
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بعض لوگوں خصوصاً بریلویوں اور دیوبندی حیاتیوں کا یہ گمراہ کن عقیدہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلکہ دیگر انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام پر بھی محض وعدۂ الہی کی وفاء کے لیے ایک آن کو موت طاری ہوئی اب وہ قبر کی برزخی نہیں بلکہ دنیاوی زندگی کی مانند حسی طور پر زندہ ہیں اور تصرف فرماتےہیں۔ اور بدعتیانہ محفل میلاد یا ہمارے بزرگوں وغیرہ کے پاس تشریف لاتے ہیں۔ بلکہ انہیں فوت شدہ سمجھنا گستاخی ہے اور یوں کہنا چاہیے کہ ان پر ظاہری موت طاری ہوئی تھی بس انہوں نے دنیا سے پردہ فرمالیا ہے۔ اس غلط عقیدے کے رد میں کتاب و سنت کی روشنی میں علماء کرام کا کلام پیش خدمت ہے۔
سعودی عرب کی فتوی کمیٹی سے حیات النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متعلق سوال پوچھا گیا کہ:
کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی قبرشریف میں زندہ ہیں اس طور پر کہ ان کی روح ان کے جسد وبدن (عنصری) میں دنیاوی حسی حیات کی طرح لوٹادی گئی ہے یا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اعلی علیین میں اخروی ، برزخی اور غیر مکلف حیات میں ہیں جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرب وفات یہ فرمایا:
’’اللَّهُمَّ ۔۔۔ بِالرَّفِيقِ الأَعْلَى‘‘([1])
(اے اللہ مجھے رفیق اعلی (انبیاء، صدیقین، شہداء وصالحین) سے ملا دے)۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسد منور قبر میں ابھی ویسا ہی ہے جیسا رکھا گیا تھا بغیر روح کے جبکہ روح تو اعلی علیین میں ہے۔ اور روح کے ساتھ بدن وجسد معطر کا ملاپ بروز قیامت ہوگا جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿وَاِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ﴾ (التکویر: 7)
(جب روحیں بدنوں سےملا دی جائیں گی)؟
جواب: ہمارے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی قبر میں زندہ ہیں برزخی حیات کے ساتھ کہ جس میں وہ اللہ تعالی کی ان نعمتوں کو حاصل کرتے ہیں جو دنیا میں سرانجام دیے گئے ان کے عظیم وپیارے اعمال کی جزاء میں اللہ تعالی نے ان کے لیے تیار کر رکھی ہیں۔ ان پر ان کے رب کی طرف سے افضل ترین درود وسلام ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف روح اس طور پر نہیں لوٹائی جاتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوں زندہ ہوجائیں جیسے دنیا میں زندہ تھے نہ ہی اس طور پر روح کا اتصال ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یوں زندہ کردے جیسے آخرت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات ہوگی۔ بلکہ یہ برزخی حیات ہے جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دنیاوی او راخروی حیات کے وسط میں ہے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فوت ہوچکے ہیں جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام وغیرہ فوت ہوئے تھے۔ فرمان الہی ہے:
﴿وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ ۭ اَفَا۟ىِٕنْ مِّتَّ فَهُمُ الْخٰلِدُوْنَ﴾ (الانبیاء: 34)
(ہم نے تم سے پہلے بھی کسی بشر کو ہمیشگی نہيں دی، پس اگر تم پر موت آجائے گی تو کیا یہ (مخالفین) ہمیشہ زندہ رہیں گے)
اور فرمایا:
﴿كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ، وَّيَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ ﴾ (الرحمن: 26-27)
(کائنات میں جو کچھ ہے فنا ہونے والا ہے اور تیرے رب ذوالجلال والاکرام کا چہرہ ہی باقی رہنے والا ہے)
اور فرمایا:
﴿اِنَّكَ مَيِّتٌ وَّاِنَّهُمْ مَّيِّتُوْنَ﴾ (الزمر: 30)
(بے شک آپ بھی میت ہوجانے والے ہیں اور یہ لوگ بھی مرنے والے ہیں)
اور ان جیسی دیگر آیات جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالی نے وفات دے دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غسل دیا، کفن پہنایا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلوۃ وسلام پڑھا اور دفن فرمایا۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی دنیاوی حیات کی مانند زندہ ہوتے تووہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایسا نہ کرتے جیسا دیگر تمام فوت شدگان کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
اسی لیے فاطمہ رضی اللہ عنہما نے اپنے والد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وراثت کا مطالبہ کیا کیونکہ آپ رضی اللہ عنہما ان کی موت کا اعتقاد رکھتی تھیں۔ اور آپ رضی اللہ عنہما کے اس اعتقاد کی صحابہ میں سے کسی نے مخالفت نہیں کی بلکہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہما کو یہ جواب دیا کہ انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کی (مادی) وراثت نہیں ہوتی(بلکہ علم کی وراثت ہوتی ہے)([2])۔
یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس خلیفۂ مسلمین کے اختیار کے لیے جمع ہوئے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خلیفہ بنے۔ اور اس کی تکمیل ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ چن کر ہوئی۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی دنیاوی زندگی کی مانند زندہ ہوتے تو وہ کبھی ایسا نہ کرتے۔ پس یہ ان کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موت پر اجماع تھا۔
اور اس لیے بھی کہ عثمان وعلی رضی اللہ عنہما کے عہد میں یا ان سے پہلے اور بعد میں بھی جو فتنے اور مشکلات درپیش ہوئیں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کی طرف نہیں گئے کہ ان سے مشورہ لیتے یا ان فتنوں اور مشکلات سے نکلنے کا مخرج اور ان کے حل کا طریقہ دریافت کرتے۔اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی دنیاوی زندگی کی مانند زندہ ہوتے وہ صحابہ کبھی بھی ایسا کرنے سے لاپرواہی نہ برتتے حالانکہ انہیں اس وقت شدید ضرورت تھی کوئی انہيں ان آزمائشوں سےبچالے جنہوں نے انہيں گھیر رکھا تھا۔
البتہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح اعلی علیین میں ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم افضل ترین مخلوق ہیں اوراللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مقام وسیلہ عطاء فرمایا ہے جو کہ جنت کی اعلی ترین منزل ہے علیہ الصلاۃ والسلام۔
وبالله التوفيق. وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإِفتاء
رکن رکن نائب صدر صدر
عبد الله بن قعود عبد الله بن غديان عبد الرزاق عفيفي عبد العزيز بن عبد الله بن باز
(فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء،المجموعة الأولى،المجلد الأول (العقيدة 1)،العقائد،الغلو في الرسول صلى الله عليه وسلم،نبينا محمدا صلى الله عليه وسلم حي في قبره حياة برزخية، الجزء رقم : 1، الصفحة رقم: 470-471، فتوى رقم 4283)
شیخ حمود التویجری رحمہ اللہ تبلیغی جماعت کے رد پر لکھی گئی اپنی کتاب ’’القول البليغ في التحذير من جماعة التبليغ‘‘ میں فرماتے ہیں:
ان فاسد عقائد میں سے جو (میجر) محمد اسلم (پاکستانی) نے شیخ حسین احمد (مدنی دیوبندی ) کے متعلق ذکر کیے یہ بھی ہے کہ وہ کہتے ہیں:
’’بلاشبہ انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام ہمارے نزدیک زندہ ہیں حقیقی زندگی کے ساتھ نہ کہ برزخی زندگی‘‘۔
اور کہتے ہیں:
’’خبیث وہابی ہمارے اس عقیدے میں ہماری مخالفت کرتے ہیں‘‘۔
اور کہتے ہیں:
’’بے شک محمد بن عبدالوہاب النجدی اور اس کے پیروکار آج تک یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ بلاشبہ انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کی زندگی وہی تھی جس کی مدت وہ اس دنیا میں پوری کرکے چلے گئے۔ اس کے بعد وہ اور ان کے پیروکار موت سے ہمکنار ہونے میں برابر ہیں‘‘([3])۔
شیخ تقی الدین الہلالی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’السراج المنیر‘‘ ص26-27 میں فرماتے ہیں:
’’ان کا یہ کہنا کہ: (بلاشبہ انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام ہمارے نزدیک زندہ ہیں حقیقی زندگی کے ساتھ نہ کہ برزخی زندگی)۔ ایک جھوٹ اور بہتان ہے، ان سےپہلے کبھی کسی نے ایسا نہیں کہا۔ کیونکہ زندگیاں تو دو ہی ہیں تیسری کوئی حیات نہيں سوائے اہل جنت کی حیات کے۔ چناچہ دنیا کی زندگی موت کے منافی ہے۔ اور برزخی زندگی جسم کی موت کے ساتھ جمع رہتی ہے۔ کیونکہ وہ روحانی زندگی ہے۔ جبکہ اہل جنت کی جو زندگی ہے وہ ان سابقہ دونوں زندگیوں سے افضل ہے، جس میں نہ موت ہے، نہ مرض اور نہ ہی غم۔
جبکہ اس دجال نے ان میں ایک چوتھی زندگی کا اضافہ کردیا کہ جس کا اس کے اپنے فاسد خیال کے علاوہ کوئی وجود ہی نہيں۔
یہی وہی شخص ہے جس نے ہندوستان میں فتوی دیا تھا کہ پاکستان کا ہندوستان سے الگ آزاد ملک ہونا شرعا ًجائز نہیں۔ یعنی شیطان کی شریعت میں! وہ یہ چاہتا تھا کہ مسلمان ہندوستان میں اپنے بت پرست دشمنوں کے زیر حکومت رہیں! یہ ہے اس کے نزدیک شریعت ۔ یہ سب کام اس نے بت پرستوں کی چاپلوسی ان کے آگے جھکنے اور مسلمانوں پر طعن کرتے ہوئے کیے۔
کیا وہ اللہ تعالی کے اس فرمان کا انکار کرتا ہے کہ:
﴿اِنَّكَ مَيِّتٌ وَّاِنَّهُمْ مَّيِّتُوْنَ﴾ (الزمر: 30)
(بے شک تم بھی میت ہوجانے والے ہو اور یہ لوگ بھی مرنے والے ہیں)
اور اس فرمان الہی کا:
﴿وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۭ اَفَا۟ىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓى اَعْقَابِكُمْ﴾ (آل عمران: 144)
(اور نہیں ہيں محمد مگر ایک رسول ہی، (جیسا کہ) بے شک ان سے پہلے کئی رسول گزر چکے تو کیا اگر وہ فوت ہو جائیں، یا قتل کر دیے جائیں تو تم اپنی ایڑیوں پر پھر جاؤ گے)؟!
اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ان کے اس قول میں جھٹلاتا ہے:
’’مَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ، وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ‘‘([4])
(جو کوئی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عبادت کرتا تھا تو (وہ جان لے کہ ) بے شک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وفات پاچکے ہیں، او رجو کوئی اللہ تعالی کی عبادت کرتا تھا توبے شک اللہ تعالی ہمیشہ زندہ ہے اسے موت نہیں آئے گی)۔
یا پھر وہ دیگرآیات کو جھٹلاتا ہے جیسا کہ اس کی عادت ہے کہ اپنے خبط میں اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھتی ہے؟!‘‘۔
میں (حمود التویجری) یہ کہتا ہوں:
حسین احمد کےاس قول: ’’بلاشبہ انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام ہمارے نزدیک زندہ ہیں حقیقی (دنیاوی) زندگی کے ساتھ نہ کہ برزخی زندگی‘‘ سے بہت سی باطل باتیں لازم آتی ہیں:
جن میں سے یہ ہے کہ پھر انبیاء دیگر زندوں کی طرح زمین پر چلیں پھریں، کھائیں پئیں اور دیگر زندوں کی طرح قضائے حاجت بھی کریں، اور یہ کہ وہ لوگوں کے درمیان ظاہر ہوں، لوگ ا نہیں دیکھیں، اپنی مجلسوں میں بٹھائیں اور ان سے علم حاصل کریں۔ حالانکہ یہ تمام امور ہر عاقل انسان کےنزدیک لازماً باطل تصور کیے جائیں گے۔ اور یہ بات یا ان باتوں میں سے کوئی بھی بات محض پاگل پنہ اور ہذیان گوئی ہے جو کسی بھی ایسے انسان سے صادرنہیں ہوسکتی جس کے پاس عقل میں سے ادنی حصہ بھی موجود ہو۔
حسین احمد کے قول سےیہ باطل بھی لازم آتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسد شریف سے خالی ہوگی، اور اسی طرح دیگر تمام انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کی قبریں بھی، حالانکہ یہ بات بھی ہر عاقل انسان کے نزدیک لازماً باطل تصور کی جائے گی ،اور یہ بات کوئی کر ہی نہيں سکتا سوائے اس کے جس کا دماغ خراب ہو۔
اس کے علاوہ اس قول کو تسلیم کرنے کے نتیجے میں باطل باتوں میں سے جو باطل بات لازم آتی ہے ان میں سے ایک ان نصوص کی تکذیب بھی ہے کہ جو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دیگر تمام انسانوں کی موت پر دلالت کرتے ہیں۔ جیسے اللہ تعالی نے سورۂ زمر میں فرمایا:
﴿اِنَّكَ مَيِّتٌ وَّاِنَّهُمْ مَّيِّتُوْنَ﴾ (الزمر: 30)
(بے شک تم بھی میت ہوجانے والے ہو اور یہ لوگ بھی مرنے والے ہیں)
اور سورۂ آل عمران میں فرمایا:
﴿وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۭ اَفَا۟ىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓى اَعْقَابِكُمْ﴾ (آل عمران: 144)
(اور نہیں ہيں محمد مگر ایک رسول ہی، (جیسا کہ) بے شک ان سے پہلے کئی رسول گزر چکے تو کیا اگر وہ فوت ہو جائیں، یا قتل کر دیے جائیں تو تم اپنی ایڑیوں پر پھر جاؤ گے)
اور سورۂ انبیاء میں فرمایا:
﴿وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ ۭ اَفَا۟ىِٕنْ مِّتَّ فَهُمُ الْخٰلِدُوْنَ، كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَةُ الْمَوْتِ﴾(الانبیاء: 34-35)
(ہم نے تم سے پہلے بھی کسی بشر کو ہمیشگی نہيں دی، پس اگر تم پر موت آجائے گی تو کیا یہ (مخالفین) ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے)
اور سورۂ عنکبوت میں فرمایا:
﴿كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَةُ الْمَوْتِ ۣثُمَّ اِلَيْنَا تُرْجَعُوْنَ﴾ (العنکبوت: 57)
(ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے پھر تم سب کو ہماری طرف لوٹ کر آنا ہے)
اور سورۂ آل عمران میں فرمایا:
﴿كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَةُ الْمَوْتِ ۭ وَاِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ﴾ (آل عمران: 185)
(ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور تمہیں تمہارے اجر پورے پورے تو قیامت کے دن ہی دیے جائيں گے)
اور سورۂ رحمن میں فرمایا:
﴿كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ، وَّيَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ ﴾ (الرحمن: 26-27)
(کائنات میں جو کچھ ہے فنا ہونے والا ہے اور تیرے رب ذوالجلال والاکرام کا چہرہ ہی باقی رہنے والا ہے)
اب اگر حسین احمد اور ان کے علاوہ تبلیغی جماعت کے دیگر خرافت پسند مشایخ یہ عقیدہ رکھتے ہيں کہ انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کی حیات حقیقی (دنیاوی) حیات ہے، اور ان کی جماعت اوراکابرین کو اپنی مجلسوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری نصیب ہوتی ہے وہ بھی جاگتی آنکھوں سے نہ کہ خواب میں، اور وہ شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ اور ان کے متبعین کے اس عقیدے کے بطلان کے قائل ہیں کہ بلاشبہ انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کی زندگی وہی تھی جس کی مدت وہ اس دنیا میں پوری کرکے چلے گئے۔ اس کے بعد وہ اور ان کے پیروکار موت سے ہمکنار ہونے میں برابر ہیں تو یہ لوگ ان نصوص کا کیا جواب دیں گے جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ موت آنا سب کے لیے عام ہے خواہ وہ انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلامہوں یا ان کے علاوہ تمام انسان؟! اور ان کثیر احادیث کا کیا جواب دیں گے جن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موت اور دفنائے جانے کا ذکر ہے؟ اور یہ جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’أَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الأَرْضُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ‘‘([5])
(قیامت کے دن سب سے پہلے میری قبر کو شق کیا جائے گا)؟!
اب اگر ان کے پاس ان آیات کا جن کا ذکر پہلے گزرا اور ان احادیث کا جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موت اور تاقیامت اپنی قبر میں رہنے پر دلالت کرتی ہیں کا صحیح جواب نہیں ہے تو پھران پر واجب ہوتا ہے کہ وہ اس حق کی جانب رجوع کریں جس پر کتاب وسنت دلالت کرتے ہیں اورجس چیز پر سلف صالحین جیسے صحابہ اور بطور احسن ان کی پیروی کرنے والےگامزن تھے ۔ اور وہ تمام انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام اور ان کے علاوہ تمام انسانوں پر موت وارد ہونے کا عقیدہ ہے۔ اور یہ کہ تمام انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام اور ان کے علاوہ تمام فوت شدگان اپنی قبروں میں تاقیامت رہیں گے۔ اور سب سے پہلےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرشق ہوگی۔ یہ ہے صحیح عقیدہ ۔ جبکہ اس کے برخلاف جو بھی عقیدہ ہے تو وہ ان فاسد عقائد میں سے ہے جنہیں شیطان نے اپنے صوفیوں اور تبلیغیوں جیسے دوستوں کے لیے مزین کرکے پیش کیا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَمَنْ يَّكُنِ الشَّيْطٰنُ لَهٗ قَرِيْنًا فَسَاۗءَ قَرِيْنًا﴾ (النساء: 38)
(اور وہ شخص کہ شیطان اس کا ساتھی ہو تو وہ کیا ہی برا ساتھی ہے)
اور فرمایا:
﴿وَمَنْ يَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ نُـقَيِّضْ لَهٗ شَيْطٰنًا فَهُوَ لَهٗ قَرِيْنٌ﴾ (الزخرف: 36)
(اور جو شخص رحمن کی نصیحت سے اندھا بن جائے ہم اس کے لیے ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں، پھر وہ اس کےساتھ لگا رہتا ہے)
اور فرمان الہی ہے:
﴿اِنَّهُمُ اتَّخَذُوا الشَّيٰطِيْنَ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَيَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ مُّهْتَدُوْنَ ﴾ (الاعراف: 30)
(بے شک انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر شیطانوں کو دوست بنا لیا اور سمجھتے ہیں کہ یقیناً وہ ہدایت یافتہ ہیں)
پس یہ آیت تبلیغیوں پر منطبق ہوتی ہے جن کا یہ گمان ہے کہ انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کی حیات حقیقی (دنیاوی) حیات ہے، اور ان کی جماعت اوراکابرین کو اپنی مجلسوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری نصیب ہوتی ہے وہ بھی جاگتی آنکھوں سے نہ کہ خواب میں۔
(القول البليغ في التحذير من جماعة التبليغ ص 80-83)
اس کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عقیدہ ملاحظہ ہو:
وفات نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا عقیدہ اور اجماع صحابہ
’’۔۔۔عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مَاتَ وَأَبُو بَكْرٍ بِالسُّنْحِ، قَالَ إِسْمَاعِيلُ: يَعْنِي بِالْعَالِيَةِ، فَقَامَ عُمَرُ، يَقُولُ: وَاللَّهِ مَا مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَتْ: وَقَالَ عُمَرُ: وَاللَّهِ مَا كَانَ يَقَعُ فِي نَفْسِي إِلَّا ذَاكَ وَلَيَبْعَثَنَّهُ اللَّهُ فَلَيَقْطَعَنَّ أَيْدِيَ رِجَالٍ وَأَرْجُلَهُمْ فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ فَكَشَفَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقَبَّلَهُ، قَالَ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي طِبْتَ حَيًّا وَمَيِّتًا، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يُذِيقُكَ اللَّهُ الْمَوْتَتَيْنِ أَبَدًا ثُمَّ خَرَجَ، فَقَالَ: أَيُّهَا الْحَالِفُ عَلَى رِسْلِكَ، فَلَمَّا تَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ جَلَسَ عُمَرُ فَحَمِدَ اللَّهَ أَبُو بَكْرٍ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَقَالَ: أَلَا مَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ، وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ، وَقَالَ: ﴿اِنَّكَ مَيِّتٌ وَّاِنَّهُمْ مَّيِّتُوْنَ﴾، وَقَالَ: ﴿وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۭ اَفَا۟ىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓى اَعْقَابِكُمْ ۭ وَمَنْ يَّنْقَلِبْ عَلٰي عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَّضُرَّ اللّٰهَ شَـيْـــًٔـا ۭ وَسَيَجْزِي اللّٰهُ الشّٰكِرِيْنَ﴾، قَالَ: فَنَشَجَ النَّاسُ يَبْكُونَ، قَالَ: وَاجْتَمَعَتْ الْأَنْصَارُ إِلَى سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ، فَقَالُوا: مِنَّا أَمِيرٌ وَمِنْكُمْ أَمِيرٌ فَذَهَبَ إِلَيْهِمْ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَأَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ، فَذَهَبَ عُمَرُ يَتَكَلَّمُ فَأَسْكَتَهُ أَبُو بَكْرٍ وَكَانَ عُمَرُ، يَقُولُ: وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ بِذَلِكَ إِلَّا أَنِّي قَدْ هَيَّأْتُ كَلَامًا قَدْ أَعْجَبَنِي خَشِيتُ أَنْ لَا يَبْلُغَهُ أَبُو بَكْرٍ ثُمَّ تَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ فَتَكَلَّمَ أَبْلَغَ النَّاسِ، فَقَالَ: فِي كَلَامِهِ نَحْنُ الْأُمَرَاءُ وَأَنْتُمُ الْوُزَرَاءُ، فَقَالَ: حُبَابُ بْنُ الْمُنْذِرِ لَا وَاللَّهِ لَا نَفْعَلُ مِنَّا أَمِيرٌ وَمِنْكُمْ أَمِيرٌ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: لَا وَلَكِنَّا الْأُمَرَاءُ وَأَنْتُمُ الْوُزَرَاءُ هُمْ أَوْسَطُ الْعَرَبِ دَارًا وَأَعْرَبُهُمْ أَحْسَابًا، فَبَايِعُوا عُمَرَ أَوْ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ، فَقَالَ عُمَرُ: بَلْ نُبَايِعُكَ أَنْتَ فَأَنْتَ سَيِّدُنَا وَخَيْرُنَا، وَأَحَبُّنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَأَخَذَ عُمَرُ بِيَدِهِ فَبَايَعَهُ وَبَايَعَهُ النَّاسُ، فَقَالَ: قَائِلٌ قَتَلْتُمْ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ، فَقَالَ: عُمَرُ قَتَلَهُ اللَّهُ. وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَالِمٍ: عَنْ الزُّبَيْدِيِّ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ، أَخْبَرَنِي الْقَاسِمُ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: شَخَصَ بَصَرُ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ثُمَّ قَالَ: فِي الرَّفِيقِ الْأَعْلَى ثَلَاثًا وَقَصَّ الْحَدِيثَ، قَالَتْ: فَمَا كَانَتْ مِنْ خُطْبَتِهِمَا مِنْ خُطْبَةٍ إِلَّا نَفَعَ اللَّهُ بِهَا لَقَدْ خَوَّفَ عُمَرُ النَّاسَ وَإِنَّ فِيهِمْ لَنِفَاقًا فَرَدَّهُمُ اللَّهُ بِذَلِكَ ثُمَّ لَقَدْ بَصَّرَ أَبُو بَكْرٍ النَّاسَ الْهُدَى وَعَرَّفَهُمُ الْحَقَّ الَّذِي عَلَيْهِمْ وَخَرَجُوا بِهِ يَتْلُونَ: وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۭ ۔۔۔إِلَى الشّٰكِرِيْنَ‘‘([6])
(عروہ بن الزبیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جب وفات ہوئی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ اس وقت مقام سنح میں تھے۔ اسماعیل نے کہا یعنی عوالی کے ایک گاؤں میں۔ پس عمر رضی اللہ عنہ اٹھ کر یہ کہنے لگے کہ اللہ کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات نہیں ہوئی۔ عائشہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے اللہ کی قسم اس وقت میرے دل میں یہی خیال آتا تھا کہ اللہ تعالی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ضرور اس بیماری سے اچھا کر کے اٹھائے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ضروران لوگوں کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیں گے (جو آپ کی موت کی باتیں کرتے ہیں) اتنے میں ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے اور اندر جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوپر سے کپڑا اٹھایا اور بوسہ دیا اورفرمایا: میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر فدا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زندگی میں بھی پاکیزہ تھے اور وفات کے بعد بھی، اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اللہ تعالیٰ آپ پر دو مرتبہ موت ہرگز طاری نہیں کرے گا([7])۔ اس کے بعد آپ رضی اللہ عنہ باہر آئے اور عمر رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے، اے قسم کھانے والے! ذرا تأمل کر۔ پھر جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے گفتگو شروع کی تو عمر رضی اللہ عنہ خاموش بیٹھ گئے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پہلے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا: خبردارلوگو! دیکھو جو کوئی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عبادت کرتا تھا تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہو چکی ہے اور جو شخص اللہ کی عبادت کرتا تھا تو اللہ تعالی ہمیشہ زندہ ہے اسے موت کبھی نہیں آئے گی۔ پھر فرمایا (بے شک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی میت ہوجانے والے ہیں اور یہ لوگ بھی مرنے والے ہیں) (الزمر: 33)۔ اور فرمایا: (اور نہیں ہيں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مگر ایک رسول ہی، (جیسا کہ) بے شک ان سے پہلے کئی رسول گزر چکے تو کیا اگر وہ فوت ہو جائیں، یا شہید کر دیے جائیں تو تم اپنی ایڑیوں پر پھر جاؤ گےاور جو شخص اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائے تو وہ اللہ کو کبھی کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا اور اللہ عنقریب شکر گزار بندوں کو بدلہ دینے والا ہے) (آل عمران: 144)۔ راوی نے بیان کیا کہ یہ سن کر لوگ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ راوی نے بیان کیا کہ انصار سقیفہ بنی ساعدہ میں سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے پاس جمع ہو گئے اور کہنے لگے کہ ایک امیر ہم میں سے ہو گا اور ایک امیر تم (مہاجرین) میں سے ہو گا (دونوں مل کر حکومت کریں گے) پھر ابوبکر، عمر بن خطاب اور ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہم ان کی مجلس میں پہنچے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے گفتگو کرنی چاہی لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے خاموش رہنے کے لیے کہا۔ عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ اللہ کی قسم میں نے ایسا صرف اس وجہ سے کیا تھا کہ میں نے پہلے ہی سے ایک تقریر تیار کر لی تھی جو مجھے بہت پسند آئی تھی پھر بھی مجھے ڈر تھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی برابری اس سے بھی نہیں ہو سکے گی۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انتہائی بلاغت کے ساتھ بات شروع کی۔ انہوں نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ ہم (قریش) امراء ہیں اور تم (جماعت انصار) وزراء ہو۔ اس پر حباب بن منذر رضی اللہ عنہ بولے کہ نہیں اللہ کی قسم ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے، ایک امیر ہم میں سے ہو گا اور ایک امیر تم میں سے ہو گا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نہیں ہم امراء ہیں تم وزراء ہو (وجہ یہ ہے کہ) قریش کے لوگ سارے عرب میں شریف خاندان شمار کیے جاتے ہیں اور ان کا ملک (یعنی مکہ) عرب کے بیچ میں ہے تو اب تم کو اختیار ہے یا تو عمر رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لو یا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں بلکہ ہم آپ کی ہی بیعت کریں گےکیونکہ آپ رضی اللہ عنہ ہمارے سردار ہیں، ہم میں سب سے بہتر ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک آپ ہم سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ چناچہ عمر رضی اللہ عنہ نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور ان کے ہاتھ پر بیعت کر لی پھر سب لوگوں نے بیعت کی۔ اتنے میں کسی کی آواز آئی کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو تم لوگوں نے مار ڈالا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: انہیں اللہ نے مار ڈالا۔
اور عبداللہ بن سالم نے زبیدی سے نقل کیا کہ عبدالرحمٰن بن قاسم نے بیان کیا، انہیں قاسم نے خبر دی اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر (وفات سے پہلے) اٹھی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! مجھے رفیق اعلیٰ میں (داخل کر) آپ نے یہ جملہ تین مرتبہ فرمایا اور راوی نے پوری حدیث بیان کی۔ عائشہ رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما دونوں ہی کے خطبوں سے نفع پہنچا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو ڈرایاکیونکہ ان میں بعض منافقین بھی تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس طرح (غلط افواہیں پھیلانے سے) ان کو باز رکھا۔ اور بعد میں ابوبکر رضی اللہ عنہ نےلوگوں کو ہدایت کی راہ دکھادی اور اس حق سے انہیں روشناس کروا دیا تھا جو ان پر لازم تھا (یعنی اسلام پر قائم رہنا) اور وہ یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے باہر آئے «وما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسل» سے لے کر «الشاكرين» تک)۔
وفات نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا عقیدہ اور اجماع صحابہ
’’عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ عُمَرُ يُدْخِلُنِي مَعَ أَشْيَاخِ بَدْرٍ، فَكَأَنَّ بَعْضَهُمْ وَجَدَ فِي نَفْسِهِ، فَقَالَ: لِمَ تُدْخِلُ هَذَا مَعَنَا وَلَنَا أَبْنَاءٌ مِثْلُهُ، فَقَالَ عُمَرُ: إِنَّهُ مَنْ قَدْ عَلِمْتُمْ، فَدَعَاهُ ذَاتَ يَوْمٍ، فَأَدْخَلَهُ مَعَهُمْ، فَمَا رُئِيتُ أَنَّهُ دَعَانِي يَوْمَئِذٍ إِلَّا لِيُرِيَهُمْ، قَالَ: مَا تَقُولُونَ فِي قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى ﴿اِذَا جَاۗءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَالْفَتْحُ﴾؟ فَقَالَ بَعْضُهُمْ: أُمِرْنَا أَنْ نَحْمَدَ اللَّهَ وَنَسْتَغْفِرَهُ إِذَا نُصِرْنَا وَفُتِحَ عَلَيْنَا، وَسَكَتَ بَعْضُهُمْ فَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا، فَقَالَ لِي: أَكَذَاكَ تَقُولُ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ؟ فَقُلْتُ: لَا، قَالَ: فَمَا تَقُولُ، قُلْتُ: هُوَ أَجَلُ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَعْلَمَهُ لَهُ، قَالَ: إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَذَلِكَ عَلَامَةُ أَجَلِكَ، فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا، فَقَالَ عُمَرُ: مَا أَعْلَمُ مِنْهَا إِلَّا مَا تَقُولُ‘‘([8])
(سعید بن جبیر روایت کرتے ہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے انہوں نے فرمایا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مجھے بزرگ بدری صحابہ کے ساتھ مجلس میں بٹھاتے تھے۔ بعض(جیسے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ) کو اس پر کچھ اعتراض ہوا، انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ انہیں آپ مجلس میں ہمارے ساتھ کیوں بٹھاتے ہیں حالانکہ ان کے جیسے تو ہمارے بھی بچے ہیں(انہیں تو نہیں بٹھاتے)؟! اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس کی وجہ تمہیں معلوم ہے۔ پھر انہوں نے ایک دن ابن عباس رضی اللہ عنہما کو بلایا اور انہیں بزرگ بدری صحابہ کے ساتھ بٹھایا (ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ) میں سمجھ گیا کہ آپ رضی اللہ عنہ نے مجھے انہیں دکھانے کے لیے بلایا ہے، پھر ان سے پوچھا اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے﴿اِذَا جَاۗءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَالْفَتْحُ﴾الخ (جب اللہ کی مدد اور فتح آ پہنچی) تو بعض لوگوں نے کہا کہ جب ہمیں مدد اور فتح حاصل ہوئی تو اللہ کی حمد اور اس سے استغفار کا ہمیں اس آیت میں حکم دیا گیا ہے۔ کچھ لوگ خاموش رہے اور کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے پوچھا: اے ابن عباس! کیا تم بھی یہی کہتے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں۔ پوچھا تو پھر کیا کہتے ہو؟ میں نے عرض کی کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کی طرف اشارہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہی چیز بتائی ہے اور فرمایا کہ جب اللہ کی مدد اور فتح آ پہنچی یعنی پھر یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کی علامت ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے رب کی پاکی و تعریف بیان کیجئے اور اس سے بخشش مانگا کیجئے، بیشک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا میں بھی وہی جانتا ہوں جو تم نے کہا)۔
البتہ جن احادیث میں آیا ہے کہ فرشتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک درود و سلام پہنچاتے ہیں، اسی طرح موسی علیہ الصلاۃ والسلام کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واقعۂ معراج میں اپنے قبر میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا وغیرہ تو یہ غیبی اور برزخ کے معاملات ہيں جنہیں دنیاوی حیات پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔
[1] صحیح بخاری 6348 ’’اللَّهُمَّ الرَّفِيقَ الْأَعْلَى‘‘۔
[2] البخاري (فتح الباري) برقم (4240، 4241)، ومسلم بشرح النووي (12 / 76)، وأبو داود برقم (2968، 2969، 2970)، والنسائي (7 / 133).
[3] الشہاب الثاقب ص 45۔
[4] صحیح بخاری 3670۔
[5] صحیح بخاری 2412 ’’فَإِنَّ النَّاسَ يَصْعَقُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الْأَرْضُ ۔۔۔‘‘۔
[6] صحیح بخاری 3670۔
[7] کیونکہ فرمان الہی بھی ہے: ﴿وَلَوْلَآ اَنْ ثَبَّتْنٰكَ لَقَدْ كِدْتَّ تَرْكَنُ اِلَيْهِمْ شَـيْــــًٔـا قَلِيْلًا، اِذًا لَّاَذَقْنٰكَ ضِعْفَ الْحَيٰوةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ عَلَيْنَا نَصِيْرًا﴾ (الاسراء: 74-75) (اور اگر ہم تمہیں ثابت قدم نہ رکھتے تو یقیناً قریب تھا کہ تم کچھ تھوڑا سا ان کی طرف مائل ہوہی جاتے، اس صورت میں ہم ضرور تمہیں دگنی زندگی اور دگنی موت کا مزہ چکھاتے، پھر تم اپنے لیے ہمارے خلاف کوئی مددگار نہ پاتے)۔
[8] صحیح بخاری 4970۔
ترجمہ واضافہ جات: طارق بن علی بروہی
Be the first to comment