کیا ماہ رمضان کی فضیلت کی وجہ سے گناہ کرلینے میں کوئی حرج نہیں؟ رمضان کریم کہنے کا حکم؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

جس طرح رمضان میں بنسبت دوسرے مہینوں کے نیک کام کرنے کا اللہ کے نزدیک زیادہ اجر و ثواب ہے اسی طرح رمضان میں برائی کرنے کا زیادہ عظیم گناہ ہے۔

(المجموع – 15/446)

شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ جب کوئی روزے دار کسی معصیت کا مرتکب ہو اور اسے تنبیہ کی جائے تو وہ کہتا ہے ’’رمضان کریم‘‘ یہ کلمہ کہنے کا کیا حکم ہے؟ اور اس رویے کا کیا حکم ہے؟

جواب: اس کا حکم یہ ہے کہ یہ کلمہ ’’رمضان کریم‘‘ صحیح نہيں ہے۔ بلکہ ’’رمضان مبارک‘‘ یا اس جیسے کلمات کہنے چاہیے۔ کیونکہ رمضان کا مہینہ خود کوئی چیز عطاء نہیں کرتا کہ اسے کریم کہا جائے بلکہ وہ اللہ تعالی ہی ہے جس نے اس میں فضیلت رکھ کر فضیلت والا اور ارکان اسلام میں سے ایک رکن کو ادا کرنے کا مہینہ بنایا ہے۔

گویا کہ اس قسم کے مقولے کہنے والے کا خیال ہے کہ کسی شرف والے وقت میں گناہ کرنا جائز ہوتا ہے۔

حالانکہ  یہ تو اہل علم کے قول کے بالکل برخلاف ہے کیونکہ ان کا قول ہے کہ فضیلت والی جگہ یا وقت میں کیا گیا گناہ عام گناہ سے بڑھ کر شدید ہوتا ہے یعنی بالکل اس قائل کے تصور کے برعکس۔

اور فرماتے ہیں کہ ایک انسان پر واجب ہے کہ وہ ہر زمان و مکان میں اللہ تعالی سے ڈرے خصوصاً فضیلت والے اوقات واماکن میں۔ فرمان الہی ہے:

﴿يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ﴾ 

(اے ایمان والو تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیےگئے تھے، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو)

(البقرۃ: 183)

پس روزے کی فرضیت کی حکمت اللہ تعالی کے اوامر پر عمل اور نواہی سے اجتناب کرکے تقویٰ الہی کا حصول ہے ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالْعَمَلَ بِهِ، فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ‘‘[1]

(جو کوئی جھوٹی بات اور اس پر عمل کو نہیں چھوڑتا تو اللہ تعالی کو کوئی حاجت نہیں کہ وہ محض اپنا کھانا پینا چھوڑ دے)۔

لہذا ثابت ہوا کہ روزہ اللہ تعالی کی عبادت ہے اور نفس کی تربیت  اور اس کا محارم الہی سے بچاؤ ہے ناکہ جیسے یہ جاہل کہتا ہے کہ اس ماہ کی شرف وبرکت کی وجہ سے اس میں معاصی و گناہ کرنا رواں ہے۔[2]۔

(مجموع فتاوى ورسائل ابن عثيمين – ج 20 / رقم 254 )


[1] صحیح بخاری 1903۔

[2] شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ کا بھی اسی قسم کا فتوی ہے کہ رمضان کریم استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ البتہ قرآن کی آیات سے مخلوق کے لیے کریم کا استعمال ثابت ہے اور بعض ضعیف احادیث میں رمضان کریم کے الفاظ آئے ہیں، اس کے علاوہ بہت سے اہل علم یہاں تک کہ خود فضیلۃ الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ اسے استعمال فرماتے تھے۔ لہذا رمضان کریم کہہ سکتے ہیں مگر فضل کی حقیقی نسبت اس کی طرف نہ ہو کیونکہ وہ مخلوق ہے اور فضل سارے کا سارا اللہ تعالی ہی کا ہے وہ جسے چاہے فضیلت دیتا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیں:

http://www.sahab.net/forums/index.php?showtopic=130714 (مترجم)