سفر شروع کرنے سے پہلے روزہ افطار کرنے کا حکم؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال: اگر کوئی شخص 9 رمضان کی صبح سفر کرنا چاہتا ہے تو کیا ا س کے لیے جائز ہے کہ وہ اس دن کی صبح سویرے ہی افطار کرلے؟

جواب از شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ:

یہ بات انس رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ آپ سفر کا عزم کرتے، اس کی تیاری کرتے، سفر کے کپڑے پہنتے، اور سفر شروع کرنے سے پہلے ہی کھالیتے، تو ان کے بعض ساتھیوں نے دریافت کیا: کیا یہ سنت ہے؟ تو فرمایا: ہاں سنت ہے۔

اسی طرح کی روایت ابو بصرہ الغفاری رضی اللہ عنہ سے بھی آئی ہے۔ لہذا اس میں کوئی حرج نہیں۔ اور اگر وہ سفر پر نکل پڑنے تک صبر کرے تواس میں زیادہ احتیاط ہے۔ اور جب سفر کے معاملات سے آسانی ہوجائے تو ان پر لازم ہے روزہ مکمل کرنا اور اس دن کی قضاء دینا، یعنی جب سہولت ہوجائے تو اتمام کرنا لازم ہے۔ ضروری ہے کہ وہ روزوں کو پورا رکھیں او راس دن کی قضاء دیں جس میں انہوں نے افطار کیا تھا۔

(فتوی نور علی الدرب 20640)

اور اس بارے میں شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کی پوری کتاب ’’تصحيح حديث إفطار الصائم قبل سفره بعد الفجر‘‘ ہے۔ جس میں بیان کردہ یہ کچھ دلائل ہیں:

جامع ترمذی میں امام ترمذی رحمہ اللہ نے باب قائم فرمایا ہے کہ: ’’بَاب مَنْ أَكَلَ ثُمَّ خَرَجَ يُرِيدُ سَفَرًا‘‘ (باب اس شخص کے بارے میں جس نے پہلے کھایا پھر سفر شروع کیا)۔

محمد بن کعب فرماتے ہيں کہ :

’’أَتَيْتُ أَنَسَ بْنِ مَالِكٍ فِي رَمَضَانَ وَهُوَ يُرِيدُ سَفَرًا، وَقَدْ رُحِلَتْ لَهُ رَاحِلَتُهُ وَلَبِسَ ثِيَابَ السَّفَرِ فَدَعَا بِطَعَامٍ فَأَكَلَ، فَقُلْتُ لَهُ: سُنَّةٌ، قَالَ: سُنَّةٌ، ثُمَّ رَكِبَ‘‘([1])

(میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس رمضان میں آیا جبکہ آپ سفر کا ارادہ رکھتے تھے۔ آپ کی سواری بس تیار تھی اور آپ نے سفرکے کپڑے بھی پہن لیے تھے۔ پس آپ نے کھانا منگوایا اور کھا لیا۔ میں نے ان سے عرض کی: کیا یہ سنت ہے؟ فرمایا: ہاں سنت ہے۔ اور پھر سوار ہوگئے)۔

سنن ابی داودمیں امام ابو داود رحمہ اللہ نے باب قائم فرمایا ہے کہ: ’’بَاب مَتَى يُفْطِرُ الْمُسَافِرُ إِذَا خَرَجَ‘‘ (مسافر  جب سفر کے لیے نکلے تو کس وقت افطار کے؟)۔

عبید بن جبر فرماتے ہیں کہ:

’’كُنْتُ مَعَ أَبِي بَصْرَةَ الْغِفَارِيِّ صَاحِبِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فِي سَفِينَةٍ مِنْ الْفُسْطَاطِ فِي رَمَضَانَ، فَرُفِعَ ثُمَّ قُرِّبَ غَدَاهُ.قَالَ جَعْفَرٌ فِي حَدِيثِهِ: فَلَمْ يُجَاوِزْ الْبُيُوتَ حَتَّى دَعَا بِالسُّفْرَةِ.قَالَ: اقْتَرِبْ.قُلْتُ: أَلَسْتَ تَرَى الْبُيُوتَ؟ قَالَ أَبُو بَصْرَةَ: أَتَرْغَبُ عَنْ سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم.قَالَ جَعْفَرٌ فِي حَدِيثِهِ: فَأَكَلَ‘‘([2])

’’میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی ابو بصرہ الغفاری رضی اللہ عنہ کے ساتھ فسطاط سے ماہ رمضان میں کشتی پر سوار ہوا۔جب (لنگر) اٹھا لیا گیا تو انہیں صبح کا ناشتہ پیش کیا گیا۔ جعفر نے اپنی حدیث میں فرمایا: ابھی گھروں سے تجاوز بھی نہیں کیا تھا کہ انہوں نے دسترخوان طلب فرمالیا۔ اور فرمایا : قریب ہوجاؤ۔ میں (عبید) نے کہا: کیا آپ گھروں کو نہيں دیکھ رہے(یعنی ابھی تو ہم ان سے دور تک نہيں نکلے!)؟ ابو بصرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت سے اعراض کرنا چاہتے ہو؟۔ جعفر اپنی حدیث میں فرماتے ہیں کہ: پھر انہوں نے کھا لیا)۔

اس قرآنی آیت کو بھی بطور شاہد ذکر فرمایا:

﴿ وَمَنْ كَانَ مَرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ ﴾  

(اور جو بیمار ہو یا کسی سفر پر ہو تو (اس کے ذے) دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرنا ہے)

(البقرۃ: 185)

﴿عَلٰي سَفَرٍ﴾ میں وہ بھی داخل ہے جس نے سفر کی تیاری کرلی ہو مگر ابھی نکلا نہ ہو۔ اس بات کی صراحت امام قرطبی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر ’’الجامع لأحكام القرآن‘‘  میں فرمائی ہے۔

اور ان احادیث کو بھی بطور شاہد ذکر فرمایا۔

منصور کلبی بیان کرتے ہیں کہ :

’’أَنَّ دِحْيَةَ بْنَ خَلِيفَةَ خَرَجَ مِنْ قَرْيَةٍ مِنْ دِمَشْقَ مَرَّةً إِلَى قَدْرِ قَرْيَةِ عُقْبَةَ مِنْ الْفُسْطَاطِ وَذَلِكَ ثَلَاثَةُ أَمْيَالٍ فِي رَمَضَانَ.ثُمَّ إِنَّهُ أَفْطَرَ وَأَفْطَرَ مَعَهُ نَاسٌ، وَكَرِهَ آخَرُونَ أَنْ يُفْطِرُوا.فَلَمَّا رَجَعَ إِلَى قَرْيَتِهِ، قَالَ: وَاللَّهِ لَقَدْ رَأَيْتُ الْيَوْمَ أَمْرًا مَا كُنْتُ أَظُنُّ أَنِّي أَرَاهُ، إِنَّ قَوْمًا رَغِبُوا عَنْ هَدْيِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَأَصْحَابِهِ. يَقُولُ ذَلِكَ لِلَّذِينَ صَامُوا.ثُمَّ قَالَ عِنْدَ ذَلِكَ: اللَّهُمَّ اقْبِضْنِي إِلَيْكَ‘‘([3])

(دحیہ بن خلیفہ کلبی رضی اللہ عنہ ایک بار رمضان میں دمشق کی ایک بستی سے روانہ ہوئے اور اس قدر فاصلے پر گئے جو عقبہ سے فسطاط تک کے مابین ہے جو کہ تین میل کا فاصلہ ہے۔ پھر انہوں نے افطار کرلیا اور ان کے ساتھ لوگوں نے بھی کرلیا۔ جبکہ دوسروں نے افطار کرنے کو ناپسند کیا۔ پھر جب اپنی بستی میں واپس آئے تو کہا: قسم اللہ کی! تحقیق میں نے آج ایک ایسی بات دیکھی ہے جس کا مجھے گمان بھی نہیں تھا کہ مجھے کبھی یہ بھی دیکھنا پڑے گا! کہ بے شک ایک قوم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم کی سنت سے اعراض کرے گی۔ وہ یہ بات ان لوگوں کے بارے میں کہہ رہے تھے جو روزے سے رہے (اور افطار نہ کیا) پھر اس موقع پر (دعاء کرتے ہوئے) کہا: اے اللہ! مجھے اپنی طرف اٹھالے)۔

پھر کچھ آثار صحابہ بطور شاہد پیش فرمائے جیسے:

عمر رضی اللہ عنہ کا مصنف ابن ابی شیبہ میں۔

ابو موسی رضی اللہ عنہ کا دارقطنی وبیہقی میں۔

ابن عمر رضی اللہ عنہما کا مصنف ابن ابی شیبہ میں۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما کا مصنف ابن ابی شیبہ میں۔

اور ان کے علاوہ امام سعید بن مسیب اور حسن بصری رحمہما اللہ وغیرہ کے آثار ۔


[1] صحیح ترمذی 799۔

[2] صحیح ابی داود 2412۔

[3] ضعیف ابی داود 2413 لیکن شیخ البانی مذکورہ کتاب میں فرماتے ہیں: رجال إسناده ثقات محتج بهم في الصحيحين [وفيه منصور مجهول، لكن للحديث ما يشهد له]۔

ترجمہ وترتیب: طارق بن علی بروہی