کافروں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ

اس بارے میں رافضیوں کی حماقت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

ان کی حماقتیں بہت سی ہیں منجملہ ان حماقتوں میں سے یہ بھی ہے کہ وہ  یزید کے بنائے ہوئے کنویں میں سے نہیں پیتے حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جو ان کے ساتھ تھے وہ ان کنوؤں اور نہروں سے پی لیا کرتے تھے جو کہ کافروں نے کھودی ہوتی تھیں۔ اسی طرح سے بعض ان میں سے شامی بیری نہیں کھاتے جبکہ یہ بات معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جو آپ کے ساتھ تھے وہ کافر ممالک سے آیا ہوا پنیر کھالیا کرتے تھے اور کافروں کے سلے ہوئے کپڑے پہن لیا کرتے تھے بلکہ زیادہ تر ان کے کپڑے کافروں ہی کے سلے ہوئے تھے۔۔۔

(منہاج السنۃ 1/38)

اپنے مجموع الفتاوی 29/275 میں فرمایا کہ:

ان سے تاتاریوں کے ساتھ معاملہ کرنے کے بارے میں پوچھا گیا کہ آیا یہ مباح ہے تو آپ نے جواب ارشاد فرمایا:

 جہاں تک بات ہے تاتاریوں کے ساتھ معاملہ کرنے کی تو اس میں وہ سب جائز ہے جو ان جیسے دوسروں کے ساتھ جائز ہے اور و ہ حرام ہے جو ان جیسوں کے ساتھ حرام ہے۔  پس کسی بھی شخص کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ ان کے مویشیوں اور گھوڑوں وغیرہ میں سے خریدے جیسا کہ ترکیوں، اعرابیوں اور کرد لوگوں کے مویشی اور گھوڑے خریدتے ہیں۔ اسی طرح سے انہیں اپنی اشیاء خورونوش اور ملبوسات فروخت کرسکتے ہیں جیسا کہ ان جیسوں کو فروخت کرتے ہیں۔ لیکن جہاں تک معاملہ ہے انہیں یا ان کے علاوہ کسی کو بھی ایسی چیزیں بیچنے کا جو کہ حرام کاموں میں ان کی معاونت کرے جیسے کہ کسی ایسے کو گھوڑا یا اسلحہ فروخت کرنا جو کہ اس کے ذریعہ حرام قتل کرے گا تو یہ ناجائز ہے کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى ۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ﴾ (المائدۃ: 2)

(اور نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو اور برائی اور زیادتی میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو)۔

شیخ محمد امین شنقیطی رحمہ اللہ

شیخ محمد امین شنقیطی رحمہ اللہ اپنی مشہور تفسیر ”اضواء القرآن فی ایضاح القرآن بالقرآن“ (3/506) میں فرماتے ہیں:

باطل اقسام کی تیسری قسم یعنی نقصان دہ چیز کو لینا اور سودمند کو ترک کردینا کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

بے شک ایسا کوئی بھی شخص نہیں کرتا کہ جسے کم سے کم بھی اچھے برے کی تمیز ہو، اسی لیے عقل وفکر رکھنے والوں کے نزدیک چوتھی قسم متعین ہوجاتی ہے اور وہ ہے فائدہ مند چیز کو لینا اور نقصان دہ کو چھوڑدینا۔

اسی طرح سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا کرتے تھے جیسا کہ آپ نے غزوۂ احزاب میں خندق کھودیں حالانکہ یہ فارسیوں کا جنگی طریقہ تھا جس کی خبر  سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے آپ کو دی تھی۔ لیکن اس بات نے کہ اس کی اصل کافروں سے آئی ہے آپ کو اس پر عمل کرنے سے نہ روکا۔

اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارادہ فرمایا کہ لوگوں کو دودھ پلانی والی عورت سے جماع کرنے سے روک دیں تاکہ ان کی اولاد کو کوئی نقصان نہ پہنچے کیونکہ عرب یہ گمان کیا کرتے تھے کہ غیلہ یعنی دودھ پلانے والی سے جماع کرنا اس کی اولاد کو کمزور کردیتا ہے اور نقصان پہنچاتا ہے۔۔۔۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خبر پہنچی کہ روم وفارس والے ایسا کرتے ہیں اور ان کی اولاد کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی ا س طبی تحقیق کو لے لیا اور یہ حقیقت کہ اس کی اصل کافروں سے آئی تھی اسے لینے میں مانع نہ ہوئی۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابن الاریقط الدولی سے سفر ہجرت میں اپنے راستے کی معلومات کے سلسلے میں مدد لی حالانکہ وہ کافر تھے ۔

ان سب سے یہ دلیل واضح ہوئی کہ مغربی تمدن وترقی کے متعلق اسلام اور مسلمانوں کا فطری مؤقف یہی ہے کہ مادی اعتبار سے جو مصنوعات وایجادات ان کی ہیں انہیں حاصل کرنے کی کوشش کی جائے اور ان چیزوں سے بچا جائے جو انہوں نے خالق کائنات کی نافرمانی  کے لیے بنائی ہیں۔ اس طور پر ان کی دنیا وآخرت سنور جائے گی۔

لیکن صدافسوس کے مسلمانوں کی غالب اکثریت نے معاملے کو بالکل برعکس کردیا ہے اس طرح سے کہ ان سے اخلاقی پستی، دین بیزاری اور خالق کائنات کی اطاعت سے روگردانی لے لی اور جن باتوں میں دنیاوی مادی نفع تھا انہیں بھی حاصل نہ کیا۔ پس وہ دنیا وآخرت کے خسارے میں مبتلا ہوگئے اور یہی کھلا خسارہ ہے۔

فتویٰ کمیٹی، سعودی عرب

سوال: آجکل بہت سے لوگ امریکی مصنوعات کے بائیکاٹ کی دعوت دیتے ہیں  جیسے pizza hut اور McDonald۔۔۔کیا ہمیں ان دعوتوں پر عمل کرنا چاہیے؟ کیا دار الحرب میں کافروں کے ساتھ خریدوفروخت کرنا جائز ہے؟ یا پھر یہ صرف ہمارے ملک میں موجود معاہدین، ذمی اور مستأمن لوگوں کے ساتھ جائز ہے؟

جواب: مباح چیزوں کو خریدنا جائز ہے خواہ کہیں سے بھی آئی ہوں جب تک حکمران وقت اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کے پیش نظر ان میں سے کسی چیز کے بائیکاٹ کا حکم نہ دے۔ کیونکہ خریدوفروخت میں اصل ہر چیز کا حلال ہونا ہے جیسا کہ  اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿وَاَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ﴾ (البقرۃ: 275)

(اور اللہ تعالی نے خریدوفروخت وتجارت کو حلال قرار دیا ہے)

اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی یہود سے اشیاء خریدی تھیں۔

(برقم 21776 بتاریخ 25/12/1421ھ)

شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ

سائل کہتا ہے: احسن اللہ الیک: اگر یہ بات معلوم ہو کہ کوئی تاجر رافضی ہے اور اس کی اشیاء لوگوں میں معروف ہوں، تو کیا ہم اس سے لوگوں کو خبردار کرسکتے ہیں کہ اس سے اشیاء نہ خریدی جائیں، احسن اللہ الیک؟

پھر سائل مزید کہتا ہے: پھر کچھ ایسی اشیاء بازار میں موجود ہیں جن کے بارے میں معروف ہے کہ یہ رافضیوں کی مصنوعات ہیں کیا ہم لوگوں کو اس سے خبردار کریں کہ اس سے نہ خریدیں تاکہ یہ ان کی تقویت کا سبب نہ بنے؟

جواب: یہ بات محل نظر ہے کیونکہ کافروں سے خریدوفروخت جائز ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہود سے اشیاء خریدی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذِرہ ایک یہودی کے پاس رہن رکھی ہوئی تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے گھر والوں کے لیے کھانا لینے کی غرض سے رہن رکھوائی تھی۔

لیکن لوگوں کے سامنے ان کے فاسد عقائد ضرور بیان کریں تاکہ وہ انہیں دلی دوست اور ساتھی نہ بنائیں۔ مگر جہاں تک معاملہ ہے ان سے عام خریدوفروخت کا تو وہ عند الحاجت آسان سی بات ہے۔ بس ان سے محبت ودوستی نہ کریں اور نہ ہی ان کے حرام کھانوں یا ذبیحوں میں سے کچھ کھائیں۔

پھر سائل کہتا ہے: اس صورت میں بھی کیا اس کے علاوہ کسی سے خریدنا اولی تصور ہوگا؟

جواب: جو بات مقصود ہے وہ یہی ہے کہ ان سے دوستی ومحبت رکھنے یا مخالفت میں سستی برتنے اور ان کے اعمال سے دھوکے میں آجانے سے ڈرایا جائے۔ لوگوں کے سامنے ان کا کفر اور گمراہی بیان کی جائے۔ کیونکہ یہ ان کے اعمال میں سے ہے  ابوبکر صدیق اور  عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما اور ان کے علاوہ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گالیاں دیتے ہیں۔ اور اہل بیت اور  علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ  سے فریادیں  کرتے اور مدد مانگتے ہیں یہ شرک اکبر ہے۔ اور صحابہ پر لعن طعن بھی ایک مستقل کفر ہے یعنی انہیں خائن قرار دے کر روایت بیان کرنے کا نااہل سمجھنا۔

(کیسٹ  فتاوى العلماء في الجهاد والعمليات الأنتحارية بتسجيلات منهاج السنة بالرياض)

شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ

سوال: فضیلۃ الشیخ آپ کی اس فکر کو نشر کرنے کے بارے میں کیا رائے ہے کہ ہمیں امریکی اشیاء ِصَرف اور مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا چاہیے تاکہ اس کی وجہ سے ان کی اقتصادیات کمزور ہوجائے کیونکہ اس کی مسلمانوں کے خلاف شیطانی سرگرمیاں اور مواقف معلوم ہیں؟

جواب: آپ وہ کچھ خریدیں جو اللہ تعالی نے آپ کے لیے حلال کیا ہے اور اسے چھوڑ دیں جو اس نے آپ پر حرام قرار دیا ہے۔

(کیسٹ لقاء الباب المفتوح رقم 64)

سوال: فضیلۃ الشیخ ایک مشروب بنام”کولا“ کے موجود ہے جو کہ ایک یہودی کمپنی کی پروڈکٹ ہے، اس مشروب کو پینے اور بیچنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ کیا یہ برائی اور زیادتی میں تعاون کرنے میں شمار ہوگا؟

جواب: کیا آپ کو یہ خبر نہیں پہنچی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے گھر والوں کے لیے ایک یہودی سے کھانا خریدا تھا؟ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس حال میں فوت ہوئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذِرہ اس یہودی کے پاس اس کے باعث گروی رکھی ہوئی تھی۔

اور کیا آپ کو یہ بات بھی نہیں پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہود کا تحفہ بھی قبول فرمالیا کرتے تھے؟

اگر ہم کہیں کہ (ان کافروں کی مصنوعات) نہیں (استعمال کرنی چاہیے) تو اس صورت میں ہم سے بہت سی مفید اشیاء فوت ہوجائیں گی جیسے ان گاڑیوں کا استعمال جنہیں یہود بناتے ہیں اور اس کے علاوہ بھی بہت سی مفید اشیاء جنہیں سوائے یہود کے کوئی نہیں بناتا ۔

صحیح ہے، ہم مانتے ہیں کہ ہوسکتا ہے اس مشروب میں کوئی موذی چیز ہو جو یہود نے اس میں شامل کردی ہو کیونکہ یہ بات معلوم ہے کہ یہود ایک ناقابل اعتبار قوم ہے۔ انہوں نے تو اس بکری میں بھی زہر ملادیا تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تناول فرمائی اور وہ فرمایا کرتے تھے کہ:

’’مَا أَزَالُ أَجِدُ أَلَمَ الطَّعَامِ الَّذِي أَكَلْتُ بِخَيْبَرَ، فَهَذَا أَوَانُ وَجَدْتُ انْقِطَاعَ أَبْهَرِي مِنْ ذَلِكَ السُّمِّ‘‘([1])

(میں اب تک اس کھانے کی تکلیف پاتا ہوں جو میں نے خیبر میں کھایا تھا، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میری شہ رگ اس زہر کی تکلیف سے کٹ جائے گی)۔

یعنی موت واقع ہوجائے گی۔

اسی لیے امام زہری رحمہ اللہ نے فرمایا:

 ’’إن النبي صلى الله عليه وسلم مات بقتل اليهود له‘‘

 (نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہودیوں کے قتل کرنے کی وجہ سے شہید ہوئے)۔

ان پر اللہ تعالی کی لعنت ہو اور نصاریٰ پر بھی اللہ تعالی کی لعنت ہو۔ یہ لوگ ناقابل اعتبار ہیں۔ لیکن میرے خیال میں جو کچھ ہمارے یہاں آتا ہے اسے اچھی طرح سے چیک کیا جاچکا ہوتا ہے، اور یہ معلوم ہوچکا ہوتا ہے کہ اس میں کوئی نقصان دہ چیز ہے یا نہیں۔

(لقاء الباب المفتوح 61-70)

شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ

سائل: یا شیخ! جیسا کہ معلوم ہے کہ ہمارے اور یہود کے مابین جنگ قائم ہے۔ تو کیا یہود سے خریدوفروخت جائز ہے۔ اور یورپ میں ان کے ہاں کام کرنا جائز ہے؟

الشیخ: یہودیوں سے خریدوفروخت؟

سائل: جی، اور ان کے یہاں یورپ میں کام کرنا؟

الشیخ: ہم یہود اور نصاریٰ میں ان ممالک میں معاملا ت کرنے کے تعلق سے کوئی تفریق نہیں کرتے۔ جبکہ وہ کفار ومشرکین جو اگر ذمی ہوں یعنی اہل ذمہ ہوں اور بلاد اسلام کو اپنا وطن بنالیا ہو تو ان کا معاملہ سب کے ہاں معروف ہے یعنی ان سے معاملات جائز ہیں۔

اسی طرح سے اگر وہ مسلمانوں کی صلح میں ہوں اور محاربین (لڑنے والے) نہ ہوں تو ان کا بھی یہی حکم ہے (یعنی جائز ہے)۔

لیکن اگر وہ محاربین ہوں تو ان سے معاملات جائز نہیں خواہ اس سرزمین پر جس پر انہوں نے قبضہ کرلیا ہو جیسا کہ فلسطین میں یہود یا پھر اپنی ہی زمین پر ہوں۔ جب تک وہ ہمارے ساتھ محاربین ہوں ان کے ساتھ مطلق معاملات جائز نہیں۔ لیکن اگر کوئی صلح کرنے والا ہوتو جیسا کہ ہم نے بتایا کہ ان کے بارے میں اصل یہی ہے کہ جائز ہے۔

(کیسٹ الفتاوى الجزائرية الكويتية)

شیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ

سوال: فضیلۃ الشیخ وفقکم اللہ، آجکل اخباروں میں امریکی مصنوعات کے بائیکاٹ کی دعوت دی جاتی ہے اور ان کی خریدوفروخت سے منع کیا جاتا ہے۔ اسی میں سے ایک آج کے اخبار میں ہے کہ علماء مسلمین نے اس با‏ئیکاٹ کی دعوت دی ہے اور کہا ہے کہ یہ عمل فرض عین ہے اور ان مصنوعات میں سے کسی کو بھی خریدنا حرام ہے۔اور اس کا مرتکب ایک کبیرہ گناہ کا مرتکب اور مسلمانوں کے خلاف ان کے قتل کرنے میں ان (امریکہ) اور یہودیوں کا معاون ہے۔ پس فضیلۃ الشیخ ہم آپ سے اس مسئلہ کی توجیہ چاہتے ہیں کیونکہ اس کی اشد ضرورت ہے اور کیا اس فعل کو کرنے پر ثواب حاصل ہوگا؟

جواب:

اولاً: سب سے پہلے تو مجھے اس اخبار کی کاپی یا یہ اخباری تراشا درکار ہے کہ جس میں سائل کے بیان کردہ سوال والی بات مذکور ہو۔

ثانیاً: یہ غیر صحیح ہے۔  علماء کرام نے کبھی یہ فتوی نہیں دیا کہ امریکی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے۔ اور امریکی مصنوعات تو اب تک مسلمانوں کے بازار میں آتی ہيں اور بکتی ہیں۔ اور نہ ہی یہ امریکہ کے لیے کوئی نقصان دہ ہے  آپ خواہ امریکہ سے کچھ نہ خریدیں یہ ان کے لیے کوئی ضرررساں نہیں۔

اور کسی بھی مصنوعات کا بائیکاٹ نہيں کیا جائے گا جب تک کہ حکومت کسی خاص ملک سے منع کرے یا اس کا بائیکاٹ کرے بایں صورت بائیکاٹ واجب ہوگا۔ البتہ جہاں تک مجرد افراد کا تعلق ہے کہ وہ ایسی قرارداد پاس کریں اور فتوی دیتے پھریں تو یہ اللہ تعالی کی حلال کردہ چیز کو حرام قرار دینے کے مترادف ہے جوکہ ناجائز ہے۔

(کیسٹ فتاوى العلماء في الجهاد والعمليات الأنتحارية بتسجيلات منهاج السنة بالرياض)

سوال: اگر ہم یہ جانتے ہیں کہ حکمران نے ہمیں ڈنمارک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کا حکم نہیں دیا لیکن اس سے منع بھی نہیں کیا ، تو کیا میرے لیے شخصی طور پر ان کا بائیکاٹ کرنا جائز ہے، کیونکہ مجھے معلوم ہےکہ اپنے نبی e کی حمایت میں میرے بائیکاٹ سے انہیں نقصان پہنچنا متحقق ہے؟

جواب: اس مسئلے میں تفصیل ہے۔

اولاً: اگر حکمران وقت ممالک میں سے کسی ملک سے بائیکاٹ کرنے کا حکم دیتا ہے تو سب پر واجب ہے کہ اس کا بائیکاٹ کریں۔ کیونکہ یہی ان کی مصلحت میں ہے اور دشمن کو نقصان پہنچانے کا سبب اور ساتھ ہی حکمران کی اطاعت بھی ہے۔

ثانیاً: البتہ اگر حکمران حکم نہ دےتوانسان کو اختیار حاصل ہے، اگر چاہے تو ذاتی طور پر خود بائیکاٹ کرلے، اور اگر چاہے تو بائیکاٹ نہ کرے۔ اسے اس بات میں اختیار حاصل ہے۔

(تقریر بعنوان: ”أصول تلقِّي العِلم وضوابطُه“ جو شیخ نے بروز جمعرات 11/محرم/1427 کو ارشادفرمائی (56:53منٹ))

سوال: ہم وقتاً فوقتاً یہ دعوت سنتے رہتے ہیں کہ مسلمانوں کو کافروں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا چاہیے، پس کیا اس فعل کی کوئی بنیاد کتاب وسنت میں موجود بھی ہے؟ کیونکہ بعض لوگ ان تین پیچھے رہ جانے والے صحابہ y  کے قصے سے دلیل پکڑتے ہیں؟

جواب: پیچھے رہ جانے والے!؟ نہیں، وہ پیچھے نہیں رہے تھے، بلکہ ان کا معاملہ ملتوی کردیا گیاتھا، اللہ تعالی نے ” تخلفوا“  نہیں فرمایا بلکہ فرمایا:

﴿الَّذِيْنَ خُلِّفُوْا﴾ (التوبۃ: 118)

(جن کا معاملہ ملتوی چھوڑ دیا گیا تھا)

یعنی ان کا معاملہ مؤخر کردیا گیا تھا اور ابتداء ہی میں انہوں نے عذر پیش کرنے میں تاخیر کی۔ ان کا عذر مؤخر ہوگیا تھا، یہاں تک کہ اللہ تعالی نے ان کے بارے میں قرآن کریم نازل فرمایا۔

جہاں تک معاملہ ہے بائیکاٹ کا تو یہ ملکی سیاست پر منحصر ہے اور حکمران وقت کی خاصیت میں سے ہے۔ اگر وہ حکم دیتا ہے تو ہم پر اس کی اطاعت لازم ہے اور اگر نہیں دیتا، تو ہر انسان بااختیار ہے۔ چاہے تو بائیکاٹ کرے یا نہ کرے اس کی مرضی ہے۔۔جس طرح اس کے لیے یہ بھی ممکن ہے کہ زندگی بھر کچھ کھائے نہ پئے ۔

(شرح عمدة الاحكام بتاريخ 15 / 1/ 1427 منٹ: (17:10: 1))

سوال: اس شخص کا کیا حکم ہے جو ڈنمارک کی مصنوعات کی بائیکاٹ کاحکم دیتا ہے، اور کہتا ہے کہ جو اسے کھائےگا وہ منافق ہے! اور اس کی توحید مخدوش ہے؟ اور ان کی تما م غذائی مصنوعات  اٹھا کر کچرے میں پھینک دیتا ہے؟ ایسا کرنے کا کیا حکم ہے؟

جواب: بہرحال ہم بتاچکے ہیں کہ اگر حکمران منع کرے تو ہم  پراس کی سماع وطاعت واجب ہے۔ کیونکہ یہی سب کی مصلحت میں ہے۔ لیکن اگر حکمران یہ حکم صادر نہیں کرتا تو ہر ایک کی اپنی مرضی ہے۔

جبکہ مال کا ضیاع یہ شرعاً ممنوع ہے۔ یعنی آپ کے پا س جو کچھ ہے اسے نکال پھینکیں گےتو اپنے آپ کو ہی نقصان پہنچائیں کہ ناکہ بلجئیم (ڈنمارک) کو، لیکن اگر آپ یہی چاہتے ہیں کہ ان کی اشیاء نہ خریدیں تو خلاص نہ خریدیں۔ لیکن جو کچھ پہلے سے آپ کے پاس موجود ہیں انہیں اٹھا کر پھینک دیں اور یہ سمجھیں کہ میں بلجئیم (ڈنمارک) کو نقصان پہنچا رہا ہوں تو یہ ان کا نہیں بلکہ خود اپنا ہی نقصان کرنا ہے۔ وہ اس بات سے خوش ہوتے ہیں اور یہ تو نری حماقت ہے۔

(شرح عمدة الاحكام بتاريخ 15 / 1/ 1427 منٹ: (20:17: 1 ))

سوال: کیا دارالافتاء کی جانب سے کافر ملکوں کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا فتوی جاری ہوا ہے!؟

جواب: ایسا کوئی فتویٰ جاری نہیں ہوا، میں کہتا ہوں ایسی کوئی بات صادر نہیں ہوئی۔

(شرح كتاب السنة للإمام البربهاري 14 / 1/ 1427 منٹ:( 23 :17: 1 ))

شیخ عبید الجابری رحمہ اللہ

سوال: یہ سائل اہل کفر کی مصنوعات کے بائیکاٹ کے بارے میں پوچھ رہا ہے؟

جواب: یہ اسلام کے اولین لوگوں کا طریقہ نہيں رہا نہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہود ونصاری اور دیگر کفار کا بائیکاٹ کیا اسی طرح سے نہ خلفائے اربعہ رضی اللہ عنہم اور جو ان کے بعد اسلامی خلفاء آئے انہوں نے بائیکاٹ کیا۔ سب سے پہلے جنہوں نے بائیکاٹ کیا وہ رافضہ تھے چنانچہ وہ ان کنوؤں سے پانی نہیں پیا کرتے تھے جو یزید بن معاویہ (رضی اللہ عن معاویہ) نے کھدوائے تھے۔ اسی طرح سے ان پھلوں اور پنیر میں سے نہیں کھاتے تھے جو ملک شام سے آتے تھے۔ پھر آجکل اسی نہج کو بہت سے حزبی لوگوں نے اپنا منہج بنالیا جو فقہ معاملات کا کماحقہ فہم نہیں رکھتے۔

(ماخوذ  منتديات البيضاء العلمية)


[1] صحیح بخاری 4428۔

ترجمہ و ترتیب

طارق بن علی بروہی