
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس اللہ تعالی کی تعریفیں ہیں جس نے چاند کو لوگوں کے لیے مواقیت بنایا، یعنی جس کے ذریعہ سے وہ اپنی عبادات کے اوقات اور معاملات کی معیاد کو جان پاتے ہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبودِ حقیقی نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، ہم اس کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے، اسی کے لیے ملک ہے اور اسی کے لیے حمد ہے، او وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں، جنہوں نے اپنی امت کے لیے روزوں کی ابتداء اور انتہاء مقرر فرمادیں، چنانچہ ارشاد فرمایا:
’’صوموا لرؤيته ، وأفطروا لرؤيته ، فإن غم عليكم فأكملوا عدة شعبان ثلاثين يومًا ‘‘[1]
(چاند دیکھ کر روزے شروع کرو، اور چاند دیکھ کر ہی عید مناؤ، اور اگر مطلع ابرآلود ہو تو شعبان کے تیس(30) دن مکمل شمار کرلو)۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور آپ کی آل واولاد پر بےشمار درود وسلام ہو، اما بعد:
اے لوگو! اللہ تعالی کا تقویٰ اختیار کرو اور دین میں آسانی پیدا کرنے پر اس کا شکر ادا کرو:
﴿هُوَ اجْتَبٰىكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ ۭ مِلَّـةَ اَبِيْكُمْ اِبْرٰهِيْمَ﴾
(اسی نے تمہیں چن لیا ہے اور تم پر دین کے بارے میں کوئی تنگی نہیں ڈالی، اپنے باپ ابراہیم کی ملت کے مطابق)۔
(الحج: 78)
﴿ مَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِّنْ حَرَجٍ﴾
(اللہ تعالی تم پر کسی قسم کی تنگی نہیں ڈالنا چاہتا)
(المائدۃ: 6)
پس اللہ تعالی کا ہمارے لیے آسانی کرنا اور تنگی نہ ڈالنے میں سے یہ بھی کہ اس نے عبادات کے شروع ہونے اور ختم ہونے کی نہایت واضح نشانیاں مقرر فرمائیں کہ جنہیں ہر کوئی خواہ جاہل عوام ہوں یا پڑھے لکھے لوگ سب بآسانی پہچان سکتے ہیں۔
اسی میں سے رمضان المبارک کی ابتداء اور انتہاء بھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:
’’لا تصوموا حتى تروا الهلال ، ولا تفطروا حتى تروه ؛ فإن غم عليكم ؛ فأكملوا العدة ثلاثين‘‘[2]
(جب تک چاند نہ دیکھ لو روزے رکھنا شروع مت کرو، اور عید بھی نہ منانا یہاں تک کہ اسے دیکھ نہ لو، لیکن اگر مطلع ابر آلود ہو تو تیس دن پورے شمار کرلیا کرو)۔
پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ واضح فرمایا کہ روزوں کا شروع ہونا یا ختم کرکے عید منانا دو میں سے ایک امر پر منحصر ہے۔
1- چاند کا نظر آنا
یا
2- مہینے کے پورے تیس (30) دن شمار کرلینا۔
اگر مسلمانوں میں سے چاہے ایک فرد ہی چاند کو دیکھ لے تو رمضان المبارک کا شروع ہونا ثابت ہوجاتا ہے ، اس میں یہ شرط نہیں کہ لوگوں کی پوری جماعت نے اسے دیکھا ہو۔
جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک اعرابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ میں نے چاند دیکھا ہے (یعنی رمضان المبارک کا چاند) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے دریافت فرمایا کہ:
’’أَتَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ؟‘‘
(کیا تو لا الہ الا اللہ کی گواہی دیتا ہے؟)
اس نے کہا : ہاں، پھر دریافت فرمایا:
’’أَتَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ؟‘‘
(کیا تو محمد رسول اللہ کی گواہی دیتا ہے؟)
اس نے کہا: ہاں، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’ يَا بِلَالُ ، أَذِّنْ فِي النَّاسِ أَنْ يَصُومُوا غَدًا ‘‘[3]
(اے بلال! لوگوں میں منادی کردو کے کل روزہ رکھیں)۔
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، فرمایا:
’’ تَرَاءَى النَّاسُ الْهِلَالَ، فَأَخْبَرْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَنِّي رَأَيْتُهُ، فَصَامَهُ وَأَمَرَ النَّاسَ بِصِيَامِهِ‘‘[4]
(لوگوں کو (رمضان کا) چاند دِکھا، چنانچہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ خبر دی کہ بے شک میں نے چاند دیکھا ہے، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی اس مہینے کے روزے رکھنے کا حکم ارشاد فرمایا)۔
لیکن رمضان المبارک کے ختم ہونے کی گواہی کے لیے دو مرد ہونا ضروری ہیں۔
امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’وكان من هديه – صلى الله عليه وسلم – أمر الناس بالصوم بشهادة الرجل الواحد المسلم، وخروجهم منه بشهادة اثنين‘‘
(آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت میں سے یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کو روزے رکھنے کا حکم دیتے ایک مسلمان مرد کی گواہی پراور روزے ختم کرنے کا حکم دیتے دو مردوں کی گواہی پر)۔
یہ اس لیے (واللہ اعلم) کیونکہ رمضان کے آغاز کرلینے میں کوئی مضائقہ نہیں، اسی لیے اس میں خبرِواحد کو قبول کرلیا جاتا ہے، کیونکہ یہ اس عبادت کے تعلق سے زیادہ محتاط روش ہے۔ لیکن رمضان المبارک کے اختتام کے سلسلے میں چونکہ عبادت کو ختم کرنے کی رغبت ہے اسی لیے اس بارے میں دو عادل مرد گواہان کی شرط ہے اور یہی اس عبادت کے معاملے میں محتاط روش ہے۔ کیونکہ دین میں اصل بات رمضان المبارک کا باقی ہونا ہے اور اس اصل سے سوائے یقین کے نہیں نکلا جاسکتا۔
دوسری بات یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روزے رکھنے اور ختم کرنے کے لیے چاند نظر نہ آنے کی صورت میں مہینہ پورا کرنے یعنی تیس دن شمار کرنے کا حکم فرمایا، کیونکہ دین میں اصل مہینے کا باقی رہنا اور عبادت ختم کرنے میں احتیاط کرنا ہے۔ اب اس سے یہ ثابت ہوا کہ جو شخص ان دو علامتوں کے علاوہ (جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کے لیے مقرر فرمایا ہے) روزے شروع اور ختم کرتا ہے، جیسا کہ کوئی کہے کہ میں ماہرِ فلکیات اور کمپیوٹر کی خبر پر روزے شروع اور ختم کروں گا تو اس نے اس چیز پر اضافہ کیا جسے اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مقرر فرمایا ہے، اور جس پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔ پس اس نے اپنی طرف سے ایک تیسری علامت کا اضافہ کیا:
’’وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ ‘‘[5]
(اور (دین میں) ہر بدعت گمراہی ہے)۔
کیونکہ علمِ حساب یا فلکیات کے جاہل دعویداروں کا ایک پورا گروہ ہے جو ہر سال لوگوں کو پریشان کردیتا ہے، اور رؤیتِ ہلال کے معاملہ میں ہمیشہ شکوک پیدا کرتا ہے اور چاند دیکھنے والے پر بہت غصہ کرتے ہیں، اس پر جھوٹ کی تہمت تک لگاتے ہیں محض اس لیے کہ اس کی رؤیت ان کے اٹکل تخمینوں کے مطابق نہیں ہوتی۔ مسلمانوں سے یہ چاہتے ہیں کہ وہ روزوں کی ابتداء اور انتہاء ماہرینِ فلکیات کے فیصلے پر کریں، کیونکہ وہ اپنے زعم میں سب سے صحیح اور قطعی فیصلہ دیتے ہیں۔
ایسے لوگوں کے متعلق شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’میں نے روزوں اور اس کے علاوہ دیگر مہینوں کے بارے میں لوگوں کو دیکھا کہ ان میں سے کچھ اس بات کی طرف کان دھرتے ہیں جو علمِ حساب والے جاہل بتاتے ہیں کہ چاند دِکھا یا نہیں دِکھا۔ اور پھر اسی پر باطناً یا پھر ظاہراً وباطناً دونوں طرح سے (اپنی عبادت کی) بنیاد رکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ مجھے یہ خبر ملی کہ قاضیوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے بہت سے عادل گواہوں کی گواہی کو مسترد کردیا محض ایک جاہل جھوٹے حساب دان کی وجہ سے کہ چاند دکھا یا نہیں دکھا، لہذا اس فعل کی وجہ سے وہ ان لوگوں میں سے ہوگیا کہ جس نے حق بات آنے پر اسے جھٹلایا‘‘۔
آگے چل کر شیخ الاسلام فرماتے ہیں:
’’دینِ اسلام میں سے یہ بات ہم بدیہی طور پر جانتے ہیں کہ رؤیت ہلال کے معاملے میں چاہے وہ روزوں سے متعلق ہو، یاپھر حج، عدت، ایلاء وغیرہ جیسے احکام جو رؤیت ہلال سے مربوط ہیں میں حساب دانوں کی خبر پر اعتماد جائز نہیں کہ وہ دِکھا یا نہیں دِکھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس بارے میں بہت سے نصوص مروی ہیں، اور اس بات پر مسلمانوں کا اجماع بھی ہوچکا ہے، اسی لئے ہمیں قدیم یا جدید اس میں اصلاً کوئی اختلاف معلوم نہیں‘‘۔
ان جاہلوں کا یہ قول دین میں بدعت شمار کیا جائے گا، کیونکہ:
1- یہ اس چیز کے مخالف ہے جس کا حکم اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرمایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:
’’مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ ‘‘[6]
(جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا امر نہیں تو وہ مردود ہے)۔
2- اس میں عادل لوگوں کی گواہی پر طعن ہے اور انہیں کذب وزور سے متصف کرنا ہے۔
3- اس میں عوام کے افکار کو پراگندہ کرنا ہے اور مسلمانوں میں تشویش پیدا کرنا ہے۔
4- اس میں شرعی قاضیوں پر طعن ہے اور ان پر گواہوں کی گواہی قبول کرنے کی وجہ سے تساہل و سستی کی تہمت ہے۔
5- اس میں ان کے جاری کردہ حکم کو باطل قرار دینا ہے۔
6- اس میں مسلمانوں کے حکمرانوں پر بھی طعن ہے جو قاضیوں کے فیصلوں کو نافذ کرتے ہیں، اور اس کے بموجب لوگوں کو روزے یا عید کا حکم دیتے ہیں۔
پس وہ ایسی باتیں کرتے ہیں حالانکہ اسے مان لینے میں ان مندرجہ بالا تمام خطرات کا سامنا ہے اور ان سے بڑھ کر مسلمانوں کے روزے اور عید کو خطرے میں ڈالنا ہے کیونکہ حساب دانوں کے عمل میں غلطی کا امکان ہے، وہ بالآخر ایک بشری کاوش ہی ہے، جو غلطیوں سے پاک نہیں۔ اگر بالفرض ہم تسلیم کرلیں کہ ان کا یہ طریقہ صحیح ہے اور غلطیوں سے بالکل پاک ہے پھر بھی اس میں تنگی اور حرج ہے کیونکہ یہ حساب اور فلکیات ہر کوئی نہیں جانتا، نیز اس کے ماہرین ہر زمان ومکان میں دستیاب بھی نہیں ہوتے لہذا اگر اس کی صحت فرض بھی کرلی جائے تو بھی بہت بعید از عمل ہے۔
جبکہ ہمارا دین تو سہولت اور آسانی کا دین ہے الحمدللہ۔ اس میں کوئی تنگی نہیں، اسی لئے مسلمانوں کی ان کے روزے اور عید کے لئے ایسی واضح علامت کی طرف رہنمائی فرمائی جسے ہر کوئی اور ہر زمان ومکان میں، شہر ہو یا دیہات، جماعت یا افراد، متعلمین ہو یا عام عوام الحمدللہ بہت آسانی سے جان سکتا ہے۔ اے مسلمانو! ہرگز بھی اس سے دھوکے میں نہ آنا کیونکہ یہ شذوذ ومعاشرے سے الگ انوکھی رائے اختیار کر نا ہے اور ایسی شریعت سازی کرنا ہے جس کی اللہ تعالی نے اجازت نہیں دی۔
مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ روزہ رکھو اور ان ہی کے ساتھ عید مناؤ؛ جیسا کہ آپ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو اس بات کا حکم دیا ہے:
’’صَوْمُكُمْ يَوْمَ تَصُومُونَ، وَفِطْرُكُمْ يَوْمَ تُفْطِرُونَ ‘‘[7]
(جس دن لوگ روزہ رکھیں تم بھی اسی دن روزہ رکھو ،اور جس دن لوگ عید منائیں تم بھی اسی دن عید مناؤ)۔
امام احمد رحمہ اللہ وغیرہ نے فرمایا:
’’يصوم ويفطر مع الإمام وجماعة المسلمين في الصحو والغيم‘‘
(روزے رکھنا اور عید منانا امام (حکومت) اور مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ ہونا چاہیے چاہے مطلع صاف ہو یا ابر آلود)۔
اور فرمایا:
’’اللہ تعالی کا ہاتھ جماعت پر ہے۔ اگر ایسا ہو کہ شعبان کی تیس تاریخ کو مسلمانوں نے چاند دیکھنے کی بہت کوشش کی مگر اسے دیکھ نہ پائے، اور انہوں نے پورے تیس دن شمار کر لیے، پھر اس کے بعد یہ معلوم ہوا کہ اس رات چاند تھا مگر نظر نہیں آیا تھا جس کی وجہ سے انہوں نے روزہ نہیں رکھا تھا، تو کوئی حرج نہیں وہ اس کی قضاء ادا کریں کیونکہ وہ معذور اور مأجور ہیں۔ لیکن اگر وہ حساب دانوں کی خبر پر روزہ رکھیں گے؛ تو وہ گنہگار ہوں گے اگرچہ صحیح بات کو پابھی لیں؛ کیونکہ انہیں جس بات کا حکم دیا گیا تھا انہوں نے اس کے علاوہ ایک کام کیا، پھر دوسری وجہ یہ کہ ان کا حساب دان کی خبر پر عمل کرنے سے یہ بھی ممکن ہے وہ روزے کے وقت سے پہلے ہی روزہ رکھ لیں، جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان سے ایک یا دو روز قبل روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے‘‘۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’ لَا تُقَدِّمُوا الشَّهْرَ بِصِيَامِ يَوْمٍ وَلَا يَوْمَيْن ‘‘[8]
(رمضان سے ایک یا دو روز پہلے روزہ مت رکھو)۔
اسی طرح سے ان کا یہ عمل یوم الشک (شک والے دن) کا روزہ بھی شمار ہوسکتا ہے جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوسرے فرمان کی مخالفت ہے:
’’فإن غم عليكم ؛ فأكملوا عدة الشهر ثلاثين ‘‘[9]
(اگر مطلع ابر آلود ہو، تو شعبان کے تیس دن مکمل کرو)۔
عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’مَنْ صَامَ الْيَوْمَ الَّذِي يَشُكُّ فِيهِ النَّاسُ، فَقَدْ عَصَى أَبَا الْقَاسِمِ – صلى الله عليه وسلم – ‘‘[10]
(جس نے شک کے دن کا روزہ رکھا یقیناً اس نے ابو القاسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی کی)۔
اصحابِ سنن نے اسے روایت کیا اور ترمذی نے صحیح فرمایا، بخاری نے بھی تعلیقاً روایت فرمایا۔
اور کبھی ان حساب دانوں کے کہے پر عمل کرنے سے مہینے کے شروع سے روزے رکھنے میں تاخیر ہوجاتی ہے۔
بعض نام نہاد جدت پسند یا روشن خیال کہیں گے کہ : علم میں بہت ترقی ہوچکی ہے، اور ان کے ہاں علم سے مراد صناعت وحرفت میں ترقی، نئی ایجادات اور علم ِفلکیات وغیرہ ہے۔ کہتے ہیں کہ علمِ حساب ترقی کرچکا ہے اور ایک حساب دان آسانی سے بتا سکتا ہے چاند دِکھا یا نہیں دِکھا۔ پس ایسے لوگوں کو ہم جواب دیں گے:
اولاً: علمِ حساب قدیم دور سے ہی موجود ہے، لیکن شارع نے اس کی جانب لوگوں کو نہیں پھیرا کیونکہ اس میں غلطی اور اختلاف کا امکان ہے، یہی وجہ ہے کہ دیکھا گیا ہے یہ حساب دان کبھی بھی آپس میں متفق نہیں ہوتے۔
ثانیاً: عبادات توقیفیہ (وحی الہی کے تابع) ہوتی ہیں جس کا دارومدار امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر ہوتا ہے، شارع نے رؤیت ہلال پر روزے رکھنے اور عید منانے کا حکم دیا ہے ، اور ساتھ ہی بنارؤیتِ ہلال کے روزے شروع کرنے اور عید منانے سے منع فرمایا ہے، اور عدمِ رؤیت کی صورت میں پورے تیس دن مکمل کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ بندوں پر آسانی ہو، اور شکوک واوہام کا ازالہ ہو، اسی لیے ایسی واضح ومحسوس چیز سے اس حکم کو معلق کیا کہ جس میں اختلاف کی کوئی گنجائش ہی نہ ہو۔
البتہ ایسے جدید آلات استعمال کرلینے میں کوئی مانع نہیں جو رؤیتِ ہلال کے لیے معاون ثابت ہوں جیسے دوربین، مائکرو اسکوپس، خوردبین وغیرہ اگر یہ بلاتکلف کے حاصل ہوسکیں ۔ ہم ان کے ایجاد کرنے یا استعمال کرنے کے پابند نہیں ہیں، لیکن اگر حاصل ہوجائیں تو ان سے مدد لینے میں کوئی مانع نہیں۔
اے مسلمانو! اللہ تعالی سے ڈرو، اور اس چیز کے ہی پابند رہو جو اللہ تعالی نے تمہارے لیے مشروع کی ہے؛ کیونکہ اسی میں کفایت اور ہدایت ہے۔
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم
(میں پناہ چاہتا ہوں اللہ تعالی کی شیطان مردود سے)
﴿يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْاَهِلَّةِ ۭ قُلْ ھِىَ مَوَاقِيْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ ۭ وَلَيْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَاْتُوا الْبُيُوْتَ مِنْ ظُهُوْرِھَا وَلٰكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰى ۚ وَاْتُوا الْبُيُوْتَ مِنْ اَبْوَابِهَا، وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ﴾
(لوگ تم سے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں، کہہ دو یہ لوگوں (کی عبادت) کے وقتوں اور (موسم) حج کے (تعین) لیے ہے، اور گھروں کے پیچھے سے تمہارا آنا کوئی نیکی نہیں، بلکہ نیکی والا وہ ہے جو متقی ہو۔ اور گھروں میں تو ان کے دروازوں سے آیا کرو اور اللہ تعالی سے ڈرتے رہو، تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ)۔
( البقرة : 189 )
[1] صحیح بخاری 1909، صحیح مسلم 1083، صحیح بخاری کے الفاظ ہیں: ’’صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ، فَإِنْ غُبِّيَ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا عِدَّةَ شَعْبَانَ ثَلَاثِينَ ‘‘۔ (مترجم)
[2] صحیح بخاری 1906، صحیح مسلم 1080، صحیح بخاری کے الفاظ ہیں: ’’لَا تَصُومُوا حَتَّى تَرَوْا الْهِلَالَ، وَلَا تُفْطِرُوا حَتَّى تَرَوْهُ، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَاقْدُرُوا لَهُ ‘‘ (مترجم)
[3] ضعیف الترمذی 691۔
[4] صحیح ابی داود 2342۔
[5] صحیح مسلم 870۔
[6] صحیح مسلم 1721۔
[7] سنن دارقطنی 2160، اور اس معنی کی روایت سنن الترمذی 697 میں بھی ہے:
’’الصَّوْمُ يَوْمَ تَصُومُونَ وَالْفِطْرُ يَوْمَ تُفْطِرُونَ وَالْأَضْحَى يَوْمَ تُضَحُّونَ‘‘
(روزہ اس دن ہے جب تم لوگ روزے رکھتے ہو، عید الفطر اس دن ہے جب تم لوگ عید مناتے ہو، اور عید الاضحیٰ اس دن ہے جس دن تم لوگ قربانی کرتے ہو)
شیخ البانی نے صحیح الترمذی اسے صحیح کہا ہے۔
[8] صحیح ابی داود 2327۔
[9] تخریج گزر چکی ہے۔
[10] صحیح نسائی 2187۔
خطبۂ جمعہ سے ماخوذ