شیطان کا امت محمدیہ کے شرک کرنے سے مایوس ہونا – فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کلمہ پڑھ کر بھی انبیاء و اولیا، وسیلے اور مزاروں کے نام پر شرکیات میں ملوث لوگوں کے شبہات کا ذکر کرتے ہوئے شیخ حفظہ اللہ فرماتے ہیں:

پانچواں شبہہ:

اور ان کے شبہات میں سے اس حدیث سے استدلال کرنا ہے کہ:

 إِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ أَيِسَ أَنْ يَعْبُدَهُ الْمُصَلُّونَ فِي جَزِيرَةِ الْعَرَبِ

بے شک شیطان  اس بات سے مایوس ہوگیا ہے  جزیرۂ عرب میں نمازی اب اس کی عبادت کریں گے۔[1]

یہ حدیث ایک سے زیادہ طرق سے صحیح مسلم وغیرہ میں مروی ہے۔ وہ لوگ اس سے استدلال کر تے ہيں کہ جزیرۂ عرب میں شرک ہونا اب محال اور ناممکن ہے۔

اس کا جواب وہ ہے جو کہ امام ابن رجب رحمہ اللہ نے فرمایا:

اس سے مراد ہے کہ وہ اس بات سے ناامید ہوگیا ہے کہ پوری کی پوری امت شرک اکبر پر جمع ہوجائے گی۔

اور اس معنی کی طرف امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں اشارہ فرمایا ہے:

اَلْيَوْمَ يَىِٕسَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ دِيْنِكُمْ

آج کافر لوگ تمہارے دین (کے خلاف کامیاب ہونے) سے مایوس ہوچکے ہیں۔[2]

اسی طرح سے اس حدیث میں  مایوسی کی نسبت شیطان کی طرف کی گئی ہے یعنی فاعل والا صیغہ استعمال ہوا ہے مفعول والا نہیں کہ أُيِّسَ(اسے ناامید کردیا گیا ہے)، اور اس کا مایوس ہونا اس کا اپنا گمان اور تخمینہ ہے جس کا اسے کوئی علم نہیں، کیونکہ وہ غیب کا علم تو نہیں رکھتا۔ اور یہ تو وہ غیب ہےکہ جسے اللہ کے سوا کوئی نہيں جانتا۔ اور اس کے اس گمان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے ثابت شدہ وہ  تمام احادیث جھٹلاتی ہيں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے بعد اس امت میں شرک کے واقع ہونے کی خبر دی گئی ہے ۔[3] اور حقیقت حال بھی ا س کو جھٹلاتی ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی وفات کے بعد بہت سے عرب مختلف قسم کے ارتداد میں مبتلا ہوکر مرتد ہوگئے تھے۔[4] واللہ اعلم

مصدر: بيان حقيقة التوحيد الذي جاءت به الرسل وردّ الشبهات التي أثيرت حوله۔


[1] صحیح مسلم 7103

[2] المائدۃ: 3

[3] سنن ابی داود 3710 اور صحیح ترمذی 4252 میں شیخ البانی نے اسے صحیح کہا ہے :

ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

’’وَلَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَلْحَقَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِي بِالْمُشْرِكِينَ وَحَتَّى تَعْبُدَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِي الْأَوْثَان‘‘

(قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک میری امت کے کچھ قبائل مشرکین سے نہ جاملیں اور یہاں تک کہ وہ اوثان (بتوں/مزاروں) کی عبادت نہ شروع کردیں)۔

[4] جیسا کہ خلیفۂ اول ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ  نے مدعیان نبوت اور مانعین زکوٰۃ کے خلاف قتال فرمایا تھا۔

مترجم

طارق بن علی بروہی

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*