بے نمازیوں کو زکوٰۃ دینےکا حکم؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال: سماحۃ الشیخ کیا میرے لیے جائز ہے کہ ایسی عورت کو زکوٰۃ دوں جو نماز نہیں پڑھتی؟

جواب از شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ :

نہیں اسے نہ دیں، اسے زکوٰۃ نہ دیں۔ ایسی عورت کو دیں جو نماز پڑھتی ہو اچھے فقراء کو تلاش کریں۔ جو نماز نہیں پڑھتا وہ کافر ہے نعو ذباللہ۔

نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

’’الْعَهْدُ الَّذِي بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمُ الصَّلَاةُ فَمَنْ تَرَكَهَا فَقَدْ كَفَرَ‘‘([1])

(ہمارے اور ان (مشرکوں ) کے درمیان عہد نماز کا ہے جس نے اسے چھوڑ دیا پس تحقیق اس نے کفر کیا)۔

کافروں کو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی سوائے تالیفِ قلب ([2]) والوں کو زکوٰۃ میں سے دیا جاتا ہے۔ اور المؤلفة قلوبهم (تالیف قلب) والے (جنہیں اسلام کی جانب راغب کرنا ہو) قبیلوں کے سردار ہوتے ہیں یا (معاشرے کے) بڑے لوگ کہ اگر اللہ انہيں ہدایت دے دے تو ان کی ہدایت کے ذریعے اللہ تعالی دوسروں کو بھی ہدایت دیتا ہے۔ اور ان کے ہدایت پر آنے سے لوگوں کو بہت زیادہ فائدہ ملتا ہے۔ البتہ جو عام اور انفرادی لوگ ہیں کافروں کے تو انہیں (زکوٰۃ) نہیں دی جاسکتی([3])۔

سوال: سماحۃ الشیخ میں ایسے بھائی یا قریبی رشتہ دار یا پڑوسی کے ساتھ کیا سلوک کروں جو زکوٰۃ و صدقے کا ضرورت مند ہے لیکن نہ روزے رکھتا ہے نہ نماز پڑھتا ہے، کیا وہ مجھ پر حق رکھتا ہے کہ میں اسے دوں جس کا یہ حال ہو؟ مجھے صحیح سمت میں  رہنمائی فرمائيں، جزاکم اللہ خیرا۔

جواب :ہاں انہیں اللہ کے لیے نصیحت کریں اور اپنے مال میں سے انہيں دیں جس کے بارے میں خیال ہو کہ یہ اسے اسلام کی جانب دعوت دینے کا یا جس باطل پر وہ ہے اسے چھوڑنے کا سبب بنے گا۔ البتہ  جہاں تک زکوٰۃ کا سوال ہے تو زکوٰۃ اسے نہ دیں۔ زکوٰۃ اسی کو دیں جو فقراء میں سے اسلام اور استقامت (دین کی پابندی) میں جانا پہچانا ہو ۔ کیونکہ نماز کو چھوڑنا علماء کرام کے صحیح  تر قول کے مطابق کفر اکبر ہے نعوذ باللہ چاہے وہ اس کے وجوب(فرضیت)  کا انکار نہ بھی کرتا ہو۔ ہاں اگر وہ اس کے وجوب ہی کا انکار کرتا ہو تو یہ تمام علماء کے نزدیک کافر ہے۔لیکن اگر وہ اس کے وجوب کا اقراری ہو(یعنی مانتا ہو کہ نماز فرض ہے) مگربسا اوقات  سستی کاہلی کی وجہ سے نماز نہیں پڑھتا تو ایسا شخص بھی اہل علم کی ایک جماعت کے نزدیک کافر ہوجاتا ہے، اور یہی اہل علم کا صحیح تر قول ہے۔ دوسرے علماء کہتے ہيں کہ وہ گنہگار ہوگا اور بہت عظیم کبیرہ گناہ کا مرتکب ہے۔ اور کفر دون کفر (بڑے کفر سے کم تر کفر) میں مبتلا ہے ناکہ کفر اکبر میں۔ لیکن دلیل کے اعتبار سے جو صحیح ہے وہ یہی ہے کہ وہ کفر اکبر کا مرتکب ہوا ہے۔

البتہ اگر آپ اسے زکوٰۃ کے علاوہ کوئی صدقہ دیتے ہيں اور اللہ کے لیے نصیحت کرتے ہيں اور اسے خیر کی جانب رہنمائی کرتے ہیں  تو آپ خیر پر ہیں۔ اور اگر وہ اپنی قوم میں بڑا ہے، سردار ہے، یا جس کی بات لوگ مانتے ہيں تو اسے زکوٰۃ میں سے بھی تالیف قلب کے طور پر دینا جائز ہے۔ کیونکہ تالیف قلب والوں کا زکوٰۃ میں حق ہے۔

پس کافر کو زکوٰۃ میں سے دیا جائے گا اگر اس سے  تالیف قلب اور اسلام میں داخل ہونے  یا ان جیسوں کے اسلام میں داخل ہونے، یا لوگوں سے ان کے شر کے روکنے کی امید ہو۔ لیکن آپ پر کوئی حرج نہيں اگر آپ زکوٰۃ کے علاوہ انہیں کچھ دیتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿لَا يَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَيْهِمْ﴾  

(اللہ تمہیں ان لوگوں سے منع نہیں کرتا جنہوں نے نہ تم سے دین کے بارے میں جنگ کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا کہ تم ان سے نیک سلوک کرو اور ان کے ساتھ انصاف سے پیش آؤ)

(الممتحنہ: 8)

پس وہ کافر جو ہم سے لڑتا نہيں اس کے تعلق سے کوئی مانع نہیں کہ ہم اسے صدقہ دیں تاکہ ہم اس کے دل کو مائل کرلیں اس کے ساتھ احسان بھلائی کریں ہوسکتا ہے وہ توبہ کرلے، ہوسکتا ہے وہ ہدایت پاجائے۔

الصحیح میں ثابت ہے کہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کی والدہ  نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اور اہل مکہ کے مابین صلح  اور معاہدے کے زمانے میں مدینہ آئیں، اپنی بیٹی اسماء کے پاس کچھ حصہ یا مدد مانگنے آئیں جبکہ وہ اپنی قوم اہل مکہ کے دین پر کافرہ تھیں ۔ پس اسماء رضی اللہ عنہا نے نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے اس بارے میں پوچھا، تو نبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

” نَعَمْ صِلِيهَا “([4])

 (ہاں، ان کے ساتھ صلہ رحمی کرو)۔

تو ان کے ساتھ صلہ رحمی کا حکم دیا حالانکہ وہ کافر ہ تھیں۔ کیونکہ اس میں ان کے ساتھ حسن سلوک ہے، اور اس لیے کہ بلاشبہ یہ ان کے اسلام لے آنے کا ذریعہ ہوسکتا ہے([5])۔

سوال: نمازوں میں سستی کرنے والے کو صدقے میں سے دیا جاسکتا ہے، مثلاً وہ گھر پر ہی نماز پڑھتا ہے؟

جواب: اسے صدقے میں سے دیا جائے گا لیکن کسی دوسرے کو دینا بہتر ہے، جو اس کے علاوہ ہو نماز کی حفاظت کرنے والا وہ احسان کا زیادہ حقدار ہے۔ اور اگر یہ اپنے گھر پر نماز پڑھتا ہے تو گنہگار ہے۔  البتہ  اگر وہ نماز ہی نہيں پڑھتا تو اسے زکوٰۃ میں سے نہیں دے سکتے، زکوٰۃ کے علاوہ تالیف قلب کے طور پر کچھ دے سکتے ہيں اگر وہ فقیر (غریب) ہو، ساتھ ہی اسے نصیحت اور رہنمائی بھی کریں۔

سوال: شیخ وہ محتاج ہے مثلاً اس پر قرض ہے؟

جواب: اگر وہ نماز پڑھتا ہے تو کوئی حرج نہيں، اسے دیا جائے ساتھ ہی نصیحت اور تادیب کی جائے۔ کمیٹی اس کی تادیب کرے اگر وہ نماز سے پیچھے رہتا ہے، جب کمیٹی تک اس کے معاملے کو پہنچایا جائے۔

[کمیٹی سے مراد سعودی عرب میں حکومتی کمیٹی برائے امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہے]۔

سوال: کیا کسی کافر یا فاسق کو زکوٰۃ دینا جائز ہے، اور ایسوں کو جو نماز نہيں پڑھتے یا ایسے کو جو اسے اللہ کی نافرمانی میں استعمال کرتا ہے؟

جواب از شیخ محمد بن صالح العثیمین  رحمہ اللہ :

جہاں تک کافر کی بات ہے تو اسے زکوٰۃ نہيں دی جائے گی الا یہ کہ وہ تالیف قلب والوں میں سے ہو، پس اگر وہ تالیف قلب والوں میں سے ہے تو اسے  زکوٰۃ دینا جائز ہے۔

اور رہا مسلمانوں میں سے فاسق  تو اسے زکوٰۃ دینا جائز ہے، لیکن کسی ایسے کو دینا جو دین پر زیادہ چلتا ہو اس شخص سے اولیٰ ہے۔

ہاں جو نماز نہيں پڑھتا  تو چونکہ نماز چھوڑنے والا کافر مرتد ہے اسے زکوٰۃ دینا جائز نہیں۔ کیونکہ بے شک نماز کا ترک کرنا ایسا کفر ہے جو انسان کو دائرہ اسلام سے خارج کردیتا ہے۔ لہذا اس وجہ سے وہ زکوٰۃ کا اہل نہيں الا یہ کہ وہ توبہ کرے اور اللہ کی طرف رجوع کرتے ہوئے نماز پڑھنا شروع کردے تو پھر اسے زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔

اسی طرح یہ لائق نہيں کہ زکوٰۃ کسی ایسے کو دی جائے جو اسے اللہ کی نافرمانی میں استعمال کرے جیسے ہم کسی شخص کو دیں جو اس کے ذریعے حرام آلات  (موسیقی وغیرہ) خریدتا ہے جس سے وہ حرام میں مدد لیتا ہے، یا اس سے سگریٹ لیتا ہے اور سگریٹ نوشی کرتا ہے اور اس جیسے دیگر کام۔ تو جائز نہیں ایسے کو دیں کیونکہ اس طرح تو ہم اس کے معاون مددگار بن جائيں گے گناہ اور زیادتی میں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۠وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ﴾ 

(اور گناہ اور زیادتی پر ایک دوسرے سے تعاون نہ کرو ،اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ بہت سخت سزا دینے والا ہے)

(المائدۃ: 2)

اگر ہم یہ جان جائيں یا غالب گمان ہو کہ وہ عنقریب اسے حرام کام میں خرچ کرے گا تو پھر سابقہ آیت کی روشنی میں اسے دینا حرام ہوگا([6])۔

سوال: ایسے شخص کو زکوٰۃ دینے کا کیا حکم ہے جو نماز کی ادائیگی میں سستی سے کام لیتا ہے اور کبھی کبھار چھوڑ بھی دیتا ہے؟

جواب:اگر اس نماز میں سستی کرنے والے  کو آپ زکوٰۃ دیتے ہيں تو وہ نماز پڑھنا چھوڑ دیتا ہے اور اگر زکوٰۃ نہيں دیتے تو نماز پڑھتا ہے، مسئلے کو سمجھے آپ لوگ؟ یہ شخص ایسا ہے کہ اگر اسے آپ زکوٰۃ  دیں گے تو نماز چھوڑ دے گا اور اگر زکوٰۃ نہیں دیں گے تو نماز پڑھے گا!

تو کیا ایسے کو زکوٰۃ دیں گے؟ جواب دیں لا  الہ الا اللہ کیسے دیں گے؟! یعنی ایک شخص ہے اگر اسے زکوٰۃ دیں تو نماز چھوڑ دیتا ہے پڑھتا نہيں یہاں وہاں بازاروں میں کھیلتا کودتا خرید وفروخت میں لگ جاتا ہے اور نماز چھوڑ دیتا ہے، او راگر اسے زکوٰۃ نہیں دیتے تو ہوسکتا ہے اس کے لیے فقر بہتر ہو۔ تو کیا ایسے کو زکوٰۃ دیں گے؟ جواب دو اے لوگو، نہیں۔ کیونکہ اگر زکوٰۃ دینے سے نماز کے چھوڑے جانے پر تعاون ہوتا ہو تو ہم کہیں گے ایسے کو زکوٰۃ نہ دو یہ حرام ہے۔

اسی طرح اگر زکوٰۃ کا ملنا کسی کو نماز پڑھنے پر معاونت کرتا ہے اور وہ کہتا ہے الحمدللہ میرے پاس اتنا کچھ آگیا جو کافی ہوگا تو میں جاکر نماز پڑھ لیتا ہوں مجھے بازار جانے کی ضرورت نہیں، اس کو دیں گے یا نہیں؟ دیں گے۔

تیسری قسم باقی ہے وہ ہے کہ جسے زکوٰۃ دینا نہ فائدہ دے نہ نقصان لیکن وہ نماز نہيں پڑھتا ۔ توہم تھوڑا دیکھیں گے کہ اگر وہ کبھی بھی نماز نہيں پڑھتا تو اسے زکوٰۃ نہیں دیں گے، یعنی کبھی پڑھتا ہی نہيں نہ گھر پر نہ مسجد میں تو اسے زکوٰۃ نہيں دی جائے گی، کیوں؟ کیونکہ وہ کافر و مرتد ہے اس کو زمین پر رہنے کا حق ہی نہیں بلکہ اسے (اسلامی حکومت کی طرف سے) توبہ کروائی جائے  اگر نماز پڑھ لے تو ٹھیک ورنہ اسے کافر و مرتد کے طور پر قتل کردیا جائے کیونکہ یقیناً نماز کا چھوڑنا کفر ہے کتاب و سنت کی دلیل اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کلام اور صحیح نظر یعنی عقل کے مطابق بھی۔

پھر شیخ  رحمہ اللہ  نے نہایت تفصیل سے تارک نماز کے کفر کے دلائل بیان فرمائے([7])۔

اس کے علاوہ شیخ محمد ناصر الدین الالبانی  رحمہ اللہ  کے مختلف فتاویٰ وغیرہ کا خلاصہ یہ ہےکہ:

 اہل علم کا اختلاف ہے سستی سے نماز چھوڑنے والے کے کافر ہونے کے بارے میں اور اسے زکوٰۃ دینا نہ دینا اسی بنیاد پر ہوگا۔ چونکہ شیخ البانی  رحمہ اللہ  تکفیر کے قائل نہیں لہذا ان کے نزدیک جائز ہے البتہ وہ بھی فرماتے ہیں اگر نیک صالحین موجود نہ ہوں تو دے سکتے، ورنہ انہی کو ترجیح دینی چاہیے([8])۔

سوال:  کیا تارک نماز کو یا فاسق کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے؟ اگر اس کی بیوی نیک صالحہ ہو اور اس کے بچے بھی ہوں، تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب از شیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ:

جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والا کافر ہے اسے زکوٰۃ نہیں دی جائے گی۔ کیونکہ یقیناً وہ کافر ہے اگر وہ اس کے وجوب  کا انکار کرتے ہوئے چھوڑتا ہے تو وہ مسلمانوں کے اجماع کے مطابق کافر ہے، او راگر اس کے وجوب کا اقرار تو کرتا ہے لیکن سستی کاہلی  اور عدم اہتمام کی وجہ سے اسے چھوڑتا ہے تو علماء کرام کے صحیح تر قول کے مطابق یہ بھی کافر ہے۔ بہرحال اس جیسے کو زکوٰۃ نہيں دی جائے گی۔

جہاں تک فاسق کا معاملہ ہے جو شرک اور نماز ترک کرنے کے علاوہ کبیرہ گناہو ں کا مرتکب ہوتا ہے تو اسے زکوٰۃ دی جائے گی اگر وہ فقیر ہو، ساتھ میں اسے نصیحت بھی کی جائے اور اس کے ہاتھوں کو روکا جائے ہوسکتا ہے  اس طرح وہ بیدار ہو اور توبہ کی طرف اور معصیت چھوڑنے کی طرف مائل  ہوجائے۔ خصوصاً اگر اس کے پاس فیملی ہے اور اسے ضرورت ہے ان پر خرچ کرنے کی یا ان پر خرچ کرنے میں کچھ کمی ہو([9])۔


[1] صحیح ترمذی 2621۔

[2] اسلام کی طرف دل مائل کرنے کے لیے۔

[3] نور على الدرب: حكم إعطاء الزكاة لتارك الصلاة۔

[4] صحیح البخاری 3183۔

[5] نور على الدرب حكم الزكاة والصدقة لقريب تارك للصلاة والصيام۔

[6] مجموع فتاوى و رسائل الشيخ محمد صالح العثيمين المجلد التاسع عشر – كتاب أهل الزكاة۔

[7] فتاوى الحرم النبوي-40b۔

[8] سلسلۃ الھدی النور 100 وغیرہ۔

[9] المنتقى من فتاوى الفوزان (2/324) .

ترجمہ وترتیب: طارق بن علی بروہی

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*