رمضان کے آخری عشرے کو غنیمت جان کر بھرپور محنت کریں – شیخ صالح بن فوزان الفوزان

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمدلله رب العالمين وصلي الله وسلم على نبينا محمد وعلى آله وأصحابه أجمعين.

ہم رمضان کے آخرے عشرے کے دہانے  پر کھڑے ہيں، جسے اللہ تعالی نے ماہ رمضان کے قیام کی توفیق دی تو وہ اسے مکمل کرے تاکہ اس کے لیے  پورے ماہ کا قیام مکمل ہو، اور تاکہ وہ کامل اجر پالے جو کہ نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے اس فرمان میں مذکور ہے:

’’مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ‘‘([1])

(جس نے رمضان میں قیام کیا ایمان کے ساتھ ،ثواب کی نیت سے تو اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں)۔

اور اس مہینے میں شب قدر بھی ہے  جوکہ ہزار ماہ سے بہتر ہے یعنی اس رات میں کیا گیا عمل  ہزار ماہ کے برابر  ہے(بلکہ اس سے بھی بہتر)۔ اورہزار ماہ  63 (83) سال اور کچھ زیادہ مہینے بنتے ہيں۔ اور یہ خیر کثیر ہے جسے اللہ تعالی توفیق دے۔ اگر وہ پورے ماہ قیام کرتا ہے تو اسے دو فضیلتیں حاصل ہوتی ہیں :

1- مہینے کا قیام

2-  اور شب قدر کا قیام

اور یہ رات قطعی طور پر رمضان میں ہے لیکن اللہ تعالی نے اسے اس میں چھپادیا ہے تاکہ  ایک مسلمان شب قدر کو پانے کے لیے پورے ماہ کے قیام میں محنت کرے۔ اس طرح اسے پورے مہینے کا قیام اور شب قدر کے قیام  مل جائے گا  اور یہ اللہ سبحانہ و تعالی کی طرف سے خیر کثیر ہے۔پورے ماہ کا قیام ، آخری عشرے کا قیام اور شب قدر کا قیام یہ سب عظیم فضائل ہیں، باکثرت خیر ہی خیر ہيں جسے اللہ تعالی توفیق دے۔ تو یہ ماہ پورے کا پورا ہی خیر ہے جسے اللہ تعالی  توفیق دے۔ اس کے شروع ہوتے ہيں منادی  صدا لگاتا ہے:

’’ يَا بَاغِيَ الْخَيْرِ أَقْبِلْ، وَيَا بَاغِيَ الشَّرِّ أَقْصِرْ ‘‘

(اے خیر کےطلبگار آگے بڑھ، اور اے شر کے طلبگار باز آجا)

یعنی رک جا ، تھم جا۔

’’ وَلِلَّهِ عُتَقَاءُ مِنَ النَّارِ وَذَلكَ كُلُّ لَيْلَةٍ‘‘ ([2])

( او ر اللہ تعالی کے آگ (جہنم) سے آزاد کردہ (لوگ) ہوتے ہیں  اور ایسا ہر رات ہوتا ہے)۔

یعنی اس ماہ کی ہر رات۔

الحمدللہ ماہ رمضان جس میں قرآن نازل ہوا۔ اس کے فضائل میں سے ہےکہ اللہ تعالی نے اس میں قرآن نازل کیا، یعنی اس کے نازل ہونے کی ابتداء اس مہینے سے ہوئی   پھر پے در پے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پر اس کا نزول ہوتا رہا آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی زندگی کے آخر تک۔ جیساکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی وفات تب ہوئی جب اللہ تعالی نے اس قرآن مجیدکے نزول کی آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پر تکمیل فرمادی۔اور یہ قرآن ہمارے ہاتھوں میں اب باقی ہے۔ یہ اللہ تعالی کی طرف سے سب سے بڑی نعمت اور سب سے بڑا احسان ہے اس پر جسے اللہ تعالی توفیق دے۔

قرآن کی تلاوت کرنے والے اور قرأت کرنے والے کے لیے یہ شرف ہی کافی ہے کہ اللہ تعالی اسے سنتا ہے جب وہ قرأت کررہا ہوتا ہے، آپ کا رب آپ کو سن رہا ہوتا ہے آپ کی قرأت کے وقت، تو قرآن کے ذریعے اپنی آواز کو خوبصورت بناؤ، اور قرآن پر تدبر  غور وفکر کرو۔ البتہ جو ایسی تلاوت ہو کہ جس میں تدبر نہ ہو  اور اس میں ترتیل نہ ہو، تو یہ تلاوت بہت کم نفع والی ہوگی۔ ترتیل کا مطلب  یہ نہیں کہ بس کھینچ کھینچ کر پڑھا جائے اور وہ قواعدِ تجوید جو وہ ذکر کرتے ہیں، قرآن کی تجوید تو صرف یہ ہے کہ اس میں لحن نہ ہو، اس میں لغوی لحن نہ ہو ، یہ ہے تجوید قرآن۔ تجوید قرآن  دراصل اس میں لحن کا نہ ہونا ہے۔ (لحن کا مطلب ہے) اس میں اس عربی زبان کی مخالفت نہ ہو جس میں یہ نازل ہوا ہے، یہ ہے تجوید قرآن۔

جو اسے اچھے طور پر کرتا ہے اور مہارت حاصل کرتا ہے  اس طریقے کے مطابق جس طرح اللہ نے اسے فصیح عربی زبان میں نازل کیا ہے  تو یقیناً اس نے قرآن کو تجوید سے پڑھا۔

اور ایک مسلمان کو چاہیے کہ قرآن میں سے اس کے لیے جو آسان ہو (قیام میں) پڑھ لے: پورا قرآن پڑھ لے، یا اس کے بعض حصے، یا اس میں سے کچھ سورتیں  ہی، انہیں بار بار دہرائے ہر روز جتنا اس کے لیے قرآن میں سے آسان ہو، یہاں تک کہ اسے پورا کردے، یا جس قدر اس میں سے قرأت کی استطاعت رکھتا ہے اسے پورا کردے،  چاہے اسے ہجے کرکر ہی کیوں نہ پڑھنا پڑے، نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

’’وَالَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَيَتَتَعْتَعُ فِيهِ وَهُوَ عَلَيْهِ شَاقٌّ، لَهُ أَجْرَانِ‘‘ ([3])

(اور جو قرآن پڑھتا ہے لیکن اس میں اٹکتا ہے اور یہ  اس پر پُرمشقت ہوتا ہے، تو اس کے لیے دواجر ہیں)۔

تلاوت کا اجر اور جو اسے مشقت کا سامنا کرنا پڑھتا ہے اس کی قرأت و تجوید کرنے میں اس کا اجر۔

پس ایک مسلمان  کو چاہیے کہ ہمیشہ ہی باکثرت قرآن کی تلاوت کیا کرے ، او راس ماہ میں خصوصی طور پر کیا کرے۔

اللہ تعالی تمام لوگوں کو اس چیز کی توفیق دے  جسے وہ پسند کرتا اور اس سے راضی ہوتا ہے۔

وصلي الله وسلم  على نبينا محمد وعلى آله  وأصحابه  أجمعين.


[1] صحیح بخاری 37، صحیح مسلم 760۔

[2] صحیح الترمذی 682۔

[3] صحیح مسلم رقم  1862۔

ترجمہ: طارق بن علی بروہی

مصدر: كلمات رمضانية (ها نحن على أبواب العشر الأواخر من رمضان) ليلة السبت- 20- رمضان-1440هـ

یوٹیوب

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*