روزوں کا فدیہ کس طرح ادا کیا جائے؟ – شیخ صالح بن فوزان الفوزان

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال: جو پورے ماہ (رمضان) روزے نہ رکھ سکتا ہو تو اس کے روزوں کے بدلے کھانے کی صورت میں کفارہ (فدیہ) کیا اس طرح دینا جائز ہے کہ مہینے کے شروع میں یا بیچ یا آخر میں ایک ہی دن تیس مساکین کو  کھانا کھلا دیا جائے؟ اور کیا تیس سے کم مساکین کو دینا جائز ہے؟ اور کیا اس طرح جائز ہے کہ کسی کھانے کی دعوت جیسے دوپہر کی یا رات کی یا رمضان میں افطاری کی دعوت میں  تیس مساکین کو جمع کرکے کھلا دیا جائے تو کیا یہ کافی ہوگا؟

جواب: رمضان کے دنوں کا صدقہ (فدیہ)  یا پورے رمضان کا دینا جائز  ہے اس کے لیے  جو عمر رسیدہ ہو یا (مرض سے شفاء یابی کی امید نہ ہو)، تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ ان دنوں کا کفارہ پیشگی طور پر مہینے کے شروع میں ہی دے دے، اور یہ بھی جائز ہے کہ اسے مؤخر کرکے مہینے کے آخر میں دے، اسی طرح مہینے کے بیچ میں بھی دینا بھی جائز ہے۔

جیسے یہ بھی جائز ہے کہ  وہ ایک بار ہی سب کو دے دے، اور یہ بھی کہ  الگ الگ دے، اور جائز ہے کہ تیس کو دے دے اور اس کے کم کو بھی دینا جائز ہے۔ عدد کے لیے شرط نہیں ہے کہ تیس ہی ہوں جو مطلوب ہے کہ بس مساکین کی ایک تعدادکو یا فقراء کی ایک تعداد کو یا کسی ایک فقیر کو دے دے۔

البتہ کھانے پر مساکین کو جمع کرنا یعنی ایسا کھانا بنانا کہ تیس دن  کے لیے یا جتنے دن روزے نہيں رکھے ان کے لیے کافی ہوجائے، اور اس پر مساکین جمع ہوجائيں تو جمہور اس کو جائز نہيں کہتے، کیونکہ جو مطلوب ہے وہ مسکین کا اس کھانے کا پورا مالک بننا ہے چاہے تو اسے کھالے اور چاہے تو اسے بیچ دے  یا اس کے علاوہ جو کچھ وہ اس کے ساتھ کرنا چاہیں۔ پس اسے بغیر پکا کھانے کو دینا اس میں تصرف کرنے کے لحاظ سے زیادہ مفید ہے۔ جبکہ جو پکا ہوا تیار کھانا ہوتا ہے  اس سے سوائے کھانے کے کوئی فائدہ نہيں اٹھاسکتا۔

 ہاں بعض علماء کرام نے اس کی اجازت دی ہے کہ کفارے کے لیے  کھانا تیار کیا جائے اور مساکین کو جمع کرکے کھلا دیا جائے۔ لیکن جیسا کہ ہم نے ذکر کیاجمہور اس کے عدم جواز کے قائل ہيں اور اس کی علت یہ ہے کہ  مسکین اس سے مکمل طور پر فائدہ اٹھانے پر قادر نہيں ہوتا، بلکہ وہ صرف اسے کھانے کے طور پر کھا سکتا ہے جو کہ تنگ تر  فائدہ ہے بنسبت  بغیر پکے کھانا دینے کے۔ اور ایک انسان کو چاہیے کہ اپنے دین اور عبادت کے تعلق سے احتیاط اختیار کرے، لہذا اس کے لیے جائز نہيں کہ وہ رمضان کے چھوڑے روزے کے فدیے میں نقد پیسے دے۔

اسی طرح صدقۃ الفطر بھی نقدی کی صورت میں دینا  جائز نہيں، کیونکہ اللہ تعالی نے اس بارے میں باقاعدہ کھانے کا ذکر فرمایا ہے:

﴿وَعَلَي الَّذِيْنَ يُطِيْقُوْنَهٗ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِيْنٍ﴾  

(جو لوگ اس کی طاقت رکھتے ہوں ان پر فدیہ ایک مسکین کا کھانا ہے)

(البقرۃ: 184)

اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے صدقۃ الفطر کے بارے میں فرمایا:

”صَاعٌ مِنْ بُرٍّ صَاعٌ مِنْ شَعِيرٍ صَاعٌ مِنْ تَمْرٍ“([1])

 (ایک صاع گیہوں(یا)  ایک صاع جو (یا)  ایک صاع کھجور۔۔۔) اور آخر تک جو حدیث ہے۔

اور بعض روایات میں ہے:

”صَاعٌ مِنْ طَعَامٍ “([2])

(ایک صاع کھانا)۔

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اس کی صفت میں کھانا بیان کیا تو پھر بے شک اسی کا پابند ہونا واجب ہے، حالانکہ شریعت سازی کے وقت میں بھی درہم اور نقدی موجود تھے، اور شارع نے کھانے کو متعین کیا ہے۔ اگر نقد دینا جائز ہوتا تو لوگوں کے لیے اس کی وضاحت کردی جاتی، کیونکہ (یہ اصول ہے) ضرورت کے وقت سے بیان کو مؤخر کرنا جائز نہيں۔

اور یہ جائز ہے کہ (اس) صدقے کو  ایک  ملک سے کسی دوسرے ایسے قریبی ملک منتقل کیا جائے جنہیں شدید حاجت ہو۔


[1] انظر صحيح الإمام البخاري ج2 ص138 من حديث ابن عمر رضي الله عنه. وليس فيه صاع من بُر۔

[2] انظر صحيح الإمام البخاري ج2 ص138. من حديث أبي سعيد الخدري رضي الله عنه۔

ترجمہ: طارق بن علی بروہی

مصدر: كيفية إخراج كفارة الصيام إذا كانت طعامًا

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*