انتخابات میں حصہ لینے اور ووٹ ڈالنے کا شرعی حکم؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

انتخابات کی تعریف

انتخابات کا معنی ہے اختیار کرنا جو کہ ایک قانونی اجراء ہے جس کے نظام ومکان کی تحدید دستور میں یا پروگرام یا لائحہ عمل میں کی جاتی ہے۔ تاکہ اس کے مقتضیٰ کے مطابق کسی ایک یا ایک سے زائد افراد کو منتخب کیا جاتا ہےجو مجلس کی یا محکمے کی یا پارلیمنٹ کی سربراہی کرتے ہیں یا اس کے رکن وغیرہ ہوتے ہیں ۔

انتخابات کا ہمارے دین سے کوئی تعلق نہیں

شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ اپنے مقالے بعنوان ’’حكم الانتخابات والمظاهرات‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’آجکل ممالک میں جو انتخابات کے بطور طریقہ معروف ہے وہ اسلامی نظام میں سے نہیں‘‘۔

کیا انتخابات شریعت الہی کے موافق ہیں یا اس سے متصادم ہیں

شیخ ربیع المدخلی حفظہ اللہ اپنے مقالے بعنوان ’’ذكرى للمسلمين عموماً ولعلمائهم وحكامهم خصوصاً‘‘ میں فرماتے ہیں :

’’میں انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ بے شک انتخابات جو کہ جمہوریت کے بنیادی عناصر میں سے ہے طریقۂ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متصادم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان لوگوں کو چنتے تھے جو علم، تقویٰ  اور عدالت کے بلند درجے پر فائز ہوتے تھے اور انہیں کوئی عہدہ نہ دیتے جو منصب کی حرص رکھتا ہو یا خود طلب کرتا ہو‘‘۔

کیا انتخابات شرعی وسائل میں سے ہے؟

شیخ احمد النجمی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:

’’کیا پارلیمانی انتخابات میں حصہ لینا اس دین کی نصرت کرنے کے شرعی وسائل میں سے ہے یا نہیں؟

جواب: نہیں‘‘۔

انتخابات کے بعض مفاسد

شیخ ربیع المدخلی حفظہ اللہ اپنے رسالے بعنوان ’’حقيقة المنهج الواسع الأفيح‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’ان انتخابات کے لیے کتنی ہی دین الہی کی مخالفتوں کا مرتکب ہوا جاتا ہےجیسے سیکولر، ملحد اور بدعتی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کرنا اور اس اتحاد کے نتیجے میں عقیدہ الولاء والبراء (اللہ تعالی اور دین کے لیے دوستی اور دشمنی) کامنہدم کردینا؟! اور کتنا ہی مال کا ضیاع کیا جاتا ہے اور مسلمانوں سے اسلام اور مسلمانوں کے نام پر مال ہتھیا لیا جاتا ہے رشوت وغیرہ دے کر لوگوں کو اپنے لیے جھوٹ و پرفریب نعرے اور تشہیر کاری پر لگایا جاتا ہے یا ووٹ خریدے جاتے ہیں؟! اور کتنا ہی مال کا ضیاع، جانوں کا ضیاع، خون ناحق بہنا اور اخلاق کابربادہونا ہوتا ہے؟‘‘۔

منصب کے لیے خود کو منتخب کرنے کے لیے پیش کرنا یا عہدہ طلب کرنے کی ممانعت میں احادیث نبویہ اور ان پر تعلیق

عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے عبدالرحمن!

’’لَا تَسْأَلِ الْإِمَارَةَ، فَإِنَّكَ إِنْ أُوتِيتَهَا عَنْ مَسْأَلَةٍ وُكِلْتَ إِلَيْهَا، وَإِنْ أُوتِيتَهَا مِنْ غَيْرِ مَسْأَلَةٍ أُعِنْتَ عَلَيْهَا‘‘

(کبھی بھی امارت وعہدے کا سوال مت کرنا، کیونکہ اگر یہ تجھے مانگنے پر مل گیا تو اسی کے سپرد کردیا جائے گا، اور اگر بغیر مانگے تجھے مل گیا تو اللہ تعالی اس سے بحسن خوبی عہدہ براء ہونے میں تمہاری اعانت فرمائے گا)۔

[صحیح بخاری 6622، صحیح مسلم 1654]

شیخ ربیع المدخلی حفظہ اللہ اس حدیث پر تعلیق کرتے ہوئے اپنے مندرجہ بالا مقالے میں ہی فرماتے ہیں:

’’اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی پوری امت کو امارت ومنصب طلب کرنے سے منع فرمایا ہے کیونکہ اعتبار عمومی الفاظ کا ہوتا ہے خصوصی سبب یا اشخاص کا نہیں ہوتا۔ اور یہ وضاحت فرمائی کہ جو اسے طلب کرتاہے وہ اپنے نفس کے سپرد کردیا جاتا ہے اور جو کوئی اپنے نفس کے سپرد کردیا گیا تو یقیناً ہلاک ہوگیا کیونکہ وہ مدد الہی سے محروم ہوگیا۔ پس جو مدد اور کرم الہی سے محروم ہوگیا تو اس کا انجام کیا ہوگا؟  مدد الہی کے لیے بندے کی محتاجگی کا اندازہ لگائیں ہم ہر نماز میں یہ دعاء کرتےہیں، اے اللہ!

﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴾ 

(ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں)

(الفاتحہ)

اور ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تعلیم فرمائی کہ ہم کہا کریں:

’’لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ‘‘

(نہیں ہے برائی کو پھیرنے کی اور خیر کو کرنے کی طاقت مگر صرف اللہ کی مدد سے)‘‘۔ اھ۔

[صحیح بخاری 6409،صحیح مسلم 338]

ابو موسیٰ  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا: میں اور میرے چچازاد بھائیوں میں سے دو اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس داخل ہوئے ان میں سے ایک نے کہا: یا رسول اللہ! جن علاقوں پر اللہ نے آپ کو حکومت دی ہے ان میں کسی پر ہمیں بھی امیر بنادیں۔ اور دوسرے نے بھی ایسی ہی بات کی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’إِنَّا وَاللَّهِ لَا نُوَلِّي عَلَى هَذَا الْعَمَلِ أَحَدًا سَأَلَهُ وَلَا أَحَدًا حَرَصَ عَلَيْهِ‘‘

(اللہ کی قسم! بے شک ہم ہرگز بھی اس عہدے پر اسے فائز نہیں کرتے جو خود اسے طلب کرے اور نہ ہی اسے جو اس کی حرص رکھتا ہو)۔

[صحیح مسلم 1826]

اس حدیث کو بھی لاکر شیخ ربیع المدخلی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:

’’ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں اس امت کے لیے شریعت بیان کردی گئی ہے جس میں سرفہرست آئمہ میں سے جو خلفاء وغیرہ ہیں کہ وہ حکومتی مناصب اور جو اس کی طلب کرتے ہیں یا حرص رکھتے ہیں ان کے مابین حائل ہوجائیں اگرچہ طلب کرنے والا تمام لوگوں میں افضل ترین ہی کیوں نہ ہو۔ کیونکہ سائل کو اس ذمہ داری سے عہدہ براء ہونے کی توفیق نہیں دی جائے گی اور مدد الہی سے وہ محروم ہوجائے گا۔ اسی وجہ سے سلف صالحین ان مناصب اورقاضی جج وغیرہ بننے سے بھاگا کرتے تھے۔ اور جنہيں بغیر مانگے دی گئی اور مجبور کیا گیا تو وہ عدل، ورع ، دعوت الی اللہ اور امت میں خیر کی نشرواشاعت میں عالی مثال بن گئے۔

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکومتی منصب سے محروم کردیتے ہیں اگر طلب کیا جائے جو کہ سب سے بہترین امت تھے جو لوگوں کے لیے برپا کی گئی، تو پھر ان کے علاوہ لوگوں کا کیا حال ہوگا اگرچہ وہ متقی ترین اور زاہد ترین لوگ ہی کیوں نہ ہوں۔ بلکہ اس سے بھی آگے اس جاہل، فاسق اور منحرف شخص کا کیا حکم ہوگا جو خود اسے طلب کرے، حرص رکھے اور اسے حاصل کرنے کی تگ ودو میں لگا رہے۔ انہیں اللہ تعالی نے بےیارومددگار چھوڑ دیا ہے اپنے جانب سے مدد و نصرت نہیں دی۔ یہ لوگ کیا کچھ ظلم، بربریت، حقوق سلبی،آزادی چھین لینا، مال، وظائف اور مصالح کا استحصال وغیرہ کریں گے بالخصوص ایسے معاشرے میں جہاں لوگ سیاسی وغیرہ اعتبار سے گروپوں اور جماعتوں کے تفرقے میں بٹے ہوئے ہوں۔

اور یہ بات تو بالکل مشاہد ہےاور چھو کر دیکھی جاسکتی ہے ان ممالک میں جنہوں نے غیرملکی قوانین کو اللہ تعالی کی نازل کردہ شریعت پر ترجیح دے رکھی ہے اور جنہوں نے جمہوریت اور اس کے ملحقات ایک سے زائدجماعتیں، حزبیت وحزب اختلاف کا وجود وغیرہ جیسی باتوں کو حکومتی مناصب تک رسائی کے اسلامی منہج پر ترجیح دے رکھی ہے۔ اور اس کے علاوہ بھی جو باتیں اس منہج اسلام کے خلاف ہیں کہ جو سب سے پہلے حقوق اللہ اور پھر عدل، مصالح ومفاسد کی رعایت کرنا، اور امور کو ان کے اہل افراد کو سونپنے پر قائم ہے‘‘۔

انتخابات، اس میں حصہ لینے یا ووٹ ڈالنے کا حکم

شیخ البانی رحمہ اللہ اپنی کیسٹ ’’خطر الدخول في الانتخابات و البرلمانات‘‘ فرماتے ہیں:

’’انتخابات میں حصہ لینا گویا کہ ظالموں پراعتماد کرنا ہے‘‘۔

شیخ مقبل الوادعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’ہم یہ کہتے ہیں: پہلے بھی اور اب بھی انتخابات طاغوتی اور حرام ہیں‘‘۔

اور اپنی کتاب ’’مقتل جميل الرحمن‘‘ میں فرمایا:

’’ووٹنگ کا جو مسئلہ ہے وہ دراصل طاغوتیت کو معتبر سمجھنا ہے پس جو شخص موجود ہے وہ غیرموجود کو یہ بات پہنچا دے۔ کیونکہ اللہ تعالی اپنی کتاب کریم میں فرماتےہیں:

﴿اَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنًا كَمَنْ كَانَ فَاسِقًا ڼ لَا يَسْـتَوٗنَ﴾ 

(کیا وہ جو مومن ہو اس جیسا ہوسکتا ہے جو فاسق ہو، یہ ہرگز برابر نہیں)

(السجدۃ: 18)

اور فرمایا:

﴿اَمْ حَسِبَ الَّذِيْنَ اجْتَرَحُوا السَّيِّاٰتِ اَنْ نَّجْعَلَهُمْ كَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۙ سَوَاۗءً مَّحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ ۭ سَاۗءَ مَا يَحْكُمُوْنَ﴾

(کیا ان لوگوں کا جو برے کام کرتے ہیں یہ گمان ہے کہ ہم انہیں ان لوگوں جیسا کر دیں جو ایمان لائے اور نیک کام کیے، ان کا مرنا جینا یکساں ہو جائے  گا؟! برا ہے وہ فیصلہ جو وہ کر رہے ہیں)

(الجاثیۃ: 21)

اور یہ واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک فاسق ایک مومن کے برابر نہیں ہوسکتا:

﴿اَمْ نَجْعَلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَالْمُفْسِدِيْنَ فِي الْاَرْضِ ۡ اَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِيْنَ كَالْفُجَّارِ﴾

(کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے ان کے برابر کر دیں گے جو (ہمیشہ) زمین میں فساد مچاتے رہے، یا پرہیزگاروں کو بدکاروں جیسا کر دیں گے؟!)

(ص: 28)

اور ووٹنگ ایک عالم فاضل کی بات کو اور ایک شراب فروش کی بات کو ایک برابر کردیتی ہے، بلکہ اس سے بھی قبیح تر ایک عورت کی رائے کو ایک مرد کی رائے کے برابر قرار دیتی ہے۔

جبکہ اللہ عزوجل عمران کی عورت کی بات نقل کرتے ہوئے فرماتا ہے:

﴿وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْاُنْثٰى﴾ 

(اور مرد عورت کے طرح نہیں)

(آل عمران: 36)

اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’لَا يُفْلِحُ قَوْمٌ أَسْنَدُوا أَمْرَهُمْ إِلَى امْرَأَةٍ‘‘

(وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی جو اپنے امور کی باگ ڈور کسی عورت کے حوالے کردے)۔

[مسند احمد 19962، صحیح بخاری 4425 کے الفاظ ہیں:

’’لَنْ يُفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أَمْرَهُمْ امْرَأَةً‘‘

(وہ قوم کبھی بھی فلاح نہيں پاسکتی جس نے اپنے امور کا سرپرست عورت کو بنالیا)]

شیخ ربیع المدخلی حفظہ اللہ ’’ذكرى للمسلمين‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’اگر محض منصب کا سوال کرنے والے کا یہ حال ہے تو پھر اس شخص کا کیا انجام ہوگا جو باقاعدہ منصب کے لیے امیدوار کھڑا ہوتا ہے، اس کے لیے بےدریغ مال خرچ کرتا ہے، جھوٹے دعوؤں سے اس پر ابھارتا ہے، اور طرح طرح کے حربے استعمال کرتا ہے کہ کیسے پارلیمنٹ کی سیٹ یا شہری حکومت (لوکل گورنمنٹ) کی رکنیت حاصل کی جائے۔وہ یہ سب کچھ طریقۂ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف کرتا ہے اور یہودونصاریٰ کے طریقوں کی پیروی کرتا ہے۔ اور دعویٰ  یہ کرتا ہے کہ یہ اصلاح کا طریقہ ہے اس کے ذریعےسے امت کو عروج حاصل ہوگا اور عدل وآزادی کا قیام ہوگا۔ اللہ کی قسم !یہ تو نری گمراہی ہے، ظلم ہے، فساد ہے اور امت کو ہلاکت اور بدبختی میں دھکیلنا ہے۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقٰي ،  وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِيْ فَاِنَّ لَهٗ مَعِيْشَةً ضَنْكًا وَّنَحْشُرُهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اَعْمٰى، قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِيْٓ اَعْمٰي وَقَدْ كُنْتُ بَصِيْرًا، قَالَ كَذٰلِكَ اَتَتْكَ اٰيٰتُنَا فَنَسِيْتَهَا  ۚ وَكَذٰلِكَ الْيَوْمَ تُنْسٰى﴾

(پس جومیری ہدایت کی پیروی کرے نہ تو وہ بہکے گا نہ تکلیف میں پڑے گا۔ اور (ہاں) جو میری یاد سے روگردانی کرے گا اس کی زندگی تنگی میں رہے گی، اور ہم اسے بروز قیامت اندھا کرکے اٹھائیں گے۔ وہ کہے گا کہ الٰہی! مجھے تو نے اندھا بنا کر کیوں اٹھایا؟ حالانکہ میں تو دیکھتا بھالتا تھا۔ (جواب ملے گا کہ) اسی طرح ہونا چاہیے تھا تو میری آئی ہوئی آیتوں کو بھول گیا تو آج تو بھی بھلا دیا جاتا ہے)‘‘۔

(طہ: 123-126)

اس شخص کا حکم جو الیکشن کی طرف بلائے، حصہ لے اور ووٹ دے

شیخ مقبل الوادعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’جو کوئی انتخابات کی طرف بلائے تو وہ گمراہ اور فاسق کہلائے گا‘‘۔

اسی طرح سے فرمایا:

’’جو کوئی ان طاغوتی انتخابات میں حصہ لیتا ہے تو وہ سلفیت سے خارج ہوجاتا ہے اور کسی عزت وتکریم کا مستحق نہیں‘‘۔

ان لوگوں کا حکم جو بعض علماء کرام کے فتاویٰ سے دلیل پکڑتےہیں کہ وہ انتخابات کو جائز کہتے ہیں

شیخ ربیع المدخلی حفظہ اللہ فتنہ پرور ابوالحسن المصری کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں جہاں وہ اپنے رسالے ’’حقيقة المنهج الواسع الأفيح‘‘ میں انتخابات میں حصہ لینے والوں کے لیے عذر تراشتے ہوئے بعض علماء کے فتاویٰ  سے دلیل لیتا  ہے کہ وہ اس کے جواز کے قائل ہیں:

’’دیکھو کیسے یہ ان کے لیے عذر تراش رہا ہے۔ کیا بعض علماء کے اقوال سے چمٹ جانا اور دوسرے علماء کے اقوال کو چھوڑ دینا کہ جن کے پاس دلائل وبراہین بھی ہیں اللہ تعالی کے ہاں عذر بن سکتا ہے۔ کیا ان کا یہ عمل اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ یہ لوگ اہل اہواء (خواہش پرست) لوگ ہیں۔ کیا آپ نہيں دیکھتے کہ یہ لوگ حکم الہی کی مخالفت کرتے ہیں کہ اللہ نے فرمایا اگر تمہارا کسی بات میں تنازع ہوجائے تو اسے اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف پھیر دو۔

کیا آپ نہیں دیکھتے کہ یہ لوگ اس حکم الہی کی بھی مخالفت کرتے ہیں کہ:

﴿فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا﴾ 

(سو قسم ہے تیرے ر ب کی! یہ ہرگز بھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں تمہیں حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے تم ان میں کر دو ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کرلیں)‘‘۔

(النساء: 65)

اسی طرح سے شیخ ربیع حفظہ اللہ ابوالحسن پر کیے گئے رد میں جب اخوان المسلمین کا ذکر کرتے ہیں تو فرماتے ہیں:

’’پھر ان کے جو اختلافات ہیں طریقۂ دعوت میں اور طریقۂ اقامت خلافت میں اس کے اندر کیا کیا بدعات پنہاں ہیں جن میں سے بعض تو کفریہ بھی ہیں جیسے جمہوریت (ڈیموکریسی) کہ جس کے اندر ایسے ایسے مفاسد اور شر پنہاں ہیں کہ جو انہیں اہل سنت والجماعت سے بہت دور جاپھینکتے ہیں۔ یا جیسے انتخابات ہیں کہ جس میں ایسی ایسی مخالفات، ظلم اور جھوٹ وافتراء ہیں کہ جو انہیں تمام لوگوں میں طریقۂ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور طریقۂ ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کا سب سے شدید ترین مخالف بنادیتے ہیں۔

ان تمام باتوں کی موجودگی کے ساتھ ممکن ہی نہيں کہ کوئی اہل سنت والجماعت کے دائرے میں باقی رہتا ہو ان لوگوں کے نزدیک کہ جو واقعی منہج اہل سنت والجماعت کا احترام کرتے ہیں اور اس کے ساتھ اور اس کے اس کے اہل لوگوں کے ساتھ انصاف کرتے ہیں‘‘۔

کیا انتخابات اجتہادی مسائل میں سے ہے

شیخ مقبل بن ہادی الوادعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’وہ شخص علمی طور پر مسکین ہے، مسکین ہے بیچارہ جو یہ کہتا ہے کہ یہ اجتہادی مسائل میں سے ہے۔۔۔‘‘۔

 آگے فرماتے ہیں:

’’اور ہم اس کو اجتہادی امور میں سے کیسے کہیں؟! کیا اگر کوئی یمنی مسلمان شخص مرتد ہوجائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ اجتہادی امور میں سے ہے، یا ہم کہیں گے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ‘‘

(جو کوئی اپنا دین اسلام بدل دے تو اسے قتل کردو)۔

کیا جمہوری نظام میں کوئی مسلمان شخص اگر مرتد ہوجاتا ہے تو اس پر حد قائم کی جاتی ہے؟ نہیں، اس پر حد قائم نہیں کی جاتی۔ پھر ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ اجتہادی امور میں سے ہے۔

پس حزبیت انسان کو اندھا اور بہرا کردیتی ہے۔

ان میں سے کچھ کہتے ہیں کہ یہ واجب ہے۔ اور کچھ کہتے ہیں یہ اجتہادی امور میں سے ہے۔ جبکہ اللہ رب العزت اپنی کتاب کریم میں فرماتا ہے:

﴿اَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنًا كَمَنْ كَانَ فَاسِقًا ڼ لَا يَسْـتَوٗنَ﴾ 

(کیا وہ جو مومن ہو اس جیسا ہوسکتا ہے جو فاسق ہو، یہ ہرگز برابر نہیں)

(السجدۃ: 18)

اور فرمایا:

﴿اَمْ حَسِبَ الَّذِيْنَ اجْتَرَحُوا السَّيِّاٰتِ اَنْ نَّجْعَلَهُمْ كَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۙ سَوَاۗءً مَّحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ ۭ سَاۗءَ مَا يَحْكُمُوْنَ﴾

(کیا ان لوگوں کا جو برے کام کرتے ہیں یہ گمان ہے کہ ہم انہیں ان لوگوں جیسا کر دیں جو ایمان لائے اور نیک کام کئے ان کا مرنا جینا یکساں ہو جائے  گا؟! برا ہے وہ فیصلہ جو وہ کر رہے ہیں)

(الجاثیۃ: 21)

اور فرمایا:

﴿اَمْ نَجْعَلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَالْمُفْسِدِيْنَ فِي الْاَرْضِ ۡ اَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِيْنَ كَالْفُجَّارِ﴾

(کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے ان کے برابر کر دیں گے جو (ہمیشہ) زمین میں فساد مچاتے رہے، یا پرہیزگاروں کو بدکاروں جیسا کر دیں گے؟!)‘‘۔

(ص: 28)

مترجم

طارق بن علی بروہی

تفصیل کے لیے پڑھیں ہماری کتاب اسلام میں حکومت کی تشکیل کا طریقۂ کار اور جمہوری انتخابات میں حصہ لینےاور ووٹ ڈانے کا شرعی حکم۔

2 Comments

  1. اسلام میں حکومت کی تشکیل کا طریقۂ کار اور جمہوری انتخابات میں حصہ لینےاور ووٹ ڈانے کا شرعی حکم۔
    کتاب کا لنک مہيا کر دیں

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*