نماز تراویح کی رکعات کی تعداد

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال : تراویح  کی رکعات کی تعداد کے تعلق سے سنت کیا ہے؟ اور کیا ایک مسلمان کے لیے یہ افضل ہے کہ وہ گیارہ رکعات پڑھے یا تیرہ رکعات، یا پھر اس کے لیے افضل ہے کہ وہ  رمضان المبارک  کی راتوں میں مختلف تعداد میں پڑھتا رہا، یا پھر ایک ہی طرح سے پڑھنے پر اکتفاء کرے، آپ کی اس کے بارے میں کیا رائے ہے  جو اس پر اضافہ کرتا ہے جیسے تیئس رکعات یا اس سے کم و بیش؟

جواب از شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز  رحمہ اللہ :

نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے وہ کچھ ثابت ہے کہ جو رات کی نماز میں وسعت پر اور معینہ رکعات کی تعداد کی عدم حدبندی پر دلالت کرتا ہے۔ اور سنت یہ ہے کہ ایک مومن اسی طرح سے ایک مومنہ دو دو رکعتیں کرکے پڑھیں اور ہر دو رکعتوں کے بعد سلام پھیرے۔ اس بارے میں وہ حدیث ہے جو صحیحین میں ابن عمر  رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے کہ نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

”صَلَاةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى، فَإِذَا خَشِيَ أَحَدُكُمُ الصُّبْحَ صَلَّى رَكْعَةً وَاحِدَةً تُوتِرُ لَهُ مَا قَدْ صَلَّى“[1]

(رات کی نماز دو دو رکعت ہیں، او راگر تم میں سے کسی کو خدشہ ہو صبح ہوجانے کا تو وہ (آخر میں) ایک رکعت پڑھ لے، تو  وہ جتنی نماز پڑھ چکا یہ اسے وتر بنادی گی)۔

پس یہاں آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا یہ فرمانا کہ:

”صَلَاةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى “

(رات کی نماز دو دو رکعت ہیں)۔

یہ خبر بمعنی امر (حکم) کے ہے۔ یعنی رات میں دو دو رکعت کرکے پڑھو۔ اور ”مَثْنَى مَثْنَى“ کا معنی ہےہر دو رکعتوں کے بعد سلام پھیرو۔ پھر ایک رکعت کے ساتھ اسے ختم کرو جو کہ وتر ہے۔ اس طرح آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کیا کرتے تھے کہ رات میں آپ دو دورکعت کرکےپڑھتے  پھر ایک رکعت کے ساتھ وتر پڑھتے، جیسا کہ عائشہ و ابن عباس اورصحابہ کی  ایک جماعت  رضی اللہ عنہم  نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے روایت کیا ہے۔

عائشہ  رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں:

” كان رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم يصلي من الليل عشر ركعات يسلم من كل اثنتين، ثم يوتر بواحدة “

(رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  رات کو دس رکعات پڑھتے جن میں ہر دو رکعتوں کے بعد سلام پھیرتے، پھر ایک رکعت کے ساتھ وتر پڑھتے)۔

اور آپ  رضی اللہ عنہا  نے فرمایا:

” مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلَاثًا “([2])

(رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  رمضان ہو یا رمضان کے علاوہ گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہيں پڑھتے تھے۔ آپ چار رکعات پڑھتے ان کے حسن اور طوالت کا مت پوچھو! پھر چار پڑھتے ان کے حسن اور طوالت کا مت پوچھو! پھر تین رکعات پڑھتے)۔

بعض لوگوں کا یہ گمان ہے کہ یہ جن چار رکعتوں کا ذکر ہے تو وہ ایک سلام کے ساتھ پڑھی گئی ہيں حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ بلکہ ان کی مراد یہی ہے کہ وہ ہر دو رکعتوں کے بعد سلام پھیرتے تھے جیسا کہ آپ  رضی اللہ عنہا  ہی کی سابقہ روایت میں آیا ہے۔ اور آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے اس فرمان کے بموجب بھی کہ:

”صَلَاةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى “

 (رات کی نماز دو دو رکعت ہیں)۔

اور الصحیح میں ابن عباس  رضی اللہ عنہما  کی حدیث سے بھی ثابت ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ہر دو رکعتوں کے بعد سلام پھیرتے تھے۔

اور آپ  رضی اللہ عنہا  کا یہ فرمانا کہ:

(رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  رمضان ہو یا رمضان کے علاوہ گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہيں پڑھتے تھے)۔

یہ دلالت کرتا ہے کہ رات کی نماز میں افضل یہ ہے خواہ رمضان ہو یا اس کے علاوہ کہ گیارہ رکعات  پڑھی جائیں، جن میں ہر دو رکعتوں کے بعد سلام پھیرا جائے او ر ایک رکعت کے ساتھ وتر پڑھا جائے۔ اور آپ  رضی اللہ عنہا  ہی سے ثابت ہے اور آ پ  کے علاوہ دیگر سے بھی ثابت ہے کہ کبھی آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  تیرہ رکعات بھی پڑھ لیا کرتے تھے۔ تو یہ وہ افضل بات ہے جو وارد ہوئی ہے، اور صحیح ترین بات جوآپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے منقول ہے وہ وتر سمیت تیرہ رکعتیں ہیں یا گیارہ رکعتیں۔ لہذا افضل گیارہ رکعتیں ہيں اور اگر وتر سمیت تیرہ رکعتیں بھی پڑھتا ہے  تو یہ بھی سنت اور اچھی بات ہے۔اور یہ تعداد لوگوں کے لیے زیادہ آسان اور امام کے لیے بھی اپنے رکوع و سجود وقرأت میں خشوع ،ترتیل قرأت و تدبر قرآن  اور ہر چیز میں عدم عجلت اختیار کرنے میں معاون ہے۔

اور اگر کوئی وتر سمیت تیئس رکعتیں پڑھتا ہے جیسا کہ عمر اور دیگر صحابہ  رضی اللہ عنہم  نے رمضان کی بعض راتوں میں کیا تھا تو بھی کوئی حرج نہيں اس بارے میں وسعت ہے۔ اور یہ بات عمر اور دیگر صحابہ  رضی اللہ عنہم  سے ثابت ہے کہ وہ  وتر سمیت گیارہ رکعتيں پڑھتے تھے جیسا کہ حدیث عائشہ  رضی اللہ عنہا  میں آیا ہے۔ چناچہ عمر  رضی اللہ عنہ  سے یہ بھی ثابت ہے اور وہ بھی۔ یعنی آپ  رضی اللہ عنہ  سے ثابت ہے کہ آپ نے صحابہ میں سے جنہيں نما ز پڑھانے پر متعین کیا تھا تو انہيں حکم دیا کہ وہ گیارہ رکعتیں پڑھائیں، اسی طرح سے ان لوگوں نے آپ  رضی اللہ عنہ  کے ہی حکم سے تیئس رکعتیں بھی پڑھیں۔ تو یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس بارے میں وسعت ہے۔ اور صحابہ  رضی اللہ عنہم  کے نزدیک اس بارے میں کافی وسعت وگنجائش تھی، جیسا کہ فرمان نبوی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  بھی اس پر دلالت کرتا ہے کہ:

(رات کی نماز دو دو رکعت ہیں)۔

لیکن افضل یہی ہے کہ جو آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا فعل تھا  کہ گیارہ یا تیرہ رکعات۔ اور یہ بات پہلے گزر چکی ہے کہ افضل گیارہ رکعات ہيں عائشہ  رضی اللہ عنہا  کے اس قول کی بنا پر کہ:

(رمضان ہو یا اس کے علاوہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  گیارہ رکعات سے زیادہ نہيں پڑھا کرتے تھے)۔

اس کا مطلب ہے غالبا ً یا زیادہ تر ایسا ہوتا تھا۔

اسی لیے آپ  رضی اللہ عنہا  ہی سے ثابت ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  تیرہ رکعات بھی پڑھتے تھے اور آپ  رضی اللہ عنہا  کے علاوہ بھی دیگر سے ثابت ہے۔ لہذا یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آپ  رضی اللہ عنہا  کی مراد غالب یا اکثر اوقات ہے۔ اور آپ  رضی اللہ عنہا  اسی بات پر مطلع ہوتیں جو آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ان کے یہاں رہتے ہوئے کرتے اور آپ  رضی اللہ عنہا  نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے پوچھا کرتیں، کیونکہ بلاشبہ آپ تمام عورتوں میں سب  سے زیادہ سنت رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا علم و فقہ  رکھنے والی تھیں۔ تو آپ  رضی اللہ عنہا  اسی بات کی خبر دیتیں جو آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ان کے یہاں کرتے اور جو آپ دیکھتیں، ساتھ ہی دیگر امہات المؤمنین اور صحابہ  رضی اللہ عنہم  سے بھی سوال کیا کرتیں اور علم کی حرص رکھتیں۔ اسی لیے آپ  رضی اللہ عنہا  نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے بہت عظیم علم اور کثیر احادیث حفظ فرمائيں، جس کا سبب آپ کا عظیم حافظہ اور دیگر صحابہ  رضی اللہ عنہم  سے سوال کرنا ان باتوں کے تعلق سے جو انہوں نےحفظ کی ہوتیں۔

اگر انسان مختلف طریقوں سے بدل بدل کر پڑھنا چاہے جیسے بعض راتوں میں گیارہ اور بعض میں تیرہ تو اس میں بھی کوئی حرج نہيں یہ سب سنت ہیں۔ لیکن چار رکعتیں ملا کر (ایک سلام سے) پڑھنا یہ جائز نہيں۔ بلکہ سنت اور واجب یہ ہے کہ دو دو رکعت کرکے پڑھا جائے کیونکہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

(رات کی نماز دو دو رکعت ہیں)۔

اور یہ خبر بمعنی امر کے ہے۔

وتر کے تعلق سے اگر انسان پانچ رکعات وتر یا تین رکعات وتر ملا کر پڑھے یعنی ایک جلسے کے ساتھ تو اس میں بھی کوئی حرج نہيں۔ کیونکہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ایسا کیا ہے، لیکن چار رکعتیں یا چھ رکعتیں یا آٹھ رکعتیں ایک ساتھ نہ پڑھے، کیونکہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے وارد نہیں ہے۔اور یہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے اس حکم کے بھی خلاف ہے کہ رات کی نماز دو دو رکعت ہيں۔ لیکن اگر لگاتار سات یا نو رکعتیں پڑھ لے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ مگر افضل یہ ہے کہ وہ چھٹی رکعت میں پہلے تشہد کے لیے بیٹھے(اگر سات لگاتار پڑھ رہا ہے تو) یا پھر آٹھویں رکعت میں پہلے تشہد کے لیے بیٹھے (اگر نو رکعات لگاتار پڑھ رہا ہے تو) پھر (تشہد کے بعد) کھڑے ہوکر  نماز مکمل کرے۔ یہ سب آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے ثابت ہے۔

سوال: کیا سلام پھیرنے سے پہلے؟ احسن اللہ الیک۔

جواب: ہاں سلام پھیرنے سے پہلے آٹھویں رکعت میں بیٹھے، پھر کھڑا ہو سلام پھیرے بغیر اور پھر نویں رکعت پڑھے(اور سلام پھیرے)۔ اسی طرح سے اگر لگاتار سات رکعات پڑھ رہا ہے تو پھر چھٹی میں بیٹھے۔ اور یہ بھی آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے آیا ہے کہ آپ ساتوں رکعات لگاتارہی پڑھ لیتے اور بیٹھتے نہیں، چناچہ اس بارے میں وسعت ہے۔

سوال: اگر دس ہوں اس طرح سے یعنی مثلاً گیارہ رکعات اس طرح پڑھنی ہوں تو وہ دسویں میں بیٹھے؟

جواب: میرے علم میں نہیں کہ اس بارے میں کوئی چیز وارد ہوئی ہو، یہی ثابت ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ہر دو رکعتوں کے بعد سلام پھیرتے لگاتار نہیں پڑھتے تھے۔ جو بات مجھ تک پہنچی ہے اور میں جو میں ابھی جان چکا ہوں وہ یہ کہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  لگاتار سات پڑھتے اور لگاتار نو پڑھتے، جس میں کبھی آپ چھٹی میں بیٹھتے پھر سلام پھیرے بنا کھڑے ہوتے  پھر ساتویں رکعت پڑھتے۔ یا پھر نو پڑھتے تو اس میں آٹھویں میں بیٹھتے سلام نہ پھیرتے پھر اٹھ کر نویں ادا کرتے۔ جبکہ جو گیارہ رکعات ہیں تو ان کے بارے میں مجھے نہيں یاد کہ کسی حدیث میں انہيں لگاتار پڑھنے کا ذکر ہو۔ اور اس بارے میں حجت وہ روایت ہوگی اگرثابت ہوجائے کسی طرق سے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اسے بھی لگاتار پڑھا ہے تو پھر یہ جائز ہوگا۔

سوال: اب بعض آئمہ  کبھی کبھار نمازیوں کو مشقت میں ڈال دیتے ہیں کہ وہ ان کی متابعت کریں، کیونکہ بعض (نمازی) ان میں سے(بیچ میں) جانا چاہتے ہیں؟

جواب: افضل یہی ہے جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوا کہ ہر دو رکعتوں کے بعد سلام پھیرا جائے اور ایک رکعت کے ساتھ وتر پڑھا جائے جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما  کی حدیث سے پہلے گزرا:

”صَلَاةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى، فَإِذَا خَشِيَ أَحَدُكُمُ الصُّبْحَ صَلَّى رَكْعَةً وَاحِدَةً تُوتِرُ لَهُ مَا قَدْ صَلَّى“

(رات کی نماز دو دو رکعت ہیں، او راگر تم میں سے کسی کو خدشہ ہو صبح ہوجانے کا تو وہ (آخر میں) ایک رکعت پڑھ لے، تو  وہ جتنی نماز پڑھ چکا یہ اسے وتر بنادی گی)۔

یہ افضل ہے اور یہ لوگوں کے لیے بھی آسان تر ہے۔ کیونکہ بعض لوگوں کی ایسی  ضروریات  ہوتی ہيں کہ وہ دو رکعتوں کے بعد جانا چاہتے ہيں یا دو سلاموں کے بعد یا تین کے بعد ، لہذا امام کے لیے افضل اور اولیٰ  یہی ہے کہ وہ دو دو رکعتیں کرکے پڑھے لگاتار پانچ یا سات نہ پڑھے، اور اگر کبھی کبھار ایسا کرلیتا ہے تاکہ معلوم ہو لوگوں کو کہ یہ سنت ہے تو اس میں کوئی حرج نہيں۔

سوال:  اگر وتر کو دو جفت رکعتوں کے ساتھ ملا کر پڑھنا ہو (یعنی تین رکعت وتر پڑھنا ہو) تو کیا اسے نماز مغرب کی طرح (یعنی دو رکعتوں کے بعد تشہد پھر کھڑے ہوکر تیسری رکعت) پڑھنا مشروع ہے؟

جواب: نہيں ایسا نہيں کرنا چاہیے۔ کم سے کم بھی اس کا حکم مکرو ہ ہونے کا ہے، کیونکہ حدیث میں مغرب کی نماز کے مشابہ وتر پڑھنے سے منع کیا گیا ہے([3])۔ اسے چاہیے لگاتار تین رکعات پڑھے ایک ہی سلام سے اور ایک ہی جلسے سے۔

سوال: الا یہ کہ وہ پانچ یا سات پڑھنا چاہے؟

جواب: جی۔

سوال: تو کیا اب آپ کی رائے میں افضل یہ ہے کہ آئمہ  مختلف طریقوں سے پڑھیں (کبھی کتنی تعداد کبھی کتنی) یا ایک ہی طریقے گیارہ رکعتوں پر اکتفاء کیا جائے؟

جواب: میرے خیال سے اس میں کوئی حرج نہيں۔ اگر بعض راتوں میں وہ گیارہ پڑھتا ہے  اور بعض میں تیرہ تو اس میں کوئی حرج نہیں۔رات کی نماز کے بارے میں وسعت پائی جاتی ہے، لیکن اگر وہ محض گیارہ ہی پر اکتفاء کرتا ہے تاکہ سنت کو ثابت رکھے اور لوگوں کو معلوم کروادے کہ اس کی نماز اسی  طرح ہے تاکہ کہیں انہیں کبھی یہ گمان نہ ہوجائے کہ وہ بھول گیا ہے، تو اس میں کوئی حرج نہيں(یعنی عادۃً جتنی پڑھاتا ہے اس سے کم زیادہ کرنے لگے تو نمازی سمجھے شاید وہ بھول گیا ہے)۔

سوال: پھر بعض نمازی یہ سمجھتے ہیں کہ بس یہی (گیارہ رکعات) سنت ہے، لہذا جب وہ ایسی مساجد میں آتے ہيں  جہاں تیئس یا تئیس سے بھی زیادہ رکعات پڑھائی جاتی ہیں تو وہ بس گیارہ یا دس رکعات پڑھتے ہيں اور امام کے ساتھ مکمل نہیں کرتے؟

جواب: سنت تو امام کے ساتھ مکمل کرنا ہے اگرچہ وہ تیئس رکعات ہی کیوں نہ پڑھائے کیونکہ نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا فرمان ہے:

”مَنْ قَامَ مَعَ الْإِمَامِ حَتَّى يَنْصَرِفَ كَتَبَ اللَّهُ لَهُ قِيَامَ لَيْلَةٍ “([4])

(جس نے امام کے ساتھ  قیام کیا یہاں تک کہ وہ نماز سے پھرا (مکمل کرلی) تو اس کے لیے اللہ تعالی پوری رات کا قیام لکھتا ہے)۔

او ردوسرے الفاظ ہیں:

”بَقِيَّةَ لَيْلَتِهِ “([5])

(اس کی باقی کی رات کا قیام بھی لکھ دیتا ہے)۔

چناچہ ایک مقتدی کے لیے افضل ہے کہ وہ امام کے ساتھ قیام کرے جب تک وہ نماز مکمل نہ کرلے خواہ وہ گیارہ رکعات پڑھے یا تیرہ یا تیئس یا اس کے علاوہ۔ یہ افضل ہے کہ امام کی متابعت کی جائے اور وہ امام کے ساتھ رہے جب تک وہ نماز مکمل نہ کرلے۔ تیئس رکعات پر بھی عمر  رضی اللہ عنہ  اور دیگر صحابہ  رضی اللہ عنہم  نے عمل کیا ہے، اس میں کوئی نقص  اور خلل نہيں بلکہ یہ سنتوں میں سے ہے اور خلفائے راشدین کی سنت میں سے ہے۔

(الجواب الصريح عن صلاة التراويح)

شیخ محمد بن صالح العثیمین  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

ہم یہاں کہیں گے کہ: ہمارے لیے لائق نہيں کہ ہم غلو کریں یا افراط و تفریط سے کام لیں۔ کیونکہ بعض لوگ اس طور پر غلو کرتے ہيں کہ سنت (تراویح) کو معین عدد کے ساتھ محدود کرتے ہيں، اس طور پر کہ کہتے ہیں: اس خاص عدد سے جو سنت میں آئے ہیں زیادہ پڑھنا جائز ہی نہيں ہے، اور شدت کے ساتھ رد و انکار کرتے ہيں ان کا جو اس سے زیادہ پڑھتے ہيں، اور کہتے ہيں وہ نافرمان و گنہگار ہے۔

اور بے شک یہ ایک غلطی ہے۔ آخر وہ کیسے نافرمان وگنہگار ہوسکتا ہے جبکہ خود نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے رات کی نماز کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: دو دو کرکے پڑھو۔ یہاں کسی عدد کی تحدید نہيں کی۔ اور یہ بات تو معلوم ہے کہ جو رات کی نماز کے بارے میں پوچھ رہاتھا اسے تعداد کا تو علم ہی نہيں تھا۔ کیونکہ جسے کیفیت کا ہی علم نہیں تھا تو اس کا تعداد سے لاعلم ہونا تو بالاولیٰ بات ہے۔ اور وہ شخص رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے خادموں میں سے بھی نہيں تھا کہ ہم کہیں کہ وہ جانتا تھا جو آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے گھر کے معمولات تھے۔ پس جب نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اس کے سامنے نماز کی کیفیت بنا رکعتوں کی تحدید کے ذکر فرمادی تو یہ بات معلوم ہوئی کہ اس بارے میں وسعت پائی جاتی ہے۔اور ایک انسان چاہے تو سو رکعات بھی پڑھ سکتا ہےپھر اسے ایک رکعت سے وتر کردے۔

اور جہاں تک یہ فرمان نبوی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ہے کہ:

”صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي “([6])

 (نماز ایسے پڑھو جیسے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو)۔

تویہ خود ان لوگوں کے نزدیک بھی اپنے عموم پر نہيں ہے، یہی وجہ ہے کہ خود یہ لوگ  کسی انسان پر یہ واجب نہيں کرتے کہ وہ کبھی پانچ رکعات، کبھی سات اور کبھی نو رکعات وتر لگاتار پڑھے۔ اگر ہم واقعی اس  کا عموم لیں تو ہمیں کہنا پڑے گا کہ واجب ہے کہ انسان کبھی پانچ، کبھی ساتھ اور کبھی نو رکعات لگاتار وتر کی پڑھے۔ بلکہ اس فرمان نبوی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ”نماز ایسے پڑھو جیسے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو“سے مراد ہے کہ کیفیت میں اس کی پیروی کرو، البتہ جو تعداد ہے اس میں نہیں الا یہ کہ کوئی نص موجود ہو اس کی تحدید کی۔

بہرحال کسی انسان کے یہ لائق نہيں کہ وہ ایسی بات میں لوگوں پر تنگی وسختی کرے جس میں وسعت و کشادگی پائی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ ہم نے بعض بھائیوں کو دیکھا  جو اس بارے میں تشدد کرتے ہیں اور ان آئمہ کو بدعتی قرار دیتے ہيں جو گیارہ رکعات سے زیادہ پڑھیں تو وہ لوگ مسجد سے نکل جاتے ہیں اور ان سے وہ اجر فوت ہوجاتا ہے جس کا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ذکر فرمایا کہ:

” مَنْ قَامَ مَعَ الْإِمَامِ حَتَّى يَنْصَرِفَ كُتِبَ لَهُ قِيَامُ لَيْلَةٍ “([7])

(جس نے امام کے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ اس نے نماز مکمل کی تو اس کے لیے پوری رات کا قیام لکھا جاتا ہے)۔

اور کبھی وہ دس رکعات پڑھ کر بیٹھ جاتے ہيں اور ان کے بیٹھنے کی وجہ سے صفیں کٹتی ہيں، یا پھر باتيں شروع کردیتے ہيں جس سے نمازیوں کو تشویش ہوتی ہے۔

ہمیں اس بارے میں کوئی شک نہيں کہ وہ خیر کا ارادہ رکھتے ہيں، اور مجتہد ہیں، لیکن ہر مجتہد صواب کو نہيں پاتا۔

اب دوسری طرف کو دیکھیں: ان کے برعکس وہ لوگ ہيں جو ان لوگوں پر انکار و رد کرتے ہيں جو گیارہ رکعات پر اکتفاء کریں اور بڑا شدید قسم کا انکار و رد کرتے ہيں۔ اور کہتے ہیں: وہ اجماع سے نکل چکے ہیں ،جبکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِهٖ جَهَنَّمَ ۭ وَسَاۗءَتْ مَصِيْرًا﴾ 

(جو کوئی ہدایت کے واضح ہوجانے کے بعد بھی رسول کی مخالفت کرے اور مومنوں کی راہ چھوڑ کر کوئی اور راہ چلے، تو ہم اسےوہیں پھیر دیں گے جہاں وہ خود پھرا اور اسے جہنم پہنچا دیں گے اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے)

(النساء: 115)

اور کہتے ہیں: تم لوگوں سے پہلے کوئی بھی سوائے تیئس رکعتوں کے جانتا ہی نہ تھا، پھر وہ انکار اور نکیر کرنے میں تشدد سے کام لیتے ہيں، اور یہ بھی غلطی ہے، صحیح بات نہيں ہے۔

لیکن اگر بالفرض ہم ایک ایسے ملک میں ہیں جہاں کہ لوگ سوائے تئیس رکعتوں کے کچھ جانتے ہی نہيں تو پھر یہ حکمت میں سے نہیں کہ  ہم ان سے محاذ آرائی کرتے ہوئے پہلی ہی رات گیارہ رکعتیں  پڑھنا شروع کردیں۔ بلکہ ہم تئیس ہی رکعتیں پڑھیں گے اور پھر ان کے سامنے بیان کریں گے جو کچھ سنت میں آیا ہے اور یہ کہ گیارہ رکعتیں پڑھنا افضل ہے، پھر ان سے پوچھیں گے آپ کیا کہتے ہیں؟ کیا ہم  اطمینان اور کسی قدر طویل رکوع و سجود کے ساتھ اس (مسنون) عدد پر اکتفاء کریں تاکہ ہم دعاء اور ذکر کی کثرت کرپائيں، یا پھر آپ کے خیال میں ہمارا جو حال ہے اسی طرح رہے۔ اس صورت میں یا تو وہ ان کی موافقت کریں گے یا مخالفت یا آپس میں ان کا اختلاف ہوجائے گا، کیا ایسا نہیں؟ ان کا حال ان تینوں صورتوں سے خالی نہيں ہوگا۔

اب اگر ان کی اکثریت یہ رائے رکھتی ہو ہم اس کی موافقت نہیں کرسکتے، ہمیں چھوڑ دیں اسی پر جس پر ہمارے آباء و اجداد تھے، تو پھر ہم اس صورت میں کیا کریں گے؟ جیسا تھا ویسا ہی چلنے دیں گے کیونکہ بلاشبہ اس معاملے میں تو وسعت پائی جاتی ہے۔  اور جیسا کہ ہمارا یہ معاملہ ان کی تالیف قلب کے لیے ہے تو اس میں خیر ہے، لیکن مایوس نہ ہوں، اس کوشش کو پھر سے دہرائيں، کوئی مسئلہ نہيں۔ اگر وہ انکار کرتے ہيں اورتیئس رکعتوں پر ہی  مصر رہتے ہیں یعنی ان کے ساتھ وہ اسلوب اختیار کریں جو حکمت کے ساتھ  انہیں بات منوا لے۔ اگر اس سب کے باوجود وہ تئیس رکعتوں کے سوا انکاری ہی بنے رہیں تو بس اللہ تعالی پر توکل کریں اور جو وہ چاہتے ہیں انہیں دے دیں۔

لیکن ہاں اس نہایت درجے تیزی سے بچیں جو بعض آئمہ رکوع و سجود میں کرتے ہيں یہاں تک کہ ایک ہٹا کٹا جوان بھی امام کی متابعت (پیروی) کرنے میں ناکام ہوجاتا ہے، حالانکہ وہ جوان ہوتا ہے؟ تو پھر اس سے اندازہ لگائيں کسی عمر رسیدہ یا مریض شخص یا ان جیسے دیگر لوگوں کا کیا حال ہوتا ہوگا جب یہ جوان اس کے ساتھ چلنے میں ناکام ہورہا ہے۔ مجھے ایک قابل اعتماد شخص نے بتایا کہ وہ رمضان کی راتوں میں سے ایک رات کسی مسجد میں داخل ہوا جبکہ امام نماز تراویح میں تھا اور اس امام کی متابعت کرنے میں وہ ناکام ہوگیا حالانکہ وہ بالکل جوان اور پھرتیلا تھا۔ کہتا ہے کہ مجھے یوں لگا جیسے میں اس کے ساتھ کسی انگارے پر نماز پڑھ رہا ہوں۔ پھر جب میں رات کو سویا تو میں نے (خواب میں) دیکھا جیسا کہ میں اسی مسجد میں داخل ہوا ہوں اور کیا دیکھتا ہوں کہ اندر لوگ رقص کررہے ہيں، جی ہاں! رقص کررہے ہيں کیونکہ بلاشبہ اس طرح (تیزی تیزی) سے  تو رقص ہی ہوتا ہے۔

میرا مقصد اس بات سے یہ ہے کہ بلاشبہ بعض آئمہ (اللہ سے ہم اپنے اور ان کے لیے ہدایت طلب کرتے ہیں) تراویح سے کھیل رہے ہوتے ہیں۔ رکعت کی تعداد کے بارے میں تو مصر رہتے ہیں حالانکہ وہ سنت ہے بلکہ تحدید کرنا تو خلاف سنت ہے۔ بہرحال سنت گیارہ رکعتیں (کہتے ہیں) مگر ساتھ ہی وہ واجب کی ادائیگی میں کوتاہی کا شکار ہوتے ہیں۔ اور بہت تیزی سے پڑھتے ہیں۔ اور علماء  رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ امام کے لیے مکروہ ہے کہ وہ اتنی تیزی سے پڑھے جس کی وجہ سے مقتدی کوئی سنت ادا نہ کرسکے، اور اگر اتنی تیزی سے پڑھے کہ مقتدی واجب نہ ادا کرسکے تو وہ حرام ہے۔ کیونکہ امام امانت دار ہوتا ہے اور امانت دار کو چاہیے  کہ جن کی امانت اس کے سر ہے ان کے حالات کا لحاظ کرے ، چنانچہ اتنی تیزی سے نماز پڑھنا کہ مقتدی واجب بھی ادا نہ کرسکیں جائز نہيں ہے۔

چلیں اگر کوئی شخص اس قسم کے امام کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہو جو اتنی تیزی سے پڑھتا ہے کہ مقتدی واجب بھی ادا نہیں کرپاتا، اطمینان کی حالت میں اس کی اقتداء کرنے سے عاجز ہوجاتا ہے، تو کیا اس کے لیے امام والی  نماز سے نکل کر اکیلے نماز پڑھنا جائز ہے؟ جواب: جی ہاں۔

بلکہ اس پر واجب ہے کہ وہ امام سے الگ ہوجائے چاہے تراویح میں ہو یا بھی فرض نماز میں۔ جی ہاں! فرض نماز میں بھی، کیونکہ بسا اوقات جب آپ فرض نماز پڑھنے آتے ہيں تو پاتے ہيں کوئی لوگوں کونماز پڑھا رہا ہے، آپ کی نماز (باجماعت) فوت ہوچکی تھی تو آپ ان کے ساتھ شامل ہوگئے، لیکن آپ پاتے ہیں کہ وہ اتنی تیزی سے نماز پڑھا رہا ہوتا ہے کہ آپ اس کے ساتھ واجب تک ادا کرنے سے ناکام رہتے ہیں تو اس حال میں ہم یہ کہیں گے کہ اس سے الگ ہوجائیں اور انفرادی نماز کی نیت کرلیں، اور اکیلے ہی نماز کو پورا کریں، کیونکہ بلاشبہ اب آپ کے لیے ان دو باتوں کو ساتھ جمع کرنا ممکن ہی نہ رہا کہ یا تو امام کی پیروی کریں یا پھر اطمینان سے اپنی نماز کے ارکان ادا کرپائيں، دو میں سے صرف ایک بات ہی ہوسکتی ہے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شخص کے عمل کا اقرار فرمایا جو امام کی لمبی نماز پڑھانے کی وجہ سے اکیلا ہوکر پڑھنے لگا، تو پھر کسی رکن کی ادائیگی کی خاطر امام سے الگ ہوکر اکیلے پڑھنا تو بالاولی جائز ہوگا۔

(شرح الممتع على زاد المستقنع كتاب الصلاة کیسٹ 37a)

شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ فرماتے ہیں:

۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  قیام اللیل کی ترغیب دیا کرتے تھے لیکن رکعتوں کی کسی معین تعداد سے حدبندی نہيں کرتے تھے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  خود گیارہ یا تیرہ رکعات کے ساتھ  رمضان ہو یا اس کے علاوہ  قیام فرماتے تھے۔ اور صحابہ عمر  رضی اللہ عنہ  کے دور میں  تیئس رکعات نماز تراویح پڑھا کرتے تھے۔ اور علماء میں سے بعض نے اس سے زیادہ کیا اور بعض نے کم۔

جبکہ صحیح بات یہ ہے کہ اس بارے میں نماز کی نوعیت کو دیکھا جاتا ہے  پس جو نماز کو لمبا کرتا ہے تو وہ رکعات کی تعداد کو کم کردیتا ہے جیساکہ نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کیا کرتے تھے۔ اور جو نماز کو ہلکی رکھتا ہے مقتدیوں کی آسانی کی خاطر تو وہ  رکعات کی تعداد کو بڑھا دیتا ہے جیسا کہ صحابہ  رضی اللہ عنہم  کیا کرتے تھے۔۔۔انتھی کلامہ۔

(رد شبهات حول “عدد صلاة التراويح والتهجد” للعلامة الفوزان حفظه الله)


[1] صحیح بخاری 991، صحیح مسلم 749۔

[2] صحیح بخاری 1147۔

[3] ’’وَلَا تَشَبَّهُوا بِصَلاةِ الْمَغْرِبِ‘‘

(اس میں مغرب کی نماز کی مشابہت نہ کرو)

(سنن دارقطنی 1634 میں دارقطنی فرماتے ہیں اس کے تمام رجال ثقات ہیں)۔ (مترجم)

[4] أخرجه أبو داود (1375)، والترمذي (806)، والنسائي (1605) واللفظ له، وابن ماجه (1327)، وأحمد (21419) اور شیخ البانی نے صحیح النسائی 1604 میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔

[5] أخرجه أبو داود (1375)، والترمذي (806)، والنسائي (1364)، وابن ماجه (1327)، وأحمد (21419) باختلاف يسير، والبيهقي (4793) واللفظ له۔

[6] أخرجه البخاري في كتاب الأذان للمسافر إذا كانوا جماعة، الحديث رقم 631، ومسلم فى كتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب من أحق  بالإمامة، حديث رقم 674، دون قوله: ’’صلوا كما رأيتموني أصلي“.

[7] رواه الترمذي ( 806 ) وصححه الألباني في صحيح الترمذي ( 646 )۔