عمل کے بجائے ہمیشہ واجب ہے یا نہیں پوچھنا؟ – فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۔۔۔لیکن میرے بھائیوں میں آپ کو ایک عمومی نصیحت کے طور پر کہو ں گا کہ:

جب کوئی نہی وارد ہو تو اس سے اجتناب کرو یہ نہ پوچھو کہ: آیا یہ تحریم کے لیے ہے یا کراہیت کے لیے؟ اسی طرح اگر امر وراد ہو تو اس کی اتباع کرو یہ نہ پوچھو کہ: آیا یہ وجوب کے لیے ہے یا استحباب کے لیے؟ صحابہ رضی اللہ عنہم کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی چیز کا حکم دیتے  تو وہ یہ نہیں کہا کرتے تھے: یا رسول اللہ! کیا آپ کا مقصد وجوب ہے یا استحباب؟ بلکہ فوراً اسے بجالاتے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ انسان متہم کہلائے گا اگر وہ اللہ کا حکم یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم سنے پھر کہنے لگے: کیا یہ وجوب کے لیے ہے یا استحباب کے لیے؟ اے بھائی! آپ مامور ہيں  کہ عمل پیرا ہوں۔

 اور جب نہی سنیں تو کہنے لگیں: کیا یہ کراہیت کے لیے ہے یا تحریم کے لیے؟ آپ مامور ہیں کہ اسے چھوڑ دیں۔

ہاں، اگر انسان کسی مسئلے میں پھنس جائے کہ اس نے مامور پر عمل نہیں  کیا یا منع کردہ چیز سے نہیں رکا، جب اس طرح  کی حالت میں پھنس جائے تب ہم تحقیق کرتے ہيں کہ: یہ وجوب کے لیے تھا یا استحباب کے لیے؟ لیکن اس سے پہلے ہی اس طرح کرنے کے تعلق سے میری ہر مومن کو یہی نصیحت ہے  کہ جب وہ اللہ  تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا  حکم سنے تو کہے: سمعنا و اطعنا (ہم نے سنا اور اطاعت کی) پھر وہ کام کرگزرے۔ اسی طرح اگر نہی سنے تو کہے: سمعنا و اطعنا اور اسے چھوڑ ، اور اپنے آپ کو خطرے میں نہ ڈالے۔

تمام لوگوں سے بڑھ کر اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے آگے سرتسلیم خم کرنے والے ہی سب سے زیادہ مضبوط ایمان والے ہوتے ہیں:

﴿اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَى اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ اَنْ يَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا  ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾  

(ایمان والوں کی بات، جب وہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلائے جائیں، تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے، اس کے سوا کچھ نہیں ہوتی کہ وہ کہتے ہیں ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی، اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں)

(النور: 51)

پس فلاح و کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کرو۔

پھر یہ بھی ہے کہ اگر آپ نے مامور کام پر عمل کرلیا چاہے وہ واجب تھا یا غیرواجب بہرحال آپ نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرلی جس سے آپ کا دل مزید روشن اور ایمان قوی تر ہوگا، اور آپ اللہ کی شریعت کے ساتھ امر ہو یا نہی چلنے والے بن گئے۔ لیکن اگر اسی طرح سختی  کا مظاہرہ کرتے رہيں گے کیا یہ واجب ہے یا غیرواجب! تو یہ ایک ایسی حرکت ہے جو نہیں ہونی چاہیے۔

اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ اپنی اطاعت کرنے میں ہماری اور آپ کی مدد فرمائے۔اھ

اس کے علاوہ ایک اثر جس کی صحت میں کچھ کلام ہے میں آیا ہے کہ:

”أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ عَنِ الْوِتْرِ أَوَاجِبٌ هُوَ؟ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ:  قَدْ أَوْتَرَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَأَوْتَرَ الْمُسْلِمُونَ، فَجَعَلَ الرَّجُلُ يُرَدِّدُ عَلَيْهِ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ يَقُولُ: أَوْتَرَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَأَوْتَرَ الْمُسْلِمُونَ“[1]

 (ایک شخص نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے وتر کے متعلق پوچھا کہ کیا وہ واجب ہے؟ تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وتر پڑھا اور مسلمان بھی پڑھتے ہيں۔ پس وہ شخص بار بار یہ سوال دہراتا رہا اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی یہی کہتے رہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وتر پڑھا اور مسلمان بھی پڑھتے ہيں)۔

مصدر: لقاء الباب المفتوح 160 [حكم تحية المسجد]


[1] موطاء امام مالک بروایۃ یحیی اللیثی 271، مسند احمد 4819 قال احمد شاکر : اسنادہ صحیح 29/7، تخریج مشکوۃ المصابیح 1232 قال الالبانی: اسنادہ ضعیف منقطع۔

مترجم

طارق بن علی بروہی

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*