
Celebrating the mother’s day?
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
میں اس آرٹیکل پر مطلع ہوا جو صحیفہ ’’الندوۃ‘‘ نے بتاریخ 30/11/1384ھ میں تحت عنوان ’’ماں کی تکریم۔۔۔خاندان کی تکریم‘‘ شائع کیا۔ پس کاتب نے اہل مغرب جو سال کا ایک دن ماں کی عید کے نام سے مخصوص کرتے ہیں اس کے بعض زاویوں کو سراہا مگر ساتھ ہی کچھ مواخذات بھی پیش کیے اس کے ایجاد کردہ مفکرین کے لیے جیسے کہا کہ وہ مفکرین اس پہلو سے غافل ہوجاتے ہیں کہ بعض ایسے بچے بھی ہیں جو ماں کی نعمت سے محروم ہوچکے ہیں لہذا جب وہ یہ دن مناتے دوسروں کو دیکھیں گے تو انہیں شدید تکلیف اور غم ہوگا اور تجویز پیش کی کہ یہ دن پوری فیملی کا منانا چاہیے۔ اور بعض عذر بھی پیش کیے کہ جس کی وجہ سے اسلام نے اس عید کو مشروع نہیں کیا کیونکہ اسلامی شریعت بہرحال وہروقت ماں کی تکریم کو واجب قرار دیتی ہے۔
کاتب نے اسلام کی جانب سے ایک خوب عذر بیان کیا کہ اس عید کو منانے میں اس کے ایجاد کردہ مفکرین سے کیا غفلت ہوئی ہےلیکن اس جانب بالکل اشارہ نہیں کیا کہ اس بدعت میں کیسے ان صریح نصوص کی مخالفت پائی جاتی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہیں۔ اور نہ ہی اس کے نقصانات اور کفار ومشرکین سے مشابہت کی طرف اشارہ کیا۔ پس میں اپنے اس مختصر کلام سے اس کاتب وغیرہ کو اس اور دیگر بدعات جو کہ دشمنان اسلام اور جاہلوں نے دین میں ایجاد کررکھی ہیں تاکہ اسلام کا شفاف چہرہ مسخ کیا جائے، لوگوں کو اس سے متنفر کیا جائے اور اس کے سبب سےحق باطل خلط ملط ہو اور آپس میں ایسا تفرقہ پیدا ہو کہ جس کے نقصانات اور فساد کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا پر تنبیہ کرنا چاہتا ہوں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صحیح احادیث ثابت ہیں کہ دین میں نئی باتیں ایجاد کرنا اور اللہ کے دشمنوں یہودونصاریٰ اور دیگر مشرکین وغیرہ کی مشابہت سے ممانعت آئی ہےمثلًا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان:
’’مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ‘‘([1])
(جس کسی نے ہمارے اس امر (دین) میں کوئی نئی بات ایجاد کی جو اس میں نہ تھی، تو وہ مردود ہے)۔
یعنی اس کے کرنے والے کے منہ پر مار دی جائے گی عنداللہ مقبول نہ ہوگی اور حدیث کے ایک دوسرے الفاظ میں ہے:
’’مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدّ ‘‘([2])
(جس کسی نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں تو وہ مردود ہے)۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبۂ جمعہ میں بھی فرمایا کرتے تھے:
’’أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ، وَخَيْرُ الْهُدَى هُدَى مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا، وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ‘‘([3])
(سب سے بہترین بات اللہ تعالی کی کتاب ہے اور سب سے بہترین ہدایت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایت ہے، اور سب سے بدترین کام وہ ہیں جو دین میں نئے نکالے جائيں(یعنی بدعت) اور ہر بدعت گمراہی ہے)۔
بلاشبہ پورے سال میں ماں کی یا فیملی کی تکریم کے لیے ایک دن مخصوص کرکے منانا ان بدعات میں سے ہے جسے نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے، کہ جن سے اللہ تعالی راضی تھا۔ لہذا اسے ترک کرنا اور لوگوں کو اس سے خبردار کرنا واجب ہے۔ اور محض اسی چیز پر اکتفاء کرنا چاہیےجو اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشروع قرار دی ہے۔
یہ بات بھی بیان ہوچکی ہے کہ کاتب نے اس جانب اشارہ کیا ہے کہ شریعت اسلامیہ نے ماں کی تکریم اور اس کے ساتھ حسن سلوک کی ترغیب مخصوص وقت میں نہیں بلکہ ہر زمان ومکان میں دی ہےاور یہ بات واقعی اس نے سچ کہی۔پس مسلمانوں پر یہ واجب ہے کہ اس چیز پر اکتفاء کریں جو اسلام نے والدہ کے تعلق سے اس کی تعظیم، احسان کرنا اور معروف میں اس کی اطاعت کرنے کا ہر وقت حکم دیا ہے۔ اور ان بدعات سے بچیں جن سے اللہ تعالی نے ڈرایا ہے۔ اور جو انہیں اللہ کے دشمنوں سے مشابہت ، ان کے نقش قدم کی پیروی اوران کی طرح بدعات کو مستحسن سمجھنے کی طرف لے جاتی ہیں۔
اور یہ بھی صرف والدہ کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ اسلام نے تو والدین دونوں کے ساتھ تکریم واحسان کا معاملہ کرنے کا حکم دیا ہے بلکہ تمام قرابتداروں سے صلہ رحمی کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور اللہ تعالی نے سختی کے ساتھ والدین کی نافرمانی اور قطع رحمی سے ڈرایا ہے۔ اور ماں کو حسن سلوکی کے تعلق سے خاص عنایت دی ہے۔ کیونکہ اس کی اپنے بچے کے ساتھ عنایت وکرم بھی تو بہت ہے کہ مشقت سے اس کا حمل اٹھایا، اسے جننے کی تکلیف، دودھ پلانا اور تربیت کرنا یہ سب دوسروں پر فوقیت رکھتا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
﴿وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا ۭ اِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَآ اَوْ كِلٰـهُمَا فَلَا تَـقُلْ لَّهُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا، وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيٰنِيْ صَغِيْرًا﴾
(اور آپ کا رب صاف صاف حکم دے چکا ہےکہ تم عبادت نہ کرنا مگر صرف اسی کی اور والدین کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تمہارے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اُف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات کرنا۔ اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھےرہنا اور دعاء کرتے رہنا کہ اے میرے رب ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے)
(الاسراء: 23)
اور فرمایا:
﴿وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ ۚ حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ وَهْنًا عَلٰي وَهْنٍ وَّفِصٰلُهٗ فِيْ عَامَيْنِ اَنِ اشْكُرْ لِيْ وَلِوَالِدَيْكَ ۭ اِلَيَّ الْمَصِيْرُ﴾
(اورہم نے انسان کو اس کے والدین کے متعلق نصیحت کی ہے، اس کی ماں نے کمزوری پرکمزوری اٹھا کر اسے حمل میں رکھا اور اس کی دودھ چھڑائی دو برس میں ہے کہ تو میری اور اپنے والدین کی شکر گزاری کر، (تم سب کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے)
(لقمان: 14)
اور فرمایا:
﴿فَهَلْ عَسَيْتُمْ اِنْ تَوَلَّيْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ وَتُـقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَكُمْ، اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فَاَصَمَّهُمْ وَاَعْمٰٓى اَبْصَارَهُمْ﴾
(اور تم سے یہ بھی بعید نہیں کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد برپا کردو اور رشتے ناتے توڑ ڈالو۔ یہ وہی لوگ ہیں جن پر اللہ کی پھٹکار ہے اور جن کی سماعت اور آنکھوں کی روشنی چھین لی ہے)
(محمد: 22-23)
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صحیح طور پر ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’أَلَا أُنَبِّئُكُمْ بِأَكْبَرِ الْكَبَائِرِ؟ قُلْنَا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: الْإِشْرَاكُ بِاللَّهِ وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ وَكَانَ مُتَّكِئًا فَجَلَسَ، فَقَالَ: أَلَا وَقَوْلُ الزُّورِ وَشَهَادَةُ الزُّورِ، أَلَا وَقَوْلُ الزُّورِ وَشَهَادَةُ الزُّورِ ‘‘([4])
(کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہ کے بارے میں نہ بتاؤ؟ کہا لوگوں نے: ضرور بتلائیں اے اللہ کے رسول!، فرمایا: اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرنا اور والدین کی نافرمانی وبدسلوکی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب یہ فرمارہے تھے تو ٹیک لگائے ہوئے تھےمگر اٹھ بیٹھے اور فرمایا: خبردار! جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی بھی، خبردار! جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی بھی (کبیرہ گناہوں میں سے ہے))۔
اسی طرح ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت کیا:
’’مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ صَحَابَتِي؟ قَالَ: أُمُّكَ قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: ثُمَّ أُمُّكَ قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: ثُمَّ أُمُّكَ قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: ثُمَّ أَبُوكَ ثُمَّ الْأَقْرَبَ فَالْأَقْرَبَ ‘‘([5])
(میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟ فرمایا: تیری ماں۔ پوچھا: پھر کون؟ فرمایا: تیری ماں۔ پوچھا: پھر کون؟ فرمایا: تیری ماں، پوچھا: پھر کون؟ فرمایا: تیرا باپ پھر جو اس سے قریب سے قریب تر ہو اسی ترتیب سے)۔
اور فرمایا:
’’لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَاطِعٌ‘‘[6]
(قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا)۔
یعنی رشتے ناطے توڑنے والا۔
اور یہ بھی صحیح حدیث میں ہے کہ فرمایا:
’’مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُبْسَطَ لَهُ فِي رِزْقِهِ وَيُنْسَأَ لَهُ فِي أَجَلِهِ فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ‘‘([7])
(جسے یہ بات پسند ہو کہ اس کی رزق میں وسعت اور عمر میں اضافہ ہوجائے تو اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے)۔
پس والدین کے ساتھ حسن سلوک اور صلہ رحمی سے متعلق آیات اور احادیث بہت زیادہ ہیں۔ اور اس میں ماں کے حق کاتاکیدی حکم بھی بہت سے نصوص میں آیا ہے اور لوگوں میں مشہور ومعروف ہے۔ لیکن جو ہم نے بیان کردیا کافی ہے۔ اور اس کے علاوہ بھی جو دلائل ہیں وہ سب کے سب ہر زمان ومکان میں والدین کے ساتھ حسن سلوک، احسان اور احترام اور قرابتداروں کے ساتھ صلہ رحمی کے وجوب پر دلالت کرتے ہیں۔ اور یہ بھی ہدایت ملتی ہے کہ والدین کی نافرمانی، بدسلوکی اور قطع رحمی بدترین صفات اور ان کبیرہ گناہوں میں سے ہے جن کی وجہ سے آتش جہنم واجب ہوتی ہے اور اللہ کا غضب نازل ہوتا ہے۔ اللہ تعالی سے عافیت کا سوال ہے۔
یہ تمام باتیں اس سے کئی بلند وبالا ہیں کہ جو اہل مغرب نے پورے سال میں محض ایک دن کو ماں کے لیے منالینا ایجاد کیا ہے اور سال کے باقی دنوں میں اس سے لاپرواہی برتتے ہیں اور باپ اور دیگر اقارب کے حقوق سے بھی اعراض کرتے ہیں۔ ایک عقل مند پر یہ بات مخفی نہیں کہ اس دن کو جاری کرنے میں کیا بڑے فساد مترتب ہوتے ہیں علاوہ ازیں یہ احکم الحاکمین کی شریعت کے بھی مخالف ہے اور رسول امین نے جس چیز سے ڈرایا ہے اس میں واقع ہونے کا سبب ہے۔
انہی میں سے بعض ایام کی تخصیص اور بدعات ایجاد کرنا ہے جیسا کہ بہت سے لوگ سالگرہ مناتے ہیں، اپنے وطن کی جشن ِآزادی یا بادشاہ کی تخت نشینی (یا تاج پوشی) کا یا ان جیسے دوسرے جشن مناتے ہیں، کیونکہ ان سب محدثات (نوایجاد یافتہ باتوں) میں بہت سے مسلمان دشمنانِ الہی غیرمسلموں کی تقلید کرتے ہیں، اور ایسا کرنے سے شریعتِ مطہرہ میں جو خبردار اور منع کیا گیا ہے اس سے غفلت برتتے ہیں۔
یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث کا مصداق ہے کہ فرمایا:
’’لتتبعن سَنن من كان قبلكم حذو القذة بالقذة حتى لو دخلوا جحر ضب لدخلتموه ، قالوا : يا رسول الله اليهود والنصارى ؟ قال : فمن؟‘‘([8])
(تم ضرور بالضرور ان لوگوں کے طریقوں پر چلو گے جو تم سے پہلے ہوگزرے ہیں جیسا کہ تیر کے پر آپس میں برابر ہوتےہیں، یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کےبل میں داخل ہوئے تھے تو تم بھی اس میں داخل ہوجاؤ گے، صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی: یا رسول اللہ! کیا اس سے مراد یہود ونصاریٰ ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو اور کون؟)۔
اور اس حدیث کے ایک دوسرے الفاظ بھی آئے ہیں کہ:
’’لتأخذن أمتي ما أخذ الأمم قبلها شبراً بشبر وذراعاً بذراع ، قالوا : يا رسول الله فارس والروم ؟ قال : فمن؟‘‘([9])
(میری امت بھی اسی چیز سے دوچار ہوگی جس سے اممِ سابقہ دوچار ہوئیں جیسے بالشت بالشت کے برابر ہوتا ہے اورہاتھ ہاتھ کے برابر ہوتا ہے، انہوں نے عرض کی: یا رسول اللہ! کیا ان (گزشتہ امتوں) سے مراد روم وفارس ہیں؟ فرمایا: اور نہیں تو کون؟)۔
یعنی ان کے علاوہ اور کون مراد ہوسکتے ہیں، یقیناً یہی لوگ ہیں۔
واقعی ایسا ہوا جیسا کہ صادق ومصدوق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خبردی تھی کہ مسلم امت میں سے الا ماشاء اللہ سب نے اپنے اخلاق واعمال میں اپنے سے پہلوں یہود، نصاریٰ، مجوس اور دوسرے کافروں کی پیروی شروع کردی، یہاں تک کہ اسلام پر اجنبیت غالب آگئی اور کافروں کے اخلاق واعمال اور ان کا رہن سہن ہی بہت سے مسلمانوں کے نزدیک اس چیز سے بہتر ہوگیا جو اسلام لے کر آیاہے۔
یہاں تک کہ جو عمدہ اخلاق اور صالح ومستقیم اعمال اسلام لے کر آیا تھا اس سے جہالت کے باعث لوگوں کی اکثریت کے یہاں معروف منکر اور منکر معروف بن گیا، اسی طرح سے سنت بدعت اور بدعت سنت بن گئی، إنا لله وإنا إليه راجعون۔
اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ مسلمانوں کو فقہ فی الدین سے نوازے اور ان کے احوال کی اصلاح فرمائے، ان کے قائدین کو صحیح راہ کی ہدایت دے، اور ہمارے علماء اور دانشوروں کو ہمارے دین کے محاسن بیان کرنے اوران بدعات ومحدثات سے ڈرانے کی توفیق دے کہ جنہوں نے اس دین کی صورت بگاڑ دی ہےاور اس سے متنفر کرنے کا سبب بنی ہیں۔ بے شک وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اور اللہ تعالی کے درودوسلام ہوں اس کے بندے اوررسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کی آل اور اصحاب پر اور ان پر جو تاقیامِ قیامت ان کے مسلک کی پیروی اور ان کی سنت کی اتباع کریں([10])۔
اور فرمایا:
جو لوگ اپنی سالگرہ مناتے ہیں تو ان کا یہ عمل منکر وبدعت ہے جیسا کہ بیان ہوا، اسی طرح سے اپنی ماؤں کی عید(مادر ڈے)،باپوں کی عید(فادر ڈے) اور اپنے مشایخ کا عرس مناتےہیں یہ سب بدعت ہے جن کا ترک کرنا اور ان سے خبردار کرنا واجب ہے([11])۔
شیح محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ سے مدر ڈے منانے کے متعلق سوال کیا گیا تو شیخ نے جواب ارشاد فرمایا:
ہر وہ عید جو شرعی عیدوں کے مخالف ہو سب بدعت ہیں نوایجاد کردہ ہیں جو کہ عہد سلف صالحین میں معروف نہ تھیں۔ بلکہ بسااوقات ان کو غیرمسلموں تک نے ایجاد کیا ہوتا ہے۔ جس وجہ سے اس میں بدعت کے ساتھ ساتھ اللہ کے دشمنوں سے بھی مشابہت پائی جاتی ہے۔ اور شرعی عیدیں اہل اسلام کے یہاں معروف ہیں جو کہ عید الفطر، عید الاضحیٰ اور ہفتہ وار عید یعنی جمعہ کا دن ہے۔ اور اسلام میں ان تین عیدوں کے سوا کوئی عید نہیں۔ ان عیدوں کے سوا جو بھی عید منائی جائے گی تو وہ اس کے ایجاد کرنے والے کے منہ پر مار دی جائے گی اور اللہ کی شریعت میں باطل تصور ہوگی۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ‘‘([12])
(جس کسی نے ہمارے اس امر (دین) میں کوئی نئی بات ایجاد کی جو اس میں نہ تھی، تو وہ مردود ہے)۔
یعنی اس کے کرنے والے کے منہ پر مار دی جائے گی عنداللہ مقبول نہ ہوگی اور حدیث کے ایک دوسرے الفاظ میں ہے:
’’مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدّ ‘‘([13])
(جس کسی نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں تو وہ مردود ہے)۔
جب یہ بات واضح ہوگئی تو جاننا چاہیے کہ سوال میں ذکر کردہ عید یعنی عید الام (مدرڈے) منانا جائز نہیں۔ اس دن عید کے شعائر میں سے کوئی چیز ادا کرنا جائز نہیں جیسے خوشی وسرور کا اظہار یا تحائف کا تبادلہ وغیرہ۔ ایک مسلمان پر واجب ہے کہ اپنے دین کے ذریعے عزت حاصل کرے اور اس پر فخر کرے۔ اور جو کچھ اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے لیے مقرر کردیا ہے اس حد سے تجاوز نہ کرے اور نہ ہی اس میں نقص کا مرتکب ہو۔ اور نہ ہی ایک مسلمان کو بالکل چوپایوں کی طرح ہونا چاہیے کہ ہر ہانکنے والے کی آواز پر چل پڑے، بلکہ اسے چاہیے کہ اپنے شخصیت کی تعمیر شریعت الہی کے مطابق کرے تاکہ لوگ اس کی پیروی کریں نہ کے یہ دوسروں کا پیروکار بنے۔ اور تاکہ یہ نمونہ بنے ناکہ دوسروں کو اپنا نمونہ بنائے۔ کیونکہ الحمدللہ شریعت الہی ہر زاویے سے کامل ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
﴿اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا﴾
(آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کر دیا اور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا)
(المائدۃ: 3)
ماں کی شخصیت اس سے کئی بلند ہے کہ اس کے لیے سال میں محض ایک دن منادیا جائے۔ بلکہ ماں کا اس کی اولاد پر وہ حق ہے جس کی رعایت کرنا، خاص عنایت دینا اور اللہ کی معصیت کے علاوہ ان کی اطاعت کے لیے کمربستہ رہنا ہر زمان ومکان میں فرض ہے([14])۔
شیخ صالح الفوزان حفطہ اللہ فرماتے ہیں:
ایسے امور جن میں لوگ کفار کی تقلید کرتے ہیں ان میں سے ان کی عبادات اور شرکیہ امور میں تقلید کرنا ہے جیسے قبروں پر مزارات تعمیر کرنا اور ان کے بارے میں غلو کرنا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ‘‘([15])
(یہود ونصاریٰ پر اللہ تعالی کی لعنت ہو انہوں نے اپنے انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کی قبروں کو مساجد بنادیا تھا)۔
اور یہ بھی خبردی کہ جب ان میں سے کوئی نیک شخص فوت ہوجاتا تو اس کی قبر پر مسجد تعمیر کردیتے تھے، اور اس میں ان کی تصاویر آویزاں کرتے تھے، فرمایا یہ بدترین مخلوق ہیں([16])۔
یہ امت بھی قبروں کے بارے میں غلو کرتے ہوئے شرکِ اکبر میں ملوث ہوگئی ہے جو کہ ہرخاص وعام پر عیاں ہے، لہذا اس کا سبب بھی یہود ونصاریٰ کی پیروی ہی ہے۔
اسی میں سے ان کا کافروں کی شرکیہ اور بدعتیانہ عیدوں میں تقلید کرنا ہے جیسے عیدِمیلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور وزراء وبادشاہوں کی برسیاں یا سالگرہیں منانا، اور ان شرکیہ یا بدعتیانہ عیدوں کو خاص ایام یا ہفتوں کا نام دیا جاتا ہے جیسے یومِ وطنی (جشنِ آزادی)، مادر ڈے یا صفائی مہم (ہفتۂ صفائی) وغیرہ جیسی یومیہ یا ہفتہ وار عیدیں، یہ سب کی سب کافروں سے مسلمانوں میں منتقل ہوئی ہیں۔
ورنہ تو اسلام میں صرف دو ہی (بڑی) عیدیں ہیں: عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ(اور تیسری ہفتہ وار عید جمعہ)، پس جو کچھ ان کے علاوہ ہیں وہ سب بدعات اور کفار کی تقلید ہیں۔
اسی لیے واجب ہے کہ مسلمان اس بارے میں ہوش کے ناخن لیں اور ایسے تہوار منانے والوں کی کثرت سے کسی دھوکے کا شکار نہ ہوں جو اسلام کی طرف اپنے آپ کو منسوب تو کرتے ہیں لیکن اس کی حقیقت سے نرے جاہل ہیں، اسی لیے اپنی جہالت کی وجہ سے ایسے امور میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ یا پھر وہ اسلام کی حقیقت سے ناواقف تو نہیں ہیں مگر عمداً ایسے امور میں حصہ لیتے ہیں، بایں صورت مصیبت اور بھی بڑھ جاتی ہے:
﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللّٰهَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَكَرَ اللّٰهَ كَثِيْرًا﴾
(یقیناً تمہارے لیے رسول اللہ میں بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ تعالی سے ملاقات اور یومِ آخرت کا یقین رکھتا ہو، اور اللہ تعالی کا بہت ذکر کرنے والا ہو)([17])۔
(الاحزاب: 21)
فتویٰ کمیٹی، سعودی عرب سے بھی اسی مناسبت سے سوال کیا گیا جس کا جواب مندرجہ ذیل ہے:
اولاً: عید ایسے اجتماع کو کہتے ہیں جو بار بار لوٹ کر آتا ہے اور جسے باقاعدہ ایک تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے خواہ وہ سالانہ ہو، یا ماہانہ، یا ہفتہ وار وغیرہ، پس عید کہلانے کے لیے کچھ باتیں جمع ہوتی ہیں:
1- جس میں اس دن کا باربار لوٹ کر آنا ہے جیسے عیدالفطر اور یوم ِجمعہ۔
2- اور دوسری بات اس دن لوگوں کا اجتماع ہے۔
3- اسی طرح سے اس دن خصوصی عبادات اور عادات کو بجالایا جاتا ہے۔
ثانیاً: ایسی عید جس میں خاص مناسک ادا کرکے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنا اور اس دن کی تعظیم کرنا ہوتا ہے تاکہ اجروثواب کا حصول ہو، اب اگراس میں اہلِ جاہلیت یا ان جیسے دوسرے کافروں کے ساتھ مشابہت ہو تو وہ بدعت ہے جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس عمومی فرمان کی رو سے ممنوع ہے، فرمایا:
’’مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ‘‘([18])
(جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات ایجاد کی جو اس میں سے نہیں تو وہ مردود ہے)۔
اس کی مثالیں مندرجہ ذیل ہیں:
1- جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔
2- عید الام (مادر ڈے)۔
3- عید الوطنی (جشن آزادی)۔
کیونکہ ان میں سے پہلی میں تو ایک ایسی عبادت کا ایجاد کرنا ہے جس کی اجازت اللہ تعالی نے نہیں فرمائی اور ساتھ ہی اس میں نصاریٰ اور ان جیسے دوسرے کافروں کے ساتھ مشابہت پائی جاتی ہے، جبکہ دوسرے اور تیسرے نمبر پر ذکر کردہ میں بھی کافروں کے ساتھ مشابہت پائی جاتی ہے۔
اگر کوئی خاص مہم اس طورپر ترتیب دی جائے کہ امت کے مصلحت پر مبنی کاموں کی اچھے طور پر تنظیم کی جائےاور نظم وضبط کو برقرار رکھنے کے لیے امور انجام دئے جائیں جیسے ٹریفک کا ہفتہ، تعلیمی اداروں میں تعلیمی سال کی ترتیب یا رضاکاروں وغیرہ کا کسی مہم کی انجام دہی کے لیے جمع ہوناوغیرہ جس سے اصلاً تقربِ الہی، عبادت یا اس دن کی تعظیم مطلوب نہیں ہوتی۔ چناچہ یہ بدعتِ عادیہ شمار ہوں گی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےاس فرمان میں شامل نہیں:
’’مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ‘‘([19])
(جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات ایجاد کی جو اس میں سے نہیں تو وہ مردود ہے)۔
لہذا اس میں کوئی حرج نہیں بلکہ یہ مشروع ہے۔
وبالله التوفيق وصلى الله على نبينا محمد واله وصحبه وسلم .
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية و الإفتاء
نائب رئيس اللجنة : عبد الرزاق عفيفی
الرئيس : عبدالعزيز بن عبدالله بن باز([20])
فتویٰ کمیٹی نے ایک دوسرے فتوی میں فرمایا:
جسے مدر ڈے اور دیگر بدعتی عیدوں کا نام وغیرہ دیا جاتا ہے ان کا منانا جائز نہيں کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:
’’مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدّ ‘‘([21])
(جس کسی نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں تو وہ مردود ہے)۔
اور مدرڈے منانا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل سے ثابت نہیں نہ ہی آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا سلف امت سے ہی ثابت ہے۔ یہ محض بدعت اور کافروں سے مشابہت ہے۔
[1] البخاري الصلح (2550)، مسلم الأقضية (1718)، أبو داود السنة (4606)، ابن ماجه المقدمة (14)، أحمد (6/270).
[2]البخاري الصلح (2550)، مسلم الأقضية (1718)، أبو داود السنة (4606)، ابن ماجه المقدمة (14)، أحمد (6/256).
[3] صحیح مسلم 870۔
[4] صحیح بخاری 5976۔
[5] صحیح بخاری 5971، صحیح مسلم 2550، صحیح ترمذی 1897۔
[6] صحیح بخاری 5984، صحیح مسلم 2557۔
[7] صحیح بخاری 5986، صحیح مسلم 2559، صحیح بخاری کے الفاظ ہیں: ’’مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُبْسَطَ لَهُ فِي رِزْقِهِ وَيُنْسَأَ لَهُ فِي أَثَرِهِ فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ‘‘ (مترجم)
[8] صحیح بخاری 7320 کے الفاظ ہیں: ’’لَتَتْبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ شِبْرًا شِبْرًا، وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتَّى لَوْ دَخَلُوا جُحْرَ ضَبٍّ تَبِعْتُمُوهُمْ، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الْيَهُودُ، وَالنَّصَارَى، قَالَ: فَمَنْ‘‘۔(مترجم)
[9] الابانۃ الکبری لابن بطۃ 330 کے الفاظ ہیں: ’’لَتَأْخُذَنَّ أُمَّتِي بِأَخْذِ الأُمَمِ وَالْقُرُونِ قَبْلَهَا شِبْرًا بِشِبْرٍ، وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ. قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَمَا فَعَلَتْ فَارِسُ وَالرُّومُ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : وَمَنِ النَّاسُ إِلا أُولَئِكَ؟‘‘۔(مترجم)
[10] مجموع فتاوى الشيخ ابن باز (5/189)۔
[11] فتاوی نور علی الدرب۔
[12] یہ حدیث پہلے گزر چکی ہے۔
[13]یہ حدیث پہلے گزر چکی ہے۔
[14] فتاوى إسلامية (1/124) ومجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين (2/301 ، 302)۔
[15] صحیح بخاری 436، صحیح مسلم 533۔
[16] صحیح بخاری 434 حدیث کے الفاظ ہیں: ’’أُولَئِكَ قَوْمٌ إِذَا مَاتَ فِيهِمُ الْعَبْدُ الصَّالِحُ أَوِ الرَّجُلُ الصَّالِحُ بَنَوْا عَلَى قَبْرِهِ مَسْجِدًا وَصَوَّرُوا فِيهِ تِلْكَ الصُّوَرَ، أُولَئِكَ شِرَارُ الْخَلْقِ عِنْدَ اللَّهِ‘‘۔
[17] خطبہ بعنوان ’’الحث على مخالفة الكفار‘‘ (کافروں کی مخالفت کرنے کی ترغیب دلانا) سے ماخوذ۔
[18] حدیث گزر چکی ہے۔
[19] حدیث گزر چکی ہے۔
[20] جمع شيخ احمد بن عبد الرزاق الدويش (3 /88 ـ 89 (من الطبعة الثالثة لمكتبة بلنسية بالرياض۔
[21]حدیث گزر چکی ہے۔
ترجمہ و ترتیب
طارق بن علی بروہی