کافروں سے کیے گئے عہد کو بھی پورا کرنا چاہیے

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

حلیف کافروں کے خلاف دیگر مسلمانوں یا کافروں کی مدد نہيں کی جاسکتی

شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ فرماتے ہیں:

جو مسلمان ایسے کافرو ں کے خلاف دوسرے کافروں کی مدد کرتے ہیں جن سے مسلمانوں کا عہد ہو تو یہ حرام ہے جائز نہيں۔ کیونکہ یہ مسلمانوں کی عہد شکنی کرنا ہے۔ وہ کفار جن سے عہد ہو تو تمام مسلمانوں پر ان سے قتال کرنا جائز نہيں اس عہد کی وفاء کرتے ہوئے جو ان کے اور مسلمانوں کے درمیان ہے۔ جو کوئی ایسے معاہد کافروں کے خلاف لڑنے  میں دوسرے کافروں کی مدد کرے گا  تو یہ مسلمانوں کی عہد شکنی کرنا اور مسلمانوں کی طرف سے غداری  کہلائے گی۔

نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

’’مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا لَمْ يَرِحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ‘‘([1])

(جس کسی نے معاہد کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پاسکے گا)۔

جب اللہ تعالی نے مسلمانوں کو خود ایسے مسلمانوں کی مدد کرنے سے منع فرمایا ہے جن کے خلاف لڑنے والے کافروں سے دوسرے مسلمانوں کا معاہدہ ہو، تو پھرا س کا کیا حال ہوگا جو مسلمانوں کی عہد شکنی میں کافروں کی مدد کرے، اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ:

﴿وَاِنِ اسْتَنْصَرُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ اِلَّا عَلٰي قَوْمٍۢ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِّيْثَاقٌ﴾  

(اور اگر وہ دین کے بارے میں تم سے مدد مانگیں تو تم پر مدد کرنا لازم ہے، مگر اس قوم کے خلاف کہ تمہارے درمیان اور ان کے درمیان کوئی معاہدہ ہو(مدد نہيں کرنی چاہیے))

(الانفال: 72)

یعنی جب ہم سے مسلمان کافروں کے خلاف مدد چاہیں تو ہم پر واجب ہے کہ ہم مسلمانوں کی کافروں کے خلاف مدد و نصرت کریں سوائے ایک حالت کے (اور وہ یہ ہے کہ)  : اگر ان کافروں کا مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ ہو تو ہمارے لیے جائز نہیں کہ ہم ان کے خلاف مسلمانوں کی مدد کریں، تو پھر کس طرح  ہم مسلمانوں کے حلیف (کافروں) کے خلاف دیگر کافروں کی مدد کرسکتے ہیں۔ یہ بات جائز نہیں  ہے۔ اور یہ سب اپنے عہد سے وفاء کی بنا پرہے([2])۔

تم اپنا عہد پورا کرو۔۔۔ہم اللہ سے مدد طلب کریں گے

امام مسلم رحمہ اللہ  اپنی صحیح  میں حدیث 1790، کتاب الجہاد والسیر، باب : عہد سے وفاء کرنا، میں یہ حدیث لائے ہيں کہ حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ: مجھے جنگ بدر میں حاضر ہونے سے کسی بات نے نہیں روکا سوائے اس کے کہ میں اور میرے والد حُسَيْل باہر نکلے جارہے تھے ۔فرماتے ہیں: ہمیں کفار قریش نے پکڑ لیا انہوں نے کہا کہ: تم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جانا چاہتے ہو؟ ہم نے کہا : ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارادہ نہیں رکھتے بلکہ ہم تو صرف مدینہ جانا چاہتےہیں، تو انہوں نے ہم سے اللہ کا یہ وعدہ اور میثاق لیا کہ ہم پھر کر صرف مدینہ جائیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مل کر جنگ نہ کریں گے۔ پھر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس ماجرے کی خبر دی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا (حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو اس وقت لڑنے والے مجاہدین کی شدید حاجت تھی) :

’’انْصَرِفَا نَفِي لَهُمْ بِعَهْدِهِمْ وَنَسْتَعِينُ اللَّهَ عَلَيْهِمْ‘‘

(ٹھیک ہے تم دونوں وہیں جاؤ،  ہم ان کے عہد کو پورا کریں گے، اور اللہ تعالی سے ان کے خلاف مدد مانگیں گے)۔

معاہد کافروں کا بعض علاقوں کے مسلمانوں پر ظلم کرنے سے تمام مسلمانوں سے خودبخود عہد نہيں ٹوٹتا

شیخ محمد بن عمر بازمول حفظہ اللہ فرماتے ہیں:

جو معاہد (غیرمسلم) ہیں  ان کا عہد محض اس سبب سے نہيں ٹوٹ جاتا  کہ کسی مسلمان پر زیادتی کی ہو، فرمان باری تعالی ہے:

﴿وَاِنِ اسْتَنْصَرُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ اِلَّا عَلٰي قَوْمٍۢ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِّيْثَاقٌ  ۭ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ﴾  

(اور اگر وہ دین کے بارے میں تم سے مدد مانگیں تو تم پر مدد کرنا لازم ہے، مگر اس قوم کے خلاف کہ تمہارے درمیان اور ان کے درمیان کوئی معاہدہ ہو (مدد نہيں کرنی چاہیے) اور اللہ اسے جو تم کر رہے ہو، خوب دیکھنے والا ہے)

(الانفال: 72)

پس اللہ تعالی نے واضح فرمادیا کہ بے شک جو کافر ہمارے بھائیوں پر زیادتی کریں گے تو ہم ضرور ان کی مدد ونصرت کریں گے، لیکن اس قوم پر نہيں کرسکتے جس کے ساتھ ہمارا معاہدہ ہو۔ چنانچہ یہ دلیل ہے کہ معاہدہ باقی رہے گا اور صرف ہمارے بھائیوں پر زیادتی کرنے کی وجہ سے وہ (خودبخود) نہيں ٹوٹےگا۔

اور اس آیت میں دلیل ہے کہ بے شک جہادِ نصرت کا ہونا بھی شرائط کے ساتھ مشروط ہے، جو یہ ہیں:

  1.  اگر کافر ہمارے بھائیوں پر زیادتی کرنے لگیں۔
  2. اگر ہمارے بھائی ہم سے مدد ونصرت طلب کریں۔
  3. ہمارے اور ان زیادتی کرنے والے کافروں کے درمیان کوئی معاہدہ و میثاق نہ ہو۔
  4. اگر یہ شرائط پوری نہ ہوں تو ہم پر ان کی مدد ونصرت کرنا واجب نہيں ہے، بلکہ اگر ہمارے اور زیادتی کرنے والے کافروں کے درمیان کوئی معاہدہ ومیثاق ہو تو اس معاہدے ومیثاق سے وفاء کرنا اور اسے پورا کرنا واجب ہے۔
  5. اور اس آیت میں دلیل ہے کہ بے شک معاہدہ و میثاق  ہمارے اور کافروں کے درمیان اس قسم کے حالات میں نہيں ٹوٹتا([3])۔

صلح حدیبیہ ایفائے عہد  کی بہترین مثال

صلح حدیبیہ کا واقعہ احادیث و سیرت میں مشہور و معروف ہے جس میں بظاہر کچھ شقیں مسلمانوں کے خلاف جاتی نظر آرہی تھیں جیسا کہ کافروں سے بھاگ کر کوئی مسلمانوں کے پاس آئے تو اسے واپس کرنا ہوگا، البتہ مسلمانوں میں سے کوئی ان کے پاس جائے تو اسے واپس نہيں کیا جائے گا، لیکن جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی طرف سے نہیں بلکہ اللہ تعالی کی وحی اور اس کے حکم سے فیصلے فرماتے ہیں لہذا اللہ تعالی نے اسے فتح مبین قرار دیا اور واقعی ایسا ہی ہوا۔

اس معاہدے کے دوران جب کافروں کے چنگل سے جان چھڑا کر ابو بصیر رضی اللہ عنہ وغیرہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عہد کا پاس کرتے ہوئے اور اس سے وفاء نبھاتے ہوئے انہيں کافروں کے پاس لوٹا دیا تھا۔ جیسا کہ البخاري: كتاب الشروط، باب الشروط في الجهاد والمصالحة مع أهل الحرب وكتابة الشروط وغیرہ میں دیکھا جاسکتا ہے۔

ایک ضروری وضاحت

البتہ بعض آیات میں ہے کہ اگر مشرکین عہد شکنی کریں تو ان کا کوئی عہد باقی نہيں رہتا اور ان سے قتال کیا جائے، جیسا کہ سورۃ التوبۃ میں مشرکین کے عہد سے برأت کا اعلان ہے:

﴿بَرَاۗءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖٓ اِلَى الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ﴾  

(اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے ان مشرکوں کی طرف بری الذمہ ہونے کا اعلان ہے جن سے تم نے معاہدہ کیا تھا)

(التوبۃ: 1)

﴿اِلَّا الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ ثُمَّ لَمْ يَنْقُصُوْكُمْ شَيْــــًٔـا وَّلَمْ يُظَاهِرُوْا عَلَيْكُمْ اَحَدًا فَاَتِمُّــوْٓا اِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ اِلٰى مُدَّتِهِمْ  ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ﴾ 

(مگر مشرکوں میں سے وہ لوگ جن سے تم نے عہد کیا، پھر انہوں نے تم سے عہد میں کچھ کمی نہیں کی اور نہ تمہارے خلاف کسی کی مدد کی تو ان کے ساتھ ان کا عہد ان کی مدت تک پورا کرو۔ بے شک اللہ  تعالی متقیوں سے محبت کرتا ہے)

(التوبۃ: 4)

﴿كَيْفَ يَكُوْنُ لِلْمُشْرِكِيْنَ عَهْدٌ عِنْدَ اللّٰهِ وَعِنْدَ رَسُوْلِهٖٓ اِلَّا الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ  ۚ فَمَا اسْتَقَامُوْا لَكُمْ فَاسْتَقِيْمُوْا لَهُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ، كَيْفَ وَاِنْ يَّظْهَرُوْا عَلَيْكُمْ لَا يَرْقُبُوْا فِيْكُمْ اِلًّا وَّلَا ذِمَّةً  ۭ يُرْضُوْنَكُمْ بِاَفْوَاهِهِمْ وَتَاْبٰي قُلُوْبُهُمْ ۚ وَاَكْثَرُهُمْ فٰسِقُوْنَ﴾ 

(مشرکوں کا اللہ کے نزدیک اور اس کے رسول کے نزدیک کوئی عہد کیسے ممکن ہے، سوائے ان لوگوں کے جن سے تم نے مسجد حرام کے پاس معاہدہ کیا۔ سو جب تک وہ تمہارے لیے (معاہدے پر) پوری طرح قائم رہیں تو تم ان کے لیے پوری طرح قائم رہو۔ بے شک اللہ  تعالی متقیوں سے محبت کرتا ہے، آخر یہ  کیسے ممکن ہے جبکہ (ان کا حال تو یہ ہے کہ) وہ اگر تم پر غالب آجائیں تو تمہارے بارے میں نہ کسی قرابت کا لحاظ کریں گے اور نہ کسی عہد کو خاطر میں لائيں، تمہیں صرف اپنے منہ سے خوش کرتے ہیں حالانکہ ان کے دل نہیں مانتے،  اور ان کے اکثر فاسق ہیں)

(التوبۃ: 7-8)

﴿وَاِنْ نَّكَثُوْٓا اَيْمَانَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ فَقَاتِلُوْٓا اَىِٕمَّةَ الْكُفْرِ  ۙ اِنَّهُمْ لَآ اَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُوْنَ، اَلَا تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا نَّكَثُوْٓا اَيْمَانَهُمْ وَهَمُّوْا بِاِخْرَاجِ الرَّسُوْلِ وَهُمْ بَدَءُوْكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ ۭ اَتَخْشَوْنَهُمْ ۚ فَاللّٰهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشَوْهُ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ، قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِيْنَ،  وَيُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوْبِهِمْ ۭ وَيَتُوْبُ اللّٰهُ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ   ۭوَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ  ﴾ 

(اور اگر وہ اپنے عہد کے بعد اپنی قسمیں توڑ دیں اور تمہارے دین میں طعن کرنے لگیں تو کفر کے سرغناؤں سے جنگ کرو۔ بے شک اس قسم کے  لوگوں کی کوئی قسمیں نہیں ہیں، تاکہ وہ باز آجائیں، کیا تم ان لوگوں سے نہ لڑو گے جنہوں نے اپنی قسمیں توڑ دیں اور رسول کو نکالنے کا ارادہ کیا اور خود انہوں نے ہی پہلی بار (عہد شکنی کی) تم سے ابتداء کی؟ کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ تو اللہ زیادہ حق دار ہے کہ تم اس سے ڈرو اگر تم مومن ہو، ان سے لڑو، اللہ  تعالی انہیں تمہارے ہاتھوں سے عذاب دے گا اور انہیں رسوا کرے گا اور ان کے خلاف تمہاری مدد کرے گا اور مومن لوگوں کے سینوں کو تشفی دے گا، اور ان کے دلوں کا غصہ دور کرے گا ، اور اللہ تو بہ کی توفیق دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے)

(التوبۃ: 12- 15)

تو جاننا چاہیے کہ علماء کرام فرماتے ہیں اس سے مراد اور مخاطب مسلم حکمران ہیں کہ وہ عہد برقرار رکھنے اور توڑنے کے مجاز ہیں، اور ان کے دائرۂ اختیار پر تجاوز کرکے عوام یہ اعلان نہیں کرسکتے کہ فلاں حرکت کی بنا پر کافروں کا ہم سے عہد ٹوٹ چکا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ وہ اپنی کم فہمی اور داخلی خارجی معاملات کی حقیقت کو نہ جانتے ہوئے اس طرح کے فیصلے کرتے پھریں، اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی حکومت عہد شکنی کے اسباب موجود ہونے کے باوجود کوتاہی کا شکار ہو تو اس کی جواہدہی اسی کے ذمے ہے، جیسا کہ شرعی حدود کا نفاذ ان کی ذمہ داری ہے ، اگر وہ نہ بھی کریں تو عوام قانون کو اپنے ہاتھ میں بہرحال نہيں لے سکتے۔ لہذا ان بڑے عظیم اور امت کی سطح کے اجتماعی معاملات کو صحیح سلفی منہج و فہم کے مطابق سمجھنا چاہیے۔

جس کی مثال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مشہور ارشاد گرامی ہے کہ مشرکین کو اور یہود و نصاری کو جزیرۃ العرب سے نکال دو۔ مگر اس حکم کی تعمیل عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں انہوں نے کی، کیونکہ وہ ولی امر (حکمران) تھے۔ ہر کسی نے اس حکم کو دلیل بنا کر اس اقدام کو اپنے ہاتھ میں نہيں لیا۔


[1] أخرجه البخاري 3166 من حديث عبدالله بن عمرو رضی اللہ عنہما  اس سے متعلق مزید احادیث جاننے کے لیے ہماری ویب سائٹ پر مقالہ پڑھیں ’’ معاہد ومستأمن (غیر ملکی سفیر وسیاح وغیرہ) کو عمداً یا خطاً قتل کرنے کی حرمت‘‘ از شیخ عبدالمسحن العباد حفظہ اللہ۔ (مترجم)

[2] شرح نواقض الاسلام ص 173-174۔

[3] علمني ديني 23- على جدران الفيسبوك، الأصدار الثاني۔

مترجم

طارق بن علی بروہی

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*