رمضان مبارک کہنے کا حکم؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’قَدْ جَاءَكُمْ شَهْرُ رَمَضَانَ، شَهْرٌ مُبَارَكٌ، افْتَرَضَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ صِيَامَهُ، يُفْتَحُ فِيهِ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ، وَيُغْلَقُ فِيهِ أَبْوَابُ الْجَحِيمِ، وَتُغَلُّ فِيهِ الشَّيَاطِينُ، فِيهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ، مَنْ حُرِمَ خَيْرَهَا فَقَدْ حُرِمَ‘‘[1]

(تمہارے پاس رمضان کا مہینہ آن پہنچا ہے، جو کہ مبارک مہینہ ہے، اللہ تعالی نے اس کا روزہ تم پر فرض قرار دیا ہے، اس میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں، اورشیطانوں کو جکڑ لیا جاتا ہے،اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار ماہ سے بہتر ہے جو اس کی خیر سے محروم رہا تو واقعی وہ محروم ہی رہا)۔

امام ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:

’’یہ حدیث ایک دوسرے کو رمضان کی مبارکباد دینے کے بارے میں اصل ہے (یعنی بنیادی حیثیت رکھتی ہے)۔۔۔‘‘[2]۔

اور مسلمان آپس میں اس ماہ مبارک کی ایک دوسرے کو مبارکباد وبشارت دیتے چلے آئے ہیں، کیونکہ کسی خاص موقع وموسم کی مبارکباد دینا عادات کے باب سے تعلق رکھتا ہے اور اہل علم کے یہاں یہ شرعی قاعدہ مشہور ہے کہ:

’’أن الأصل في العادات الإباحة فلا ينكر منها إلا ما نهى عنه الشارع‘‘

(بلاشبہ عادات کے بارے میں اصل اباحت یعنی جائز ہونا ہے، ان میں سے کسی پر نکیر نہیں کی جائے گی سوائے اس کے جس سےشارع نے منع فرمایا ہے)۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ بدعت کے تعلق سے مشہور حدیثِ عائشہ رضی اللہ عنہا کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ‘‘

(جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی بات ایجاد کی جو اس میں نہیں تھی تو وہ مردود ہے)

اسے بخاری ومسلم نے روایت کیا، اور صحیح مسلم کی ایک روایت کے الفاظ ہیں:

’’مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ‘‘

(جس کسی نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں تو وہ مردود ہے)۔

آپ رحمہ اللہ نے فرمایا سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ فلاں کام عبادت ہے یا عادت، مثلاً اگر کوئی اپنے دوست کو جو مرتے مرتے بچا ہو کہے کہ: ماشاء اللہ تمہیں مبارک ہو۔ تو اسے کوئی شخص یہ کہہ دے کہ یہ تو بدعت ہے! دراصل یہ قول صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ امور عادات میں سے ہے نہ کہ عبادات میں سے۔اور خود شریعت میں اس کی دلیل موجود ہے کہ ایک طویل حدیث میں ہے  جب سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ[3] کی توبہ قبول ہوئی تھی  تو سب انہیں مبارکباد دے رہے تھے۔ لہذا بہت سی مبارکبادیں جو لوگوں کے درمیان رائج ہیں ان کے بارے میں کوئی بغیر دلیل کے یہ گمان نہ کرے کہ یہ بدعت ہیں ، کیونکہ یہ امور عادات میں سے ہے ناکہ عبادات میں سے۔  جیسا کہ کوئی شخص امتحان میں کامیاب ہوجائے تو اس کا ساتھی اسے کہتا ہے مبارک ہو۔ اس پر جو یہ کہے کہ یہ بدعت ہے تو اسے اس کا حق حاصل نہیں۔ اور اگر کسی پر کسی عمل کا حکم مشتبہ ہوجائے کہ آیا یہ عادت ہے یا عبادت تو اصل یہی ہے کہ وہ عادت ہے جب تک دلیل نہ ہو اسے عبادت ثابت کرنے کی[4]۔


[1] رواه الإمام أحمد في المسند ، والنسائي في سننه، قال العلامة الألباني :صحيح . انظر صحيح الترغيب 1/490۔

[2] لطائف المعارف (1/158).

[3]ان تین صحابہ کے مشہور قصے کی طرف اشارہ ہے کہ جو جہاد سے پیچھے رہ گئے تھے پھر اللہ تعالی نے ان سے بائیکاٹ کرلینے کا حکم نازل فرمایا اور آخرکار تقریباً پچاس راتوں کے بعد ان کی توبہ کی قبولیت کی آیات نازل ہوئیں۔ (مترجم)

 [4]مجموع فتاوى ورسائل الشيخ العثيمين رحمه الله وغفر له المجلد الخامس.

ترجمہ و ترتیب: طارق بن علی بروہی