شیعہ اور یہودونصاری میں مشابہت

بسم اللہ الرحمن الرحیم

رافضہ کا تعارف

فرقۂ رافضہ یا جو عصر حاضر میں شیعہ کے نام سے موسوم ہے کی ابتداء تب ہوئی جب ایک یہودی شخص جس کا نام عبداللہ بن سباء تھا نے اسلام کا دعویٰ کیا، اور اپنے زعم میں اہل بیت سے محبت کا دعویٰ کیا، ساتھ ہی  علی رضی اللہ عنہ کی شان میں غلو کیا، اور ان کے لیے خلافت کی نبوی وصیت کا دعویٰ کیا پھر انہیں الوہیت کی مرتبے تک پہنچا دیا۔ اور یہ وہ بات ہے جس کا اعتراف خود شیعوں کی کتب بھی کرتی ہیں۔

چنانچہ القمی اپنی کتاب ’’المقالات والفرق‘‘([1]) میں اس کے وجود کا اقرار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اسی نے سب سے پہلے  علی رضی اللہ عنہ کی امامت اور رجعت کی فرضیت کے بارے میں کہا تھا۔ اور  ابوبکر وعمر وعثمان اور تمام صحابہ رضی اللہ عنہم پر طعن کا اظہار کیا تھا۔ جیسا کہ النوبختی نے اپنی کتاب ’’فرق الشیعۃ‘‘([2]) میں کہا۔ یا جیسا کہ الکشی نے اپنی معروف کتاب ’’رجال الکشی‘‘([3]) میں کہا۔ اور ان کے ان تمام کبار شیوخ نے اس بات کا اعتراف کیا ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’انہيں رافضہ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جب زید بن علی بن الحسین ہشام کی خلافت پر نکلے تو شیعہ نے ان سے  ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں پوچھا  انہوں نے ان کے بارے میں رحم کے جذبات کا اظہار کیا، اس پر اس قوم شیعہ نے رفض ’’انکار‘‘ کیاتو آپ نے کہا: ’’رفضتمونی رفضتمونی‘‘ (تم نے میرا انکار کیا، تم نے مجھے مسترد کیا) اس بنا پر وہ رافضہ کہلائے‘‘۔

(منہاج السنۃ النبویۃ 1/34-35)

یہود اور رافضہ میں مشابہتیں

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’اس کی دلیل کہ رافضہ کا فتنہ یہود کے فتنے کی طرح ہے، یہ ہے کہ یہود کہتے ہیں:

اقتدار آل داود کے علاوہ کسی کے لیے درست نہیں، اور رافضہ کہتے ہیں: امامت اولاد علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی کے لیے درست نہیں۔

یہود کہتے ہیں: جب تک مسیح الدجال نہيں نکلتا اور تلوار نازل نہیں ہوتی کوئی جہاد فی سبیل اللہ نہیں، اور رافضہ کہتے ہیں: کوئی جہاد فی سبیل اللہ نہیں جب تک مہدی نہیں نکلتا اور پکارنے والا آسمان سے پکار نہیں لگاتا۔

یہود نماز کو (غروب آفتاب کے بعد ) تارے نکلنے تک مؤخر کرتے ہیں، اسی طرح سے رافضہ بھی مغرب کی نماز کو تارے نکلنے تک مؤخر کرتے ہیں۔ جبکہ حدیث میں ہے کہ:

’’لَا تَزَالُ أُمَّتِي عَلَى الْفِطْرَةِ مَا لَمْ يُؤَخِّرُوا الْمَغْرِبَ إِلَى اشْتِبَاكِ النُّجُومِ‘‘([4])

(میری امت فطرت پر رہے گی جب تک وہ مغرب کی نماز کو تارے نکلنے تک مؤخر نہیں کرتی)۔

یہود نے توارت میں تحریف کی، اسی طرح سے رافضہ نے قرآن میں تحریف کی۔

یہود جرابوں پر مسح کے قائل نہيں، اسی طرح سے رافضہ بھی قائل نہيں۔

یہود جبرئیل علیہ الصلاۃ والسلام سے نفرت کرتے ہیں اور کہتے ہیں: فرشتوں میں سے یہ ہمارے دشمن ہیں، اسی طرح سے رافضہ کہتے ہيں کہ جبرئیل علیہ الصلاۃ والسلام نے غلطی سے وحی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل کردی([5])۔

اسی طرح سے رافضہ نصاریٰ کی خصلت میں بھی ان کی موافقت کرتے ہیں: ان کی عورتوں کا مہر نہیں ہوتا بلکہ وہ محض ان سے متعہ کرتے ہیں، اسی طرح سے رافضہ زواج متعہ کرتے ہیں اور اسے حلال کہتے ہیں۔

اور یہود ونصاریٰ کو دو خصلتوں کی وجہ سے رافضہ پر فضیلت حاصل ہے۔ یہود سے پوچھا گیا کہ تمہاری ملت میں سب سے افضل ترین لوگ کون ہیں؟ کہا:  موسی علیہ الصلاۃ والسلام کے صحابہ، نصاریٰ سے پوچھا گیا: تمہارے ملت میں سب سے افضل ترین لوگ کون ہیں؟ کہا: حواریانِ  عیسی علیہ الصلاۃ والسلام۔ اور جب رافضہ سے پوچھا کہا تمہاری ملت کے سب سے بدترین لوگ کون ہیں؟ تو کہا: اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘۔

(منہاج السنۃ النبویۃ 1/24)

آپ رحمہ اللہ یہ بھی فرماتے ہیں:

’’ہم نے ان کی کتب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ وقرابتداروں رضی اللہ عنہم پرجتنا جھوٹ وافتراء دیکھا ہے  اتنا تو اہل کتاب کی (تحریف شدہ) کتب تورات وانجیل تک میں نہیں دیکھا‘‘۔

(مجموع الفتاوی 28/481)

اور فرمایا:

’’اس لیے یہ لوگ امت کا جھوٹا ترین فرقہ ہے۔پس قبلہ کی جانب منتسب ہونے والے گروہوں میں سے کوئی بھی ان سے بڑھ کر جھوٹا، جھوٹ کی تصدیق کرنے والا اور سچائی کو جھٹلانے والا نہيں‘‘۔

(مجموع الفتاوی 28/479)

اور یہ بھی فرمایا:

’’جتنے بھی گروہ اپنی بدعات وگمراہیوں کے باوجود اسلام کی طرف منسوب ہوتے ہیں ان سب سے بدتر رافضہ ہيں۔ اسی طرح سے ان سے بڑھ کر جہل، جھوٹ، ظلم میں اور اقرب الی الکفر، فسوق وعصیان میں، اور حقائق ایمان سے دوری میں ان سے بڑھ کر نہیں۔ اور یہ رافضہ یا تو جاہل ہوتے ہیں یا منافق۔  یہ رافضی یا جہمی، یا تو منافق ہوتے ہیں یا جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر اس سے جاہل‘‘۔

 (منہاج السنۃ النبویۃ 5/106-161)

امام ابن کثیر رحمہ اللہ اس فرمان الہی کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ:

﴿وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ ۙ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا  ۭذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ﴾ 

(اور مہاجرین اور انصار میں سے سبقت کرنے والے سب سے پہلے لوگ اور وہ لوگ جنہوں نے اچھے طور پر ان کی پیروی کی، اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے اور اس نے ان کے لیے ایسے باغات تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، ان میں ہمیشہ ہمیش رہنے والے ہیں۔ یہی بہت بڑی کامیابی ہے)

(التوبۃ: 100)

فرماتے ہیں:

’’اللہ عظیم نے یہ خبر دی ہے کہ وہ مہاجرین وانصار میں سے سابقین واولین  اور جنہوں نے بطور احسن ان کی پیروی کی سے راضی ہوا۔ پس ویل وبربادی ہے اس کے لیے جو ان سے بغض رکھے یا انہيں سب وشتم کرے، یا ان میں سے بعض سے بغض رکھے یا سب وشتم کرے۔ خصوصاً صحابہ کے سردار وسید بعدِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان میں سے سب سے بہترین وافضل یعنی صدیق اکبر وخلیفۂ اعظم ابوبکر بن ابی قحافہ رضی اللہ عنہما سے،  کیونکہ رسوا ترین رافضہ کا گروہ افضل ترین صحابہ سے دشمنی رکھتا ہے، اور ان سے بغض رکھتا ہے اور سب وشتم کرتاہے، ہم اس سے اللہ تعال کی پناہ طلب کرتے ہیں۔ اور یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان کی عقلیں بالکل الٹی ہيں اور دل اوندھے ہیں۔ پھر ان کا قرآن مجید پر ایمان کہاں ہے کہ جن سے اللہ تعالی راضی ہوا انہیں سب وشتم کرتے ہیں!؟‘‘۔

(تفسیر ابن کثیر 4/142)

دیکھیں ان کے کبار شیوخ میں سے ایک اہل سنت کے بارے میں کیا کہتا ہے

نعمۃ اللہ الجزائری اہل سنت کے متعلق کہتا ہے جو کہ ان کے کبار شیوخ میں سے ایک ہے کہ :

’’ہم ان کے ساتھ نہ ایک الہ (معبود) پر جمع ہوسکتے ہیں، نہ نبی پر، نہ امام پر، اور وہ اس لیے کیونکہ وہ کہتے ہيں ان کا رب وہ ہے جو یہ کہتا ہے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے نبی تھے اور اس کے بعد  ابوبکر رضی اللہ عنہ ان کے خلیفہ تھے۔ لیکن ہم ایسے کو رب نہیں کہتے اور نہ ایسےکو نبی کہتے ہیں۔ بلکہ ہم کہتے ہیں کہ وہ رب کہ جس کے نبی کا خلیفہ  ابوبکر رضی اللہ عنہ ہو وہ ہمارا رب نہيں نہ وہ نبی ہمارا نبی ہے‘‘([6])۔

اور ان کے اس شیخ کی نسبت معروف ملک الجزائر کی طرف نہيں بلکہ اس کی نسبت جزائر عراق کی طرف ہے جو سن 1050ھ میں بستی الصباغیہ میں پیدا ہوا اور یہ قضاء الجزائر کی ایک بستی ہے جو آجکل قضاء الجبایش صوبے ذی قار، عراق میں ہے۔

امام القحطانی رحمہ اللہ اپنے مشہور قصیدۂ نونیہ میں فرماتے ہیں:

إن الروافض شر من وطئ الحصى           من كل إنس ناطق أو جانِ

مدحوا النبي وخوَّنوا أصحابه                    ورموهم بالظلم والعدوان

حبوا قرابته وسبوا صحبه                          جدلان عند الله منتقضان

رافضہ کے رد سے متعلق کچھ اہم مراجعات

مجموع الفتاویٰ از شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ۔

منہاج السنۃ النبویۃ از شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ۔

الملل والنحل از الشہرستانی رحمہ اللہ۔

شیخ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ کی ان سے متعلق تمام تالیفات۔

شیخ محمد مال اللہ رحمہ اللہ کی تمام تالیفات۔

اثنی عشری شیعہ اور تمام مسلمانوں کی عمومی تکفیر، تبدید الظلام وتنبیہ النیام علی خطر التشیع علی المسلمین والاسلام از سلیمان الجبھان رحمہ اللہ۔

من عقائد الشیعہ از عبداللہ السلفی۔

(پمفلٹ : أوجه الشبه بين اليهود والشيعة)

سوال: شیعہ اور یہودونصاریٰ کے درمیان کیا مشابہت ہے؟  کیا سارے شیعہ کافر ہیں؟

جواب از شیخ احمد بن یحیی النجمی رحمہ اللہ:

سب سے پہلے تو یہ غالی شیعہ ہیں، اور حقیقت یہ ہے کہ شیعیت ساری کی ساری گمراہی ہے۔ جو  علی رضی اللہ عنہ کو ابو بکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم پر مقدم کرتے ہیں یہ سب گمراہی ہے۔ خواہ ان میں سے وہ ہوں جو شیخین وغیرہ کو گالیاں دیتے ہیں ان پر لعنتیں اور زبان درازی کرتے اور انہیں کافر کہتے ہیں یا ان کے علاوہ ہوں سب برابر ہیں۔ لیکن اس کے بعد کون ابو بکر ، عمر وعثمان اور تمام صحابہ رضی اللہ عنہم  کو کافر کہے اور  عائشہ وحفصہ رضی اللہ عنہما  پر لعنتیں کرے اور ان پر معاذ اللہ زنا کی تہمت لگائے گا حالانکہ اللہ تبارک وتعالی نے انہیں برَی قرار دیا عائشہ رضی اللہ عنہا  کی برأت قیامت تک پڑھی جانے والی آیات میں اتار دی اور آخر میں نبی اکرم ﷺ  کی تمام ازواج کو برَی قرار دیا فرمایا:

﴿ اَلْخَبِيْثٰتُ لِلْخَبِيْثِيْنَ وَالْخَبِيْثُوْنَ لِلْخَبِيْثٰتِ  ۚ وَالطَّيِّبٰتُ لِلطَّيِّبِيْنَ وَالطَّيِّبُوْنَ لِلطَّيِّبٰتِ ۚ اُولٰۗىِٕكَ مُبَرَّءُوْنَ مِمَّا يَقُوْلُوْنَ﴾ 

(خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لیے ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لیے ہیں اور پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لیے اور پاک مرد پاکدامن عورتوں کے لیے ہیں، یہ اس سے برَی ہیں جو یہ لوگ کہتے ہیں)

(النور: 26)

اللہ نے اس آیت کے ذریعے نبی اکرم ﷺ  کی تمام ازواج کو بری قرار دیا۔

 چنانچہ یہ سب گمراہی پر ہیں۔ لیکن ان کی کچھ گمراہی دوسری گمراہی کی نسبت زیادہ شدید ہے۔ جو صحابہ رضی اللہ عنہم کو کافر کہتا ہے یہ صحابہ کے بارے میں ان آیات کا انکار کرتا ہے جو اللہ نے ان کی مدح اور تعریف میں نازل کی ہیں۔ اسی بنا پر ایسا کام کفر ہو گا کیونکہ اللہ نے اپنی کتاب میں جن کی تعریف کی یہ ان کو کافر کہتا ہے۔

مصدر: مختلف مصادر۔


[1] دیکھیں المقالات والفرق از القمی ص 10-21۔

[2] دیکھیں فرق الشیعۃ از نوبختی ص 19-20۔

[3] دیکھیں جو الکشی  متعدد روایات ابن سباء اور اس کے عقائد کے متعلق لایا ہے، ص 106-108 پر روایات 170-174۔

[4] رواہ احمد فی مسندہ (4/147)، (5/417-422)، وابوداود (418)، وابن ماجہ (629)، دیکھیں صحیح الجامع (7285)۔

[5] ایک گروہ ہے جو اپنے کو غرابیہ کہتا ہے وہ کہتے ہیں کہ جبرئیل علیہ الصلاۃ والسلام خائن ہيں کیونکہ انہوں نے وحی محمد علیہ الصلاۃ والسلام پر نازل کردی، حالانکہ رسالت کے ان کی نسبت زیادہ حقدار اور اولی تو  علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تھے، اسی لیے ان کا مقولہ ہے کہ: ’’امین نے خیانت کی اور حیدر سے روک دی گئی‘‘۔ آپ نے دیکھا اے مسلمان بھائی کہ کیسے  جبرئیل علیہ الصلاۃ والسلام کو خیانت سے متہم کرتے ہیں حالانکہ اللہ تعالی نے آپ علیہ الصلاۃ والسلام کو امانت کے وصف سے موصوف فرمایا ہے: ﴿نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ﴾ (الشعراء: 193) (اسے امانت دار فرشتہ لے کر اترا ہے) اور یہ فرمان کہ: ﴿مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِيْنٍ﴾ (التکویر: 21) (وہاں اس کی بات مانی جاتی ہے، امانت دار ہے)۔

[6] الانوار النعمانیۃ 2/278۔

مترجم

طارق بن علی بروہی

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*