شدت ٹھنڈ میں کامل اور بہترین وضوء کرنے سے گناہ جھڑتے ہیں

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

Performing Ablution Perfectly in Extreme Cold Expiates Sins

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

’’أَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى مَا يَمْحُو اللَّهُ بِهِ الْخَطَايَا، وَيَرْفَعُ بِهِ الدَّرَجَاتِ؟  قَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: إِسْبَاغُ الْوُضُوءِ عَلَى الْمَكَارِهِ، وَكَثْرَةُ الْخُطَا إِلَى الْمَسَاجِدِ، وَانْتِظَارُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصَّلَاةِ، فَذَلِكُمُ الرِّبَاطُ‘‘ ([1])

(کیا میں تمہاری اس چیز کی جانب رہنمائی نہ کروں جس کے ذریعے اللہ تعالی گناہوں کو مٹا دیتا ہے، اور درجات کو بلند فرماتا ہے؟ صحابہ نے فرمایا: کیوں نہیں ،ضرور یا رسول اللہ! فرمایا: مشقت وناگواری کے وقت بھی اچھی طرح کامل وضوء کرنا، مساجد کی طرف باکثرت قدم اٹھا کر جانا، اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا، یہی تو رباط ہے(یعنی ایک نماز کے بعد دوسری نماز کے لیے چوکس رہنا ہے، جیسے مجاہدین سرحدوں پر مورچہ بند چوکس وتیار رہتے ہیں))۔

امام النووی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

’’إسباغ الوضوء ‘‘  یعنی کامل وضوء اور ’’ المكاره‘‘  مشقت یا ناگواری شدید سردی  یا جسم میں درد تکلیف وغیرہ کی وجہ سے ہوسکتی ہے([2])۔

ابن عمر رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نےفرمایا:

’’ثَلاثٌ مُهْلِكَاتٌ، وَثَلاثٌ مُنَجِّيَاتٌ، وَثَلاثٌ كَفَّارَاتٌ، وَثَلاثٌ دَرَجَاتٌ. فَأَمَّا الْمُهْلِكَاتُ: فَشُحٌّ مُطَاعٌ، وَهَوًى مُتَّبَعٌ، وَإِعْجَابُ الْمَرْءِ بِنَفْسِهِ. وَأَمَّا الْمُنَجِّيَاتُ: فَالْعَدْلُ فِي الْغَضَبِ وَالرِّضَى، وَالْقَصْدُ فِي الْفَقْرِ وَالْغِنَى، وَخَشْيَةُ اللَّهِ فِي السِّرِّ وَالْعَلانِيَةِ. وَأَمَّا الْكَفَّارَاتُ: فَانْتِظَارُ الصَّلاةِ بَعْدَ الصَّلاةِ، وَإِسْبَاغُ الْوُضُوءِ فِي السَّبَرَاتِ، وَنَقْلُ الأَقْدَامِ إِلَى الْجَمَاعَاتِ. وَأَمَّا الدَّرَجَاتُ: فَإِطْعَامُ الطَّعَامِ، وَإِفْشَاءُ السَّلامِ، وَصَلاةٌ بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ‘‘([3] )

(تین باتیں ہلاکت میں ڈالنے والی ہيں، اور تین باتیں نجات دلانے والی ہیں، اور تین باتیں(گناہوں کا) کفارہ ہیں، اور تین باتیں (آخرت میں) درجات (کی بلندی کا باعث) ہیں۔

پس ہلاکت میں ڈالنے والی یہ ہیں: ایسی لالچ جس کی پیروی کی جائے، ایسی خواہش نفس جس کی اتباع کی جائے اور انسان کو اپنے آپ پر گھمنڈ ہونا۔

اور نجات دلانے والی یہ ہیں: عدل وانصاف  پر کاربند رہنا خواہ رضا مندی کی حالت میں ہوں یاناراضی وغصے میں، میانہ روی وکفایت شعاری پر چلنا خواہ فقر وغربت ہو یا امیری وفراخی، اور اللہ تعالی سے پوشیدہ اور علانیہ دونوں حالتوں میں ڈرنا۔

اور کفارے یہ ہیں: ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا، شدید ٹھنڈ میں اچھی طرح کامل وضوء کرنا، قدموں سے چل کر باجماعت نماز وں کے لیے جانا۔

اور درجات کی بلندی دلانے والی یہ ہیں: کھانا کھلانا، سلام کو عام کرنا، رات کو جب لوگ سو رہے ہوں تو نماز (تہجد) پڑھنا)۔

یہ اس صورت میں ہے کہ گرم پانی کسی وجہ سے دستیاب نہ ہوپائے۔ چنانچہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

’’إسباغ الوضوء على المكاره‘‘ یعنی بے شک انسان اپنا وضوء كرے ناگواری کی حالت میں بھی، (ناگواری اس وجہ سےکہ) يا تو اسے بخار ہوجس وجہ سے انسان پانی سے بھاگتا ہے  ليكن پھر بھى وہ وضوء كرے، يا پھر ٹھنڈ ہو اور اس كے پاس پانى گرم كرنے كا انتظام نہ ہو، تو وہ اس ناگواری پر بھی وضوء كرے، يا پھر بارشیں اس طرح ہورہی ہوں کہ جو اس کے اور جہاں وضوء کے لیے جانا ضروری ہو اس جگہ کے مابین حائل ہوجائيں  تو اس ناگواری و مشقت كے باوجود وہ وضوء كرے۔

 بہر حال وہ ناگواری ومشقت كى حالت ميں بھی ضرور وضوء كرے بشرطیکہ اس ميں كوئى ضرر نہ ہو، کیونکہ  اگر ضرر و نقصان ہو تو پھر وہ وضوء نہيں بلكہ تیمم كرے گا([4])۔ اس سے اللہ تعالى گناہ مٹاتا ہے اور درجات بلند كرتا ہے۔

ليكن اس كا یہ معنى نہيں كہ انسان اپنے اوپر مشقت كرے اور گرم پانى چھوڑ كر ٹھنڈے پانى سے وضوء كرے، يا پھر اس كے پاس پانى گرم كرنے كا انتظام تو ہو ليكن وہ كہے: ميں گرم نہيں كرتا، بلکہ  ٹھنڈے پانى سے وضوء كرنا چاہتا ہوں تا كہ مجھے يہ اجر ملے، تو یہ مشروع نہیں ہے؛ كيونكہ اللہ تعالى فرماتا ہے:

﴿مَا يَفْعَلُ اللّٰهُ بِعَذَابِكُمْ اِنْ شَكَرْتُمْ وَاٰمَنْتُمْ﴾  

(اللہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا، اگر تم شکر گزار بنو اور ایمان لاؤ)

(النساء: 147)

اور نبى كريم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ايك شخص كو دھوپ ميں كھڑے ديكھا تو فرمايا:  یہ کیا ماجرا ہے؟ لوگوں نے عرض کی: اس شخص نے دھوپ میں كھڑے رہنے كى نذر مان ركھى ہے۔  تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اسے اس سے منع فرمادیا ، اور اسے سایے میں آنے کا حکم دیا۔

چنانچہ انسان نہ تو اس كا مامور ہے اور نہ ہى  یہ بات مندوب(پسندیدہ) ہے کہ  وہ مشقت اور ضرر والا كام كرے، بلكہ اس كے ليے جتنى عبادت آسان سے آسان تر ہو تو وہ افضل ہے، ہاں البتہ جب تکلیف اور ناگواری لازماً ہونی ہی ہونی ہو تو پھر  اسے یقیناً اس پر اجروثواب حاصل ہوگا،  كيونكہ بلاشبہ یہ بات اس كے اختيار سے  باہر تھی([5])۔

مصدر: مختلف مصادر۔


[1] صحیح مسلم 253۔

[2] شرح مسلم للنووى ( 3 / 141 )۔

[3] المعجم الاوسط للطبرانی 5754، صحیح الجامع 3045 میں الالبانی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔

[4] تفصیل کے لیے پڑھیں ہماری ویب سائٹ پر ’’شدید ٹھنڈ میں گرم پانی نہ ملنے کی صورت میں اگر بیماری وہلاکت کا خطرہ ہو تو تیمم کیا جاسکتا ہے‘‘۔ (مترجم)

[5] شرح رياض الصالحين كتاب الفضائل باب فضل الوضوء ( 3 / 137 ) طبع مكتبة الصفا المصرية۔

مترجم

طارق بن علی بروہی

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*