تحصیل علم اور تفقہ فی الدین کے تعلق سے ان لوگوں کو اہم نصیحت جن کے علاقوں میں علماء نہيں اور وہ ان شہروں تک سفر نہيں کرسکتے جہاں علماء ہیں – شیخ ربیع بن ہادی المدخلی

Important advice to those who wish to seek knowledge in a place where there are no scholars and are unable to travel to cities in which scholars are found – Shaykh Rabee’ bin Hadee Al-Madkhalee

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال: شیخنا (وفقك اللہ) ہم آپ سے اس طالب علم کے لیے نصیحت چاہتے ہیں جو تحصیل علم میں رغبت رکھتا ہے لیکن وہ اس کے لیے سفرکی استطاعت نہیں رکھتا اور نہ اس کے شہر میں ایسے مشایخ ہيں جن سے علم حاصل کرے؟

جواب: میرے بھائی آپ کی یہ خوش نصیبی ہے کہ جس چیز کی طلاب العلم تمنا کیا کرتے تھے اور خواب دیکھا کرتے تھے لیکن اسے پا نہ سکے یعنی منہج سلف کا انتشار (وہ آپ کو نصیب ہوگیا)۔ پس اللہ تعالی نے بہت سے ان لوگوں کے لیے آسانی کردی کہ جنہیں خدمت علم کی توفیق بخشی ہے کہ وہ ان نفیس علمی ذخائر کو ان (طالبعلموں) کے لیے نکالیں اور نشر کریں۔ جبکہ ہم اس کے خواب دیکھا کرتے تھے مگر پاتے نہیں تھے۔ لیکن یہ آپ کے پاس اب موجود ہیں مثلاً ’’السُّنَّة‘‘ للخلاَّل، و’’السُّنَّة‘‘ لعبدالله بن أحمد، و’’الشَّريعة‘‘ للآجرُّيِّ، و’’أُصول اعتقاد أهل السنة والجماعة‘‘ للالكائيِّ، و’’الحُجَّة‘‘ للأصبهانيِّ ان کے علاوہ دیگر مختصرات و مطولات کہ جو سلفی منہج کو پیش کرتی ہیں اور اسے لوگوں پر خوب واضح کرتی ہیں۔ اور اہل سنت والجماعت ، ان کے عقائد ومناہج اور گمراہ فرقوں کے عقائد ومناہج کے  مابین امتیاز کو تفصیل، دلائل و براہین سے ظاہر کرتی ہیں۔

پس یہ آپ کے پاس موجود ہیں ان سے استفادہ کیجیے اور جس چیز کے بارے میں اشکال پیدا ہو اسے اپنے پاس جو زیادہ سے زیادہ علم والا ہو کے سامنے پیش کریں۔ اور اگر جو ساتھی علم والا آپ کے پاس موجود ہے اس کے جواب سے علم کا پیاسا سیراب نہ ہو تو پھر انٹرنیٹ کے ذریعے سوالات بھیج دیں، یا پھر ٹیلی فون، یا فیکس وغیرہ  جیسے وسائل کے ذریعے سے۔ اور اگر اللہ تعالی آپ میں سے بعض کے لیے آسانی فرمادے کہ وہ حجاز آئیں اور مکہ و مدینہ و ریاض کی زیارت کریں تو اس وقت سوال پوچھ لیں۔ اور سعودی عرب کے اندر رہتے ہوئے کال کرلیں کیونکہ یہاں سے کال کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔

پس اب کتب بہت نشر ہوکر پھیل چکی ہیں الحمدللہ۔ اگر آپ کے پاس شیوخ ہوں تو ان کا احترام کریں اور ادب سے پیش آئيں، اور ان سے علم حاصل کریں اور اخلاق بھی ان سے حاصل کریں۔ اور اگر موجود نہ ہوں تو ان کتب سے استفادہ کریں اور جو اشکال پیدا ہو تو اس کے بارے میں سوال کیجیے۔ جس کا حل نہ ملے تو اپنے سوال ان کے ذریعے سے ارسال کردیں جن کی حجاز مکہ، مدینہ و ریاض تک رسائی ہو اور آنا جانا ہو وہ آپ کے ان سوالات کو پیش کردیں گے جن میں اشکال ہے۔ اللہ تعالی کسی جان پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔

ساتھ ہی اہل بدعت وضلالت کی کتب، ان کی کیسٹوں ، اور جو وہ اپنے صحف ومجلات ، فضائی چینلز و انٹرنیٹ وغیرہ پر نشر کرتے ہیں سے بچیں۔

سلفی ویب سائٹس موجود ہیں ان سے استفادہ کریں۔ اسی طرح سے خلفی ویب سائٹس بھی موجود ہیں جو ان کی گمراہیاں نشر کرنے میں مصروف عمل ہيں۔ اور ان کے پاس وسیع امکانیات موجود ہیں۔ اور یہ فتنے تو ہوسکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان میں داخل ہوں کہ:

’’وَفِتْنَةٌ تَكُونُ بَيْنَكُمْ لَا يَبْقَى بَيْتُ مُسْلِمٍ إِلَّا دَخَلَتْهُ‘‘([1])

(اور فتنہ تم لوگوں کے مابین ایسا ہوگا کہ کسی بھی مسلمان کا گھر نہيں بچے گا مگر وہ اس میں داخل ہوجائے گا)۔

اور یہ جدید وسائل تو اب شہر ہو یا دیہات گھر گھر سرایت کرچکے ہيں۔اور افسوس کی بات ہے کہ ہرجگہ پھیل چکے ہیں۔ ان چیزوں سے بچیں کیونکہ سلامتی کے برابر تو کوئی چیز نہیں ہوسکتی۔ اگر کسی عالم کا انتخاب کریں تو سچے و مخلص سلفی عالم کا انتخاب کریں کیونکہ بہت سے لوگ سلفیت کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن وہ سلفی نہیں ہوتے۔ (جیسا کہ امام ابن سیرین رحمہ اللہ نے فرمایا):

’’إِنَّ هَذَا الْعِلْمَ دِينٌ، فَانْظُرُوا عَمَّنْ تَأْخُذُونَ دِينَكُمْ‘‘([2])

(بے شک یہ علم دین ہے پس تم دیکھ لو کہ تم کس سے اپنا دین حاصل کررہے ہو)۔

میں اس بات پر تنبیہ کروں گا کہ بعض جذباتی نوجوان اگرچہ کتب سلف پڑھتے ہیں لیکن ان آثار کی جو ان تک پہنچے صحیح طور پر تطبیق نہیں کرپاتے اور انہیں موقع محل سے ہٹ کر استعمال کرتے ہیں۔ لازم ہے کہ ان کی تطبیق کی کیفیت کے بارے میں علماء کرام کی جانب رجوع کیا جائے۔ کیونکہ اگر کوئی جاکر بعض اشیاء کی تطبیق اپنے غلطی پر مبنی فہم کے مطابق کرنے لگے تو ہوسکتا ہے کہ اپنے آپ کو، اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچا بیٹھے۔

اور ایسا واقعی ہورہا ہے۔ بعض جذباتی نوجوان جدید وقدیم حدادیوں میں سے آتے ہیں اور ان آثار کا خوب اہتمام کررہے ہوتے ہیں حالانکہ نہ انہیں قرآن یاد ہوتا ہے، انہی آثار کے اہتمام میں مگن ہوتے ہیں حالانکہ حدیث انہیں حفظ نہیں ہوتیں۔ لہذا وہ سب آثار سلف کو لے لیتے ہیں حالانکہ ان میں سے بھی بعض صحیح ہوتے ہیں اور بعض نہیں۔ اگر وہ کسی چیز پر متفق ہوں تو اسے لینا واجب ہوتا ہے۔ لیکن اگر ان میں اختلاف ہو تو ان کے اقوال کا فیصلہ کتاب وسنت سے کیا جاتا ہے۔ اگر فلاں سے فلاں قول ثابت ہی نہ ہو تو ہم اسے نہیں لیں گے، اسی طرح سے اگر اس سے قول ثابت تو ہو لیکن مخالفت میں ہو تو اسے رد کردیں گے۔

یہی طریقہ ہے کہ یہ امور فقہ وفہم کے محتاج ہیں۔ حدادی لوگ کیا کرتے تھے آثار حفظ کر رکھے تھے۔ سب سے پہلے اہل سنت سے ہی جنگ شروع کردی۔ اور بے رحمانہ فیصلوں کے ساتھ ان کے خلاف جنگ کرنے کے لیے پل پڑے۔ علماء کی طرف متوجہ ہوئے اور ایک کے بعد ایک کرکے سب کو ڈھاتے رہے۔ چنانچہ ایسےآثار سے تمسک جو کہ صحیح نہیں ہوتے  یا پھر صحیح تو ہوتے ہیں مگر یہ ان کے مقاصد کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔

ایک شاہد یہ ہے کہ ان میں سے کوئی کہتا ہے کہ میں وہ نصوص جمع کروں گا کہ جس میں بعض علماء نے اہل بدعت کو اپنے حلقات سے نکال باہر کیا تھا۔ میں نے ان سے کہا آپ فلاں فلاں کی طرح کرنا چاہتے ہیں امام ابو اسحاق الفزاری([3])اور مالک([4])رحمہما اللہ وغیرہ([5])؟ کہا: ہاں۔ میں نے کہا: بیٹا یہ لوگ جس وقت کے تھے آپ کا وہ وقت نہیں ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ کے پشت پناہی پر پورا عالم اسلام تھا اور اہل بدعت بہت قلیل تھے۔ اسی طرح سے امام ابو اسحاق الفزاری رحمہ اللہ مورچہ بند جہاد میں مصروف ہوتے اگر کوئی بدعتی شریک ہونے کے لیے آتا تو اسے پرے کردیتے([6])اس ڈر سے کہ کہیں یہ شکست کا سبب نہ بن جائے۔ امام حماد بن سلمہ رحمہ اللہ انہیں دھکیل دیتے اور فرماتے : جس کے پاس کوئی بدعت ہو وہ میری مجلس میں نہ بیٹھے([7])۔

لیکن یہ ایسے تھے کہ پورا عالم اسلام ان کی پشت پر تھا۔ اگر یہ کسی ایک شخص کو دھتکار دیتے تو اس سے دعوت سلفیہ کو فائدہ ہوتا اور لوگ ان کے شر کے دور ہونے سے راحت پاتے۔ لیکن آپ کا یہ حال ہے کہ مسجد میں بیٹھے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ آپ کے پاس سوائے اہل بدعت کے کوئی آتا بھی نہ ہو ، ہوسکتا ہے بعض سلفی بھی آتے ہوں، لیکن حاضرین کی غالب تعداد اہل بدعت میں سے ہوتی ہے۔ اب اگر آپ وہی کہیں جو امام حماد بن سلمہ رحمہ اللہ نے فرمایا:

’’مَن كان مبتدعا فلا يجلس في مجلسي‘‘

(جو کوئی بدعتی ہے وہ میری مجلس میں نہ بیٹھے)۔

پھر تو سب لوگ چلتے بنیں گے۔ انہوں نے جو نکال باہر کیا تھا اس میں فائدہ اور مصلحت تھی۔ لیکن آپ اگر ابھی اس طرح لوگوں کو دور بھگا دیں گے تو اسلام کا ضیاع ہوگا، پھر کون آپ کی دعوت میں داخل ہوگا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو فرماتے ہیں:

’’لَأَنْ يَهْدِيَ اللَّهُ بِكَ رَجُلًا وَاحِدًا خَيْرٌ لَكَ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ‘‘([8])

(اگر تمہارے ذریعے اللہ تعالی کسی ایک شخص کو بھی ہدایت دے دے تو وہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے)۔

پس میں ان کتب کے پڑھنے کی نصیحت کرتا ہوں لیکن لازم ہے کہ اس کا تفقہ (صحیح فہم) ہو۔ اور لازم ہے کہ کتاب وسنت اور اجماع سلف کو اس بارے میں ملحوظ رکھا جائے۔ ہوسکتا ہے اس میں ضعف ہو یا مخالفت ہو اسی لیے ان امور کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ اور ان کا صحیح فقہ وفہم بھی ضروری ہے۔ کیونکہ بعض لوگ بغیر فقہ وفہم کے اسے نقل کرتے ہیں تو اپنے آپ کو بھی ہلاکت میں ڈالتے ہیں اور دوسروں کی بھی ہلاکت کا سبب بنتے ہیں۔

اللہ کی قسم! ہم تو ان کا فتنہ و آزمائش سوائے اہل سنت کے کسی پر نہیں دیکھتے۔ اگر یہ اہل بدعت سے بھاگتے اور ان سے خبردار کرتے تو بات کچھ ہلکی تھی لیکن ان کا تو سارا زور اہل سنت سے خبردار کرنے، ان  کی صورت مسخ کرکے ان سے متنفر کرنے پر ہوتا ہے۔ ان میں سے بہت تو دسیسہ کاری کرتے ہوئے ہماری صفوں میں گھس بیٹھے ہیں اور سنت کا دعویٰ کرتے ہیں یا پھر ایسے لوگ ہیں کہ جن کے پاس کوئی فقہ وفہم نہیں، لہذا یہ فائدہ تو کچھ نہیں پہنچاتے البتہ نقصان ضرور کرتے ہیں۔ اللہ تعالی آپ سب کو نیک توفیق عطاء فرمائے۔


[1]  أخرجه ابن ماجه(4042) من حديث عوف بن مالك رضي الله عنه.صحیح ابن ماجہ 3283۔

[2] صحیح مسلم مقدمہ۔

[3] ابو مسہر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ابو اسحاق رحمہ اللہ دمشق آئے تو لوگ ان کے پاس جمع ہوگئے تاکہ ان سے سنیں۔ انہوں نے مجھ سے فرمایا: لوگوں کے پاس جاکر یہ کہو کہ جو کوئی قدریہ عقیدہ رکھتا ہے وہ ہماری مجلس میں حاضر نہ ہو اور جو کوئی فلاں فلاں رائے رکھتا ہے وہ ہماری مجلس میں حاضر نہ ہو۔ جو سلطان کے در پر جاتا ہے وہ بھی ہماری مجلس میں نہ آئے۔ فرماتے ہیں میں باہر نکلا اور سب کو یہ خبرکردی۔ «سير أعلام النبلاء» للذهبي(8/541).

[4] حافظ ابو یعلیٰ الخلیلی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’الإرشاد في معرفة علماء الحديث‘‘  (1/277 ترجمة برقم 127) میں فرماتے ہیں: ابراہیم بن یوسف البلخی جو اس (بصرہ) کے رئیس اور شیخ تھے ان کا ایک قصہ ہے کہ وہ امام مالک بن انس رحمہ اللہ پر داخل ہوئے جس پر قتیبہ بن سعید البلخی کھڑے ہوگئے اور فرمایا: یہ شخص ارجاء کے معاملے میں عراقیوں والی رائے رکھتا ہے۔ اس پر امام مالک نے انہیں ہاتھ پکڑ کر نکال باہر کرنے کا حکم دیا۔ دیکھیں  «تهذيب الكمال» للمزي(2/254)، و«سير أعلام النبلاء» للذهبي (11/20 و63)۔

[5] دیکھیں «الجامع» للخطيب(1/520-525).میں ابن عون، سلیمان التیمی، زائدہ بن قدامہ، عکرمہ بن عمار، معاذ بن معاذ اور یعلیٰ بن عبید رحمہم اللہ کے بارے میں مروی آثار کہ جن میں وہ اہل بدعت سے حدیث لینے سے پرہیز کرتے ہيں ۔

[6] دیکھیں «معرفة الثقات» للعجلي (1/205)، و«سير أعلام النبلاء» للذهبي(8/541).۔

[7] ابن مفلح رحمہ اللہ «الآداب الشرعية»(1/250) میں فرماتے ہیں: امام حماد بن سلمہ رحمہ اللہ جب مجلس میں بیٹھتے تھے تو فرماتے تھے جو کوئی قدری ہو وہ یہاں سے اٹھ جائے۔

[8] أخرجه البخاري(2942)، ومسلم(2406) من حديث سهل بن سعد رضي اللهُ عنه.

مصدر: تعليق الشيخ ربيع على كلام الإمام ابن قيم في كتاب الفوائد ص(58-66) من الرسالة

مترجم

طارق بن علی بروہی

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*