تیمم کا طریقہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿وَاِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰٓى اَوْ عَلٰي سَفَرٍ اَوْ جَاۗءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَاۗىِٕطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَاۗءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَاۗءً فَتَيَمَّمُوْا صَعِيْدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَاَيْدِيْكُمْ مِّنْهُ  ۭ مَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّلٰكِنْ يُّرِيْدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ﴾  

(اور اگر تم بیمار ہو، یا کسی سفر پر، یا تم میں کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو، یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو، پھر کوئی پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کرلو، پس اس سے اپنے چہروں اور اپنے ہاتھوں کا مسح کرو۔  اللہ تعالی نہیں چاہتا کہ تم پر کوئی تنگی کرے اور لیکن وہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کرے اور تاکہ وہ اپنی نعمت تم پر پوری کرے، تاکہ تم شکر کرو )

(المائدۃ: 6)

عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما    کے مشہور واقعے میں جب انہيں سفر میں جنابت کی حالت میں پانی نہيں ملا تو مٹی میں لوٹ پوٹ ہوکر انہوں نے تیمم کیا، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کو خبر دی جس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   نے فرمایا:

’’إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكَ أَنْ تَقُولَ بِيَدَيْكَ هَكَذَا، ثُمَّ ضَرَبَ بِيَدَيْهِ الأَرْضَ ضَرْبَةً وَاحِدَةً، ثُمَّ مَسَحَ الشِّمَالَ عَلَى الْيَمِينِ وَظَاهِرَ كَفَّيْهِ وَوَجْهَهُ‘‘([1])

(تجھے بس یہی کافی تھا کہ اپنے دونوں ہاتھوں کو اس طرح کرتا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کو ایک بار زمین پر مارا، پھر بائیں ہاتھ کو دائیں پر ،اور ہتھیلیوں کے اوپر والے حصے پر([2]) اور چہرے پر بھی مسح فرمایا)۔

امام بخاری رحمہ اللہ  باب قائم کرتے ہیں ’’بَابُ الْمُتَيَمِّمُ هَلْ يَنْفُخُ فِيهِمَا‘‘  (باب :کیا تیمم کرنے والا  دونوں ہاتھوں میں پھونک سکتا ہے)

سعید بن عبدالرحمٰن بن ابزیٰ سے، وہ اپنے باپ سے، انہوں نے بیان کیا کہ ایک شخص عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  کے پاس آیا اور عرض کی کہ:

’’إِنِّي أَجْنَبْتُ فَلَمْ أُصِبِ الْمَاءَ؟ فَقَالَ عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ:‏‏‏‏ أَمَا تَذْكُرُ أَنَّا كُنَّا فِي سَفَرٍ أَنَا وَأَنْتَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَّا أَنْتَ فَلَمْ تُصَلِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا أَنَا فَتَمَعَّكْتُ فَصَلَّيْتُ، ‏‏‏‏‏‏فَذَكَرْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكَ هَكَذَا، ‏‏‏‏‏‏فَضَرَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَفَّيْهِ الْأَرْضَ وَنَفَخَ فِيهِمَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ مَسَحَ بِهِمَا وَجْهَهُ وَكَفَّيْهِ‘‘.

(مجھےجنابت حالق ہو گئی اور پانی نہیں ملا (کیا کرنا چاہیے؟) اس پر عمار بن یاسررضی اللہ عنہما  نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  سے کہا، کیا آپ کو یاد نہیں جب میں اور آپ سفر میں تھے، ہم دونوں جنبی ہو گئے۔ آپ نے تو نماز نہیں پڑھی لیکن میں نے زمین پر لوٹ پوٹ لیا، اور نماز پڑھ لی۔ پھر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا کہ:  تجھے بس اتنا ہی کافی تھا اور یہ کہتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے پھر ان میں پھونکا اور ان دونوں سے چہرے اور ہتھیلیوں کا مسح کیا)۔

ایک دوسری روایت میں جھاڑنے کے بھی الفاظ ہیں۔ صحیح بخاری میں باب ہے کہ: ’’التَّيَمُّمُ ضَرْبَةٌ‘‘ (تیمم میں ایک ہی دفعہ مٹی پر ہاتھ مارنا ہے)۔

اس میں  عمار رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا تھا:

’’ إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكَ أَنْ تَصْنَعَ هَكَذَا، ‏‏‏‏‏‏فَضَرَبَ بِكَفِّهِ ضَرْبَةً عَلَى الْأَرْضِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ نَفَضَهَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ مَسَحَ بِها ظَهْرَ كَفِّهِ بِشِمَالِهِ أَوْ ظَهْرَ شِمَالِهِ بِكَفِّهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ مَسَحَ بِهِمَا وَجْهَهُ۔۔۔‘‘.

(تمہارے لیے صرف اتنا کرنا کافی تھا یہ کہتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اپنے ہتھیلیوں کو زمین پر ایک مرتبہ مارا پھر انہیں  جھاڑا، پھر بائیں ہاتھ سے داہنے کی پشت کو یا داہنے سے بائيں کی پشت کو مل لیا ۔ پھر دونوں ہاتھوں سے چہرے کا مسح کیا)۔

البتہ بعض علماء کرام ہاتھوں میں پھونکنے اور جھاڑنے کو اس بات کے ساتھ خاص کرتے ہیں اگر مٹی زیادہ لگ گئی ہو اور اس کی ضرورت ہو۔

سوال: عفا اللہ عنک، کیا تیمم کرتے وقت ہاتھوں میں پھونکنا مشروع ہے؟

جواب از شیخ ابن باز رحمہ اللہ :

اگر زیادہ مٹی لگ گئی ہو تو پھر ان میں پھونکا جائے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے پھونکا تھا([3])۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ  الشرح الممتع على زاد المستقنع – المجلد الأول بابُ التَّيَمُّمِ میں فرماتے ہیں:

اور دونوں ہاتھوں میں پھونک مارنا مسنون ہے، کیونکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے (متفق علیہ حدیث میں) وارد ہوا ہے۔ البتہ بعض علماء کرام نے اسے اس بات کے ساتھ مقید کیا ہے کہ اگر ہاتھوں پر بہت سی مٹی لگ گئی ہو تو ایسا کیا جائے([4])۔

مصدر: کتاب و سنت۔


[1] صحیح مسلم 370۔

[2] یعنی دائیں ہاتھ کی پشت کو بائیں سے، پھر بائیں ہاتھ کی پشت کو دائیں ہاتھ سے مسح کرنا جیسا کہ فتح الباری میں بیان ہوا ہے۔

[3] دروس شرح بلوغ المرام، كتاب الطهارة۔

[4] دیکھیں المغنی 1/324، الاقناع 1/86۔

مترجم

طارق بن علی بروہی

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*