
Will people be called by their mother’s name on the Day of Judgment?
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ کا حکم ہے کہ:
اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَاىِٕهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ
انہيں ان کے باپوں کے نام سے پکارا کرو، یہ ہی اللہ کے نزدیک پورے انصاف کی بات ہے[1]۔
امام بخاری رحمہ اللہ اپنی صحیح میں کتاب الادب کے تحت باب باندھتے ہيں:
بَابُ مَا يُدْعَى النَّاسُ بِآبَائِهِمْ
باب: لوگوں کو (بروزقیامت) ان کے باپوں کے نام سے پکارا جائے گا
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتےہیں کہ فرمایا:
إِنَّ الْغَادِرَ يُرْفَعُ لَهُ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُقَالُ: هَذِهِ غَدْرَةُ فُلَانِ بْنِ فُلَانٍ
بے شک غداری کرنے والے کے لیے بروز قیامت جھنڈا نصب کیا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی غداری ہے[2]۔
حافظ ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ اپنی کتاب تحفة المودود بأحكام المولود میں بیان کرتے ہیں:
دسویں فصل: اس بیان میں کہ مخلوق کو قیامت کے دن ان کے باپوں کے نام سے پکارا جائے گا ناکہ ماؤں کے
اور یہی صواب بات ہے جس پر صحیح صریح سنت دلالت کرتی ہے اور آئمہ جیسے بخاری وغیرہ نے اس پر نص ذکر کی ہے چنانچہ انہوں نے اپنی صحیح میں اس پر باب باندھا ہے(جس کا اوپر ذکر ہوا) پھر اس میں (مندرجہ بالا) ابن عمر رضی اللہ عنہما والی حدیث بیان فرمائی ہے۔
اور سنن ابی داود میں ہے جید اسناد[3] کے ساتھ ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّكُمْ تُدْعَوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِأَسْمَائِكُمْ وَأَسْمَاءِ آبَائِكُمْ، فَأَحْسِنُوا أَسْمَاءَكُمْ
بے شک تم لوگ قیامت کے دن اپنے اور اپنے باپوں کے نام سے پکارے جاؤں گے، لہذا اپنے نام اچھے رکھا کرو۔
تو بعض لوگ یہ گمان رکھتے ہيں کہ لوگوں کو ان کی ماؤں کے نام سے پکارا جائے گا، اور اس بارے میں ایک حدیث سے دلیل پکڑتےہيں جو کہ صحیح نہيں ہے، اور وہ معجم الطبرانی میں ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے[4]۔
اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ کسی شخص کا نسب اس کے والد سے ثابت نہ ہو جیسا کہ لعان کے ذریعے منفی ہونے والا، یعنی ولد ِزنا تو پھر اسے کیسے اس کے باپ کے نام سے پکارا جائے گا؟
جواب: جہاں تک حدیث کا تعلق ہے تو وہ حدیث کا علم رکھنے والے علماء کے اتفاق سے ضعیف ہے۔ اور جہاں تک بات ہے جس کا نسب اس کے باپ کی طرف سے منقطع ہو تو پھر اسے اسی طرح سے پکارا جائے گا جس طرح سے دنیا میں پکارا جاتا تھا، پس ایک بندے کو آخرت میں اسی طرح سے پکارا جائے گا جس طرح سے اسے دنیا میں پکارا جاتا تھا باپ کی نسبت سے یا ماں کی، واللہ اعلم[5]۔
سوال: ہم نے یہ سنا ہے کہ انسان کو قیامت کے دن اس کی ماں کے نام سے پکارا جائے گا اس طرح کہ اے فلاں ابن فلانہ، سماحۃ الشیخ کیا یہ بات صحیح ہے؟
جواب از شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ :
یہ بات صحیح نہیں ہے، لوگوں کو ان کےباپوں کے نام سے ہی پکارا جائے گا۔ انہيں ان کے باپوں کے نام سے پکارا جائے گا ناکہ ماؤں کے۔ یہ عام عوام کا باطل کلام ہے۔ قیامت کے دن لوگ اپنے اور اپنے باپوں کے نام سے پکارے جائيں گے[6]۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے بھی یہ سوال ہوا تو فرمایا:
یہ صحیح نہیں ہے، بلکہ باپ کے نام سے ہی پکارا جائے گا پھر آپ رحمہ اللہ نے وہی ابن عمر رضی اللہ عنہما والی حدیث ذکر فرمائی جو غداری کی وعید کے تعلق سے بیان ہوئی۔ اور فرماتے ہیں اس سے ابو امامہ رضی اللہ عنہ والی حدیث کا ضعف بھی معلوم ہوتا ہے[7]۔ یہ حدیث صحیح نہيں ہے اور یہ تلقین بھی بدعت ہے۔ صحیح یہ ہے کہ میت کو دفن کرنے کے بعد اس کے لیے بخشش طلب کی جائے اور دعاء کہ: اے اللہ! اسے ثابت قدم رکھ۔ کیونکہ حدیث بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میت کو دفن کرکے فارغ ہوتے تو کہتے اپنے بھائی کے لیے بخشش طلب کرو اور ثابت قدمی طلب کرو، کیونکہ اب اس سے سوال ہورہے ہیں[8]۔
اس کے علاوہ بعض ضعیف احادیث بھی اس سلسلے میں بیان کی جاتی ہے جیسے:
يُدْعَى النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِأُمَّهَاتِهِمْ سِتْرًا مِنَ اللَّهِ عَلَيْهِمْ
لوگوں کو بروزقیامت ان کی ماؤں کے نام سے پکارا جائے گا ان کی پردہ پوشی کرتے ہوئے۔
شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ موضوع (من گھڑت) ہے [9] اور دوسرے مقام پر اسے باطل قرار دیتے ہیں[10] ۔
اسی طرح ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی طویل حدیث کہ:
إِذَا مَاتَ أَحَدٌ مِنْ إِخْوَانِكُمْ، فَسَوَّيْتُمِ التُّرَابَ عَلَى قَبْرِهِ، فَلْيَقُمْ أَحَدُكُمْ عَلَى رَأْسِ قَبْرِهِ، ثُمَّ لِيَقُلْ: يَا فُلَانَ بْنَ فُلَانَةَ۔۔۔
اس میں بھی ماں کی طرف منسوب کرکے قبر میں دفن کرنے کے بعد تلقین کرنے کا حکم ہے اور اگر ماں کا نام معلوم نہ ہو تو حوا [ کی طرف منسوب کرکے۔
یہ حدیث سخت ضعیف ہے۔ امام ابن القیم رحمہ اللہ تہذیب السنن میں فرماتے ہیں:
لیکن اس حدیث کے ضعف پر اتفاق ہے جس کے ذریعے بذات خود حجت قائم نہيں ہوسکتی چہ جائیکہ یہ تو اپنے سے صحیح احادیث کے مخالف ہے۔
اور امام الصنعانی رحمہ اللہ المنار میں فرماتے ہیں:
اس تلقین والی حدیث کے موضوع ہونے میں اہل معرفت کے ہاں کوئی شک نہيں۔
ان کے علاوہ بعض شاذ قسم کے تفسیری اقوال ہيں جن میں یہ وجہ بتائی جاتی ہے تاکہ عیسیٰ بن مریم علیہما الصلاۃ والسلام کے حق کا خیال رکھتے ہوئے، اور تاکہ حسن و حسین رضی اللہ عنہما کا شرف ظاہر ہو ساتھ ہی زنا کی اولادوں کا پردہ رہے اس وجہ سے ماں کے نام سے پکارا جائے گا۔
علامہ الشنقیطی رحمہ اللہ اضواء البیان میں فرماتے ہیں :
یہ قول باطل ہے۔
ترجمہ وترتیب
طارق بن علی بروہی
[1] الاحزاب: 5
[2] صحیح بخاری 6177
[3] شیخ البانی نے اسے ضعیف ابی داود 4948 میں ضعیف قرار دیا ہے۔
[4] مکمل حدیث بعد میں ذکر ہوگی۔
[5] تحفة المودود بأحكام المولود ص 81-82۔
[6] نور على الدرب هل ينادى الإنسان باسم أمه يوم القيامة؟
[7] یہ حدیث بعد میں بیان ہوئی ہے۔
[8] آڈیو کلپ: هل يدعى الانسان بأسم امه يوم القيامه
[9] الضعيفة 433۔
[10] 5463
Be the first to comment