نماز میں پہنے جانے والے بعض ممنوعہ لباس کی صورتیں

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

عام طور پر موسم سرما میں نمازی کو مندرجہ ذیل  لباس استعمال کرنے کی ضرورت پڑتی ہے، لہذا ان کے بعض احکام و آداب کو جاننا ضروری ہے۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ  فرمایا:

’’ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  نَهَى عَنْ السَّدْلِ فِي الصَّلَاةِ، وَأَنْ يُغَطِّيَ الرَّجُلُ فَاهُ ‘‘ [1]

(بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے نماز میں سدل  سے منع فرمایا ہے، اور اس سے بھی کہ کوئی شخص منہ ڈھانپ کر نماز پڑھے)۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

نماز میں منہ ڈھانپ کر نماز پڑھنا مکروہ ہے الا یہ کہ کوئی علت (بیماری وغیرہ) ہو۔

(جريدة عكاظ) العدد (10877) وتاريخ الجمعة 7 محرم 1417هـ. (مجموع فتاوى ومقالات الشيخ ابن باز 11/114)۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

نماز میں منہ ڈھانپنا مکروہ ہے، اور نماز کے علاوہ کسی کو مشکوک بنانے کا سبب ہے۔ لیکن اگر کوئی ضرورت ہو جیسا کہ کسی شخص کو زکام ہو اور منہ ڈھانپنے کی ضرورت پڑجائے تو اس میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ وہ معذور ہے۔ اسی طرح سے اگر کوئی بندہ حساس ہو کہ اسے سردی یا غبار یا ہوا متاثر کرتی ہے اور منہ ڈھانپنے سے اس سے بچا جاسکتا ہو، تو یہ ایک ضرورت ہونے کی وجہ سے اس کی نماز پر اثرانداز نہیں ہوگی۔

[فتاوی نور علی الدرب کیسٹ 293]

بعض اہل علم کہتے ہیں سدل کا معنی ہے جیسے لوگ رومال یا چادر  پہنتے ہيں تو اس کے کنارے آگے کی جانب کاندھوں سے لٹکے ہوئے ہوں جس سے نمازی انہی کو سنبھالنے میں مشغول ہوجاتا ہے۔ البتہ بعض علماء اس کی مزید وضاحت فرماتے ہیں جیسے شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ جس نے صرف ایک ہی کپڑا پہنا ہو تو بس چادر کی طرح اوپر رکھنے سے وہ گر سکتا ہے اور اس کا ستر ظاہر ہوسکتا ہے۔ [یوٹیوب کلپ] اور شیخ عبدالمحسن العباد حفظہ اللہ شرح سنن ابی داود میں فرماتے ہيں یہ ممانعت قمیص کے اوپر پہنے ہوئے کپڑے کے بارے میں نہیں کیونکہ اس طرح کرنے سے جو اصل خدشہ تھا وہ یہ تھا کہ انسان کے کاندھے ننگے نہ ہوجائیں، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے کپڑے میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا کہ نمازی کے کاندھوں پر اس میں سے کچھ نہ ہو، لہذا اندر قمیص پہنی ہوئی ہو تو ظاہر ہے یہ خدشہ باقی نہیں رہتا۔اھ

ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ:

’’نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ اشْتِمَالِ الصَّمَّاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْ يَحْتَبِيَ الرَّجُلُ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ لَيْسَ عَلَى فَرْجِهِ مِنْهُ شَيْءٌ‘‘ [2]

(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اشتمال الصماء سے منع فرمایا ہے، اور اس سے بھی کہ کوئی شخص ایک ہی کپڑے میں یوں احتباء کرے کہ اس کی شرمگاہ پر اس میں سے کچھ نہ ہو)۔

اشتمال الصماء کا معنی ہے چادر سے جسم کو یوں بند کرکے لپیٹنا کہ انسان ہاتھوں کو حرکت ہی نہ دے سکے۔

احتباء کا مطلب ہے گھٹنے کھڑے کرکے اس طرح بیٹھنا کہ ایک کپڑے کے ساتھ کمر اور گھٹنوں کو باندھ دیا جائے[3]۔

البتہ اگر ایسی کیفیت نہ ہو تو چادر اوپر پہنی جاسکتی ہے۔

وائل بن حجر رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو دیکھا:

’’رَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ كَبَّرَ، ثُمَّ الْتَحَفَ بِثَوْبِهِ، ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى، فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ، أَخْرَجَ يَدَيْهِ مِنَ الثَّوْبِ، ثُمَّ رَفَعَهُمَا، ثُمَّ كَبَّرَ فَرَكَعَ‘‘[4]

(آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے جب نماز میں داخل ہوئے اور تکبیر کہی، پھر اپنے کپڑے میں لپیٹ لیے، اور پھر اپنے داہنے ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھا، پھر جب رکوع کا ارادہ فرمایا تو اپنے ہاتھوں کو کپڑے سے نکالا، پھر انہیں اٹھایا، پھر تکبیر کہی پھر رکوع فرمایا)۔

دوسری روایت میں فرمایا کہ میں شدید ٹھنڈ کے موسم میں دوبارہ آیا تو دیکھا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نماز میں چادریں اوڑھے ہوئے تھے اور اس کے اندر ہی اندر ان کے ہاتھ حرکت کررہے تھے[5]۔

اس سے بھی معلوم ہوا کہ نماز میں رکوع میں جاتے اور اٹھتے ہوئے رفع الیدین کرنا آخر تک منسوخ نہیں ہوا تھا۔


[1] اسے امام ابو داود نے اپنی سنن میں روایت کیا ہے اور شیخ البانی نے صحیح ابی داود 634 میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔

[2] صحیح بخاری 367۔

[3] فتح الباری وغیرہ۔

[4] صحیح مسلم 403۔

[5]  اسے امام ابو داود نے اپنی سنن میں روایت کیا ہے اور شیخ البانی نے صحیح ابی داود 727 میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔

جمع و ترتیب: طارق علی بروہی

3 Comments

  1. Assalamu alaikum wa rahmatullahi wa barakaatuhu.
    Alhamdulillah! Beneficial for the true knowledge seekers.
    Baarakallahu Feekum

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*