
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میرے بھائیو! آپ کا یہ ماہ کریم الوداع ہوا چاہتا ہے، بس کچھ عرصہ باقی رہ گیا ہے۔ آپ میں سے جو محسن ہے وہ اللہ تعالی کی اس پر حمد بیان کرے اور قبولیت کی دعاء کرے۔ اور جو آپ میں سے لاپرواہی اور کوتاہی کا شکار ہے تو وہ اللہ کے حضور توبہ کرے اور اپنی کوتاہی وتقصیر کی معذرت چاہے کیونکہ موت سے پہلے پہلے معذرت قبول ہے۔
میرے بھائیو! بے شک اللہ تعالی نے آپ کے اس ماہ کے اختتام پر عید سے قبل زکوٰۃ الفطر دینا مشروع کیا ہے۔ ہم ان شاء اللہ آج کی اس مجلس میں اس کے حکم، حکمت، جنس، مقدار، اس کے وجوب کا اور ادا کرنے کا وقت اور جگہ کے بارے میں بات کریں گے۔
زکوۃ الفطر کا حکم
یہ ایک فریضہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں پر فرض قرار دیا ہے۔ اور جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرض قرار دیں یا اس کا حکم دیں تو اس کا حکم بھی ویسا ہی ہے جیسے اللہ تعالی نے فرض کیا ہو یا حکم دیا ہو۔فرمان الہی ہے:
﴿مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ ۚ وَمَنْ تَوَلّٰى فَمَآ اَرْسَلْنٰكَ عَلَيْهِمْ حَفِيْظًا﴾
(اس رسول کی جو اطاعت کرے اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور جو منہ پھیر لے تو ہم نے آپ کو کچھ ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا)
(النساء: 80)
اور فرمایا:
﴿وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِهٖ جَهَنَّمَ ۭ وَسَاۗءَتْ مَصِيْرًا﴾
(جو شخص باوجود راہ ہدایت کے واضح ہو جانے کے بھی رسول اللہ کےمخالفت کرے اور تمام مومنوں کی راہ چھوڑ کر چلے، ہم اسے ادھر ہی متوجہ کردیں گے جدھر وہ خود متوجہ ہو، اور جہنم میں پہنچا دیں گے، اوروہ پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے)
(النساء: 115)
اور فرمایا:
﴿وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ، وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ﴾
(اور تمہیں جو کچھ رسول دیں لے لو، اور جس سے روکیں رک جاؤ ، اوراللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو، یقیناً اللہ تعالیٰ سخت عذاب والا ہے)
(الحشر: 7)
فطرہ کن پر فرض ہے؟
اور یہ مسلمانوں کے ہر بڑے، چھوٹے، مرد، عورت، آزاد وغلام پر فرض ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
’’فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زَكَاةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ عَلَى الْعَبْدِ، وَالْحُرِّ، وَالذَّكَرِ، وَالْأُنْثَى، وَالصَّغِيرِ، وَالْكَبِيرِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ‘‘([1])
(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان کی زکوۃ الفطر فرض قرار دی ہے جو کہ کھجور یا جَو میں سے ایک صاع واجب ہے مسلمانوں میں سے ہر غلام وآزاد، مرد وعورت، چھوٹے وبڑے پر)۔
جو بچہ ماں کے پیٹ میں حمل سے ہے اس پر یہ واجب نہيں الا یہ کہ وہ اپنی مرضی سے دینا چاہیں تو کوئی حرج نہیں۔ کیونکہ امیر المؤمنین عثمان رضی اللہ عنہ حمل کی بھی زکوۃ الفطر نکالتے تھے۔ اور واجب ہے کہ انسان خود اپنی اور جن کی کفالت اس کے ذمے ہے جیسے بیوی یا ایسے رشتہ دار جو اپنی زکوۃ الفطر کی ادائیگی نہيں کرسکتےان کی طرف سے اسے ادا کرے۔اگر وہ اس کی استطاعت رکھتے ہيں تو اولیٰ یہی ہے کہ وہ اپنی طرف سے خود ادا کریں کیونکہ اصلاً ہر ایک خود اس حکم کا مخاطب ہے۔ اور یہ صرف اس پر واجب ہے جس کے پاس عید کے دن اور رات کے کھانے سے زائد فاضل ہو۔ اگر کسی کے پاس ایک صاع سے کم ہو تو وہ اسے ہی ادا کردے کیونکہ فرمان الہی ہے:
﴿فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوْا وَاَطِيْعُوْا وَاَنْفِقُوْا خَيْرًا لِّاَنْفُسِكُمْ ۭ وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾
(پس جہاں تک تم سے ہو سکے اللہ سے ڈرتے رہو اور سنتے اور مانتے چلے جاؤ اور اللہ کی راہ میں خیرات کرتے رہو جو تمہارے اپنے ہی لیے بہتر ہے۔ اور واقعی جو شخص اپنے نفس کی حرص وبخل سے محفوظ رکھا جائے وہی کامیاب ہے)
(التغابن: 16)
اور فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے:
’’إِذَا أَمَرْتُكُمْ بِأَمْرٍ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ‘‘([2])
(جب میں تمہیں کسی کام کا حکم دوں تو اسے اپنی استطاعت بھر بجالاؤ)۔
زکوۃ الفطر کی حکمت
جہاں تک اس کی حکمت کا تعلق ہے تو وہ بالکل ظاہر وواضح ہے کہ اس میں عید کے روز فقراء کے ساتھ احسان کیا جاتا ہے اور انہیں سوال کرنے کی ذلت سے بچایا جاتا ہےتاکہ وہ اغنیاء کے ساتھ ان کی خوشی وسرور میں شریک ہوں اور سب کی عید ہوجائے۔ اس میں سخاوت کی صفت اپنانا اور مواسات وبھائی چارے کی محبت ظاہر ہوتی ہے۔ اور روزے دار کے روزوں میں جو نقص، لغویات یا گناہ وغیرہ شامل ہوگئے تھے ان کی تطہیر وصفائی ہوتی ہے۔ اور اس میں اللہ کی اس نعمت پر شکر ہے کہ اس نے اس ماہ مبارک کی تکمیل، اس میں قیام اور جتنے اعمال خیر میسر آسکے کرنے کی توفیق دی۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے فرمایا:
’’فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زَكَاةَ الْفِطْرِ طُهْرَةً لِلصَّائِمِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ وَطُعْمَةً لِلْمَسَاكِينِ، مَنْ أَدَّاهَا قَبْلَ الصَّلَاةِ فَهِيَ زَكَاةٌ مَقْبُولَةٌ، وَمَنْ أَدَّاهَا بَعْدَ الصَّلَاةِ فَهِيَ صَدَقَةٌ مِنَ الصَّدَقَاتِ‘‘([3])
(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زکوۃ الفطر اس لیے فرض فرمایا ہے کہ یہ روزے دار کے روزوں کو لغووبیہودگی سےپاک کرتا ہے اور مساکین کے لیے کھانا ہوتا ہے۔ جو کوئی اسے نماز عید سے پہلے ادا کرتا ہے تو یہ زکوۃ مقبول ہے۔ اور جو کوئی نماز کے بعد ادا کرتا ہے تو وہ عام صدقات کی طرح ایک صدقہ ہے)۔
فطرہ میں واجب جنس
جو لوگ عام طور پر کھانا کھاتے ہیں جیسے کھجور، یا گندم، یا چاول، یا کشمش (مُنَقّٰی) یا پنیر وغیرہ میں سےفطرہ دیا جاتا ہے۔ چنانچہ صحیحین میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے حدیث مروی ہے فرمایا:
’’فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زَكَاةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ ‘‘([4])
(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان کی زکوۃ الفطر فرض قرار دی ہے جو کہ کھجور یا جَو میں سے ایک صاع واجب ہے)۔
اور اس وقت ان کی غذاء جَو ہوا کرتی تھی جیسا کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’كُنَّا نُخْرِجُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم يَوْمَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ طَعَامٍ، وَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ: وَكَانَ طَعَامَنَا الشَّعِيرُ وَالزَّبِيبُ وَالْأَقِطُ وَالتَّمْرُ‘‘([5])
(ہم عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں یوم فطر کے دن کھانے میں سے ایک صاع نکالتے تھے اور اس وقت ہمارا کھانا جَو اور کشمش(مُنَقّٰی) اور پنیر اور کھجور ہوا کرتا تھا) ([6])۔
مویشیوں کے لیے کھانا نکالنا کفایت نہیں کرے گا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے مساکین کے لیے کھانا کہا ناکہ چوپایوں کے لیے۔
اسی طرح سے اسے لوگوں کی غذاء(کھانے) کے علاوہ کسی چیز جیسے کپڑوں، برتنوں یا سامان وغیرہ کی صورت میں نکالنا بھی کفایت نہیں کرے گا، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے غذاء میں سے فرض فرمایا اور جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے متعین فرمادیا اس سے تجاوز نہيں کیا جاسکتا۔
اور غذاء کی قیمت بھی نہيں دی جاسکتی کیونکہ یہ اس بات کے خلاف ہے جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم فرمایا ہے۔یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ‘‘([7])
(جس کسی نے کوئی ایسا عمل کیاجس کا ہم نے حکم نہ دیا ہو تو وہ مردود ہے)۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ:
’’مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ‘‘([8])
(جس کسی نے ہمارے اس امر (دین) میں کوئی نئی بات ایجاد کی جو اس میں نہ تھی، تو وہ مردود ہے)۔
رد کردی جائے گی یعنی وہ مردود (ناقابل قبول) ہے۔ اور اس لیے بھی کہ اس کی قیمت دینا صحابہ کرام y کے عمل کے خلاف ہے کہ وہ غذاء میں سے ایک صاع نکالتے تھے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ مِنْ بَعْدِي‘‘([9])
(تمہیں چاہیے کہ میری سنت اور میرے بعد ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو)۔
اور اس لیے بھی کہ زکوۃ فطر ایک فرض عبادت ہے جو ایک جنس سے ادا کرنا متعین کردی گئی ہے اس کے علاوہ کسی جنس سے ادا کرنا کفایت نہیں کرتا جیسا کہ اسے متعین وقت سے ہٹ کر ادا کرنا کفایت نہيں کرتا۔
اور اس لیے بھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے مختلف اجناس میں سے مقرر فرمایا اور غالباً ان کی بھاؤ مختلف ہوتےہیں۔اگر قیمت ادا کردینا معتبر ہوتا تو وہ ایک ہی جنس میں سے ہوتا اس کے مقابل میں دیگر اجناس کا اختیار نہ ہوتا۔
اور اس لیے بھی کہ اسے قیمت کی صورت میں ادا کرنا اسے ظاہری شعیرہ بننےکے بجائے خفیہ صدقہ بنادیتا ہے کیونکہ کھانے میں سے ایک صاع دینا اسے مسلمانوں کے مابین بالکل ظاہر کردیتا ہے جو ہر چھوٹے بڑے کو معلوم ہوتا ہے ۔اور وہ اس کے وزن اور تقسیم کا مشاہدہ کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے متعارف ہوتےہیں، برخلاف اسے درہم کی صورت میں دینے سے یہ انسان اور جسے دیا جارہا ہے کہ مابین خفیہ رہتا ہے۔
فطرے کی مقدار
فطرے کی مقدار ایک صاع ہے یعنی صاع نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس کا وزن مثقال کے حساب سے اچھی قسم کے جَو کا 480 مثقال بنتا ہے اور گرام کے حساب سے تقریباً ڈھائی کلو بنتاہے۔ اس لیے کیونکہ ایک مثقال کا وزن4.25 گرام ہوتا ہے، لہذا 480 مثقال کا وزن 2040 گرام بنتا ہے۔اگر کوئی چاہتا ہے کہ اسے صاع نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معلوم ہوجائے تو اچھی قسم کی جَو دو کلو اور چالیس گرام کسی پیمانے میں ڈالے جو بالکل اس کے برابر ہو کہ یہ مقدار اس میں مکمل طور پر سما جائے([10])۔
فطرے کے وجوب کا وقت
فطرے کا وقت عید کی رات (چاند رات) غروب آفتاب سے شروع ہوتا ہےاور جو کوئی اس وقت اہل وجوب میں سے ہوتا ہے تو اس پر فطرہ واجب ہوتا ہے ورنہ نہیں۔ اسی لیے جو کوئی غروب آفتاب سے پہلے خواہ کچھ منٹ ہی کیوں نہ ہو فوت ہوگیا تو اس کے ذمے فطرہ واجب نہيں۔ اور اگر غروب آفتاب کے کچھ منٹ بعد ہی کیوں نہ فوت ہوا ہو تو اس کا فطرانہ ادا کیاجائے گا۔ اسی طرح سے اگر کوئی بچہ غروب آفتاب سے کچھ منٹ بعدپیدا ہو تو اس کا فطرہ واجب نہیں لیکن مسنون ہے جیسا کہ پہلے بیان ہوا اور اگر بچہ غروب آفتاب سے کچھ منٹ پہلے پیدا ہوا تو اس پر فطرہ واجب ہے۔
اس کے وجوب کا اصل وقت عید کی رات (چاند رات) کے غروب آفتاب سے شروع ہوتا ہےکیونکہ اس وقت ہی رمضان سے فطر ہوتا ہےاس پر مزید یہ کہ اسے رمضان سے فطر کی زکوۃ کہا جاتا ہے لہذا اصل حکم اسی وقت کا ہوگا۔
فطرے کی ادائیگی کا وقت
جہاں تک اس کے ادا کرنے کے وقت کا تعلق ہے تو اس کے دو اوقات ہیں۔ ایک وقتِ فضیلت ہے اور ایک وقتِ جواز ہے۔ وقتِ فضیلت عید کی صبح، نماز عید سے پہلے ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ فرمایا:
’’كُنَّا نُخْرِجُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم يَوْمَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ طَعَامٍ‘‘([11])
(ہم عہد نبوی میں یوم فطر کے دن کھانے میں سے ایک صاع نکالتے تھے)۔
اور اس بارے میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں بھی آیا ہے کہ:
’’أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : أَمَرَ بِزَكَاةِ الْفِطْرِ أَنْ تُؤَدَّى قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَى الصَّلَاةِ‘‘([12])
(نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زکوۃ الفطر عید نماز کے لیے نکلنے سے پہلے پہلے ادا کرنے کا حکم فرمایا)۔
اسی لیے عید الفطر کی نماز کو تاخیر سے کرنا افضل ہے تاکہ لوگوں کو زکوۃ الفطر ادا کرنے کے لیے کافی وقت مل جائے۔ اور جہاں تک وقت جواز کا تعلق ہے تو وہ عید سے ایک یا دو دن پہلےہے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ:
’’كَانَ ابْنُ عُمَرَ يُعْطِي عَنِ الصَّغِيرِ وَالْكَبِيرِ حَتَّى إِنْ كَانَ لِيُعْطِي عَنْ بَنِيَّ، وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يُعْطِيهَا الَّذِينَ يَقْبَلُونَهَا، وَكَانُوا يُعْطُونَ قَبْلَ الْفِطْرِ بِيَوْمٍ أَوْ يَوْمَيْنِ‘‘([13])
( ابن عمر رضی اللہ عنہما زکوۃ الفطر ہر چھوٹے بڑے حتی کہ میرے بچوں کی طرف سے بھی دیتے تھے، اور آپ اسے عید سے ایک یا دو دن پہلے اسے دیتے جواسے وصول کرتے)([14])۔
اسے عید نماز کے بعد تک مؤخر کرنا جائز نہيں اگر کسی نے عید نماز کے بعد تک بلاعذر مؤخر کردیا تو یہ اس سے قبول نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ اس نے امرِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف عمل کیا ہے۔ یہ بات پہلے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کے حوالے سے گزر چکی ہے کہ جس نے اسے عید نماز سے پہلے ادا کیا تو یہ زکوۃ مقبول ہے اور جس نے بعد میں ادا کیا تو یہ عام صدقات کی طرح ایک صدقہ ہے۔ لیکن اگر کسی عذر کی وجہ سے تاخیر ہوئی ہو تو کوئی حرج نہیں مثلاً ایسی زمین میں اسے عید ملی کہ جہاں کوئی نہيں تھا جو اس کی طرف سے اسے ادا کرتا یا کوئی اسے لینے والا نہیں تھا، یا اسے اچانک ہی عید کی خبر ملی کہ نماز عید سے پہلے پہلے اسے نکالنے کا موقع ہی نہیں مل سکا یا اس نے کسی شخص پر اعتماد کرکے اسے مقرر کیا لیکن وہ اس کی طرف سے ادا کرنا بھول گیا تو اس میں کوئی حرج نہيں کہ وہ عید نماز کے بعد اسے ادا کردے کیونکہ وہ اس بارے میں معذور تھا۔
جو بات واجب ہے وہ یہ کہ یہ مستحق تک یا اس کے وکیل تک اپنے وقت میں یعنی نماز عید سے قبل پہنچ جائے۔ اگر اس کی نیت کسی خاص شخص یا اس کے وکیل کو دینے کی تھی لیکن وہ عید نماز سے پہلے نہیں آیا اور کوئی دوسرا مل گیا تو اسے ہی دے دے مگر اس میں تاخیر نہ کرے۔
فطرہ کہاں دینا چاہیے؟
اس علاقے کے فقراء میں تقسیم کرے جہاں وہ اسے نکالنے کے وقت خود موجود ہو۔خواہ وہ اس کی مستقل جائے اقامت ہو یا کوئی بھی مسلم ملک ہوخصوصاً اگر وہ کسی فضیلت والی جگہ میں رہتا ہو جیسےمکہ ومدینہ یا اس علاقے کے فقراء شدید ترین حاجت میں ہوں۔ اگر وہ کسی ایسے علاقے میں رہتا ہے جہاں کوئی نہیں جسے وہ فطرہ دے سکے یا وہاں وہ کسی مستحقین کو نہ جانتا ہو تو کسی کو اپنا وکیل بنالے کہ وہ کسی دوسرے علاقے میں جہاں مستحقین موجود ہیں اس کی طرف سے ادا کردے۔
فطرے کے مستحقین
فطرے کے مستحقین فقراءاور ایسے مقروض لوگ ہيں جو قرض کی ادائیگی کی استطاعت نہیں رکھتے تو انہیں اس میں سے بقدر حاجت دیا جائے گا۔ اور جائز ہے کہ فطرہ ایک سے زیادہ فقیروں میں تقسیم کردیا جائے۔ اور یہ بھی جائز ہے کہ ایک سے زیادہ فطرانے ایک ہی فقیر کو دے دیے جائیں۔ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی مقدار تو مقرر فرمائی لیکن جسے دیا جائے اسے مقرر نہیں فرمایا۔ اسی لیے اگر ایک پوری جماعت اپنے فطرانے وزن کرنے کے بعد ایک تھال میں جمع کرلے پھر اس میں سے بلا دوبارہ وزن کیے تقسیم کرے تو یہ کفایت کرے گا۔ لیکن فقیر کو یہ بتادیا جائے کہ ہمیں اس کی حقیقی مقدار معلوم نہیں تاکہ کہیں وہ مغالطے کا شکار ہوکر اپنی طرف سے اسے ادا نہ کرلے حالانکہ اسے اس کا وزن معلوم نہیں۔ اور فقراء کے لیے جائز ہے کہ جب وہ کسی شخص سے فطرہ لے لیں پھر اسے اپنے یا اپنے گھر والوں کی طرف سے دینا چاہیں تو دینے والے شخص کی بات کا اعتبار کرے کہ اس نے کامل وزن کرکے دیا ہے۔
اے اللہ ہمیں اپنی اطاعت اس طرح بجالانے کی توفیق دے جس سے تو راضی ہوتا ہے، اورہمارے نفسوں ، اقوال اور افعال کا تزکیہ فرمادے۔ اور ہمیں برے عقیدے، قول اور عمل سے پاک فرمادے۔ بے شک تو جواد وکریم ہے۔
وصلَّى الله وسلَّم على نبيَّنا محمدٍ وعلى آلِهِ وصحبِه أجمعين.
[1] صحیح بخاری 1503، صحیح مسلم 984۔
[2] صحیح بخاری 7288، صحیح مسلم 2359۔
[3] صحیح ابن ماجہ 1492، صحیح ابی داود 1609۔
[4] صحیح بخاری 1503، صحیح مسلم 984۔
[5] صحیح بخاری 1509۔
[6] مذکورہ اجنا س کے علاوہ بھی جو معاشرے میں عام طور پر کھائی جاتی ہیں وہ بھی دی جاسکتی ہيں جیسے شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: چاول یا چینی وغیرہ بھی دی جاسکتی ہے۔ سلسلة الهدى والنور لفضيلة الشيخ محمد ناصر الدين الألباني رحمه الله (شريط رقم 274 الدقيقة : 55) البتہ بعض فقہاء کے نزدیک وہ اجناس دینا جائز ہے جو بنیادی غذاء کی حیثیت رکھتی ہوں کیونکہ احادیث میں جو مثالیں ہیں وہ وہی ہیں۔ چنانچہ چینی، چائے پتی وغیرہ کثرت سے استعمال ہونے کے باوجود بنیادی غذاء کی حیثیت نہيں رکھتیں، اس لیے احتیاط بہتر ہے۔ اللہ اعلم۔ شيخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتےہيں: ليكن اگر لوگوں كى غذا نہ تو دانے ہوں، اور نہ ہى پھل، بلكہ وہ گوشت كو بطور غذا استعمال كرتے ہوں، مثلا جو لوگ قطب شمالى ميں رہتے ہيں، ان کی عام طور پر غذا گوشت ہے، تو صحيح يہى ہے كہ فطرانہ ميں ا اس کا دينا جائز ہے اور كفایت كر جائے گا۔. (الشرح الممتع (6/182) اسی طرح سے آٹا بنا ہوا (179) مگر ظاہر ہے آٹے کی صورت میں وزن میں تبدیلی آئے گی۔ اور ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہيں: اہل مدينہ كى خوراك غالباً يہى اشياء ہوا کرتی تھيں، ليكن اگر كسى علاقے اور محلہ والوں كى خوراك اس كے علاوہ ہو تو انہيں اپنى خوراك ميں سے ايك صاع فطرانہ ادا كرنا ہوگا، جس طرح كہ اگر كسى كى خوراك مكئى يا چاول، يا پھر انجير وغيرہ جیسے دوسرے دانے ہوں تو وہ يہى اشياء ادا كرے گا، اور اگر ان كى خوراك دانے كے علاوہ كچھ اور ہو مثلاً پنير ،گوشت اور مچھلى تو وہ اپنى خوراك ميں سے ايك صاع فطرانہ ادا كريں گے چاہے وہ كچھ بھى ہو۔ جمہور علماء كا قول يہى ہے، اور صحيح بھى يہى ہے اس كے علاوہ كوئى اور قول نہيں كہا جائے گا۔ كيونكہ فطرانہ كا مقصد تو مساكين و فقراء كى عيد والے دن ضرورت پورى كرنا ہے، اور علاقے كے لوگوں كى خوراك كے ساتھ ان كى دل جوئی كرنا ہے، اس لیے آٹا دينا بھى جائز ہے، اگرچہ اس ميں وارد حديث صحيح نہيں ہے۔ (اعلام الموقعين 3/ 12) (مترجم)۔
[7]البخاري الصلح (2550) ، مسلم الأقضية (1718) ، أبو داود السنة (4606) ، ابن ماجه المقدمة (14) ، أحمد (6/256)۔
[8] البخاري الصلح (2550)، مسلم الأقضية (1718)، أبو داود السنة (4606)، ابن ماجه المقدمة (14)، أحمد (6/270).
[9] صحیح ترمذی 2676۔
[10] بعض طلاب العلم نے حقیقی نبوی صاع کے اعتبار سے فی زمانہ اندازہ لگایا ہے جو لیٹر کے حساب سے 3 لیٹر بنتا ہے، یعنی 3 لیٹر کا پیمانہ لیں اور اس میں کوئی بھی اناج وغیرہ بھر لیں پھر کلو کے حساب سے جتنا بھی اس کا وزن بنے 1900 گرام 2000 گرام یا 2500 گرام وغیرہ تو وہی حساب ہوگا کیونکہ مختلف اجناس کا مختلف وزن ہوجاتا ہے۔ اس کی اور ’’مد‘‘ اور ’’صاع ‘‘ کی سند اور تحقیق کے لیے مکمل مقالہ بھائی موسیٰ رچرڈسن ﷾ کی ویب سائٹ بکّہ ڈاٹ نیٹ پر دستیاب ہے۔ (مترجم)
[11] حدیث گزر چکی ہے۔
[12] صحیح مسلم 987۔
[13] صحیح بخاری 1511۔
[14] امام بخاری رحمہ اللہ اسی حدیث کے بعد فرماتے ہیں: وہ عید سے پہلے جو صدقہ دے دیتے تھے تو اکٹھا ہونے کے لیے نہ فقیروں کے لیے (پھر وہ جمع کر کے فقراء میں تقسیم کر دیا جاتا) (مترجم)۔
ترجمہ: طارق بن علی بروہی
مصدر: مجالس شهر رمضان۔
یوٹیوب