مسلمان ہر جگہ مررہے ہيں اور آپ بس توحید توحید کرتے رہتے ہیں؟ – شیخ صالح بن فوزان الفوزان

بسم اللہ الرحمن الرحیم

توحید کی اہمیت اور اس سے روگردانی کرنے کا انجام

کہنے والا کہہ سکتا ہے بلکہ کہا بھی جاتا ہے کہ آپ لوگوں کا کیا مسئلہ ہے جب دیکھو توحید کا اہتمام کرتے رہتے ہو اور اس پر بہت زیادہ کلام کرتے ہو؟! اور موجودہ دور میں جو مسلمانوں کے مسائل ہيں ان پر  توجہ نہيں دیتے، کہ وہ ہر طرف مارے جارہے ہيں اور بے گھر کیے جارہے ہیں، اور ہر طرف سے کفار ممالک ان کے درپے ہيں۔

اللہ کی توفیق سے ہم یہ جواب دیتے ہيں کہ:

توحید ہی وہ بنیاد ہے جس پر ملت حنیفیت قائم ہے، لہذا اس کا اہتمام کرنا دراصل اصل اصول، جڑ وبنیاد  کا اہتمام کرنا ہے۔ اور اگر آپ قرآن کریم پر غور وتدبر کریں گے تو پائیں گے کہ بلاشبہ اس نے بہت کھول کھول کر مکمل طرح سے توحید کو بیان کیا ہے یہاں تک کہ قرآن کی سورتوں میں سے کوئی سورۃ بھی ایسی نہیں جس میں توحید کی بات نہ کی گئی ہو، اور اس کا بیان و وضاحت اور ساتھ ساتھ اس کی ضد (یعنی شرک) سے منع نہ کیا گیا ہو۔

امام ابن القیم رحمہ اللہ نے یہ بات مقرر فرمائی کہ:

“قرآن پورے کا پورا ہی توحید ہے، کیونکہ یا تو اس میں خبریں ہيں اللہ تعالی کے اسماء وصفات کے تعلق سے ، اور یہ توحید علمی ہے جو کہ توحید ربوبیت ہے، یا پھر ایک اللہ کی بلاشرکت عبادت کا حکم ہے اور شرک سے منع کیا گیا ہے، اور یہ توحید عملی وطلبی ہے جو کہ توحید الوہیت ہے، یا پھر اللہ تعالی کی اور اس کے رسو لﷺ کی اطاعت کا حکم ہے اور اللہ تعالی کی اور اس کے رسول ﷺ کی معصیت سے منع کیا گیا ہے ، اور یہ توحید کے حقوق اور اس کی تکمیل میں سے ہے۔

یا خبر ہے اس کی جو کچھ اللہ تعالی نے توحید پرستوں کے لیے دنیا وآخرت میں نعمتیں، فوز وفلاح، نجات ونصرت عطاء فرمائیں ہيں، یا پھر خبر ہے جو کچھ مشرکین کو عبرتناک انجام سے دنیا وآخرت میں شکار ہونا پڑا، یا پھر خبر ہے جو کچھ مشرکین کو اس دنیا میں عبرتناک انجام کا سامنا ہوا اور جو کچھ آخرت میں ان کے لیے دائمی وابدی، ہمیشہ ہمیش کا عذاب جہنم تیار ہے۔ یہ (خیر) اس کے لیے جو توحید کا حق ادا کرے اور (یہ عذاب) اس کے لیے جو توحید سے لاپرواہی برتے”([1])۔

چنانچہ قرآن سارے کا سارا توحید کے گرد ہی گردش کرتا ہے۔ اورآپ اگر مکی سورتو ں پر غوروفکر کریں گے تو پائیں گے کہ ان میں غالباً توحید کا ہی ذکر ہوتا ہے۔ کیونکہ نبی اکرم ﷺ مکہ میں تیرہ برس رہے اور توحید کی جانب دعوت دیتے اور شرک سے روکتے رہے۔ زیادہ تر فرائض جیسے زکوٰۃ، روزے اور حج اور اس کے علاہ  دیگر حلال وحرام کے امور، اور معاملات وغیرہ آپ ﷺ پر نازل نہیں ہوئے  مگر مدینہ کی طرف ہجرت کے بعد، سوائے نماز کے، وہ آپ ﷺ پر شب معراج میں فرض ہوئی کہ جب آپ ﷺ کو اسراء ومعراج ہوئی تھی([2])، لیکن یہ بھی ہجرت سے کچھ عرصہ قبل ہی ہوا تھا۔

یہی وجہ ہے کہ مکی سورتیں جو نبی کریم ﷺ پر قبل از ہجرت نازل ہوئیں میں غالباً توحید کے مسائل پر ہی بات ہوتی ہے، جو اس کی اہمیت پر دلالت کرتی ہے۔ اور دیگر فرائض نازل نہيں ہوئے مگر توحید کے مقرر ہوجانے ،دلوں میں راسخ ہوجانے اور صحیح عقیدے کے ظاہر اور واضح ہوجانے کے بعد ہی، کیونکہ اعمال بغیر توحید کے صحیح نہیں ہوسکتے، اور نہیں قائم ہوسکتے مگر توحید ہی کی بنیاد پر۔

قرآن نے یہ بات واضح کی ہے کہ جتنے بھی رسول علیہم الصلاۃ والسلام تھے انہوں نے اپنے دعوت میں تمام چیزوں سے پہلے توحیدہی سے شروع فرمایا، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ﴾  

(اور بلاشبہ یقینا ًہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو)

(النحل: 36)

اور فرمایا:

﴿وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ﴾  

(اور ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی طرف یہی وحی فرمائی کہ بےشک حقیقت یہ ہے کہ میرے سوا کوئی معبودبرحق   نہیں، سو میری ہی عبادت کرو)

(الانبیاء: 25)

اور ہر نبی اپنی قوم کو کہتا:

﴿يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ ﴾ 

(اے میری قوم! اللہ ہی کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود ہونے کے لائق نہیں)

(الاعراف: 59)

یہ تھی رسولوں کی ذمہ داری، کہ سب سے پہلے توحید سے ابتداء۔

اسی طرح سے جو ان رسولوں کی پیروی کرنے والے ہيں داعیان ومصلحین، وہ بھی سب سے پہلے توحید کااہتمام کرتے ہيں، کیونکہ جو بھی دعوت توحید پر قائم نہ ہو تو وہ شکست خوردہ دعوت ہے، اپنے اہداف حاصل نہيں کرسکتی، اور اس کا کوئی نتیجہ نہ ہوگا۔ ہر وہ دعوت جو توحید کی شان گھٹاتی ہے اس کا اہتمام نہیں کرتی، تو وہ اپنے نتیجے میں خسارہ ہی خسارہ پانے والی ہے۔ یہ بات تو جانی پہچانی ہے او ردیکھی بھی گئی ہے۔

او رہر دعوت جو توحید پر مرکوز ہو تو وہ باذن اللہ کامیاب ہوتی ہے، اپنا پھل دیتی ہے اور معاشرے کو فائدہ پہنچاتی ہے، جیسا کہ تاریخی واقعات میں بھی یہ بات معروف ہے۔

اور ہم مسلمانوں کے مسائل سے لاپرواہ نہيں ہیں  بلکہ اس کا اہتمام کرتے ہيں، ان کی نصرت کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہيں اور  ہر ذریعہ استعمال کرتےہیں کہ ان پر سے تکلیف دور ہو ، ہم پر یہ بات سہل وآسان نہیں کہ ہم مسلمانوں کو قتل ہوتے بے گھر ہوتے دیکھ سکیں، لیکن مسلمانوں کے مسائل کے اہتمام کرنےکا یہ معنی نہيں کہ ہم بس روتے اور رلاتے رہیں، اور پوری دنیا کو اپنی باتوں اور تحریروں سے بس بھر دیں، اور بس چیخنا چلانا ہو! کیونکہ یہ سب کرنے کا کوئی فائدہ نہيں ہے۔

مگر ہاں جو صحیح علاج ہے مسلمانوں کے مسائل کا، وہ یہ ہے کہ سب سے پہلے ہم ان اسباب کو تلاش کریں کہ جن کی وجہ سےان اذیتوں میں مسلمان مبتلا ہوئے ہيں، اور ان پر ان کے دشمن مسلط ہوگئے ہیں۔

دشمنوں کے مسلمانوں پر مسلط ہونے کا کیا سبب ہے؟

جب ہم عالم اسلامی پر نظر ڈالتے ہيں تو اکثر ان لوگوں میں جو اسلام کی طرف منسوب ہوتے ہيں اسلام سے تمسک (مضبوطی سے اس پرچلنا) نہيں پاتے، الا من رحم اللہ۔ وہ تو بس نام کے مسلمان ہیں، اکثر کے یہاں عقیدہ برباد ہے: غیراللہ کی عبادت کرتے ہیں، اولیاء وصالحین اور قبروں ومزاروں سے عقیدت و لَو لگاتے ہيں، نماز قائم نہيں کرتے، زکوٰۃ ادا نہیں کرتے، روزے نہیں رکھتے، اس چیز کو ادا نہيں کرتے جو اللہ تعالی نے ان پر واجب قرار دی ہے، انہی چیزوں میں سے کافروں کے خلاف جہاد کی قوت تیار کرنا بھی ہے!! یہ تو حال ہے بہت سے ان لوگوں کا جو اسلام کی طرف منسوب ہوتے ہیں، اپنا دین ضائع کردیا ہے پس اللہ تعالی نے بھی انہیں ضائع ہونے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔

اور سب سے اہم سبب جس کی وجہ سے ان پر یہ سزائیں مسلط ہیں توحید سے لاپرواہی برتنا ہے، اور شرک اکبر میں ملوث ہونا ہے، اس سے نہ روکنا اور اس پر نکیر نہ کرنا ہے! جو ان میں سے  یہ (شرک) نہیں بھی کرتا تو بھی وہ اس کا انکار نہيں کرتا، بلکہ اسے شرک ہی شمار نہيں کرتا۔ جس کا بیان آگے اس کتاب میں ان شاء اللہ آئے گا([3])۔ پس یہ وہ اہم اسباب ہیں جس کی وجہ سے مسلمانوں پر یہ عقوبتیں اور سزائیں مسلط ہيں۔

اگر وہ اپنے دین سے سچا تمسک اختیار کرتے ، اپنی توحید اور اپنے عقیدے کو کتاب وسنت پر قائم کرتے، اور اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھام لیتے اور تفرقہ نہ کرتے، تو کبھی بھی ان حالات سے دوچار نہ ہوتے جس کا آج انہيں سامنا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿وَلَيَنْصُرَنَّ اللّٰهُ مَنْ يَّنْصُرُهٗ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِيٌّ عَزِيْزٌ، اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ ۭ وَلِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ)  

(اور یقینا ًاللہ تعالی ضرور اس کی نصرت فرمائے گا جو اس کی مدد کرے گا، بےشک اللہ تعالی یقینا ًبہت قوت والا، سب پر غالب ہے۔وہ لوگ کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے اور زکوٰۃ اداکریں گے،اور اچھے کام کا حکم دیں گے اور برے کام سے روکیں گے، اور تمام کاموں کا انجام اللہ تعالی  ہی کے اختیار میں ہے)

(الحج: 40-41)

پس یہاں واضح فرمادیا کہ مسلمانوں کو نصرت نہیں مل سکتی سوائے ان باتوں پر توجہ مرکوز کرنے سے جس کا اللہ تعالی نے ذکر فرمایا ہے، اور وہ ہیں: نماز قائم کرنا، زکوٰۃ  ادا کرنا، نیکی کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا۔

تو مسلمانوں کی موجودہ حالت میں یہ امور کہاں پائے جاتے ہیں؟  بہت سے اسلام کے دعویداروں میں نماز کہاں ہے؟!

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ  ۠ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا  ۭ يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا﴾

(اللہ تعالی  نے ان لوگوں سے جو تم میں سے ایمان لائے اور صالح اعمال کیے، وعدہ فرمایا ہے کہ وہ انہیں زمین میں ضرور بالضرور خلافت واقتدار دے  گا، جس طرح ان لوگوں کو خلافت واقتدار دیا تھا جو ان سے پہلے تھے، اور ان کے لیے ان کے اس دین کو ضرور بالضرور غلبہ  دے گا جسے اس نے ان کے لیے پسند فرمایا ہے، اور ضرور بالضرور  انہیں ان کے خوف کے بعد بدل کرامن دے گا۔( لیکن اس وعدے کی شرط کہاں ہے؟)  وہ میری ہی  عبادت کریں گے، میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں گے)

(النور: 55)

پس واضح فرمادیا کہ یہ خلافت کے ملنےاور زمین پر غلبے کے ملنے کا وعدہ پورا نہیں ہوسکتا جب تک اس کی مذکورہ شرط کو پورا نہ کیا جائے اور وہ ہے اس اکیلے کی بلاشرکت عبادت، اور یہی توحید ہے۔ یہ خیر وبھلائی والے وعدے اس وقت تک حاصل نہيں ہوسکتے جب تک توحید کا حق ایک اللہ کی بلاشرکت عبادت کے ذریعے ادا نہ کیا جائے۔ اور اللہ کی عبادت میں نماز، روزہ، زکوٰۃ  وحج اور تمام اطاعت پر مبنی کام داخل ہیں۔

اللہ تعالی نے صرف یہ نہیں فرمایا کہ میری عبادت کرو بلکہ اس کے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ:

﴿لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا﴾

(میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں گے)

کیونکہ بلاشبہ عبادت شرک کی موجودگی میں کوئی نفع نہیں دیتی، بلکہ لازم ہے کہ شرک سے ضرور اجتناب ہو خواہ وہ کسی بھی قسم کا شرک ہو، کسی بھی شکل میں ہو، اس کا کوئی بھی نام ہو، اس کی تعریف بہرحال یہی ہے کہ:

“عبادت میں سے کسی چیز کا غیر اللہ کے لیے ادا کرنا”۔

یہ ہے نجات، سلامتی، نصرت اور زمین پر غلبے کا سبب۔ عقیدے کی اصلاح اور عمل کی اصلاح۔ اس  کے سوا یہ تمام عقوبتیں، بحران اور عبرتناک انجام اسی پر مسلط ہوتا ہے جو ان چیزوں میں کوتاہی کا مرتکب ہوا ہے جسے اللہ تعالی نے بطور شرط قائم کرنےکا حکم دیا ہے، چنانچہ اس بحران اوراس دشمنوں کے تسلط  کا سبب یہی مسلمانوں کا محض اسلام کے نام پر اکتفاء کرکے بیٹھ جانا جبکہ اس شرط میں کوتاہی برتنا  اور اپنے عقیدے ودین کے بارے میں تفریط کا شکار ہونا ہے۔

مصدر: دروس من القرآن الكريم (الدرس الأول، التوحيد فى القرآن الكريم)۔


[1] دیکھیں: مدارج السالکین للامام ابن القیم رحمہ اللہ 3/468 کچھ ترمیم کے ساتھ۔

[2] جیسا کہ الاسراء سے متعلق متواتر حدیث میں ہے ، اور اس کی آحاد حدیث میں سے متفق علیہ حدیث بھی ہے جو انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے صحیح بخاری، کتاب التوحید، باب 37، رقم 7517، 13/583، ومسلم: کتاب الایمان، باب 74، رقم 162 میں۔

[3] اس کے ترجمے کے لیے ہمارا دوسرا مقالہ پڑھیں: “اہل کلام اور فلاسفہ کی توحید”۔  (مترجم)

مترجم

طارق بن علی بروہی

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*