ماہ ِرجب کی بدعات اور شب معراج

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال: بعض لوگ ماہ رجب کو بعض عبادات کے لیے خاص کرتے ہیں جیسے صلاۃ الرغائب، اور 27 ویں شب کو شب بیداری (شبِ معراج)، پس کیا ان کی شریعت میں کوئی بنیاد و اصل ہے؟ جزاکم اللہ خیراً

جواب شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ:

رجب کو صلاۃ الرغائب ادا کرنے کے لیے اور 27 ویں شب کو لیلۃ الاسراء اور شب معراج سمجھتے ہوئے شب بیداری کرنا بدعت ہے جائز نہیں، اور شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں۔

اس بارے  میں بہت سے محققین علماء کرام نے تنبیہ فرمائی ہے۔ ہم نے بھی کئی بار اس بارے میں لکھا ہے اور لوگوں پر یہ واضح کیا ہے کہ صلاۃ الرغائب بدعت ہے جو کہ بعض لوگ رجب کی پہلی شبِ جمعہ کو ادا کرتے ہیں۔  اسی طرح سے 27 ویں شب کو یہ اعتقاد رکھتے ہوئے کہ یہ لیلۃ الاسراء اور شب معراج ہے مناتے ہیں، یہ سب بدعات ہیں جن کی شریعت میں کوئی اصل نہیں۔ شبِ معراج کی رات کا تعین ہی ثابت نہیں اور اگر بالفرض معلوم بھی ہوجائے تو اسے منانا جائز نہیں؛ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے نہیں منایا اور نہ ہی خلفائے راشدین اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے۔ پس ’’لو كان ذلك سنة لسبقونا إليها‘‘ (اگر یہ سنت ہوتی تو وہ اس پر عمل پیرا ہونے میں ہم پر سبقت لے جاتے) اور ساری کی ساری خیر و بھلائی ان کی اتباع کرنے اور ان کے منہج کی پیروی کرنے میں ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ ۙ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا  ۭذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ﴾ 

اور جو مہاجرین اور انصار سابقین اولین میں سے ہیں اور جنہوں نے بطور احسن ان کی پیروی کی اللہ تعالی ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے اور اس نے ان کے لیے ایسے باغ تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے ، اور یہ بڑی کامیابی ہے۔

(التوبۃ: 100)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صحیح طور پر یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’ مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ ‘‘([1])

جس کسی نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی بات ایجاد کی جو اس میں نہیں تھی تو وہ مردود ہے۔

اور فرمایا:

’’مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ ‘‘([2])

جس کسی نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں تو وہ مردود ہے۔

 یہاں ’’ فَهُوَ رَدٌّ ‘‘ (وہ مردود ہے) کا معنی ہے ’’مردود على صاحبه‘‘ (اس عمل کرنے والے سے قبول نہیں کیا جائے گا یا منہ پر مار دیا جائے گا) اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے خطبات میں فرمایا کرتے تھے کہ:

’’أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ، وَخَيْرُ الْهُدَى هُدَى مُحَمَّدٍ، وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا، وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ‘‘([3])

بہترین بات کتاب اللہ ہے اور بہترین ہدایت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایت ہے، اور بدترین امور وہ ہیں جو دین میں نوایجاد یافتہ (بدعت) ہوں، اور ہر بدعت گمراہی ہے۔

پس ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ سنت کی اتباع کرے اور اس پر استقامت کا مظاہرہ کرے، ساتھ ہی اس کی دوسروں کو وصیت کرے اور ہر قسم کی بدعات سے خبردار کرے اللہ تعالی کے اس قول کو عملی جامہ پہناتے ہوئے:

﴿وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى﴾ 

اور نیکی وبھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو۔

(المائدۃ: 2)

اور اللہ تعالی کا یہ فرمان:

﴿وَالْعَصْرِ، اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ، اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ﴾ 

قسم ہے زمانے کی، بے شک انسان خسارے میں ہے، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے، اور حق بات کی وصیت، اور صبر کی وصیت کرتے رہے۔

(سورۃ العصر)

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان:

’’الدِّينُ النَّصِيحَةُ، قُلْنَا: لِمَنْ؟ قَالَ: لِلَّهِ، وَلِكِتَابِهِ، وَلِرَسُولِهِ، وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ، وَعَامَّتِهِمْ ‘‘([4])

دین تو خیر خواہی کا نام ہے، ہم نے دریافت کیا: کس کی (خیرخواہی )؟ فرمایا: اللہ تعالی کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول کے لیے، مسلمانوں کے حکمرانوں اور عام مسلمانو ں کے لیے۔

رہا سوال اس مہینے میں عمرے کا تو اس میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ صحیحین میں ابن عمر رضی اللہ عنہما  سے یہ ثابت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رجب میں عمرہ ادا فرمایا اور سلف صالحین بھی رجب میں عمرہ کیا کرتے تھے جیسا کہ حافظ ابن رجب رحمہ اللہ نے اپنی کتاب اللطائف میں عمر اور ان کے بیٹے اور عائشہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں ثابت فرمایا ہے، اسی طرح امام ابن سیرین رحمہ اللہ سے نقل فرمایا کہ:

’’أن السلف كانوا يفعلون ذلك‘‘

بے شک سلف صالحین ایسا کیا کرتے تھے۔

واللہ ولی التوفیق۔

سوال: جب ماہِ رجب کی پہلی جمعرات آتی ہے تو لوگ قربانی کرتے ہیں اور اپنے بچوں کو نہلاتے ہیں، اور اس نہلانے کے دوران کہتے ہیں کہ : ’’يا خميس أول رجب نجنا من الحصبة والجرب‘‘ (اے ماہِ رجب کی پہلی جمعرات ہمیں حصبہ(خسرہ)([5])اور جرب (کُھجْلی)([6])سے نجات عطاء فرما)، اور اس دن کوکرامتِ رجب کا نام دیتے ہیں، ہمیں اس سلسلے میں رہنمائی فرمائیں؟

جواب شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ:

یہ ایک منکر کام ہے جس کی کوئی اصل نہیں، بدعت ہے جائز نہیں۔ یا خمیس! (اے جمعرات) کہنا غیراللہ کو پکارنا ہے اور غیراللہ کو پکارنا شرک ِاکبر ہے۔ لہذا یہ بدعت ہے قطعاً جائز نہیں، اللہ تعالی ہم سب کو عافیت میں رکھے۔

سوال: میں نے پورے ماہِ رجب کی روزے رکھے کیا یہ بدعت ہے یا یہ صحیح عمل ہے؟

جواب شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ:

 یہ بات شریعت سے ثابت نہیں، یہ تو جاہلیت کا عمل ہے([7])اسی لیے مشروع نہیں بلکہ مکروہ ہے۔

لیکن اگر اس کے بعض ایام کے روزے رکھ لیے جائیں جیسے پیر اور جمعرات کا روزہ یا پھر ایامِ بیض([8])  کا تو یہ اچھی بات ہے اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن اگر اسے روزوں کے لیے مخصوص کیا جائے تو یہ مکروہ ہے۔

سوال: یہ ایک پینتیس (35) سال کی خاتون ہیں جو روزہ نماز کی پابند ہیں، اور یہ ماہ ِشوال، رجب اور رشعبان کے روزے رکھتی ہیں، لیکن اس کے مخصوص ایام ان تینوں مہینے کے روزے رکھنے میں رکاوٹ بن جاتے ہیں، پس کیا ان تینوں مہینے میں روزے رکھنے واجب ہیں یا پھر فقط ان کے کچھ دنوں میں رکھ لیے جائیں؟ جزاکم اللہ خیراً

جواب شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ:

مخصوص ایام میں روزے نہیں رکھنے چاہیے نہ رمضان میں اور نہ ہی اس کے علاوہ، اور اگر اس نے مخصوص ایام کی حالت میں شعبان میں روزہ رکھا ہے تو اس پر واجب ہے کہ وہ افطاری کرلے۔ اسی طرح رمضان میں بھی اسے چاہیے کہ روزہ چھوڑ دے اور بعد میں اس کے بدلے اس کی قضاء ادا کرے۔ لیکن جہاں تک تعلق ہے شعبان اور رجب وغیرہ کے روزوں کا تو اس میں کوئی حرج نہیں کہ وہ رجب وشعبان کے روزے رکھے مگر مخصوص ایام کے روزے چھوڑ دے۔ لیکن اگر رمضان میں مخصوص ایام کی وجہ سے روزے چھوڑے تو اس کی قضاء واجب ہے، اور اگر وہ مانعِ حیض گولیاں وغیرہ استعمال کرتی ہے رمضان یا حج وغیرہ کے لیے تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ افضل یہی ہے کہ پورے ماہِ رجب کے روزے نہ رکھے جائیں، لیکن اگر پیروجمعرات یا ایامِ بیض (تیرہ، چودہ، پندرہ) کے روزے رکھے جائیں تو یہ اچھی بات ہے صرف رجب ہی میں نہیں بلکہ تمام مہینوں میں۔

البتہ ماہِ رجب کو روزے کے لئے مخصوص کرنے کو اہلِ علم کی ایک جماعت نے مکروہ قرار دیا ہے۔

اس کے ساتھ شعبان کے روزے ملا لینے میں بھی کوئی حرج نہیں بلکہ رجب کے علاوہ کسی بھی مہینے میں اپنی سہولت وفراغت کے مطابق روزے رکھے جائیں تو کوئی حرج نہیں جیسے محرم وغیرہ کے روزے، لیکن اگر مخصوص ایام (ماہواری) جاری ہوں تو روزہ نہ رکھے، نہ رمضان میں اور نہ ہی اس کے علاوہ کسی مہینے میں، کیونکہ ایامِ حیض ونفاس روزے رکھنے کا موقع نہيں۔

(سماحۃ الشیخ رحمہ اللہ کی ویب سائٹ سے لیے گئے فتاوی)

سوال: ایک مسلمان کو کیا اعمال بجالانے چاہیے اگر اسے یہ راتیں مثلاً ربیع الاول کی پہلی رات یا رجب کی پہلی رات میسر آجائے؟

جواب شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ:

اسے کچھ نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ خیر وبھلائی کو پانے اور تعظیمِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کون لوگ ہم سب سے زیادہ حریص تھے؟ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  تھے۔ لیکن انہوں نے اس رات کے آنے پر کوئی ایسے اعمال ادا نہیں کیے، اسی لیے اگر یہ رات ان کے یہاں مشہور اور معلوم ہوتی تو وہ متواتر طور پر نقل ہوکر ہم تک پہنچتی جس میں کوئی شک نہیں کرسکتا تھا، اور یہ تاریخی اختلاف رونما نہ ہوتا جو لوگوں کے درمیان ہےاور جس میں وہ شدید اضطراب کا شکار ہیں۔ یہ بات معلوم ہے کہ محققین علماء کرام فرماتے ہیں کہ اس رات کی کوئی اصل حقیقت نہیں جسے شبِ معراج سمجھا جاتا ہے، جو کہ رجب کی ستائیسویں (27) شب ہوتی ہے، اس کی کوئی بھی شرعی اور تاریخی حیثیت نہیں۔

سوال: جمہوریہ شمالی یمن سے ایک سائل سوال پوچھتا ہے کہ: ہمارے یہاں یمن میں ایک مسجد تعمیر ہے جس کا نام  مسجد معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ہے مگر وہ مسجد الجند کے نام سے مشہور ہے۔ ماہِ رجب کے ہر جمعہ کو لوگ مرد و زن اس کی زیارت کو آتے ہیں، کیا یہ مسنون ہے اس بارے میں نصیحت فرمائیں؟

جواب شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ:

یہ غیر مسنون ہے کیونکہ:

اولاً: یہ بات ثابت نہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن دعوت کی غرض سے مبعوث فرمایا تھا تو آپ رضی اللہ عنہ نے وہاں کسی مسجد کی بنیاد رکھی ہو، پس اس مسجد کے بارے میں یہ دعویٰ کرنا بلادلیل ہے، اور ہر دعویٰ جس کی دلیل موجود نہ ہو  ناقابلِ قبول ہے۔

ثانیاً: اگر بالفرض یہ بات ثابت بھی ہوجائے کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ  نے وہاں مسجد کی بنیاد رکھی تھی تب بھی اس کی زیارت کے لئے جانایا شد الرحال([9])جائز نہیں کیونکہ ماسوائے تین مساجد کے شد الرحال کرنا جائز  نہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:

’’لَا تَشُدُّوا الرِّحَالَ إِلَّا إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ: مَسْجِدِي هَذَا، وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَالْمَسْجِدِ  الْأَقْصَى‘‘([10])

تین مساجد کے علاوہ شد الرحال نہ کیا جائے 1-  میری یہ مسجد (مسجد نبوی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)،  2- مسجد الحرام اور مسجد الاقصیٰ (بیت المقدس)۔

ثالثاً: اس عمل کی رجب میں تخصیص کرنا بھی بدعت ہے۔

کیونکہ ماہِ رجب کسی بھی عبادت کے لحاظ سے خاص نہیں نہ روزوں کےاور نہ ہی نمازوں کے، بلکہ اس کاحکم تو دیگر حرمت والے مہینوں کی مانند ہے۔ اور حرمت والے مہینے یہ ہیں رجب، ذوالقعدہ، ذوالحج اور محرم ، یہ وہ حرمت والے مہینے ہیں۔

جن کے بارے میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ:

﴿اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْهَآ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ﴾ 

بلاشبہ مہینوں کی گنتی اللہ تعالی کے نزدیک تو کتاب اللہ میں بارہ کی ہے، اسی دن سے جب سے آسمان وزمین کو اس نے پیدا فرمایا ہے، اس میں سے چار حرمت و ادب کے ہیں۔

(التوبۃ: 36)

اور یہ بات ثابت نہیں کہ ان مہینوں میں رجب کو کسی عبادت ادا کرنے جیسے روزے اور قیام وغیرہ کے لیے کوئی خصوصیت حاصل ہے۔

اگر کوئی شخص اس مہینے کو بعض عبادات کے لیے خاص کرتا ہے حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کا کوئی ثبوت نہیں تو وہ بدعتی تصور کیا جائے گا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تو فرمان ہے کہ:

’’فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ مِنْ بَعْدِي عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ وَإِيَّاكُمْ مُحْدَثَاتِ الأُمُورِ، فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلالَةٌ‘‘([11])

تمہیں میری اور میرے بعد ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا چاہیے، اور اپنے جبڑوں کے ساتھ اسے مضبوطی سے تھامے رہو، اور (دین میں) نئے نئے کاموں سے بچو، کیونکہ (دین میں)  ہر نیا کام بدعت ہے ،اور ہر بدعت گمراہی ہے۔

پس جو بھائی یمن میں یہ عمل کرتے ہیں یعنی اس مسجد کو  جسے وہ مسجدِ معاذ رضی اللہ عنہ تصور کرتے ہیں کی زیارت کو آتے ہیں میری نصیحت ان بھائیوں کے لیے یہ ہے کہ اپنے آپ کو ایسے کام میں نہ تھکائیں اور اپنا مال نہ لٹائیں جو ان کی اللہ تعالی سے مزید دوری کا ہی سبب بنے گا۔

اور یہ بھی نصیحت ہے ان کے لیے کہ وہ اپنی تمام تر توجہ اور توانائیاں ان اعمال کی جانب مبذول کرلیں جن کا مشروع ہونا کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے، بس ایک مومن کے لیے یہی کافی ہے۔

سوال: اللہ تعالی آپ کی حفاظت فرمائے اور ثابت قدمی عطاء فرمائے، یہ ایک دوسرا سائل دریافت کرتا ہے کہ رجب کی آٹھویں (8) تاریخ کو روزہ رکھنے اور اسی طرح اس مہینے کی ستائیسویں (27) تاریخ کو روزہ رکھنے کا کیا حکم ہے؟

جواب شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ:

ان دنوں کو روزے کے لیے مخصوص کرنا بدعت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مہینے کی آٹھویں یا ستائیسویں تاریخ کو روزہ نہیں رکھا کرتے تھے، نہ اس کا حکم ارشاد فرمایا اور نہ ہی کسی کو کرتے دیکھ کر اس کی تصدیق واقرار فرمایا ، لہذا ثابت ہوا کہ یہ بدعت ہے۔ کوئی کہنے والا یہ کہہ سکتا ہےکہ آپ کے نزدیک تو ہر چیز ہی بدعت ہوتی ہے! تو اس بارے میں ہمارا یہ جواب ہے کہ اللہ کی پناہ جو ہم ایسی بات کریں ہمارا مقصد تو صرف دین میں بدعات پر تنبیہ کرنا ہوتا ہے ۔

ہر وہ چیز جس کے ذریعہ بندہ بنا قرآن وحدیث کی دلیل کے اللہ تعالی کی عبادت کرتا ہے بدعت ہے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:

’’فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ مِنْ بَعْدِي عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ وَإِيَّاكُمْ مُحْدَثَاتِ الأُمُورِ‘‘([12])

تمہیں میری اور میرے بعد ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا چاہیے، اور اپنے جبڑوں کے ساتھ اسے مضبوطی سے تھامے رہو، اور (دین میں) نئے نئے کاموں سے بچو۔

پس دین میں بدعت سے مراد بلادلیل کے ہر وہ عقیدہ، قول اور فعل ہے جس کے ذریعہ سے انسان اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنا چاہتا ہے، تو اسے بدعت وگمراہی کہیں گے۔ البتہ دنیاوی امور میں جو بدعات (نئے ایجاد یافتہ کام) ہیں تو ہر وہ چیز جو نفع بخش ہو مگر پہلے موجود نہ تھی ہم اسے بدعت نہیں کہتے، بلکہ ہم تو اس کی ترغیب دیتے ہیں اگر واقعی وہ نفع بخش ہو، اور اس سے روکتے ہیں اگر وہ نقصان دہ ہو۔

سوال: بارک اللہ فیکم سامعین میں سے آدم عثمان صاحب سوڈان سے پوچھتے ہیں رجب کی پہلی جمعرات کا روزہ رکھنا صحیح ہے؟

جواب شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ:

رجب کی پہلی جمعرات کا روزہ رکھنے کی کوئی حقیقت نہیں، اور اس دن کو روزے کے لیے مخصوص کرنا بدعت ہے۔ اسی لیے اس دن روزہ نہ رکھا جائے۔

(فضیلۃ الشیخ رحمہ اللہ کی ویب سائٹ سے لیے گئے فتاوی)

شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل الشیخ حفظہ اللہ نے اپنے خطبے بتاریخ 01 رجب سن 1425ھ میں فرمایا:

اے مسلمانو! یہ ماہِ رجب  حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے جن کے بارے میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:

﴿اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْهَآ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ  ۭذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ ڏ فَلَا تَظْلِمُوْا فِيْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِيْنَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُوْنَكُمْ كَافَّةً ۭ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ﴾ (التوبۃ: 36)

بلاشبہ مہینوں کی گنتی اللہ تعالی کے نزدیک تو کتاب اللہ میں بارہ کی ہے، اسی دن سے جب سے آسمان وزمین کو اس نے پیدا فرمایا ہے، اس میں سے چار حرمت و ادب کے ہیں، یہی درست دین ہے، تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو اور تم سب مشرکوں سے قتال کرو جیسے کہ وہ تم سب سے قتال کرتے ہیں اور جان رکھو کہ بے شک اللہ تعالی متقیوں کے ساتھ ہے۔

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حرمت والے مہینے (ذوالقعدہ، ذوالحج، محرم جو پےدرپے ہیں) گناتے ہوئے فرمایا:

’’وَرَجَبُ مُضَرَ الَّذِي بَيْنَ جُمَادَى وَشَعْبَانَ ‘‘([13])

(اور حرمت والا چوتھا مہینہ) مضر قبیلےکا رجب ہے جو جمادی الثانی اور شعبان کے درمیان میں ہوتا ہے۔

(جاننا چاہیے کہ) اس مہینے کی عمرہ ادا کرنے، بعض ایام میں روزہ رکھنے، راتوں کو عبادت کرنے یا اس مہینے کی وجہ سے خصوصی صدقہ وغیرہ کرنےکی شریعت میں کوئی اصل نہیں۔

ہمارے لیے یہ اعتقاد رکھنا جائز نہیں کہ رجب میں کیے ہوئے عمرے کی دیگر مہینوں کے بنسبت کوئی خاص فضیلت ہے، اور نہ ہی اس  مہینے کے بعض ایام یا پورے مہینے یا کسی ایک دن کے روزے کی کوئی خاص فضیلت ہے، اسی طرح یہ اعتقاد رکھنا کہ اس مہینے کی بعض راتوں کو جاگ کر عبادت کرنا یا تمام راتوں کو یا کسی خاص رات کو جاگنے کی کوئی فضیلت ہے، صحیح نہیں۔  پس اس مہینے کے روزے، عمرے، صدقے اور قیام اللیل کی دیگر مہینوں پرفضیلت کا اعتقاد رکھنا درست نہیں۔  ان تمام باتوں کی کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کوئی دلیل نہیں ، اگر اس میں واقعی کوئی خیر وبھلائی ہوتی تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کی ادائیگی میں ہم سے سبقت لے جاتے۔

چنانچہ جو شخص رجب کے عمرے، یا بعض ایام کے روزے، یا بعض راتوں کو جاگنے یا صدقہ کرنے کی کوئی خصوصیت سمجھتا ہے اس زعم میں کہ انہیں دیگر مہینوں میں کیے گئے اعمال پر کوئی خاص فضیلت حاصل ہے، تو ہم اسے کہیں گے: ’’هذا من البِدع التي ما أنزل الله بها مِن سلطان‘‘ (یہ بدعت ہے جس کے بارے میں اللہ تعالی نے کوئی سند اور دلیل نازل نہیں فرمائی)۔

(ویب سائٹ سحاب السلفیہ سے ماخوذ)

سوال: سائل پوچھتا ہے فضیلۃ الشیخ (وفقکم اللہ) بہت سے لوگ رجب میں کی گئی عبادت کی افضلیت کا عقیدہ رکھتے ہیں، اور اسی بنیاد پر وہ اس مہینے میں کچھ عبادات ادا کرنے کی نذر ومَنَّت مانتے ہیں،پس کیا اس قسم کی مَنَّت پوری کرنی چاہیے جبکہ یہ معلوم ہے کہ یہ منتیں وہ اپنے جاہلی اعتقادات کی بنیاد پر مانتے ہیں، یا پھر یہ معصیت ونافرمانی کی مَنَّت شمار ہوگی؟

جواب شیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ:

یہ ایک بدعت ہے کہ رجب میں خصوصی طور پر کوئی عبادت ادا کرنے کی نذر مانی جائے۔ یہ ایک بدعت ہے اور بدعت ادا کرنے کی نذر کو پورا کرنا جائز نہیں۔ ہاں، یہ حرام مَنَّت میں شمار ہوگی، کیونکہ بدعت حرام ہے۔ ماہِ رجب میں کیے گئے اعمال کی علیحدہ سے کوئی خصوصیت ثابت نہیں، اس سے بڑھ کر کوئی جھوٹی بات نہیں۔

یہ بدعات وخرافات کے رسیا لوگ اس چیز کی طرف تو بہت لپکتے ہیں جس کی کوئی اصل نہیں، اور دوسری جانب جن اعمال وعبادات کی اصل شریعت میں موجود ہے اس کی طرف التفات ہی نہیں کرتے، سبحان اللہ! یعنی جو چیز ثابت ہے قرآن وسنت سے اس کی طرف تو کوئی رغبت نہيں اور جو چیز ثابت ہی نہیں اسے بڑی شدومد سے ادا کرتے ہیں اوراس کی کھوج میں لگے رہتے ہیں۔ چنانچہ یہ ایک فتنہ ہی ہے۔

سوال: ایک شخص نے وعدہ کیا کہ وہ ہر سال پورے ماہِ رجب وشعبان کے روزے رکھے گا، پس کیا ایسا کرنے میں کوئی حرج ہے؟

جواب شیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ:

ماہِ رجب میں روزے نہ رکھے جائیں کیونکہ یہ ایک بدعت ہے۔جبکہ ماہِ شعبان کے غالب دنوں میں روزے رکھنا اگرچہ پورے ماہ کے نہ بھی ہوں جائز نہیں۔ ہاں، البتہ اکثر شعبان کے روزے رکھنا مستحب ہے، اگر کوئی شخص ماہ شعبان میں اکثر روزے رکھتا ہے تو یہ امر مستحب (مسنون) ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ عملِ مبارک رہا ہے:

’’فكان يكثر الصيام في شهر شعبان، لكن لا يصومه كاملاً ‘‘([14])

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ماہ ِشعبان میں کثرت سے روزے رکھا کرتے تھے لیکن پورے مہینے کے نہ رکھتے۔

سوال: یہ عبارت کہ ’’اللهم بارك لنا في رجب وشعبان وبلغنا رمضان‘‘ (اے اللہ! ہمارے لیے رجب اور شعبان  میں برکت عطاء فرما یہاں تک کہ ہمیں رمضان تک پہنچنا نصیب فرمادے)، کیا یہ صحیح ہے؟

جواب شیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ:

یہ ایک حدیث ہے مگر صحیح نہیں ہے بلکہ ضعیف ہے۔

سوال: فضلیۃ الشیخ (وفقکم اللہ) میں نے اس ہفتے عمرے کی نیت کی ہے، بعض ساتھیوں نے مجھے کہا کہ اس مہینے کو چھوڑ کر کسی اور مہینے میں کرو تاکہ تمہارے عمل کی ان اہل ِبدعت سے مشابہت نہ ہو جو اس ماہِ رجب کی ستائیسویں (27) تاریخ کو عمرہ ادا کرتے ہیں؟

جواب شیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ:

جی، یہ صحیح بات ہے، آپ کو عمرہ مؤخر کردینا چاہیے تا آنکہ یہ مشابہت کا امکان زائل ہوجائے۔ کیونکہ رجب میں (اکثر) جو عمرہ کرتے ہیں وہ اہلِ بدعت ہیں، تو آپ کو چاہیے کہ اس سے اجتناب کیجیے،اور ان کے ساتھ شریک نہ ہوں اگرچہ آپ کی یہ نیت (اس بدعت کی یا ان سے مشابہت کی) نہ بھی ہو۔ پس آپ اپنا عمرہ رجب کے علاوہ کسی اور مہینے تک مؤخر کردیجیے۔

(فضیلۃ الشیخ کی آفیشل ویب سائٹ سےماخوذ)

رجب کے کونڈے

ان کے علاوہ  برصغیر میں دیگر بدعات  بھی رجب کے مہینے میں کی جاتی ہيں جن میں سے سب سے مشہور رجب کے کونڈے ہيں جو 22 رجب کو شیعہ حضرات کرتے ہيں اور ان کی دیکھا دیکھی بہت سے سنی بھی کرتے ہيں۔ جس میں امام جعفر صادق رحمہ اللہ کے نام کے کونڈے حلوے مانڈے پوریاں بھرتے ہيں، ایک لکڑہارے کی کہانی سناتے ہیں، جس میں واضح شرک ہوتا ہے کہ اس نے غیراللہ یعنی امام صاحب کے نام کی نذر نیاز کی تو برکت ہوگئی۔ جبکہ نذر ونیاز ومنت ماننا عبادت ہے جو صرف اللہ تعالی کا حق ہے، فرمان الہی ہے:

﴿وَلْيُوْفُوْا نُذُوْرَهُمْ﴾ 

انہیں چاہیے کہ اپنی (اللہ کے لیے مانی گئی) نذریں پوری کریں۔

(الحج: 29)

یا امام صاحب کے وسیلے سے دعاء کی جاتی ہے جو کہ بدعت ہے، اللہ تعالی نے اپنے سے براہ راست دعاء کرنے کا حکم دیا ہے:

﴿وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِيْنَ﴾ 

اور تمہارے رب نے فرمایا مجھے پکارو، میں تمہاری دعاء قبول کروں گا۔ بےشک وہ لوگ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔

(غافر: 60)

اسی طرح سے بعض تحقیق  کرنے والوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے بغض میں آپ کی وفات کی خوشی میں، اس دن یہ کونڈے رافضیوں کی طرف سے کیے جاتے ہيں۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:

’’لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَوْ أَنَّ أَنْفَقَ أَحَدَكُمْ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ‘‘

میرے صحابہ کو سب و شتم نہ کرو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم میں سے کوئی احد(پہاڑ) کے برابر سونا خرچ کرے تو ان میں سے کسی کے ایک مد  بلکہ نصف مد تک بھی نہیں پہنچ سکتا۔

(البخاري المناقب (3470)، مسلم فضائل الصحابة (2541)، الترمذي المناقب (3861)، أبو داود السنة (4658)، ابن ماجه المقدمة (161)، أحمد (3/55)۔

اس کے مزید تفصیلی رد کے لیے علماء اہل حدیث کا کلام ان کی فتاویٰ وغیرہ میں دیکھا جاسکتا ہے۔


[1] صحیح بخاری 2697، صحیح مسلم 1720۔

[2] صحیح مسلم 1721۔

[3] صحیح مسلم 870۔

[4] صحیح مسلم 56۔

[5] کم عمر کے بچوں کی ایک قسم کی وبائی بیماری (Measles) جس میں دو تین دن کے بخار کے بعد بدن پر مہین دانوں کا جال سا نمودار ہوتا ہے۔ سخت بخار کے ساتھ عموماً کھانسی بھی ہوتی ہے لیکن مرض کا اصل سبب چیچک کی طرح کے مخصوص جراثیم (وائرس) کا حملہ ہوتا ہے۔ بعض حالات میں دوران مرض آنتوں کی سوزش بھی ہو جاتی ہے۔ یہ (وائرس) ہمیشہ طرح طرح کی بیماریاں پھیلاتے ہیں مثلاً انسان میں زکام، پولیو، چیچک، خسرہ وغیرہ۔ (1985ء، حیاتیات، 84) (مترجم)

[6] ایک متعدی بیماری (Scabies) جس میں سارے بدن پر سرخ مہین دانے نکل آتے ہیں، ان میں چُل اٹھتی ہے اور کھجانے سے پانی یا پیپ نکلتی ہے۔ ایک کو خشک یا سوکھی اور دوسری کو تر کھجلی کہتے ہیں۔ (مترجم)

[7] عمر رضی اللہ عنہ جاہلیت سے تشبیہ ہونے کی وجہ سے رجب کے روزوں سے روکتے تھے جیسا کہ خرشہ بن الحر سے روایت ہے کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا  رجبیوں (رجب کی تعظیم میں روزے رکھنے والوں) کے ہاتھوں پر مارتے یہاں تک کہ انہیں کھانے پر لاڈالتے اور فرماتے:

’’كُلُوا، فَإِنَّمَا هُوَ شَهْرٌ كَانَتِ الْجَاهِلِيَّةُ تُعَظِّمُهُ ‘‘

کھاؤ، کیونکہ یہ وہی مہینہ ہے جس کی لوگ جاہلیت میں تعظیم کیا کرتے تھے۔

(التبصرۃ لابن الجوزی، فی شھر رجب 129)

(الإرواء 957 وقال الألباني : صحيح) (مترجم)

[8] ایامِ بیض یعنی سفید اورروشن ایام جو کہ چاند کی تیرہ(13)، چودہ(14) اور پندرہ(15) تاریخ ہوتی ہے، کیونکہ ان دنوں میں سورج غروب ہوتے ہی چاند طلوع ہوجاتا ہے، گویا سارے دن ورات ہی روشن رہتے ہیں۔ واللہ اعلم (مترجم)

[9] شد الرحال کا معنی کجاوے کس کر یا باقاعدہ سامان وسواری تیار کر کہ کہیں بغرض ثواب عازم سفر ہونا جیسے لوگ مسجدالحرام کا قصد کرتے ہیں۔ (مترجم)

[10] صحیح مسلم 1339۔

[11] صحیح ترمذی 2676۔

[12] حدیث گزر چکی ہے۔

[13] أخرجه البخاري في بدء الخلق، باب: ما جاء في سبع أرضين (3197)، ومسلم في القسامة، باب: تغليظ تحريم الدماء والأعراض والأموال (1679) عن أبي بكرة رضي الله عنه.

[14] صحیح بخاری 1969 کے الفاظ ہیں:

’’وَمَا رَأَيْتُهُ أَكْثَرَ صِيَامًا مِنْهُ فِي شَعْبَانَ‘‘

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کسی ماہ میں شعبان سے زیادہ روزے رکھتے نہیں دیکھا۔

(مترجم)۔

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*