ 

(ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کو ہدایت کرنے والا ہے اور جس میں ہدایت کی حق و باطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں، تم میں سے جو شخص اس مہینے کو پائے تو اسے چاہیے کہ روزے رکھے۔ ہاں جو بیمار ہو یا مسافر ہو تو اسے دوسرے دنوں یہ گنتی پوری کرنی چاہیے اللہ  تعالیٰ کا ارادہ تمہارے ساتھ آسانی کا ہے سختی کا نہیں،  وہ چاہتا ہے تم گنتی پوری کرلو اور اللہ  تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی بڑائیاں بیان کرو ،اورتاکہ تم شکرگزار بنو)

(البقرۃ: 185)

اور توفیق دینے والا تو اللہ تعالی ہی ہے۔

سوال: میری والدہ وفات پاگئیں اور ان کے ذمے پانچ ماہ کے روزے باقی تھے۔ جو انہوں نے اپنے پانچ بچوں کو دودھ پلانے کی وجہ سے چھوڑے تھے۔ جن کی قضاء وہ اپنی ساری زندگی مختلف امراض کی وجہ سے نہ رکھ سکیں جیسے شوگروغیرہ۔ اس کے باوجود ان کا مصمم و پختہ ارادہ تھا کہ وہ اپنے چھوڑے ہوئے روزے ضرور رکھے گیں بلکہ انہوں نے شروع بھی کردیے تھے مگر آٹھ روزے رکھنے کے بعد ان کی وفات ہوگئی۔ میں کیسے ان کی طرف سے اس کی قضاء ادا کرسکتا ہوں؟ اور ان کی طرف سے قضاء روزوں کے لیے مجھے کیا کرنا ہوگا؟

جواب: چونکہ ان کی تاخیر کی وجہ عجز تھی ان امراض یا بچوں کو دودھ پلانے کی وجہ سے تو ان پر کوئی قضاء ہے نہ ہی مسکین کو کھانا کھلانا کیونکہ وہ معذور تھیں۔ فرمان الہی ہے:

﴿وَمَنْ كَانَ مَرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ﴾ 

(ہاں جو بیمار ہو یا مسافر ہو اسے دوسرے دنوں یہ گنتی پوری کرنی چاہیے)

(البقرۃ: 185)

اس آیت میں دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرلینے کا ذکر ہے مگر وہ دوسرے دن پا ہی نہیں سکیں جبکہ وہ روزے رکھنے پر قادر تھیں۔ لہذا آپ کے ذمے کچھ بھی نہیں۔ نہ روزے رکھنے کی صورت میں نہ ہی مسکینوں کو کھانا کھلانے کے طور پر اگر وہ معذور تھیں۔ البتہ اگرآپ ان کے بارے میں جانتے ہیں کہ وہ سست تھیں اور معذور نہیں تھیں اور ان کی قضاء ادا کردینے پر قادر تھیں تو پھر مشروع ہے کہ آپ ان کی طرف سے قضاء ادا کریں۔ اگر آپ سب اس میں  آپس میں تعاون کریں جیسے ہر اولاد یا اقارب کچھ کچھ روزے رکھ کر گنتی پوری کرلے تو بہتر ہے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامٌ، صَامَ عَنْهُ وَلِيُّهُ‘‘([1])

(جو کوئی اس حال میں فوت ہوجائے کہ اس کے ذمے روزے واجب تھے تو اس کا ولی وارث اس کی طرف سے روزے رکھے)۔

یہ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی متفق علیہ حدیث ہے۔ اگر آپ ان کی طرف سے روزے رکھیں گے تو آپ کے لیے اجر عظیم ہے۔ اگر آپ کو یقین ہو کہ وہ عبادات میں سستی اور کوتاہی کرتی تھیں تو اگر آپ ان کی طرف سے مسکین کو کھانا کھلادیں تو بھی کافی ہے۔ لیکن اس صحیح حدیث کی بنا پر روزے رکھنا افضل ہے۔ اور جیسا کہ امام احمد نے صحیح سند کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیاکہ ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا: میری والدہ فوت ہوگئی ہیں جبکہ ان کے ذمے رمضان کے روزے تھے تو کیا میں نے کی طرف سے روزے رکھوں؟ فرمایا:

’’أَرَأَيْتِ لَوْ كَانَ عَلَيْهَا دَيْنٌ أَكُنْتِ تَقْضِينَهُ؟، قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ: فَدَيْنُ اللَّهِ أَحَقُّ بِالْقَضَاءِ‘‘([2])

(یہ بتائیں اگر آپ کی ماں پر کوئی قرض ہوتا تو کیا آپ اسے ان کی طرف سے ادا کرتیں؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ فرمایا: تو پھر اللہ کا قرض اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اسے ادا کیاجائے)۔

پس علماء کرام کے صحیح ترین قول کے مطابق یہ حدیث اور جو اس سے پہلے ہے اور جو اس معنی کی دیگر احادیث ہیں سب اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ میت کی طرف سے روزوں کی قضاء دی جائے گی خواہ نذر کے روزے ہوں یا رمضان کے یا کفارے کے۔ اگر قضاء روزے رکھنا آسان نہ ہو تو پھر ہر دن کے بدلے مسکین کو کھانا کھلایا دیا جائے۔ یہ سب کچھ اسی صورت میں ہوگا جب میت روزے رکھنے پر قادر تھی لیکن سستی کرتے ہوئے ان کی قضاء میں کوتاہی کی۔ لیکن اگر وہ واقعی معذور تھی شرعی عذر جیسے مرض وغیرہ کی وجہ سے تو پھر ورثاء کے ذمے نہ اس کی طرف سے روزوں کی قضاء ہے اور نہ ہی مسکینوں کا کھانا کھلانا۔


[1] رواه البخاري في الصوم باب من مات وعليه صوم برقم 1952، ومسلم في الصيام باب قضاء الصوم عن الميت برقم 1147.

[2] صحیح بخاری 1953، صحیح مسلم 1149۔

مصدر: شیخ رحمہ اللہ کی آفیشل ویب سائٹ۔

ترجمہ: طارق علی بروہی