کیا یہود کے ساتھ صلح کی جاسکتی ہے؟ – فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز

بسم اللہ الرحمن الرحیم

امام عبدالعزیز بن باز  رحمہ اللہ  سے”جريدة المسلمون” عدد (516) بتاریخ 1415/07/21ھ میں سوال کیا گیا:

سوال: سماحۃ الوالد: جیسا کہ یہ پورا خطہ امن معاہدے اور باہمی اتفاق کےمعاہدےکے تحت زندگی بسر کررہا ہے، اس بات نے بہت سے مسلمانوں کواس حد تک  اذیت پہنچائی ہے کہ ان میں سے بعض اس سے اعراض کرنے،اور جو حکومت اس کی تائید کرتی ہے اس کے خلاف قتل وغارتگری یا دشمنوں کی شہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کے ذریعہ برسرپیکار ہیں، اور ایسا کرنے کے بارے میں ان کی یہ منطق ہے:

1- اسلام جنگ بندی کا انکار کرتا ہے۔

2- اسلام دشمنوں کا مقابلہ کرنے کا حکم دیتا ہے قطع نظر اس کے کہ امت اور مسلمان کمزوری کی حالت میں ہوں یا قوت کی۔

ہم اس بارے میں آپ سے حق بات کہنے کی امید رکھتے ہیں، اور ان حالات سے کیسے نمٹا جائے کہ جو دین اور دین والوں کی سلامتی کا ضامن ہو؟

جواب: دشمنوں کے ساتھ جنگ بندی کا مطلق یا وقتی معاہدہ کرنا جائز ہے، اگر حاکم وقت اس میں کوئی مصلحت دیکھتا ہے، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿وَاِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِ  ۭاِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ﴾ 

(اگر وہ صلح کی طرف جھکیں تو تم بھی صلح کی طرف جھک جاؤ اور اللہ تعالی پر توکل کرو، یقیناً وہی تو  سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے)

(الانفال: 61)

اور اس لیے بھی کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے یہ دونوں قسم کے (مطلق و وقتی) معاہدے فرمائے، جیسا کہ اہل مکہ سے دس سال تک جنگ بندی کا معاہدے فرمایا، جس میں لوگ پرامن رہتے تھے، اور ایک دوسرے سے ہاتھوں کو روک کررکھتے تھے، اور بہت سے قبائل عرب کے ساتھ مطلق صلح فرمائی، یہاں تک کہ اللہ تعالی نے ان کے دست مبارک سے مکہ فتح فرمایا تو ان تمام لوگوں کا عہد ان کی طرف پھینک دیا گیا، اور جس کا کوئی عہد نہیں تھا اسے چار مہینے کی مہلت دی گئی، جیسا کہ اللہ تعالی کے اس فرمان میں ہے:

﴿بَرَاءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖٓ اِلَى الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ، فَسِيْحُوْا فِي الْاَرْضِ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ  … ﴾

(اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان برأت ہے ان مشرکوں کے بارے میں جن سے تم نے معاہدے کیے تھے، پس (اے مشرکو!) تم چار مہینے تک تو زمین پر چل پھر لو۔۔۔)

(التوبۃ: 1-2)

جب  ابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہ  نے سن 9ھ میں حج ادا فرمایا تو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ان کے ساتھ منادی کرنے والوں کو بھیجا، کیونکہ اسلامی حاجت اور مصلحت اس بات کی متقاضی تھی کہ مطلق معاہدہ کیا جائے پھر ضرورت ختم ہونے پر اسے توڑ دیا جائے، جیسا کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اس پر عمل فرمایا، اور علامہ ابن القیم  رحمہ اللہ  نے اپنی کتاب “أحكام أهل الذمة” (ذمیوں کے احکام) میں اس پر بہت طویل کلام فرمایا ہے، اور اسے ان کےشیخ یعنی شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ اور علماء کرام کی ایک جماعت رحمہم اللہ نے اختیار فرمایا ہے۔ اور توفیق دینے والا تو اللہ تعالی ہی ہے۔

اور شیخ  رحمہ اللہ  سے “جريدة المسلمون”عدد (520) بتاریخ 1415/08/19ھ میں یہود سے صلح کرنے کے متعلق خصوصی سوالات ہوئے۔

الحمدللہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ وبعد:

یہ بعض جوابات ہيں جو ہمارے ان فتاویٰ سے متعلق ہیں جو یہود اور ان کے علاوہ کافروں کے ساتھ صلح کے جواز  کے سلسلے میں ہم نے دیے، خواہ وقتی صلح ہو یا مطلق جسے بھی ولی امر مناسب سمجھے،  ولی امر سے میری مراد وہ مسلمانوں کے معاملات کے سرپرست ہوتے ہیں کہ جن کےہاتھوں صلح ہوتی ہے اس میں پائی جانے والی حکمت کی وجہ سے، ان دلائل کی وضاحت ہم نے اپنے مذکورہ فتویٰ میں کی تھی جو صحیفہ المسلمون شمارہ جمعہ 21 رجب، 1415ھ میں شائع ہوئے، اور وہ سوالات مندرجہ ذیل ہیں:

سوال:  بعض لوگ آپ کے جواب سے (جو انٹرویو میں پہلا سوال تھا) جس میں آپ نے یہود سے صلح کے متعلق بیان فرمایا یہ  سمجھے ہیں کہ  زمین پر قابض اور زیادتی کرنے والے یہودیوں  سے صلح یا معاہدہ کرنا  علی الاطلاق جائز ہے اور یہودیوں سے محبت و مودت بھی جائز ہے، اور ضروری ہے کہ ایسی چیزوں کو اسلامی ممالک کے تعلیمی نصاب اور میڈیا میں نہ ابھارا جائے جو ان کے خلاف بغض و نفرت اور ان سے بیزاری کو جنم دے، وہ لوگ اس گمان میں یہ بات کرتے ہيں کہ ان کے مطابق ان سے صلح کرنے کا یہی تقاضہ ہے، اور یہ کہ سلامتی معاہدوں کے بعد اب وہ دشمن نہ رہے کہ ان سے دشمنی کا عقیدہ رکھنا چاہیے۔ اور یہ کہ آج کے دور میں ساری دنیا ریاستی معاہدوں اور پرامن بقائے باہمی کے تحت جی رہی ہے لہذا جائز نہيں کہ ہم معاشروں میں دینی دشمنیوں کو ابھاریں۔ پس ہم آپ سماحۃ الشیخ سے اس کی وضاحت کی امید کرتے ہیں؟

جواب: یہودیوں یا ان کے علاوہ دیگر کافروں کے ساتھ صلح کرنے سے ان سے محبت یا موالات (دوستی) ہونا لازم نہيں آتا۔ بلکہ اس کا تقاضہ ہے کہ دونوں طرف امن ہو ، ایک دوسرے کو ایذاء  پہنچانے سے رکے رہیں اور اس جیسی دوسری باتیں مثلاً خرید و فروخت اور سفیروں کے تبادلے  اور ان کے علاوہ دیگر معاملات  کہ جو کافروں سے محبت اور موالات کے متقاضی نہيں۔

خود نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اہل مکہ سے صلح فرمائی جو ان کی محبت و موالات کی موجب نہ  تھی، بلکہ ان کے مابین دشمنی و نفرت باقی رہی، یہاں تک کہ اللہ تعالی نے  فتح والے سال فتحِ مکہ کو آسان فرمادیا اور لوگ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہونے لگے۔

اسی طرح نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے مدینہ کے یہودیوں سے بھی مطلق صلح فرمائی جب آپ ہجرت کرکے مدینہ پہنچے، جو کہ ان سے مودت و محبت کی موجب نہ تھی۔ لیکن آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ان سے معاملات فرماتے، خریداری کرتے، بات چیت کرتے، اللہ کی طرف انہیں دعوت دیتے، انہیں اسلام کی جانب ترغیب دیتے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی تو وفات بھی اس حال میں ہوئی کہ آپ کی ذرع ایک یہودی کے پاس گروی رکھی ہوئی ہے  اس کھانے کے بدلے میں جو آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اپنے اہل وعیال کے لیے حاصل کیا تھا۔ اور جب یہود میں سے بنی نضیر نے غداری کی تو آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے انہیں مدینہ سے جلاوطن کردیا، اور جب احزاب والے دن بنو قریظہ نے عہد شکنی کی اور کفار مکہ سے مل کر نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے خلاف جنگ کی  تو آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے بھی ان کے خلاف جنگ کی اور ان کے جنگ کرنے والوں کو قتل کیا، اولاد اور عورتوں کو غلام بنایا۔ بعد اس کے کہ سعد بن معاذ  رضی اللہ عنہ  نے ان کے متعلق یہ فیصلہ فرمایا تھا  تب آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے بھی اس فیصلے کو نافذ کردیا، اور نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے یہ خبر دی تھی کہ ان کا فیصلہ اللہ تعالی کے ساتوں آسمانوں کے اوپر کیے گئے فیصلے کے موافق ہے۔

اسی طرح دیگر مسلمان صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  اور ان کے بعد کے، ان میں بھی بہت سے اوقات میں نصاریٰ اور ان کے علاوہ کافروں کے مابین معاہدات ہوتے رہے جو کہ ان سے محبت کے موجب نہیں تھے، نہ ہی موالات کے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا الْيَھُوْدَ وَالَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا﴾  

(یقیناً تم ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہیں، سب لوگوں سے زیادہ سخت دشمنی رکھنے والے یہود کو اور ان لوگوں کو پاؤ گے جو شرک کرتے ہیں)

(المائدۃ: 82)

اور فرمایا:

﴿قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِيْٓ اِبْرٰهِيْمَ وَالَّذِيْنَ مَعَهٗ ۚ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِهِمْ اِنَّا بُرَءٰؤُا مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ  كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاۗءُ اَبَدًا حَتّٰى تُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَحْدَهٗٓ﴾

(یقیناً تمہارے لیے ابراہیم اور ان لوگوں میں جو ان کے ساتھ تھے ہمیشہ سے ایک اچھا نمونہ ہے، جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ بے شک ہم تم سے اور ان تمام سے بری ہیں جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو، ہم تمہیں نہیں مانتے اور ہمارے درمیان اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے دشمنی اور بغض ظاہر ہوگیا یہاں تک کہ تم اس اکیلے اللہ پر ایمان لاؤ)

(الممتحنۃ: 4)

اور فرمایا:

﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْيَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓى اَوْلِيَاءَ  ۘبَعْضُهُمْ اَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۭ وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ﴾ 

(اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ، یہ تو ایک دوسرے کے ہی دوست ہیں اور تم میں سے جو انہیں دوست بنائے گا تو ضرور وہ ان میں سے ہے، بے شک اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا)

(المائدۃ: 51)

اور  فرمایا:

﴿لَا تَجِدُ قَوْمًا يُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ يُوَادُّوْنَ مَنْ حَادَّ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَلَوْ كَانُوْٓا اٰبَاءَهُمْ اَوْ اَبْنَاءَهُمْ اَوْ اِخْوَانَهُمْ اَوْ عَشِيْرَتَهُمْ﴾ 

(تم ان لوگوں کو جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، نہیں پاؤ گے کہ وہ ان لوگوں سے دوستی رکھتے ہوں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی، خواہ وہ ان کے باپ ہوں، یا ان کے بیٹے، یا ان کے بھائی، یا ان کا خاندان والے)

(المجادلۃ: 22)

اور اس معانی کی آیات بہت سی ہیں۔

اور اس کی مزید دلیل کہ کافروں  کے ساتھ خواہ یہود ہوں یا ان کے علاوہ مصلحت و ضرورت کے تحت صلح کرنے سے مودت، محبت و موالات لازم نہيں آتی  یہ ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے جب خبیر فتح فرمایا تو یہودیوں کے ساتھ صلح کرلی اس بات پر کہ وہ مسلمانوں کے لیے کھجور اور کھیتی باڑی کرتے رہیں گے جس کا آدھا حصہ انہیں ملے گا اور آدھا مسلمانوں کو، اور وہ اسی معاہدے پر خیبر میں بستے رہے جس کی کوئی معینہ مدت نہيں تھی بلکہ فرمایا آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے کہ:

” نُقِرُّكُمْ بِهَا عَلَى ذَلِكَ مَا شِئْنَا“[1]

(جب تک ہم چاہیں گے تمہیں (اس معاہدے کے تحت) رہنے دیں گے)۔

اور ایک روایت کے لفظ ہیں:

”نُقِرُّكُمْ مَا أَقَرَّكُمُ اللَّهُ“([2])

(جب تک اللہ تمہیں ٹھہرنے دے گا ہم بھی ٹھہرنے دیں گے)۔

پس وہ اس عہد کے تحت رہتے رہے یہاں تک کہ عمر  رضی اللہ عنہ  نے انہیں جلاوطن کردیا۔ اور عبداللہ بن رواحہ  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ  بعض سالوں میں جب وہ ان کے پھل کا تخمینہ لگانے گئے تو ان لوگوں نے کہا کہ آپ نے تخمینہ لگانے میں ہم پر زیادتی کی ہے، جس پر آپ  رضی اللہ عنہ  نے فرمایا کہ: اللہ کی قسم! تم سے نفرت و بغض اور مسلمانوں سے محبت مجھے اس بات پر نہيں ابھارتا کہ میں تم پر ظلم کروں، لہذا اگر چاہو تو جو تخمینہ میں نے لگایا ہے اس کے مطابق لے لو، اور اگر چاہو تم ہم وہ لے لیتے ہيں۔

یہ تمام باتیں اس چیز کی وضاحت کرتی ہیں کہ صلح اور معاہدہ  کرنے سےدشمنان الہی سے محبت، مودت و موالات لازم نہیں آتے، جیسا کہ اس طرح کا گمان بعض وہ لوگ رکھتے ہیں جنہیں شریعت مطہرہ کا کم علم ہے۔

اس طرح سے سائل اور ان کے علاوہ لوگوں پر یہ بات واضح ہوگئی کہ بلاشبہ یہود یا ان کے علاوہ کافروں سے صلح کرنے کا ہرگز یہ تقاضہ نہيں ہے کہ  ہمیں اپنے تعلیمی نصاب یا اس کے علاوہ محبت و موالات سے متعلقہ معاملات کو تبدیل کردینا چاہیے۔ واللہ ولی التوفیق۔

س: کیا دشمن سے مطلق معاہدے کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے فلسطین میں مسلمانوں کی سرزمین پر ان کے قبضے کو تسلیم کرلیا ہے، اور اب وہ یہودیوں کا دائمی حق بن گیا ان معاہدوں کی بموجب جن کی تصدیق اقوام متحدہ کرتی ہے کہ جو پوری دنیا کی اقوام کی نمائندگی کرتی ہے، اور اقوام متحدہ کسی بھی ملک پر سزا عائد کرتی ہے جو اس سرزمین کی پھر سے بازیابی یا اس میں یہودیوں سے لڑنا چاہیں؟

جواب: فلسطین میں مسلمان حکمرانوں اور یہود کے درمیان صلح کرنے کا یہ معنی نہیں ہے کہ جہاں جہاں یہود کو دسترس حاصل ہے ان کی ملکیت ہمیشہ کے لیے ان کے سپرد کردی گئی ہے، بلکہ ان کی ملکیت اس وقت تک کے لیے ہے جب تک یا تو یہ وقتی معاہدہ ختم ہوجائے یا پھر مسلمان اتنے طاقتور ہوجائیں کہ مطلق معاہدے کی صورت میں انہیں مسلمانوں کی سرزمین سے بزور نکال باہر کریں۔ اسی طرح قدرت کی حالت میں ان کے خلاف جہاد کرنا واجب ہے یہاں تک کہ وہ دینِ اسلام میں داخل ہوجائیں یا پھر اپنے ہاتھوں سے ذلیل ہوکر جزیہ دیں۔

اور یہی حکم نصاریٰ اور مجوسیوں کا بھی ہے، اللہ تعالی کے اس فرمان کے تحت جو سورۃ التوبۃ میں ہے کہ:

﴿قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ وَلَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰي يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَّدٍ وَّهُمْ صٰغِرُوْنَ﴾  

(لڑو ان لوگوں سے جو نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ یوم آخر ت پر، اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول نے حرام کی ہیں، اور نہ دین حق ہی کو اختیار کرتے ہیں، ان لوگوں میں سے جنہیں کتاب دی گئی ہے، یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھوں سے ذلیل حقیر ہوکر جزیہ دیں)

(التوبۃ: 29)

اور الصحیح میں یہ بات ثابت ہےکہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے مجوس سے جزیہ لیا۔

اس بنا پر ان کا صرف جزیہ لینے کے بارے میں حکم اہل کتاب والا حکم ہوجاتا ہے۔ البتہ کھانوں اور عورتوں کا مسلمانوں کے لیے حلال ہونا صرف اہل کتاب کے ساتھ خاص ہے، جس پر کتاب اللہ سورۃ المائدۃ میں نص بیان کرتی ہے۔ حافظ ابن کثیر  رحمہ اللہ  نے اپنی تفسیر میں سورۃ الانفال کی اس آیت  کے تحت:

﴿وَاِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا﴾ 

(اگر وہ صلح کی طرف جھکیں تو تم بھی صلح کی طرف جھک جاؤ)

(الانفال: 61)

اس معنی کی صراحت فرمائی ہے  جو کچھ ہم نے صلح کے تعلق سے ذکر کیا۔

س: کیا یہودی دشمن کے ساتھ امن معاہدہ کی بنا پر یہ جائز ہے کہ  انہیں ایسے معاہدوں کا موقع دیا جائے جنہيں تعلقات کو معمول پر لانے والے معاہدے کہا جاتا ہے کہ اسلامی ریاستوں سے  اقتصادی اور دیگر شعبوں میں استفادہ کیا جائے، جس سے اسے بہت بڑا نفع پہنچے گا، اور وہ اپنی قوت و ترقی میں اضافہ کرلے گا، اور  مقبوضہ اسلامی علاقوں پر  اپنا قبضہ مزید مستحکم کرلے گا، اور یہ کہ مسلمانوں کو اپنی مارکیٹوں کو ان کی مصنوعات و اشیاء  فروخت کرنے کے لیے کھولنا ہوگا، اور ان پر لازم ہوگا کہ وہ ایسے اقتصادی اداروں کی بنیاد رکھیں جیسے بینک اور کمپنیاں  جن میں یہود مسلمانوں کے ساتھ شریک ہوں، اسی طرح ان پر واجب ہوگا کہ وہ پانی کے ذخائز کو بھی آپس میں بانٹیں جیسے نیل و فرات اگرچہ وہ فلسطین کی سرزمین سے نہیں پھوٹتے؟

جواب: تنظیم آزادئ فلسطین اور یہود کے مابین صلح سے یہ لازم نہیں  آتا جو سائل نے دیگر ممالک کے تعلق سے ذکر کیا ہے، بلکہ ہر ملک اپنے مفادات و مصلحتوں کو دیکھتا ہے۔ اگر وہ دیکھتا ہے کہ اس کے ملک کے مسلمانوں کی یہ مصلحت میں ہے کہ وہ یہود کے ساتھ صلح کرلیں کہ سفیروں کا تبادلہ  ہو اور خریدوفروخت ہو اور اس جیسے دیگر معاملات  جسے اللہ کی شریعت مطہرہ نے جائز قرار دیا ہے، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

اور اگر وہ دیکھے کہ اس ملک کی اور اس کی عوام کی مصلحت یہودیوں سے قطع تعلقی میں ہے تو وہ وہی کرے جس کا شرعی مصلحت تقاضہ کرتی ہے۔اور اسی طرح دیگر کافر مملکتیں ہيں ان کا حکم بھی اس بارے میں یہودیوں والا ہی ہے۔

ہر اس شخص پر جو مسلمانوں کے امور کا والی ہے (حکمران) خواہ وہ بادشاہ ہو، امیر ہو یا جمہوری رئیس (صدر/وزیر اعظم) ہو یہ واجب ہے  کہ وہ اپنی عوام  کی مصلحت کو مدنظر رکھے اور اس چیز کی اجازت دے  جو انہيں فائدہ پہنچائے اور ان کی مصلحت میں ہو ان امور میں سے جن سے اللہ کی شریعت مطہرہ منع نہیں کرتی۔ اور اس کے سوا کافر ممالک میں سے ہر ملک کو منع کردے، اللہ کے اس فرمان پر عمل پیرا  ہوتے ہوئے کہ:

﴿اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا﴾  

(بے شک اللہ حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حقداروں کو ادا کرو)

(النساء: 58)

اور یہ فرمان:

﴿وَاِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا﴾ 

(اگر وہ صلح کی طرف جھکیں تو تم بھی صلح کی طرف جھک جاؤ)

(الانفال: 61)

اور نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی پیروی کرتے ہوئے کہ آپ نے اہل مکہ سے اور مدینہ و خیبر کے یہودیوں سے مصالحت فرمائی۔ اور آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ایک صحیح حدیث میں فرمایا:

” كلكم راع وكلكم مسئول عن رعيته، فالأمير راع ومسئول عن رعيته، والرجل راع في أهل بيته ومسئول عن رعيته، والمرأة راعية في بيت زوجها ومسئولة عن رعيتها، والعبد راع في مال سيده ومسئول عن رعيته “

(تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال کیا جائے گا، پس ایک امیر نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال کیا جائے گا، اور ایک مرد اپنے گھر والوں پر نگہبان ہے اور اس سے اس کے گھر والوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا، اور ایک عورت  اپنے شوہر کے گھر پر نگہبان ہے اور اس سے اس کی گھر والوں کے  بارے میں سوال کیا جائے گا، اور ایک غلام اپنے آقا کے مال پر نگہبان ہے اور اس سے اس کے مال کے بارے میں سوا ل کیا جائے گا)

پھر فرمایا:

” ألا فكلكم راع ومسئول عن رعيته “([3])

(آگاہ رہو کہ تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا و ماتحتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا)۔

اور اللہ عزوجل نے اپنی کتاب کریم میں فرمایا:

﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِكُمْ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾  

(اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ اور رسول کی خیانت نہ کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو، حالانکہ تم جانتے ہو)

(الانفال: 27)

اور یہ سب اس صورت میں ہے جب مشرکین کے خلاف قتال کرنے سے عاجز ہوں، اسی طرح اگر وہ اہل کتاب یا مجوسی ہیں تو انہیں جزیہ دینے پر مجبور کرنے سے عاجز ہوں، البتہ جہاں تک بات ہےکہ جہاد کی اور انہیں اسلام میں داخل ہونے یا قتل ہونے یا جزیہ دینے کا پابند کرنا اگر وہ اس کے اہل ہوں تو پھر ان سے مصالحت جائز نہیں، نہ ہی ان کے خلاف قتال یا جزیہ ترک کرنے کی اجازت ہے۔ مصالحت تو صرف ضرورت و حاجت کے تحت جائز ہے کہ ان سے قتال یا اہل ہونے کی صورت میں انہیں جزیہ دینے کا پابند بنانے سے عاجز ہوں۔

جیسا کہ پہلے گزرا اللہ کے اس فرمان میں:

﴿قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ وَلَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰي يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَّدٍ وَّهُمْ صٰغِرُوْنَ﴾  

(لڑو ان لوگوں سے جو نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ یوم آخر ت پر، اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول نے حرام کی ہیں، اور نہ دین حق ہی کو اختیار کرتے ہیں، ان لوگوں میں سے جنہیں کتاب دی گئی ہے، یہاں تک کہ وہ ہاتھ سے جزیہ دیں اور وہ حقیر ہوں)

(التوبۃ: 29)

اور فرمایا:

﴿وَقَاتِلُوْهُمْ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّهٗ لِلّٰهِ ﴾  

(اور ان سے لڑو، یہاں تک کہ کوئی فتنہ نہ رہے اور دین سب کا سب اللہ کے لیے ہوجائے)

(الانفال: 39)

اور اس کے علاوہ دیگر آیات جو اس بارے میں جانی پہچانی ہیں۔

اور نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا اہل مکہ کے ساتھ حدیبیہ اور فتح والے دن جو عمل رہا، اسی طرح یہود کے ساتھ جب آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  مدینہ تشریف  لے گئے تھے، یہ سب اس بات پر دلالت کرتا ہے جو ہم نے ذکر کیا۔

اللہ ہی سے دعاء ہے کہ وہ مسلمانوں کو ہر خیر کی توفیق دے، اور ان کے حالات سنوار دے، اور انہیں فقہ فی الدین عطاء فرمائے، اور ان پر ان کے بہترین لوگوں کو حکمران بنائے اور ان کے قائدین کی اصلاح فرمائے، اور ان کی مدد فرمائے کہ وہ اللہ کے دشمنوں کے خلاف جہاد  اس طور پر کریں کہ جس سے وہ راضی ہوتا ہے۔

إنه ولي ذلك والقادر عليه.

وصلى الله وسلم على نبينا محمد، وآله وصحبه۔


[1] صحیح بخاری 2338

[2] صحیح بخاری 2730

[3] صحیح بخاری 893، صحیح مسلم 1830 اور دیگر کتب احادیث میں مختلف الفاط کے ساتھ یہ روایت موجود ہے۔

ترجمہ وترتیب: طارق بن علی بروہی

آڈیو

یوٹیوب

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*