چاند دیکھنے کے احکام اور دعائيں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

چاند دیکھ کر روزے شروع کرو اور چاند دیکھ کر عید مناؤ

ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے یا ابو القاسم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

’’صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ، فَإِنْ غُبِّيَ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا عِدَّةَ شَعْبَانَ‘‘ [1]

(چاند دیکھ کر روزے شروع کرو، اور چاند دیکھ کر ہی عید مناؤ، اور اگر مطلع ابرآلود ہو تو شعبان کے (تیس(30))   دن مکمل شمار کرلو)۔

اپنی حکومت وعوام کے ساتھ روزے شروع کرو اور عید مناؤ

ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ بے شک نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

’’الصَّوْمُ يَوْمَ تَصُومُونَ وَالْفِطْرُ يَوْمَ تُفْطِرُونَ وَالْأَضْحَى يَوْمَ تُضَحُّونَ‘‘[2]

(روزے اس دن ہے جب تم (لوگ) روزے رکھو، اور عید الفطر اس دن ہے جب تم عید مناؤ، اور عید  الاضحیٰ اس دن ہے جس دن  تم قربانی کرو)۔

بعض علماء نے اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ: اس کا معنی ہے روزے اور عید الفطر (عید  الاضحیٰ) مسلمانوں کی جماعت اور اکثریت کے ساتھ کرنا چاہیے۔

سابق مفتئ  اعظم سعودی عرب شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

۔۔۔آپ کو سعودی عرب کے اعتبار سے نہیں بلکہ اپنے ملک کی حکومت، حکومتی ادارے اور علماء کی روئیت کے مطابق روزے اور عید کرنی چاہیے تاکہ تنازع نہ ہو اور حکومت کو اس کااہتمام کرنا چاہیے[3]۔

موجودہ مفتئ  اعظم سعودی عرب شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل الشیخ  حفظہ اللہ  فرماتے ہیں:

اس حدیث کا معنی واضح ہے اگر آپ چاند دیکھ بھی لیں لیکن لوگ (یا حکومتی ادارہ) آپ کی گواہی کو نہ لیں تو اپنے قول پر اعتماد نہ کرو، کیونکہ روزے شروع کرنا یا عید الفطر منانا لوگوں کے ساتھ ہے اپنے رائے چھوڑ دو[4]۔

نیا چاند دیکھنے کی دعاء

 عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نیا چاند دیکھتے تو فرماتے:

’’اللَّهُ أَكْبَرُ! اللَّهُمَّ أَهِلَّهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ وَالْإِيمَانِ، وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ، [وَالتَّوْفِيقِ لِمَا تُحِبُّ رَبَّنَا وَتَرْضَى]، رَبُّنَا وَرَبُّكَ اللَّهُ ‘‘[5]

(اللہ سب سےبڑا ہے! اے اللہ! اس چاند کو ہم پر امن و ایمان اور سلامتی واسلام کے ساتھ [اور اس چیز کی توفیق کے ساتھ جسے ہمارے رب تو پسند کرتا ہے اور اس سےراضی ہوتا ہے] طلوع فرما،  (اے چاند!) ہمارا اور تیرا رب اللہ تعالی ہے)۔

 طلحہ بن عبید اللہ  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے بے شک نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  جب نیا چاند دیکھتے تو فرماتے:

’’اللَّهُمَّ أَهْلِلْهُ عَلَيْنَا بِالْيُمْنِ وَالْإِيمَانِ وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ رَبِّي وَرَبُّكَ اللَّهُ ‘‘[6]

(اے اللہ! اس چاند کو ہم پر امن وایمان اور سلامتی واسلام کے ساتھ طلوع فرما،  (اے چاند!) میرا اور تیرا رب اللہ تعالی ہے)۔

شیخ البانی  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

تنبیہ: بہت سے لوگ اس دعاء کو پڑھتے ہوئے چاند کی طرف باقاعدہ متوجہ ہوتے ہیں، جیسا کہ قبروں کی طرف متوجہ ہوکر دعاء کی جاتی ہے، یہ سب کچھ ناجائز ہے، کیونکہ یہ بات شریعت میں مقرر ہے کہ بے شک:

’’دعاء کے ساتھ کسی طرف متوجہ نہیں ہوا جائے گا سوائے جس طرف نماز میں متوجہ ہوا جاتا ہے (یعنی کعبۃ اللہ کی طرف)‘‘۔

اس بارے میں ابن ابی شیبہ نے 12/8/11 میں کیا خوب روایت فرمایا ہے کہ  علی  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ فرمایا:

’’جب نئے چاند کو دیکھے تو اس کی طرف سر اٹھا کر متوجہ نہ ہو، بلکہ اسے یہی کافی ہے کہ وہ کہے: رَبِّي وَرَبُّكَ اللَّهُ ‘‘۔

اور  ابن عباس  رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے کہ آپ اس بات کو ناپسند فرماتے تھے کہ نئے چاند کے لیے باقاعدہ کھڑا ہوا جائے، بلکہ منہ پھیر تے اور فرماتے: اللَّهُ أَكْبَرُ!۔۔۔‘‘ [7]

چاند دیکھنے پر اللہ تعالی کی پناہ طلب کرنا

عائشہ  رضی اللہ عنہا  سے روایت ہے کہ بے شک رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے چاند کی طرف دیکھا پس فرمایا:

’’يَا عَائِشَةُ اسْتَعِيذِي بِاللَّهِ مِنْ شَرِّ هَذَا، فَإِنَّ هَذَا هُوَ الْغَاسِقُ إِذَا وَقَبَ‘‘ [8]

(اے عائشہ! اللہ تعالی کی پناہ طلب کرو اس کے شر سے، کیونکہ بلاشبہ یہی وہ ’’الغاسق‘‘ ہے جب وہ چھا جائے (یعنی سورۃ الفلق میں جس سے پناہ طلب کی گئی ہے))۔

عائشہ  رضی اللہ عنہا  سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کا ہاتھ تھاما، اور اس کے ساتھ چاند کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

’’اسْتَعِيذِي بِاللَّهِ مِنْ شَرِّ هَذَا[يعني: القمر]، فَإِنَّ هَذَا هُوَ الْغَاسِقُ إِذَا وَقَبَ‘‘[9]

(اللہ تعالی کی پناہ طلب کرو اس (یعنی چاند) کے شر سے، کیونکہ بلاشبہ یہی وہ ’’الغاسق‘‘ ہے جب وہ چھا جائے)۔

شیخ البانی  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

اس حدیث میں دلالت ہے کہ ہاتھ سے چاند کی جانب اشارہ کرنا جائز ہے، برخلاف اس کے جو بعض مشایخ سے منقول ہے کہ وہ اسے مکروہ و ناپسند گردانتے ہیں، حالانکہ یہ حدیث اس پر رد ہے۔اھ[10]

الطیبی فرماتے ہیں:

اس کے گرہن سے پناہ مانگی گئی ہے کیونکہ وہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے کہ  کوئی ناگہانی آفت آنے کو ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’ وَلَكِنْ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبَادَهُ ‘‘[11]

(لیکن اللہ اس کے ذریعے سے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے)۔

اور حدیث میں اسم اشارے سے متعین ہے کہ اس سے مراد یہی چاند ہے۔اھ

الخازن فرماتے ہیں:

۔۔۔کہا جاتا ہے اس سے مہینے کا آخری بھی مرادہوسکتا ہے  کیونکہ اسی وقت کسی کو مریض کرنے کے لیے جو جادو کروایا گیا ہوتا ہے کام شروع کرتا ہے، اور یہ اس سورۃ کے سبب نزول سے بھی مناسب رکھتا ہے۔۔۔کیونکہ رات میں ہی آفات پھیلتی ہیں، اور کسی کا مدد کے لیے  دستیاب ہونا بھی کم ہوتا ہے اور جادو ٹونے کی تکمیل ہوتی ہے۔ اور بعض ثریا ستارہ مراد لیتے ہيں کہ اس کے واقع ہونے پر بیماریاں بڑھ جاتی ہیں اور اس کے طلوع ہونے پر اس کی سطح بلند ہوتی رہتی ہے، اسی لیے اس ثریا ستارے کے خلاف پناہ طلب کرنے کا حکم دیا گیا جب وہ گرتا ہے۔اھ

ابن جریر اپنی تفسیر میں اس قول کو ترجیح دیتے ہيں کہ اس سے مراد اندھیرا ہے جو رات ہونے پر چھاجاتا ہے، اسی طرح ستاروں کے جانے پر، اس کے علاوہ چاند بھی اندھیری راتوں میں چھاجاتا ہے۔ لہذا ہر قسم کے غاسق سے اللہ کی پناہ طلب کی گئی جب وہ وقب ہو۔اھ[12]


[1] صحیح بخاری 1909۔

[2] اسے امام ترمذی  رحمہ اللہ  نے جامع ترمذی 697 میں روایت کیا اور فرمایا: یہ حدیث حسن غریب ہے اورشیخ البانی  رحمہ اللہ  نے صحیح الترمذی میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔

[3] فتاوى نور على الدرب س 9 کیسٹ 175۔

[4] فتاوى نور على الدرب 2771۔

[5] یہ حدیث صحیح ہے سوائے ’’التوفیق‘‘ والے جملے کے، اسے الدارمی نے اپنی سنن 1693 میں روایت فرمایا ہے، تحقیق الکلم الطیب: 162، صحیح الکلم: 132، شیخ البانی نے اس حدیث کے اس جملے ’’وَالتَّوْفِيقِ لِمَا تُحِبُّ رَبَّنَا وَتَرْضَى‘‘ کی تصحیح سے تضعیف کی جانب رجوع فرمایا، دیکھیں تراجع العلامۃ الالبانی رقم : 821 طبع ثانیۃ، اور ایک روایت کے الفاظ میں ’’اللہ اکبر‘‘ کے بغیر یہی دعاء ہے جو کہ صحیح لغیرہ ہے سوائے ’’التوفیق‘‘ والے جملے کے، دیکھیں: صحیح موارد الظمآن رقم: 2374۔

[6] صحیح [صحیح الترمذی رقم: 3451، المشکوٰۃ رقم: 2428، ھدایۃ الرواۃ رقم: 2364، الصحیحۃ رقم: 1816]۔

[7] (تحقیق الکلم الطیب ص : 139)  [جامع صحیح الاذکار رقم 558-560]۔

[8] (یہ حدیث حسن صحیح ہے [صحیح الترمذی رقم: 3366])۔

[9] (صحیح [الصحیحۃ رقم: 372])۔

[10] (الصحیحۃ ج 1 ص 715) [جامع صحیح الاذکار رقم 561-562]۔

[11] صحیح بخاری 1059

[12] مختصر مفہوم ماخوذ تحفۃ الاحوذی شرح حدیث 3366۔

ترجمہ و ترتیب: طارق بن علی بروہی

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*