کیا مسلمانوں کو آج توحید بیان کرنے کی ضرورت نہیں؟ –  فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان

بسم اللہ الرحمن الرحیم

آجکل بہت سے جاہل داعیان یا تبلیغی لوگ اس توحید کی شان گھٹانے کی مذموم سعی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ لوگ مسلمان ہیں اور آپ ایک اسلامی ملک میں ہیں، عالمِ اسلام کو ایسے لوگوں کی قطعا حاجت نہیں جو توحید پر درس دیں یا مدارس کے نصاب میں اسے شامل کریں اور توحید کی کتابیں مساجد میں پڑھائی جائیں، یہ داعیانِ دین ہوکر اس قسم کی باتیں کرتے ہیں۔۔۔! یہ تو نری جہالت ہےکیونکہ ایک مسلمان تو دوسروں کی بنسبت زیادہ محتاج ہے کہ وہ توحید کی معرفت حاصل کرے تاکہ اس کے تقاضوں کو پورا کرے، اس پر قائم ہو، اور جو باتیں اس میں خلل پیدا کرتی ہیں یا اسے سرے سے ختم ہی کردیتی ہیں ان سے دور رہے جیسے مختلف شرکیات، بدعا ت وخرافات۔ چنانچہ یہ بات کافی نہیں کہ وہ اسلام کے تقاضوں کو پورے کیے بغیر نام کا مسلمان بنے، اور اسلام کے تقاضے ہرگز بھی پورے نہیں ہوسکتے جب تک وہ اس کی اساس اور اس بنیادی قاعدے جس پر اسلام کی عمارت قائم ہے کی معرفت حاصل نہ کرلے اور وہ اساس وبنیادی قاعدہ توحید ہے۔ کیونکہ اگر لوگ توحید، مسائلِ شرک وامورِ جاہلیت سے جاہل ہوں گے تو وہ لامحالہ خواہ جانتے ہوئے یا انجانے میں شرک میں واقع ہوجائیں گے  اور بایں صورت عقیدۂ توحید کی کڑیاں ٹوٹ جائیں گی جیسا کہ امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  نے فرمایا:

إنما تنقض عرى الإسلام عروة عروة إذا نشأ في الإسلام من لا يعرف الجاهلية

اسلام کی کڑیاں یکے بعد دیگرے ٹوٹتی رہیں گی جب ایسے مسلمان پیدا ہوں گے جو جاہلیت کو نہیں جانتے ہوں گے۔

پس کیا تمام مسلمان امورِ عقیدہ اور توحید کو جانتے ہیں؟اگر (آپ کہیں کہ) علماء کرام یہ جانتے ہیں تو بھی علماء کرام تو بہت قلیل تعداد میں ہیں اور ان میں بھی جو صحیح معنوں میں حقیقی علماء ہیں وہ تو اس سے بھی قلیل تر ہیں، اسی طرح جوں جوں زمانے گزرتا جائے گا حقیقی علماء کرام کی تعداد میں کمی آتی رہے گی اور نام نہادوخودساختہ  علماء، قراء اور جاہل لیڈروں کی کثرت ہوگی، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

 إن الله لا يقبض هذا العلم انتزاعاً ينتزعه من صدور الرجال ولكن يقبض هذا العلم بموت العلماء حتى إذا لم يبقى عالماً اتخذ الناس رؤوساً جهّالا فأفتوا بغير علمٍ فضلوا وأضلوا[1]

بے شک اللہ تعالی اس علم کو اس طرح سے نہیں اٹھائے گا کہ اسے لوگوں کے سینوں سے کھینچ لے بلکہ اس علم کو علماء کرام کی موت کے ذریعہ اٹھائے گا یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہ رہے گا  تو لوگ اپنا بڑا جاہلوں کو بنالیں گے،جو انہیں بغیر علم کے فتویٰ دیں گے نتیجتاً  خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔

اس کے علاوہ ایک اور حدیث میں ہے کہ آخری دور میں (حقیقی) علماء کرام قلیل تعداد میں ہوں گے جبکہ (محض) قراء  کثرت سے ہوں گے، ایک اور اثر میں ہے کہ آخری زمانے میں خطباء کثیر تعداد میں ہوں گے  جبکہ فقہاء کرام قلیل ہوں گے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ ہمیں چاہیے کہ ہم توحید کی جانب خصوصی توجہ دیں اور بدرجۂ اتم اہتمام فرمائیں اس طرح کہ اس کی تعلیم دیں، اس پر تقاریر کریں، اس بارے میں کانفرنسیں یا مجالس منعقد کریں،  اس کے لیے میڈیا پر پروگرام مرتب کریں، اخبارات ومیگزین میں اس پر لکھیں، اور اس توحید کی طرف (کھل کر) دعوت دیں خواہ کوئی خوش ہویا ناراض، کیونکہ یہی ہمارے دین کی اساس اور عقیدے کی بنیاد ہے، اور ہم سب سے زیادہ اس بات کے محتاج ہیں کہ اس کا تعارف حاصل کریں، اس کی تعلیم دیں اور لوگوں کو بیان کریں۔

اس مملکتِ سعودی عرب (جس کی اللہ تعالی نے دعوتِ توحید کے ذریعہ حفاظت فرمائی ہے)کے علاوہ پورے عالم ِاسلام میں شرک کے مظاہر قبروں پر مزارات کی صورت میں عام ہیں جن کے بارے میں آپ سنتے رہتے ہوں گے بلکہ جنہوں نے آپ میں سے ان ممالک کا سفر کیا ہو تو خود مشاہدہ بھی کیا ہوگا۔ ان لوگوں کے ہاں دین ہی شرک، مردوں کی عبادت اور قبروں سے تقرب حاصل کرنے کا نام ہے، اور جو ایسا نہ کرے تو الٹا وہ ان کے نزدیک مسلمان نہیں کیونکہ ان کے زعم میں جیسا کہ وہ اکثر کہتے رہتے ہیں کہ ایسا شخص اولیاء کرام کی شان میں گستاخی کرتا ہے۔ اور انتہائی افسوس کی بات ہے کہ ایسے داعیان وتبلیغی حضرات  بھی موجود ہیں جو ان ممالک میں دعوتِ توحید کا اہتمام نہیں کرتے بلکہ وہ لوگوں کو محض اچھے اخلاق اپنانے، زنا کاری اور شراب نوشی کو ترک کرنے کی دعوت دیتے ہیں جو کہ بلاشبہ کبیرہ گناہوں میں سے ہیں لیکن (سوچنا چاہیےکہ) اگرچہ  لوگ زنا کاری اور شراب نوشی چھوڑ دیں اور اپنے اخلاق اچھے کرلیں اور سود کھانا بند کردیں پھر بھی انہیں کبیرہ گناہوں کو چھوڑنے والا تصور نہیں کیا جائے گا جب تک کہ وہ شرک کو نہیں چھوڑتے، بلکہ (اس سے بھی آگے) جو شخص خواہ خود شرک نہیں بھی کرتا ہو لیکن اس کا انکار بھی نہیں کرتا اور نہ ہی اس توحید کی طرف دعوت دیتا ہے، اور نہ ہی مشرکین سے برأت وبیزاری کا اظہار کرتا ہے، تو وہ انہی جیسا ہے ، اسی لیے تو اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم ارشاد فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمادیجیے:

وَمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ

اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔

یوسف: (108)

اس آیت میں مشرکین سے برأت کا اظہار ہے ،پس ایک توحید پرست مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ مشرکین سے برأت کا اظہار کرے، اور اس کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ خاموش رہے حالانکہ شرک اس کے وطن میں پھل پھول رہا ہو، مزارات قائم ہوں، قبروں کا طواف جاری وساری ہو تو کسی بھی شخص کے لیے جو اللہ تعالی اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے جائز نہیں کہ وہ اس خطرناک وبائی بیماری پر خاموشی اختیار کرے جو پوری امت کی ہلاکت کا سبب ہے، اور یہ کہے کہ نہیں میں تو لوگوں کو حسن اخلاق وکردار اور شراب وزنا کو چھوڑنے کی طرف ہی دعوت دوں گا، حالانکہ ان امور کا کیا فائدہ جب اساس وبنیاد ہی موجود نہ ہو؟ کیا جب آپ کوئی عمارت تعمیر کرتے ہیں تو سب سے زیادہ اہمیت اس کی بنیاد وستونوں کو نہیں دیتے تاکہ وہ عمارت صحیح طور پر استوار ہو ورنہ اگر آپ بنیاد وستونوں کی پرواہ کیے بغیر خواہ کتنا ہی عمارت کو مضبوط کرتے جائیں اس کے گرنے کا قوی امکان ہے جو خود آپ کے لیے اور جو کوئی اس میں داخل ہو اس کے لیے خطرے کا باعث ہوگی۔ اسی طرح دین کا معاملہ ہے اگر وہ صحیح عقیدے واساس، اللہ تعالی کی توحید اور شرک سے اسے پاک قرار دینے، اور ساتھ ہی مشرکین سے بیزاری پر قائم نہ ہو تو ایسا دین اپنے ماننے والوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا کیونکہ یہ دین نہ اصل اساس پر قائم ہے اور نہ ہی صحیح سالم ستونوں پر استوار ہے۔

مصدر: أهمية التوحيد


[1] صحیح بخاری 100، صحیح مسلم 2674 وغیرہ، صحیح بخاری کے الفاظ ہیں: إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ الْعِبَادِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا ۔

مترجم

طارق بن علی بروہی

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*