کیا تقلیدی مذاہب کے مطابق فتویٰ دیا جاسکتا ہے؟ – شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال: تقلید کے  مطابق فتویٰ دینے کا کیا حکم ہے؟ اور کیا بغیر استدلال کے فتویٰ دینا صحیح ہے؟

جواب:  یہ جائز نہیں ہے، بلکہ لازم ہے کہ استدلال کیا جائے، اور دلائل پر نظر کی جائے۔

الا یہ کہ ایسا وقت ہو جس میں مجتہد موجود نہ ہو، تو پھر علماء کرام مجبوری کی وجہ سے تقلید کے جواز کا ذکر فرماتے ہيں۔ اگر کسی ایسی جگہ یا ایسی بستی میں ہو جہاں  انہيں علماء میں سے کوئی دستیاب نہ ہو، اور وہاں فلاں مذہب کے عالم کے سوا کوئی عالم نہ ہو جیسے مذہب ابو حنیفہ، مذہب مالک، مذہب احمد تو پھر وہ  (ان مذاہب سے) جو سمجھا ہے اس کے مطابق فتویٰ دیتا ہے کیونکہ اس کے پاس دلیل کی معرفت کی قدرت و صلاحیت نہیں ہے۔ تو اس طرح  بعض علماء کے قول کے مطابق کبھی جائز ہوسکتا ہے، لیکن جہاں تک اس کے لیے ممکن ہو کہ وہ (دلائل پر) نظر کرے، اور جہاں تک اس کے لیے ممکن ہو کہ وہ حق کو دلیل کے ساتھ پانے کی جدوجہد کرے،یہ ہے  وہ بات جو اس کے اوپر واجب ہے۔

مقصود یہ ہے کہ (دین میں) اصل تقلید کا جائز نہ ہونا ہے، یہ ہے اصل اصول کہ ایک طالبعلم کے لیے تقلید جائز نہيں، بلکہ  تحری (حق جاننے کی جستجو)  کرے، محنت کرے اور (دلائل پر) نظر کرے۔

جہاں تک ایک عام انسان کی بات ہے تو اس کے لیے کافی ہے کہ وہ اہل علم سے سوال کرے، اور اس پر لازم ہے کہ جو وہ اسے فتویٰ دیں اس پر عمل کرے، کیونکہ یقیناً وہ اہل نظر میں سے نہیں (یعنی دلائل کو خود پرکھ نہيں سکتا)۔ وہ تو صرف اہل علم سے پوچھ ہی سکتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

فَسْـــَٔـلُوْٓا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ

اہل ذکر (علماء) سے پوچھ لو اگر تم نہيں جانتے۔

(النحل: 43)

اسے چاہیے کہ سوال کرے، تحری (حق جاننے کی جستجو) کرے اور (شرعی فتویٰ  کی) پابندی کرے۔

البتہ جو طالبعلم ہے تو اس پر واجب ہے کہ وہ دلائل جاننے کی کوشش و محنت کرے، اورجہاں تک ممکن ہو کبھی بھی اپنے لیے تقلیدی بنے رہنے پر راضی نہ ہو۔

[فتاوى الجامع الكبير – حكم التقليد في الفتوى]

مترجم

طارق بن علی بروہی

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*