مساجد میں دعوتی پوسٹرز اور بورڈز کے ذریعے تجارتی اشتہار کاری کرنا

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال: آپ سماحۃ الشیخ تک میں یہ بات پہنچانا چاہتا ہوں کہ بعض دروس اور پروگراموں کے اعلانات مساجد پر لگائے جاتے ہیں جن میں انہیں ڈیزائن کرنے والے کا نام اور فون نمبر یا جنہوں نے پرنٹ کیا یا جن کے تعاون سے اسے نشر کیا گیا لکھا ہوتا ہے، جس کا مقصد مشہوری اور اشتہار کاری ہوتا ہے، پس ہم آپ سماحۃ الشیخ سے امید کرتے ہيں کہ ہمیں اس بارے میں فتویٰ دیں اور اجر و ثواب پائيں کہ اس قسم کی تشہیرکاری پر مبنی اعلانات کے پوسٹر مسجد یا اندر یا باہر یا ستونوں پر آوایزاں کرنے کا کیا حکم ہے؟

جواب از فتویٰ کمیٹی، سعودی عرب:

جائز نہیں کہ مساجد یا ان کے صحن یا اس کے ستونوں کو تجارتی اعلانات کرنے کا میدان بنالیا جائے، چاہے براہ راست یہ اعلانات مقصود ہوں یا پھر  دینی خیراتی پوسٹرز اور بورڈز کے تحت دیے ہوئے ہوں۔ کیونکہ بلاشبہ مساجد صرف اور صرف اللہ تعالی کی عبادت کے لیے بنائی جاتی ہیں جیسے نماز، ذکر، علم سیکھنا و سکھانا، تلاوت قرآن اور اس جیسے کاموں کے لیے۔

پس واجب ہے کہ مساجد کو ہر ان تجارتی امور سے پاک رکھا جائے جو اس کے لائق نہيں ، اور انہی میں سے تجارتی تشہیری اعلانات بھی ہيں۔ چاہے وہ براہ راست اشتہارات ہوں یا دینی خیراتی پوسٹرز وغیرہ کے تحت ہوں۔

نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے کہ فرمایا:

” إِذَا رَأَيْتُمْ مَنْ يَبِيعُ، أَوْ يَبْتَاعُ فِي الْمَسْجِدِ، فَقُولُوا: لَا أَرْبَحَ اللَّهُ تِجَارَتَكَ “ ([1])

 (جب تم دیکھو کسی کو مسجد میں خرید و فروخت کررہا ہے تو کہو: اللہ تیری تجارت میں منافع نہ دے)۔

اور تجارتی اعلانات کو پیش کرنا بھی تجارت ہی میں سے ہے۔

اور اللہ تعالی ہی توفیق دینے والا ہے۔

وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.([2])

سوال: احسن اللہ الیکم یا شیخ سائل کہتا ہے: مسجد میں بعض اعلانات لگانے کا کیا حکم ہے؟ جیسا کہ حج یا عمرہ قافلوں کے اعلانات، یا دروس اور تقاریر کے اعلانات، یا مسجد والوں میں سے کسی شخص کے رشتہ دار کی وفات یا اعلان یا یہ کہ وہ مریض ہے، اور وہ ہسپتال میں ہے تاکہ اس کی عیادت کی جاسکے؟

جواب از شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ:

جو اطاعت کے کام ہیں ان کے اعلان میں حرج نہیں۔ کیونکہ بے شک اطاعت کے کام سے اللہ کا تقرب حاصل ہوتا ہے اور مساجد اللہ کی اطاعت کے کاموں کے لیے ہی بنائی جاتی ہیں۔ البتہ جو دنیاوی کام ہیں تو بلاشبہ یہ جائز نہيں۔ لیکن ان کا اعلان مسجد کے باہر والی دیوار پر کیا جائے۔

جو حج قافلے ہیں  ان میں دنیوی امور کا شائبہ ہے لہذا انہیں مسجد کے اندر کرنا ہم صحیح نہیں سمجھتے۔جبکہ جو علمی حلقات اور علمی دورے ہیں تو بے شک ان کا مسجد کے اندر اعلان کرنے میں کوئی مضائقہ نہيں نہ ہی کوئی حرج ہے([3])۔

آپ ہی سے سوال ہوا: حج و عمرے کے بعض اعلانات کا مسجد کے اندر لگانے کا کیا حکم ہے؟

جواب: حج و عمرے کے اعلانات کا مسجد کے اندر لگانا جائز نہیں ہے، کیونکہ غالبا ًجو لوگ ان قافلوں کا انتظام کرتے ہیں اس سے ان کی نیت مال کمانے کی ہوتی ہے۔ لہذا یہ ایک قسم کی تجارت ہے، لیکن انہیں بجائے مسجد کے اندر ہونے  کے مسجد کے باہر دروازے کے پاس ہونا چاہیے([4])۔

سوال: بعض جنتریاں اور گھڑیاں ایسی ہوتی ہیں جن میں ان کمپنیوں کے اعلانات ہوتے ہیں جن کی جانب سے انہیں بنایا گیا ہوتا ہے، پس کیا انہیں مسجد میں داخل کرنا اشتہارکاری میں شمار ہوگا؟

جواب از شیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ:

دنیاوی تشہیر کو مسجد میں داخل کرنا جائز نہیں، اگر اس میں دنیاوی تشہیر ہے تو اسے مسجد میں داخل کرنا جائز نہیں([5])۔


[1] سنن الترمذي الْبُيُوعِ (1321) ، سنن الدارمي الصَّلاَةِ (1401). [صحیح ترمذی میں شیخ البانی نے اسے صحیح  قرار دیا ہے]

[2]  فتاوى اللجنة الدائمة – دوسرا مجموعہ، ج 5 ص 269-270۔

[3] شرح منظومة القواعد الفقهية ص/52۔

[4] مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين(24/90)

[5] ویڈیو کلپ: حكم الاعلانات الدعائية في المسجد – العلامة صالح الفوزان حفظه الله

مترجم

طارق بن علی بروہی

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*