تراویح کے درمیان دروس کا اہتمام کرنا؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال: ہمارے یہاں ایک مسجد ہے جس میں تراویح کی ہر چار رکعات کے بعد وعظ ونصیحت کی جاتی ہے، کیا یہ جائز ہے؟ اگر یہ جائز ہے تو یہ وعظ ونصیحت (درس) کس طرح ہونا چاہیے؟

جواب از شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ:

میری رائے میں ایسا نہ کیا جائے کیونکہ:

اولاً: یہ سلف صالحین کے طریقے میں سے نہیں۔

ثانیاً: لوگوں میں سے بعض یہ چاہتے ہوں گے کہ تہجد پڑھیں اور اپنے گھر لوٹ جائیں۔ لیکن ایسا کرنے سے ان کے لیے رکاوٹ و اکتاہٹ ہوگی اور انہیں اس وعظ و نصیحت کو سننے پر نا چاہتے ہوئے مجبور کیا جارہا ہوگا۔ حالانکہ وعظ ونصیحت اس طرح کرنا کہ لوگ اس کی طرف راغب نہ ہوں فائدے سے زیادہ نقصان کا سبب ہے۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو موقع محل کے اعتبار سے فوقتاً فوقتاً وعظ ونصیحت فرمایا کرتے تھے ان پر بے محل تکرار کا بوجھ نہيں ڈالتے تھے۔ لہذا میں اسے ترک کرنے کو اولیٰ سمجھتا ہوں۔ اگر امام لوگوں کو وعظ ونصیحت کرنا چاہتا ہے تو اسے نماز کے بعد آخر میں رکھے۔

سوال: تراویح کے مابین یا اس کے درمیان میں وعظ ونصیحت کرنا اور اسے دائمی طریقہ بنالینا کیسا ہے ؟

جواب از شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ:

جہاں تک وعظ ونصیحت کا تعلق ہے تو وہ اس طرح نہيں کرنا چاہیے کیونکہ یہ سلف کے طریقے میں سے نہیں۔ لیکن اگر ضرورت ہو تو انہیں بعد از نماز تراویح وعظ ونصیحت کرے۔ اگر اس عمل کو وہ تعبدی طور پر (باقاعدہ بطور عبادت کے) جاری کیے ہوئے ہیں تو یہ بدعت ہے۔ اور اس کو تعبدی طور پر کرنے کی نیت کی علامت یہ ہے کہ اسے ہر رات مداومت کے ساتھ کیا جائے۔ پھر ہم ان لوگوں سے یہ بھی پوچھتے ہیں کہ: بھائی تم کیوں لوگوں کو اسی موقع پر ہی وعظ ونصیحت کرنا چاہتے ہو؟ کسی شخص کو کوئی ضروری کام ہوسکتا ہے اور وہ بیچارہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کی محبت میں بیٹھا ہو:

’’مَنْ قَامَ مَعَ الْإِمَامِ حَتَّى يَنْصَرِفَ كُتِبَ لَهُ قِيَامُ لَيْلَةٍ‘‘([1])

(جو کوئی امام کے ساتھ قیام اللیل کرتا ہے یہاں تک کہ امام فارغ ہوجائے تو اس کے لیے مکمل رات کا قیام لکھا جاتا ہے)۔

اگر آپ اس وعظ ونصیحت کو پسند کرتے ہیں اور لوگوں میں سے بھی آدھے لوگ اسے پسند کرتے ہیں بلکہ چاہے تین چوتھائی بھی پسند کیوں نہ کرتے ہوں تو بھی ان تین چوتھائی لوگوں کے لیے باقی ایک چوتھائی لوگوں کو پابند نہیں کیے رکھنا چاہیے۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ:

’’إذا أمّ أحدكم الناس فليخفف فإن من ورائه ضعيف والمريض وذي الحاجة‘‘([2])

(جب تم میں سے کوئی لوگوں کی جماعت کروا رہا ہو تو ہلکی نماز پڑھائےکیونکہ اس کے پیچھے بوڑھے، مریض اور ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں کوئی ضروری کام ہو)۔

یا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔

یعنی سب کو اپنے آپ پر یا دوسرے ان لوگوں پر جو وعظ ونصیحت چاہتے ہیں قیاس نہ کریں۔ بلکہ لوگوں کو اس چیز پر قیاس کریں جو انہیں راحت پہنچائے۔ انہیں تراویح پڑھائيں اور جب اس سے فارغ ہوجا‎ئيں اور نماز ختم کرچکیں ساتھ ہی لوگ بھی فارغ ہوجائیں تو جو کچھ کہناچاہتے ہیں وہ کہیں۔ اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ ہمیں اور آپ سب کو علم نافع اور عمل صالح کی توفیق عنایت فرمائے۔

(لقاء الباب المفتوح رقم 11)

سوال: کیا نماز تراویح پڑھانے والے امام مسجد کے لیے جائز ہے کہ وہ رکعتوں کے درمیان وعظ ونصیحت کرے؟

جواب از شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ:

جائز بھی ہے اور ناجائز بھی یعنی اگر کسی اچانک درپیش ہونے والے مسئلے پر تنبیہ، تحذیر(خبردار کرنا) یا امر ونہی مقصود ہو تو یہ بات واجب ہے۔ لیکن ویسے ہی اسے ایک باقاعدہ نظام بنادینا سنت کے خلاف ہے۔

(سلسلۃ الھدی النور رقم 656)

دوسرے مقام پر فرمایا:

قیام رمضان صرف نماز میں قیام کے ذریعے زیادہ سے زیادہ تقرب الہی حاصل کرنے کے لیے مشروع کیا گیا ہے۔ اسی لیے ہم اسے صحیح نہیں سمجھتے کہ نماز تراویح کو علم وتعلیم (درس دروس وغیرہ) کے ساتھ مخلوط کیا جائے۔ چاہیے کہ قیام رمضان کو محض عبادت تک ہی رکھا جائے۔ جبکہ علم کا اپنا وقت ہوتا ہے وہ کسی خاص زمانے سے مقید نہیں، بلکہ اس میں جنہیں تعلیم دی جارہی ہے ان کی مصلحت کا خیال رکھا جائے گا۔ یہی اصل اصول ہے۔ اور میری اس سے مراد یہ ہے کہ جو اسے عادت بنالیتا ہے کہ مثلًا قیام اللیل میں ہر چار رکعات کے بعد ایسا کرتا ہے تو یہ دین میں نیا کام ہے اور سنت کے مخالف ہے۔

(سلسلۃ الھدی والنور رقم 693)


[1] صحیح الترمذی 806۔

[2] صحیح مسلم 468 کے الفاظ ہیں:

’’إِذَا أَمَّ أَحَدُكُمُ النَّاسَ، فَلْيُخَفِّفْ، فَإِنَّ فِيهِمْ الصَّغِيرَ، وَالْكَبِيرَ، وَالضَّعِيفَ، وَالْمَرِيضَ، فَإِذَا صَلَّى وَحْدَهُ، فَلْيُصَلِّ كَيْفَ شَاءَ‘‘

(جب تم میں سے کوئی لوگوں کی امامت کروائے تو اسے ہلکے رکھے، کیونکہ ان میں چھوٹے، بڑے، ضعیف اور مریض سب ہوتے ہیں،  اور اگر اکیلا پڑھے تو جیسے چاہے پڑھے)۔

(مترجم)

ترجمہ وترتیب: طارق بن علی بروہی