شعبان میں رمضان کے قضاء روزے رکھنا

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

’’كَانَ يَكُونُ عَلَيَّ الصَّوْمُ مِنْ رَمَضَانَ، فَمَا أَسْتَطِيعُ أَنْ أَقْضِيَهُ إِلَّا فِي شَعْبَانَ‘‘[1]

(مجھ پر رمضان کے قضاء روزے باقی ہوتے، لیکن میں ان کی قضاء رکھنے کا موقع ہی نہ پاتی مگر شعبان میں)۔

البتہ حدیث میں ان الفاظ:

’’مِنْ رَسُولِ اللَّهِ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  أَوْ بِرَسُولِ اللَّهِ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘

(رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے سبب سے)

کی زیادتی کو شیخ البانی رحمہ اللہ  حافظ ابن حجر وابن القیم رحمہما اللہ سے نقل کرتے ہوئے مدرج قرار دیتے ہیں جس کا اقرار خود راوی یحییٰ بن سعید نے بھی اپنے قول سے کیا ہے[2]۔

صحیح مسلم کے ہی دوسرے الفاظ ہیں:

’’إِنْ كَانَتْ إِحْدَانَا لَتُفْطِرُ فِي زَمَانِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  فَمَا تَقْدِرُ عَلَى أَنْ تَقْضِيَهُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  حَتَّى يَأْتِيَ شَعْبَانُ‘‘

(ہم میں سے کوئی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے دور میں روزہ چھوڑتی تو اس کی قضاء رکھنے کا اسے موقع ہی نہ ملتا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ہونے کے سبب، یہاں تک کہ شعبان آجاتا)۔

امام نووی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

کیونکہ تمام امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے لیے تیار رہتی تھیں کہ کب حاجت پڑ جائے، اور یہ شوہر کے ساتھ ادب ہے، اور شریعت میں بھی اس کا حکم ہے[3]، چونکہ شعبان میں آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کثرت سے روزے رکھتے تو وہ بھی موقع پاکر اپنے قضاء روزے ادا فرمالیتیں([4])۔


[1] صحیح بخاری1/364، صحیح مسلم 1148۔

[2] تمام المنّة ص 422۔

[3] جیسا کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

”لَا يَحِلُّ لِلْمَرْأَةِ أَنْ تَصُومَ وَزَوْجُهَا شَاهِدٌ إِلا بِإِذْنِهِ “

(عورت کے لیے حلال نہیں کہ وہ روزہ رکھے جبکہ اس کا شوہر موجود ہو سوائے اس کی اجازت کے)

[صحیح بخاری 5191، صحیح مسلم 1026]

اور دوسری روایت میں فرمایا:

”لَا تَصُومُ الْمَرْأَةُ وَبَعْلُهَا شَاهِدٌ إِلا بِإِذْنِهِ غَيْرَ رَمَضَانَ “

(عورت رمضان کے علاوہ روزہ نہ رکھے جبکہ اس کا شوہر موجود ہو سوائے اس کی اجازت کے)

[اسے امام ابو داود نے اپنی سنن 4258 میں امام الترمذی نے اپنی سنن 782 میں روایت کیا اور شیخ البانی نے صحیح الترمذی میں اسے صحیح قرار دیا ہے]۔

[4] مفہوم شرح النووی۔

مترجم

طارق بن علی بروہی

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*