زندوں یا مردوں کی زیارت کے لیے عید کے دن کو مخصوص کرنا؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال: کیا قبروں کی زیارت عید کے دنوں میں کرنا حلال کاموں میں سے ہے یا حرام میں سے؟

جواب از شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز  رحمہ اللہ :

اس میں کوئی حرج نہيں کہ کسی بھی وقت ہو، لیکن اس کو عید کے ساتھ مخصوص کرنا ٹھیک نہيں اگر مقصد یہ ہو کہ عید کا دن افضل ہے یا اس طرح کی بات۔ البتہ اگر مخصوص  اس وجہ سے ہوجائے کہ اس دن وہ فرصت ہوتی ہے جو دوسرے دنوں میں نہيں ملتی تو پھر کوئی حرج نہيں۔ ورنہ تو زیارت کرنے کا کوئی مخصوص وقت نہيں ہے رات میں ہو یا دن  میں، عید کے دنوں میں ہو یا اس کے علاوہ دنوں میں۔نہ اس کی کوئی محدود حد ہے نہ کو‏ئی مخصوص وقت۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

”زوروا القبور فإنها تذكركم الآخرة “

 (قبروں کی زیارت کرو کیونکہ بلاشبہ یہ تمہیں آخرت کی یاد دلاتی ہیں)۔

اس میں کسی وقت کی تحدید نہيں فرمائی۔ پس ایک مومن کسی بھی وقت اس کی زیارت کرلیتا ہے خواہ رات ہو یا دن، عید کے دن ہوں یا اس کے علاوہ کسی معین دن کو مخصوص نہيں کرتا اس مقصد سے کہ یہ افضل ہے دیگر دنوں سے۔ ہاں اگر وہ مخصوص کرتا ہے اس طور پر کہ وہ اسی دن فارغ ہوتا ہے اس کے علاوہ اس کے پاس وقت نہيں ہوتا  تو پھر کوئی حرج نہیں([1])۔

سوال: کیا صلہ رحمی کے لیے کوئی  مناسب اوقات مقرر ہيں کہ اگر میں نے ان سے تجاوز کیا تو ممنوعہ حد میں داخل ہوجاؤ گا جیسے ہفتہ ہو، یا مہینہ، یا چھ ماہ کہ اگر اس مدت سے تجاوز کرگیا تو گناہ میں واقع ہوجاؤ گا (یعنی اتنے عرصے تک ان کی زیارت نہیں کی تو)؟

جواب از شیخ محمد بن صالح العثیمین  رحمہ اللہ :

بارک اللہ فیک، صلہ رحمی کے لیے کوئی حد مقرر نہیں نہ مدت کے اعتبار سے نہ ہی کیفیت کے اعتبار سے، نہ ہی اس چیز کے اعتبار سے جس کے ذریعے سے صلہ رحمی کی جاتی ہے کہ مال سے ہو یا کپڑے دے کر یا اس کے علاوہ۔ اس بارے میں نصوص مطلق آئے ہيں کہ صلہ رحمی کرو۔ پس جس چیز کو لوگ صلہ رحمی شمار کرتے ہيں وہ صلہ رحمی ہے، اور جسے وہ قطع رحمی شمار کرتے ہیں وہ قطع رحمی ہے۔

اور یہ مختلف حالات کے اعتبار سے مختلف ہوتا ہے کہیں لوگ فقرو غربت کی حالت میں ہوں اوررشتہ داروں کو بہت زیادہ ضرورت ہو تو یہاں مجھ پر واجب ہوگا کہ میں مال کے ذریعے ان سے صلہ رحمی کروں یعنی ان کی دیکھ بھال کروں۔ اسی طرح بعض رشتہ دار مریض ہوں جن کی عیادت کرنے کی ضرورت ہو تو ضروری ہے کہ میں ان کی عیادت کروں۔

البتہ اگر لوگوں کا حال ایسا ہو جیسا کہ آجکل ہمارا ہے الحمدللہ کے آرام سکون اور صحت میں ہیں تو وہاں اس طرح کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جو بات اہم ہے وہ یہ کہ صلہ رحمی لوگوں کے عرف ِعام  پر منحصر ہے، اور اس کی کوئی حد نہيں۔

سائل: اگر حالات ٹھیک ہوں اور کوئی فقر یا مرض نہ ہو؟

الشیخ: الحمدللہ! تو پھر جس طرح عام عادت چل رہی ہو اس طرح کریں مثلاً ٹیلیفون کے ذریعے ان سے رابطہ کرلیں ہر ماہ ایک یا دو مرتبہ یا ہر ہفتے حسب حال([2])۔

شیخ محمد ناصر الدین البانی  رحمہ اللہ  سے سوال ہوا: ہم نے سنا ہے کہ لوگوں کا عید کے روز ایک دوسرے کی زیارت کرنا بدعت ہے۔ امید ہے کہ آپ اس کا حکم بیان فرمائیں گے کہ عید کے روز بھائیوں سے ملنا اور جو کچھ عید پر لوگ کرتے ہیں کیسا ہے؟

جواب: ہم نے کئی بار یہ بات دہرائی ہے لہذا یہاں اس کے تکرار کی ضرورت نہیں البتہ اختصاراًہم بیان کرتےہیں کہ: زندوں کا عید کے دن مردوں کی زیارت کرنا بدعت ہے کیونکہ یہ شریعت کی جانب سے مطلق چیز کو مقید کرنا ہے۔ شارع حکیم صحیح حدیث میں فرماتے ہیں:

’’كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ أَلَا فَزُورُوهَا، فَإِنَّهَا تُذَكِّرُكُمْ الْآخِرَةَ‘‘([3])

(میں تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا کرتا تھا، پس اب ان کی زیارت کیا کرو، کیونکہ یہ تمہیں آخرت کی یاد دلاتی ہیں)۔

آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا فرمان: ’’فَزُورُوهَا‘‘عام ہے۔  اسے کسی خاص زمان ومکان سے مقید کرنا جائز نہیں۔ کیونکہ نص کو مقید یا مطلق کرنا لوگوں کا وظیفہ نہیں، بلکہ یہ تو رب العالمین کا وظیفہ ہے۔ جس کا مکلف اس نے اپنے رسول کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو بنایا ہے،  چنانچہ  فرمایا:

﴿وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ﴾ 

(یہ ذکر ہم نے تمہاری طرف اتارا ہے کہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کر دو)

(النحل: 44)

اگر کوئی مطلق نص مقید ہو تو وہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے بتادیا اور اگر کوئی عام نص مخصص ہو تو وہ بھی بتادیا، اور جس کا نہیں بتایا تو نہیں۔ اس لیے جب یہ کہا کہ: ’’أَلَا فَزُورُوهَا‘‘ (تو ان کی زیارت کیا کرو) یعنی مطلق ہے پورے سال میں۔ اس دن اور کسی اور دن میں کوئی فرق نہیں۔ اور نہ ہی کسی وقت سے مقید ہے کہ صبح ہو یا شام، ظہر ہو، دن ورات وغیرہ۔

اسی طرح سے ہم کہتے ہیں کہ: جیسا کہ زندوں کا عیدکے دن مردوں کی زیارت کرنا خاص بات بن جاتی ہے اسی طرح سے زندوں کا زندوں کی بھی زیارت اس دن کرنا خاص بن جاتی ہے۔

اور عید کے دن جو مشروع زیارت ہے صد افسوس کہ اسے چھوڑ دیاگیا ہے جس کا سبب لوگوں کا مختلف متفرق مساجد میں عید نماز کے لیے جانا ہے۔ حالانکہ ان سب پر واجب ہے کہ وہ مصلیٰ(عیدگاہ) میں جمع ہوں۔ اور وہ مصلیٰ شہر سے باہر ہوتا ہے اتنا وسیع کے شہر کے لوگ اس میں آجائيں۔ وہاں وہ ملاقاتیں کریں، حال چال معلوم کریں  اور عید کی نماز پڑھیں۔ یہ سنت معطل ہوچکی ہے جس پر نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اپنی پوری حیات مداومت فرمائی تھی۔

یہاں پر ایک اور ملاحظہ ہے جس پر ہم سب کا متنبہ ہونا ضروری ہے اور وہ یہ کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

’’صَلَاةٌ فِي مَسْجِدِي هَذَا خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ صَلَاةٍ فِيمَا سِوَاهُ، إِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ‘‘([4])

(میرے اس مسجد (مسجد نبوی) میں پڑھی گئی نماز اس کے علاوہ کسی بھی مسجد میں پڑھی گئی نماز سے ہزار گنا افضل ہے سوائے مسجد الحرام کے)۔

 چنانچہ  باوجویکہ ان کی مسجد میں پڑھی گئی نماز ہزار گنا افضل ہے پھر بھی آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  عید الفطر اور عید الاضحیٰ مسجد سے باہر پڑھا کرتے تھے یعنی مصلیٰ میں، کیوں؟ کیونکہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  مدینہ کے تمام مسلمانوں کو ایک ایسی وسیع جگہ جمع کرنا چاہتے تھے جو ان سب کو کافی ہوجائے۔ یہ مصلے زمانہ گزرنے کے ساتھ اور لوگوں کا مندرجہ ذیل باتوں سے دوری کے سبب کہ:

اولاً: سنت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی معرفت سے دوری۔

ثانیاً: جو کچھ سنت رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  میں علم ان کے پاس باقی بھی ہو اس سے دوری۔

ثالثاً: اس کی تطبیق اور اس پر عمل کرنے سے دوری۔

وہ اسی بات پر قناعت کرکے بیٹھ گئے ہیں کہ عید کی نماز مساجد میں ادا کرلیں جیسا کہ وہ نماز جمعہ یا باقی پنج وقتہ فرض نمازیں ادا کرتے ہیں۔ جبکہ سنت یہ ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اپنی پوری زندگی میں عید کی نماز مصلیٰ ہی میں ادا فرمائی ہے ایک مرتبہ بھی مسجد میں ادا نہيں فرمائی۔

اب کچھ سالوں سے بعض مسلمانوں نے ان شہروں میں اس سنت کی جانب توجہ کی ہے اور نماز عید مصلیٰ میں پڑھنا شروع کردی ہے۔ لیکن ان پر ایک بات باقی رہ گئی ہے۔ امید ہے کہ شاید لوگوں کا مساجد سے نکل کر عید کی نماز کے لیے  اب مصلیٰ کا رخ کرنا اچھی بشارت ہو کہ عنقریب ایسا دن بھی آئے گا جب تمام مسلمان ایک جگہ جمع ہوجائیں گے۔ یعنی ایک شہر کے تمام لوگ ایک میدان میں جمع ہوجائیں۔ جیسا کہ تمام دنیا کے لاکھوں مسلمان مکہ اور اس کے گردونواح مزدلفہ وعرفہ وغیرہ میں جمع ہوجاتے ہیں۔ ان کے پاس اس کا کوئی بدل نہیں ہوتا اور اتنی بڑی تعداد کے باوجود وہ سب ایک جگہ جمع ہوجاتےہیں۔

لہذا جتنی بھی مسلمانوں کی تعداد زیادہ کیوں نہ ہو انہیں کوئی شہر ایک بڑے میدان میں جمع کردینے سے عاجز نہیں۔ لہذا امید ہے کہ یہ خوشی کی بشارت ہے کہ اب وہ مساجد سے نکل کر مصلیٰ کی طرف جانے لگے ہیں تو ان شاء اللہ عنقریب تمام شہر کے لوگ بھی ایک جگہ جمع ہوجائیں گے جب وہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی اس حدیث کے معنی کی حقیقت کا فہم حاصل کرلیں کہ:

’’يَدُ اللَّهِ مَعَ الْجَمَاعَةِ‘‘([5])

(اللہ تعالی کا ہاتھ جماعت پر ہے)۔

جماعت تو وہ ہے جسے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ان شرعی وسائل کے ساتھ جمع فرمایا تھا۔ اور انہی وسائل میں سے ایک مصلیٰ ہونا ہے ناکہ مسجد، بلکہ ایک شہر میں ایک سے زیادہ مصلیٰ بھی نہیں۔

پس (اس دن کو مخصوص کرکے) یہ زیارت ہو (قبروں کی) یا وہ زیارت (رشتہ داروں کی) مخالف سنت ہے۔

عید کے دن جو مشروع زیارت ہے وہ یہی ہے کہ لوگ وفد کے وفد بن کر جم غفیر کی صورت کثرت کے ساتھ مصلیٰ کی طرف نکلیں۔ بلاشبہ لوگ وہاں ایک دوسرے سے متعارف ہوں گے اور ایک دوسرے کی زیارت کریں گے اس تقلیدی زیارت سے بڑھ کر جو لوگوں نے بنارکھی ہے۔ کیونکہ جب وہ عید میں ایک دوسرے کے گھر زیارت کے لیے جاتے ہيں تو انہی کے گھر جاتے ہیں جن کو جانتے ہوں اور پورے سال ان سے ملنے کی فرصت نہ ملتی ہو،  چنانچہ  وہ عید کے دن کو اس ملاقات کے لیے مخصوص کردیتے ہیں۔ لہذا ہم کہتے ہیں کہ (اس مخصوص دن) زندوں کا مردوں کی زیارت کرنے کا سنت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ بدعات میں سے ہے اسی طرح سے زندوں کا زندوں کی زیارت کرنابھی ہے۔

اس کا کیا معنی ہوا؟! اس کا معنی یہ ہے کہ یہ زیارتیں چاہے زندہ لوگ مردوں کی کریں سال میں محض ایک بار نہیں ہونی چاہیے اسی طرح سے زندہ لوگوں کی زندہ رشتہ داروں کی زیارت صرف سال میں ایک بار نہیں ہونی چاہیے بلکہ یہ مسلسل رہے۔ کیونکہ اس زیارت سے یعنی زندہ جو زندوں کی کرتے ہیں مودت ومحبت اور مسلمانوں کے مابین تعارف حاصل ہوتا ہے جیسا کہ رب العالمین کا ارشاد ہے:

﴿يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا﴾ 

(اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک (ہی) مرد و عورت سے پیدا کیا ہے،  اور اس لئے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو کنبے قبیلے بنا دیئے)

(الحجرات: 13)

جہاں تک زندوں کا مردوں کی زیارت کرنا ہے تو ضروری ہے وہ بھی جاری وساری رہے تاکہ وہ غایت حاصل ہو جس کی وجہ سے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے قبروں کی زیارت کو مشروع قرار دیا ہے جبکہ پہلے اس سے منع کیا گیا تھا۔ اور وہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا یہ فرمان ہے کہ:

’’ أَلَا فَزُورُوهَا، فَإِنَّهَا تُذَكِّرُكُمْ الْآخِرَةَ‘‘([6])

(پس اب ان کی زیارت کیا کرو، کیونکہ یہ تمہیں آخرت کی یاد دلاتی ہیں)([7])۔

سوال: عید کے دن مبارکباد کا وقت کب شروع ہوتا ہے، عید اور اس کی مبارکبادی کتنے دن تک رہتی ہے ؟

جواب از شیخ مقبل بن ہادی الوادعی  رحمہ اللہ :

مبارکبادی کے بارے میں تو میں نہيں جانتا کہ اس تعلق سے کوئی چیز وارد ہوئی ہو۔ البتہ کوئی حرج نہيں کہ عید کے دن ایک دوسرے کو مبارکباد دیں، اس میں کوئی مضائقہ نہيں جب تک یہ بدعت کی حد تک نہ پہنچنے۔ ایسی کوئی تحدید اور مخصوص وقت نہيں، لیکن جو لوگ کرتے ہيں اور ایک دوسرے کی زیارتوں میں عید کے دن مشغول رہتے ہيں اس کی کوئی دلیل نہیں۔ واللہ المستعان([8])۔

سوال: مختلف سوالات آئے ہيں جو زندہ یا مردہ رشتہ داروں کی عید کے دن زیارت سے متعلق ہیں؟

جواب از شیخ عبدالمحسن بن حمد العباد حفظہ اللہ:

جہاں تک عید  کے دن یا پھر جمعہ کے دن قبروں کی زیارت کی بات ہے یا کسی بھی دن کے ساتھ مخصوص کرکے تو یہ جائز نہيں۔ جبکہ عید کے دن رشتہ داروں کی زیارت یا ان کے پاس جانا ۔۔۔یعنی ان کے لیے دعاء کرنا تو ان باتوں میں کوئی حرج نہیں۔

لیکن قبرستانوں کو  عید کے یا جمعہ کے دن یا کسی بھی مخصوص ومعین دن زیارت کے لیے خاص کرنا تو کسی انسان کو ایسا نہيں کرنا چاہیے([9])۔


[1] نور على الدرب حكم تخصيص يوم العيد بزيارة المقابر۔

[2] لقاء الباب المفتوح – ضابط صلة الأرحام۔

[3] صحیح ابن ماجہ 1285 وغیرہ۔

[4] صحیح بخاری 1190، صحیح مسلم 1394۔

[5] صحیح ترمذی 2166۔

[6] حدیث پہلے گذر چکی ہے۔

[7] سلسلۃ الھدی والنور کیسٹ 527۔

[8] شريط أحكام الصيام وأسئلة أخرى عند( 33:42 )

[9] آڈیو کلپ: عدة أسئلة عن زيارة الأقارب أحياء أو أمواتا يوم العيد۔

ترجمہ وترتیب: طارق بن علی بروہی

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*