دعائے قنوت کی تشریح – شیخ محمد بن صالح العثیمین

بسم اللہ الرحمن الرحیم

دعائے قنوت

’’اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ، وَعَافِنِي فِيمَنْ عَافَيْتَ، وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ، وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ، وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ إِنَّكَ تَقْضِي وَلَا يُقْضَى عَلَيْكَ، وَإِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ، وَلَا يَعِزُّ مَنْ عَادَيْتَ، تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ‘‘([1])

(اے اللہ مجھے ہدایت دے ان کے ساتھ جنہیں تو نے ہدایت دی، اور مجھے عافیت دے ان کے ساتھ جنہیں تو نےعافیت دی، اور مجھے دوست رکھ ان کے ساتھ جنہیں تو دوست رکھتا ہے، اور جو کچھ تو نے مجھے عطاء کیا ہے اس میں میرے لیے برکت دے، اور جس برائی کا تو فیصلہ فرماچکا ہے مجھے اس سے بچا، کیونکہ تو ہی فیصلہ فرماتا ہے اور تیرے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا، بے شک جسے تو دوست رکھے اسے کوئی ذلیل نہیں کرسکتا، اور جسے تو دشمن رکھے اسے کوئی عزت نہیں دے سکتا، اے  ہمارے رب تو بہت بابرکت وبلند ہے)۔

تشریح:

1- ’’اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ‘‘ (اے اللہ مجھے ہدایت دے ان کے ساتھ جنہیں تو نے ہدایت دی) یعنی ہمیں حق کی جانب رہنمائی فرما اور اس پر عمل کی توفیق بھی دے۔ وہ اس لیے کیونکہ مکمل اور نفع بخش ہدایت وہی ہے جس میں اللہ تعالی کسی انسان کے لیے علم وعمل کو یکجا فرمادیتا ہے۔ بلاعمل کے ہدایت فائدہ مند نہیں بلکہ نقصان دہ ہے۔ کیونکہ اگر انسان اپنے علم پر عمل نہ کرے تو وہ اس کے لیے وبال بن جائے گا۔

بلاعمل ہدایت کی مثال:

فرمان الہی:

﴿وَاَمَّا ثَمُوْدُ فَهَدَيْنٰهُمْ فَاسْتَــحَبُّوا الْعَمٰى عَلَي الْهُدٰى﴾ 

(جہاں تک ثمودکا معاملہ ہے تو ہم نے انہیں ہدایت دی لیکن انہوں نے ہدایت پر اندھے پن کو ہی ترجیح دی)

(فصلت: 17)

یعنی ہم نے ان کے لیے سیدھا راستہ بیان کردیا اور انہیں علم پہنچا دیا لیکن (العیاذ باللہ) انہوں نے ہدایت پر اندھے پن کو ہی ترجیح دی۔ اور اس میں سے علم اور حق بیان کردینے کی ہدایت بھی شامل ہے جیسا کہ اللہ تعالی اپنے رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے بارے میں فرماتا ہے:

﴿وَاِنَّكَ لَـــتَهْدِيْٓ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ﴾ 

(بے شک آپ صراط مستقیم کی جانب ہدایت کرتے ہیں)

(الشوری: 52)

یعنی آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  لوگوں کو صراط مستقیم کی رہنمائی فرماتے ہيں، واضح فرماتے ہیں اور اس کی تعلیم دیتے ہیں۔

اور ہدایت بمعنی توفیق کی مثال:

جیسے فرمان الہی:

﴿اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ﴾ 

(آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے)

(القصص: 56)

یہ عمل کرنے کی ہدایتِ توفیق ہے۔ پس رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کبھی بھی کسی کو عمل صالح کی توفیق نہیں دے سکتے۔ اگر وہ اس کی استطاعت رکھتے تو اپنے چچا ابو طالب کو ہدایت دیتے۔ وہ ان کے ساتھ زندگی بھر سر توڑ کوشش کرتے رہے یہاں تک کہ قرب موت اپنے چچا سے فرمانے لگے:

’’أَيْ عَمِّ قُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ كَلِمَةً أُحَاجُّ لَكَ بِهَا عِنْدَ اللَّهِ‘‘([2])

(اے میرے چچا! لاالہ الا اللہ کہہ دیجئے، اس کلمے کی وجہ سے میں (بروز قیامت) اللہ تعالی کے پاس آپ کے لیے یہ حجت پیش کروں گا)۔

لیکن اللہ تعالی کی طرف سے یہ بات ٹھہر چکی تھی کہ وہ جہنمیوں میں سے ہوگا، العیاذ باللہ۔اس نے لا الہ الا اللہ نہیں کہا اور وہ آخری بات جس پر اس کی موت ہوئی یہی تھی کہ:

’’هُوَ عَلَى مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ‘‘

(وہ عبدالمطلب کے دین پر ہی ہے)۔

لیکن اللہ تعالی نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو ان کی شفاعت کی اجازدت دی۔ اس لیے نہيں کہ وہ نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے چچا تھے بلکہ اس لیے کہ انہوں نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اور اسلام کا دفاع کیا تھا۔ پس نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ان کی شفاعت کی جس کے سبب آگ اس کے ٹخنوں تک ہوگی اور جہنم کی دو جوتیاں پہنائی جائیں گی جس سے اس کا دماغ ابلنے لگے گا، اور یہ جہنمیوں میں سے سب سے ہلکا عذاب ہوگا۔ نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

’’لَوْلَا أَنَا لَكَانَ فِي الدَّرَكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ‘‘([3])

(اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کی سب سے نچھلی تہہ میں ہوتا)۔

جب ہم دعائے قنوت میں ’’اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ‘‘ کہتے ہیں تو ہم دونوں قسم کی ہدایت طلب کرتے ہیں۔ ہدایت علم اور ہدایت عمل۔ جیسا کہ اللہ تعالی کے اس فرمان میں ہے:

﴿اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ﴾ 

(ہمیں صراط مستقیم کی ہدایت دے)

(الفاتحۃ: 6)

یہ دونوں ہدایتوں کو شامل ہے: ہدایت علم اور ہدایت عمل۔ پس قاری کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے دل میں ان دنوں ہدایتوں کی طلب کو ملحوظ خاطر رکھے: ہدایت علم اور ہدایت عمل۔

اور یہ فرمانا: ’’فِيمَنْ هَدَيْتَ‘‘ یہ اس انعام الہی کا توسل ہے کہ جس طرح اس نے ان کو ہدایت دی، ہم پر بھی ہدایت کا انعام فرما۔ یعنی ہم تجھ سے دعاء کرتے ہیں جو تیری رحمت، حکمت اور سابقہ فضل کا تقاضہ ہے کہ تو نے بہت سے دوسرے انسانوں کو بھی ہدایت دی تو ہمیں بھی ہدایت دے۔

2- ’’وَعَافِنِي فِيمَنْ عَافَيْتَ‘‘ (اور مجھے عافیت دے ان کے ساتھ جنہیں تو نےعافیت دی) ہمیں دلی اور بدنی امراض سے عافیت دے۔ اور اے بھائی آپ کو چاہیے کہ جب آپ یہ دعاء کررہے ہوں تو اپنے دل میں یہ نیت رکھیں کہ اللہ تعالی آپ کو بدنی اور قلبی دونوں امراض سے عافیت دے۔ کیونکہ دل کے امراض بدن کے امراض سے بڑھ کر ہوتے ہیں جیساکہ ہم دعائے قنوت میں یہ بھی کہتے ہیں کہ، اے اللہ:

’’وَلَا تَجْعَلْ مُصِيبَتَنَا فِي دِينِنَا‘‘([4])

(ہمارے دین میں ہمیں کسی مصیبت کا شکار نہ فرمانا)۔

بدن کے امراض معروف ہیں لیکن دل کے امراض دو طرح کے ہوتے ہیں:

اول: شہوات کے امراض جوخواہش نفس کی پیداوار ہے۔

دوم: شبہات کے امراض جو جہالت کی پیداوار ہے۔

پہلی قسم یعنی شہوات کے امراض جو خواہش نفس کی پیداوار ہے میں انسان حق بات کو جانتا ہے لیکن اس پر عمل کا ارادہ نہیں رکھتا کیونکہ اس کی ایسی خواہش نفس ہے جو نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی لائی ہوئی شریعت کی مخالفت کرتی ہے۔

دوسری قسم یعنی شبہات کے امراض جو جہالت کی پیداوار ہے میں انسان جاہل ہوتا ہے اور باطل کو حق سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہوتا ہے، اور یہ بہت ہی خطرناک مرض ہے۔

پس آپ اللہ تعالی سے امراض بدن وقلب یعنی امراض شبہات وشہوات سے درگزر وعافیت کا سوال کرتے ہیں۔

3- ’’وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ‘‘  (اور مجھے دوست رکھ ان کے ساتھ جنہیں تو دوست رکھتا ہے) یعنی تو ہمارا ولی (دوست) بن جا۔ اور ولایت کی دو اقسام ہیں: ایک عام اور ایک خاص۔

ولایتِ خاصہ خاص مومنوں کے لیے ہے جیسا کہ فرمان الہی ہے:

﴿اَللّٰهُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا  ۙيُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ ڛ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَوْلِيٰۗــــــُٔــھُمُ الطَّاغُوْتُ ۙ يُخْرِجُوْنَـھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَى الظُّلُمٰتِ ۭ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ﴾

(اللہ تعالی مومنوں کا ولی ہے، وہ انہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال لے جاتا ہے ، اور کافروں کے اولیاء   شیاطین ہیں وہ انہیں روشنی سے نکال کر اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں،  یہ لوگ جہنمی ہیں جو ہمیشہ اسی میں رہیں گے)

(البقرۃ: 257)

پس اللہ تعالی سے ولایت خاصہ طلب کریں جو اس بات کی متقاضی ہے کہ اللہ تعالی جسے دوست رکھے اسے خاص عنایت دے اور جس چیز سے اللہ محبت کرتا ہے اور راضی ہوتا ہے اس کی توفیق دے۔

جبکہ ولایت عامہ ہر ایک کوشامل ہے۔ پس اللہ تعالی ان معنوں میں ہر ایک کا ولی ہے۔ جیسا کہ فرمان الہی ہے:

﴿حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُونَ﴾ 

(یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت آپہنچتی ہے، اس کی روح ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے قبض کر لیتے ہیں اور وہ ذرا کوتاہی نہیں کرتے)

(الانعام: 61)

اور یہ ہر ایک لیے عام ہے، پھر آگے فرمایا کہ:

﴿ثُمَّ رُدُّوْٓا اِلَى اللّٰهِ مَوْلٰىهُمُ الْحَقِّ ۭ اَلَا لَهُ الْحُكْمُ  ۣ وَهُوَ اَسْرَعُ الْحٰسِبِيْنَ﴾

(پھر سب اپنے مولیِٰ حقیقی  اللہ کے پاس لائے جائیں گے ،خوب سن لو فیصلہ اسی کا ہوگا،  اور وہ بہت جلد حساب لے گا)

(الانعام: 62)

لیکن جب ہم کہتے ہيں: ’’اللهم اجعلنا من أوليائك‘‘ (اے اللہ ہمیں اپنے اولیاء میں سے بنالے) یا ’’اللهم تولنا‘‘ (اے اللہ ہمارا ولی بن جا) تو ہم اس سے ولایت خاصہ مراد لیتے ہیں جوخصوصی عنایت اور جس چیز سے اللہ محبت کرتا ہے اور راضی ہوتا ہے اس کی توفیق دینے کی متقاضی ہے۔

4- ’’وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ‘‘ (اور جو کچھ تو نے مجھے عطاء کیا ہے اس میں میرے لیے برکت دے) برکت کا معنی ہے خیرکثیر جسے ثبات ہو دوام ہو۔ اور اس بارے میں علماء کرام اس کلمے کی اشتقاق کی طرف لوٹتے ہيں کہ یہ ’’البِرْكة‘‘سے ہے ’’ب ‘‘ کی زیر کے ساتھ جو پانی کے ذخیرے کو کہتے ہيں جو ایسی چیز ہے کہ جس کا پانی وسیع وکثیر وثابت ہے۔ پس برکت کا معنی ہوا بہت سی خیرات وبھلائیاں جنہیں ثبات ہو۔ یہاں اس کا معنی ہے کہ جو کچھ تو نے مجھے عطاء فرمایا ہے اس میں برکت نازل فرما۔

’’فِيمَا أَعْطَيْتَ‘‘  یعنی جو کچھ مال، اولادوعلم وغیرہ اللہ تعالی نے عطاء فرمایا ہے، تو آپ اس میں اللہ تعالی سے برکت کا سوال کریں۔ کیونکہ اگر اللہ تعالی نے جو کچھ عطاء فرمایا ہے اس میں آپ کے لیے برکت نہ دے تو آپ خیرکثیر سے محروم رہیں گے۔ کتنے ہی ایسے لوگ ہیں کہ جن کے پاس مال کثیر ہے لیکن ان کی حالت فقیروں جیسی ہے کیونکہ وہ اپنے مال سے فائدہ نہیں اٹھاتے بلکہ جمع کرتے رہتے ہیں۔ اور یہ برکت کے اٹھ جانے میں سے ہے۔ اسی طرح سے بہت سے لوگ ہیں ان کے پاس اولاد ہوتی ہے لیکن ان کی اولاد سے انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ وہ ان کے ساتھ حسن سلوک نہیں کرتی۔ لہذا ایسے لوگوں کی اولاد میں برکت نہيں دی گئی۔ اور بہت سے لوگوں کو آپ پائیں گے کہ اللہ تعالی نے انہیں علم کثیر دے رکھاہوتا ہے لیکن ان کی حالت جاہل گنواروں کی سی ہوتی ہے۔ اس کا علم کا اثر نہ اس کی عبادت میں دکھتا ہے نہ ہی اس کے اخلاق، سلوک اور لوگوں سے معاملات میں۔ بلکہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس نے علم محض اللہ کے بندوں پر اپنی بڑائی ظاہر کرنے  اور انہیں نیچا وحقیر دکھانے کے لیے حاصل کیا ہوتا ہے۔ یہ شخص نہيں جانتا کہ جس نے اسے علم کی نعمت دی ہے وہ اللہ تعالی ہے۔ آپ ایسے لوگ پائیں گے جو اپنے علم سے کوئی فائدہ نہيں اٹھاپاتے، نہ تدریس کرتے ہیں، نہ توجیہ ورہنمائی، نہ تالیف بلکہ اسے اپنے نفس تک ہی منحصر رکھتے ہیں۔ اور یہ بلاشبہ بہت عظیم محرومی ہے۔ حالانکہ علم تو وہ سب سے بابرکت ترین چیز ہے جو اللہ تعالی کسی بندے کو عطاء کرتا ہے۔ کیونکہ اگر آپ کسی دوسرے کو تعلیم دیں گے اور اسے لوگوں میں نشر کریں گے تو آپ کو کئی طریقوں سے اس کا اجر ملے گا:

اول: علم نشر کرنے سے آپ دین الہی کو نشر کرنے والے بنیں گےاور مجاہدین فی سبیل اللہ میں شمار ہوں گے ، کیونکہ آپ علم کے ذریعے دلوں کو فتح کرتے ہیں جیسا کہ مجاہد ملک کو اسلحہ اور ایمان سے فتح کرتا ہے۔

دوم: علم کو نشر کرنے اور تعلیم کی برکت میں سے شریعت الہی کی حفاظت بھی ہے اور اس کا دفاع بھی۔ کیونکہ اگر علم نہ ہوتا تو شریعت محفوظ نہیں ہوسکتی تھی۔

سوم: علم کو نشر کرنے کی برکت میں سے یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعے جسے آپ تعلیم دے رہے ہوتے ہیں اس پر احسان کررہے ہوتے ہیں۔ کیونکہ آپ اسے دین الہی کے بارے میں بصیرت دے رہے ہوتے ہیں۔ پھر اگر وہ اللہ تعالی کی عبادت بصیرت کے ساتھ کرتا ہے تو آپ کو بھی اس کےجیسا اجر ملے گا۔ کیونکہ وہ آپ ہی ہیں کہ جس نے اسے خیر کی جانب رہنمائی کی۔ اور خیر کی جانب رہنمائی کرنے والا خیر کو کرنے والے کی طرح ہے(جیسا کہ حدیث میں آیا ہے)۔

چہارم: علم کو نشر کرنے اور اس کی تعلیم سے اس میں اضافہ ہوتا ہے۔ پس ایک عالم کا علم بڑھتا ہے جب وہ لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہے۔ کیونکہ جو اسے یاد ہوتا ہے اس کی دہرائی ہوجاتی ہے اور اس علم کے دروازے کھلتے ہیں جو اس نے حفظ نہیں کیا ہوتا۔ جیساکہ قائل کہتا ہے: اگر تم کثرت سے اسے خرچ کروگے تو یہ بڑھے گا اور اگر اپنے تک ہی دبا رکھو گے تو اس میں کمی آئے گی۔

4- ’’وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ‘‘ (اور جس برائی کا تو فیصلہ فرماچکا ہے مجھے اس سے بچا) اللہ تعالی خیر کے قضاء (فیصلے) فرماتاہے اور وہی شر کے فیصلے بھی فرماتا ہے۔جہاں تک اس کاخیر کے فیصلے فرمانا ہے تو وہ خیر محض ہوتے ہیں وہ فیصلہ بھی اور جس چیز کا فیصلہ ہوا وہ بھی۔

خیر کے فیصلوں کی مثال انسانوں کے لیے وسیع رزق، امن واطمئنان، ہدایت ونصرت ۔۔۔ وغیرہ کے فیصلے۔ یہ فیصلہ بھی خیر ہے اور جو باتیں فیصل ہوئی (رزق وغیرہ) یہ بھی خیر ہے۔

اور شر کے فیصلے اپنے فیصلے کے اعتبار سے خیر ہیں لیکن جس چیز کا فیصلہ ہوا وہ شر ہے۔

اس کی مثال: قحط سالی (بارش کا رک جانا) یہ شر ہے۔ لیکن اللہ تعالی نے اس کے ذریعے خیر کا فیصلہ فرمایا۔ قحط سالی کے ذریعے خیر کا فیصلہ کیسے ہوا؟ اگر کہنے والا کہے: اللہ تعالی نے ہمارے بارے میں قحط سالی اور خشک سالی کا فیصلہ فرمایا جس سے مویشی مرگئے اور کھتیاں تباہ ہوگئیں، اس میں خیر کا کیا پہلو ہے؟ تو ہم یہ جواب دیں گے کہ: اللہ تعالی کے اس فرمان کو غور سے سنو:

﴿ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِيْ عَمِلُوْا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ﴾

(خشکی اور تری میں لوگوں کی بد اعمالیوں کے باعث فساد پھیل گیا۔ اس لئے کہ انہیں ان کے بعض کرتوتوں کا پھل اللہ  تعالیٰ چکھا دے ، ممکن ہے کہ وہ باز آجائیں)

(الروم: 41)

لہذا اس فیصلے کی اصل غایت قابل ستائش ہے یعنی گناہ چھوڑ کر اللہ تعالی اور اس کی اطاعت کی جانب رجوع لانا۔ جس کی وجہ سے فیصلہ خیر ہے لیکن جو بات واقع ہوئی وہ شرہے۔  اس وجہ سے یہاں ’’ما‘‘ جو ہے وہ موصولہ ہے۔ اور معنی یہ ہوا کہ جس شر کا تو نے فیصلہ فرمایا ہے اس سے ہمیں بچا۔ کیونکہ اللہ تعالی قابل ستائش وبالغ حکمت کے پیش نظرشر کا بھی فیصلہ فرماتا ہے ۔

لیکن یہاں ’’ما‘‘ مصدریہ نہیں ہے جس کا معنی بنتا ہے تیرا برا فیصلہ۔ بلکہ اسم موصول ہے جس کا معنی ہے وہ چیز جو تو نے فیصل کی۔ کیونکہ اللہ تعالی کے فیصلوں میں شر نہیں۔ اسی لیے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اپنے رب کی جو جو حمد وثناء بیان فرمایا کرتے تھے اس میں سے یہ بھی تھی کہ:

’’وَالْخَيْرُ بِيَدَيْكَ، وَالشَّرُّ لَيْسَ إِلَيْكَ‘‘([5])

(تمام خیر تیرے ہاتھوں میں ہے اور شر کی نسبت تیری طرف نہیں کی جاسکتی)۔

لہذا شر کی نسبت اللہ تعالی کی طرف نہیں کی جاسکتی۔

5- ’’إِنَّكَ تَقْضِي وَلَا يُقْضَى عَلَيْكَ‘‘ (کیونکہ تو ہی فیصلہ فرماتا ہے اور تیرے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا) اللہ تعالی شرعی فیصلے بھی فرماتا ہے اور کائناتی فیصلے بھی۔ اللہ تعالی کا فیصلہ ہر چیز پر چلاتا ہے اوروہی  ہر چیز کا فیصلہ فرماتا ہے۔ کیونکہ اسی کے لیے مکمل وہر شے کو شامل حکم ہے۔

’’وَلَا يُقْضَى عَلَيْكَ‘‘ یعنی اس پر کسی کا فیصلہ نہیں چلتا۔ پس بندے اللہ تعالی پر اپنے احکام نہيں چلاسکتے، بلکہ اللہ تعالی ان پر اپنے احکامات نافذ فرماتا ہے۔ بندوں سے ان کے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا جبکہ اللہ تعالی سے کوئی پوچھنے والا نہیں:

﴿لَا يُسْــَٔـلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْــَٔــلُوْنَ﴾ 

(وہ اپنے کاموں کے لئے (کسی کے آگے) جواب دہ نہیں اور سب (اس کے آگے) جواب دہ ہیں)

(الانبیاء: 23)

6- ’’إِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ، وَلَا يَعِزُّ مَنْ عَادَيْتَ‘‘ (بے شک جسے تو دوست رکھے اسے کوئی ذلیل نہیں کرسکتا، اور جسے تو دشمن رکھے اسے کوئی عزت نہیں دے سکتا) یہ گویا کہ ہمارے سابقہ کلام ’’وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ‘‘ (اور مجھے دوست رکھ ان کے ساتھ جنہیں تو دوست رکھتا ہے) کی علت ہے کیونکہ اگر اللہ تعالی کسی انسان کو دوست رکھتا ہے تو وہ ذلیل نہیں ہوسکتا، اور اگر کسی سے دشمنی رکھتا ہے تو اسے عزت نہیں مل سکتی۔ اس کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم عزت صرف اللہ تعالی سے طلب کریں اور اللہ تعالی کی جانب سے ذلیل ہوجانے سے بچیں۔ کسی ایسے کو ذلیل کرنا ممکن نہيں جسے اللہ تعالی دوست رکھتا ہو۔ جو بات اہم ہے وہ اس ولایت کا حصول ہے کہ یہ ولایت آخر کیسے حاصل ہوسکتی ہے؟

یہ ولایت دو اوصاف کے ساتھ حاصل ہوسکتی ہے جنہیں اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں بیان فرمایا:

﴿اَلَآ اِنَّ اَوْلِيَاۗءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ  ، الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَكَانُوْا يَتَّقُوْنَ﴾ 

(یاد رکھو کہ اولیاء اللہ( اللہ کے دوستوں ) پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے، یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اورتقویٰ اختیار کیے رکھا)

(یونس: 62-63)

ان صفات میں سے ایک دل سے تعلق رکھتی ہے اور دوسری جوارح سے۔ ’’الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا‘‘ دل سے متعلق ہے اور ’’وَكَانُوْا يَتَّقُوْنَ‘‘ جوارح سے متعلق۔ جب دل اور جوارح کی اصلاح ہوجائے تو انسان ان دواوصاف کے ساتھ ولایت حاصل کرلیتاہے۔ اور ولایت کا درجہ وہ نہیں جو ایک گمراہ فرقہ جس نے رہانیت کا طریقہ اختیار کیا اور ان اہل بدعت نے اللہ کے دین میں ایسی بدعات ایجاد کیں جو اس میں نہ تھیں کہتے ہیں کہ ہم اولیاء ہیں۔ پس اللہ تعالی کی حقیقی ولایت جس کے ذریعے سے عزت ملتی ہے وہ ان دو اوصاف کا مجموعہ ہے: ایمان اور تقویٰ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ ” اسی آیت سے ماخوذ کرکےفرماتے ہیں: ’’الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَكَانُوْا يَتَّقُوْنَ‘‘ (یونس: 63) ’’من كان مؤمنًا تقيًّا كان لله وليًّا‘‘ (جو کوئی مومن ومتقی ہوگا وہ اللہ کا ولی ہوگا) اور واقعی آپ ” نے سچ فرمایا کیونکہ اسی پر قرآن کریم دلالت کرتا ہے۔

’’وَلَا يَعِزُّ مَنْ عَادَيْتَ‘‘ یعنی جو کوئی بھی اللہ کا دشمن ہوتا ہے اسے عزت نہیں مل سکتی۔ بلکہ اس کا حال ذلت، خسارہ اور شکست ہے۔ فرمان الہی ہے:

﴿مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّلّٰهِ وَمَلٰۗىِٕكَتِهٖ وَرُسُلِهٖ وَجِبْرِيْلَ وَمِيْكٰىلَ فَاِنَّ اللّٰهَ عَدُوٌّ لِّلْكٰفِرِيْنَ﴾ 

(جو شخص اللہ کا اور اس کے فرشتوں اور رسولوں کا اور جبرئیل اور میکائیل کا دشمن ہو، تو ایسے کافروں کا دشمن خود اللہ ہے)

(البقرۃ: 98)

پس ہر کافر ذلت میں ہے اور وہ سب پست وذلیل ہیں۔ لہذا اگر آج مسلمانوں کے پاس اسلام کی، دین کی اور ولایت کی عزت ہوتی تو یہ کفار اس غلبے میں نہ ہوتے جو آج ہم دیکھتے ہیں۔ ہم تو ان کی طرف جھکی نظروں سے ذلیل ہوکر دیکھتے ہیں اور وہ ہم سے زیادہ عزت دار ہیں۔ کیونکہ آج صدافسوس مسلمانوں کی اکثریت اپنے دین کو لے کر عزت نہیں حاصل کرنا چاہتی ، نہ اس دین کی تعلیم حاصل کرتی ہے، اور اس مادی دنیا اور اس کی زینت پر ہی قناعت کربیٹھی ہے۔ اسی لیے انہیں اس ذلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔اور یہ کفار ان کے دلوں میں اپنے سے زیادہ عزت دار ہیں۔ لیکن ہمارا یہ ایمان ہے کہ یہ کفار اللہ تعالی کے دشمن ہیں اور اللہ تعالی نے اپنے ہر دشمن پر ذلت لکھ دی ہے۔ فرمان الہی ہے:

﴿اِنَّ الَّذِيْنَ يُحَاۗدُّوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗٓ اُولٰۗىِٕكَ فِي الْاَذَلِّيْنَ﴾ 

(بے شک اللہ  تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی جو لوگ مخالفت کرتے ہیں وہی لوگ سب سے زیادہ ذلیلوں میں ہیں)

(المجادلۃ: 20)

پس جو کوئی اللہ تعالی کا دشمن ہو وہ ذلیل ہے ممکن ہی نہیں کہ وہ عزت دار ہوسوائے ان لوگوں کی نظر میں جن کے نزدیک عزت کامعیار وہی کچھ ہے جو اس کافر کے پاس ہے، جبکہ جس کی نظر میں عزت کا معیار ولایت الہی اور اس کے دین پر استقامت ہے تو اس کی نظر میں یہ کفار اللہ تعالی کی ذلیل ترین مخلوق کے سوا کچھ نہیں۔

7- ’’تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ‘‘ (اے ہمارےرب تو بہت بابرکت وبلند ہے) یہاں دو باتوں کے ساتھ اللہ تعالی کی ثناء بیان کی گئی ہے:

اول: التبارک اور اس میں ’’ت‘‘ مبالغے کے لیے ہے۔ کیونکہ اللہ تعالی ہی برکت والا ہے ’’تَبَارَكْتَ‘‘ یعنی تیری خیر بہت کثیر ہے جو تیری تمام مخلوقات پر عام اور وسیع ہے۔ کیونکہ برکت کی تعریف جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کی کہ دائمی خیر کثیرہے۔ اور آپ کا ’’رَبَّنَا‘‘ فرمانا یعنی ’’يا ربنا‘‘ (اے ہمارے رب!)۔ یہ نداء ہے مگر اس میں سے ’’یاء‘‘ حرف نداء حذف کردیا گیاہے۔

دوم: ’’وَتَعَالَيْتَ‘‘ ذاتی ووصفی علو (بلندی) سے ہے۔ اللہ تعالی  عليٌّ (بلند) ہے اپنی ذات کے اعتبار سے اور عليٌّہے اپنی صفات کے اعتبار سے۔ اپنی ذات کے اعتبار سے عليٌّ ہے اپنے تمام مخلوقات سے اوپر اور علو الہی اللہ تعالی کا ذاتی، ازلی وابدی وصف ہے۔ جبکہ عرش پر مستوی (بلند) ہونا اس کا فعلی وصف ہے جو اس کی مشیئت کے تابع ہے۔  اور عرش اللہ تعالی کی سب سے بلند واعلی مخلوق ہے اور اللہ تعالی اسے پر مستوی ہے یعنی اس پر بلند ہے جیسا کہ اس کی شان ، جلالت وعظمت کے لائق ہے۔ ہم اس کی کیفیت اور مثال بیان نہیں کرتے۔ اور یہ علو الہی (اللہ تعالی کا بلند ہونے) کا عقیدہ سلف صالحین کا اجماعی عقیدہ ہے جس پر قرآن، سنت اور عقل وفطرت دلالت کرتے ہیں۔

اور جو علو وصف ہے اس کا معنی ہے اللہ تعالی کی تمام صفات کمال ہیں ایسی اعلی واتم ہیں کہ جن میں کسی بھی صورت میں کوئی بھی نقص نہیں پایا جاتا۔

اور دعائے قنوت میں ایک جملہ ہے جس کے بارے میں کثرت سے سوال کیا جاتا ہے جسے ہمارے آئمہ اپنے قنوت میں پڑھتے ہیں، کہتے ہیں: ’’هب المسيئين منا للمحسنين‘‘ (ہمارے گنہگاروں کو ہمارے نیکوکاروں کا تحفہ بنادے) اس کا کیا معنی ہے؟

اس بارے میں جو اقرب ترین قول ہے وہ یہ کہ یہ باب شفاعت سے تعلق رکھتا ہے۔ یعنی یہ جو مقتدیوں کا اتنا بڑا مجمع ہے اس میں گنہگار اور نیکوکار سب شامل ہیں۔ تو ہمارے گنہگاروں کو ہمارے نیکوکاروں کے لیے تحفہ بنادے ان کی شفاعت کے ذریعے گویا کہ یہ کہا جارہا ہے ہمارے نیکوکاروں کی ہمارے گنہگاروں کے بارے میں شفاعت قبول فرما۔

الحمدللہ اللہ کی توفیق سے دعائے قنوت کی شرح مکمل ہوئی۔

وصلى الله وسلم على نبينا محمد وعلى آله وأصحابه وأتباعه إلى يوم الدين.

سوال: کیا جو دعائے قنوت نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے سیدنا حسن بن علی  رضی اللہ عنہما  کو سکھلائی تھی اس پر اضافہ کیا جاسکتا ہے؟

جواب: اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ انسان اس دعائے قنوت میں دوسری دعائوں کا اضافہ کرلے۔ اگر وہ اکیلا نماز پڑھ رہا ہے تو جو اور جتنی  چاہے دعاء کرے۔ لیکن افضل یہی ہے انسان جامع قسم کی دعائوں کو اختیار کرے۔ کیونکہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  جامع قسم کی دعائیں فرمایا کرتے تھے البتہ اس کے علاوہ بھی دعاء کرسکتاہے۔اور اگر امام ہے تو اسے چاہیے کہ دعاء کو اتنا طویل نہ کرے کہ مقتدیوں کے لیے مشقت کا باعث بن جائے۔

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: شیخ کی آفیشل ویب سائٹ۔


[1] صحیح ابی داود 1425 وغیرہ۔

[2] صحیح بخاری 3884، صحیح مسلم 26۔

[3] صحیح بخاری 6208۔

[4] صحیح ترمذی 3502۔

[5] صحیح مسلم 774 کے الفاظ ہیں: ’’وَالْخَيْرُ كُلُّهُ فِي يَدَيْكَ، وَالشَّرُّ لَيْسَ إِلَيْكَ‘‘ (مترجم)