تلاوت قرآن پر پیسے لینا؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال: اگر کوئی انسان کسی شخص کو میرے گھر لاتا ہے تاکہ وہ تلاوت قرآن کرے(جیسے ہمارے ہاں ختم شریف ہوتا ہے)، اور اس کے بعد اسے کچھ پیسے بطور اجرت دیتا ہے اس کا کیا حکم ہے، ہمیں استفادہ دیجئے اللہ آپ کو فائدہ پہنچائے؟

جواب از شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ:

 تلاوت قرآن پر اجرت (پیسے) لینا جائز نہيں ہے۔ بعض اہل علم نے اس  پر علماء کرام کا اجماع ذکر کیا ہے۔ جائز نہيں کہ انسان اجرت کے عوض قرآن پڑھے یعنی محض تلاوت  کرے تاکہ اسے فلاں فلاں  کے گھر پر اجرت دی جائے، یا فلاں مریض پر تلاوت کی جائے، نہيں۔ وہ پڑھے بس اللہ سے اجر کی امید پر اسے اجرت (پیسے) نہ دیے جائيں۔

 ہاں اگر اسے کوئی تحفہ ہدیہ دے دے یا کوئی چیز بغیر (پہلے سے طے شدہ) شرط کے، تو امید ہے کہ اس میں کوئی حرج نہيں، کیونکہ یہ احسان کے باب میں سے ہے اگر وہ فقیر (غریب) ہو تو اسے بطور احسان کچھ دے دیا جائے۔ لیکن اگر شرط کے ساتھ ہو کہ ایک دن کا اتنا، ہر پارے کا اتنا یا سورۃ کا اتنا (پیسہ) تو یہ منکر ہے جائز نہيں ہے۔

سوال: فضیلۃ الشیخ آپ کی نظر میں شریعت کا کیا حکم ہے  ایسے قاری کے بارے میں جو رمضان کی راتوں میں اجرت  پر پڑھاتا ہے یعنی خود اجرت مقرر کرکے لیتا ہے؟ اور کیا جو وہ شخص گنہگار ہے جو رمضان میں اس طرح کسی کو اجرت  پر  لاتا ہے ؟ ہم آپ فضیلۃ الشیخ سے اس کی وضاحت چاہتے ہیں؟ جزاکم اللہ خیراً[1]

جواب از شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ:

الحمد لله رب العالمين، وصلي الله  وسلم على نبينا محمد وعلى آله وأصحابه، ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين۔

تلاوت قرآن پر  اجرت لینا جائز نہيں ہے یعنی یہ جائز نہیں کہ کسی شخص کو اس طرح قرآن پڑھنے کے لیے اجرت  پر لیا جائے کہ وہ آپ پر قرآن پڑھے  اور آپ اسے بطور عبادت سنیں۔ وہ اس لیے کیونکہ تلاوت قرآن ایک قربت  ہے جس کے ذریعے آپ اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرتے ہيں، اور ہر قربت تقرب ہوتی ہے، اور جس  چیز سے اللہ کا تقرب حاصل کیا جائے وہ عبادت ہے۔ اور عبادت  پر دنیاوی اجر نہيں لیا جاتا ، چاہے وہ رمضان میں ہو یا رمضان کے علاوہ۔

ا س سے  ہمارے سامنے ان کی غلطی  واضح ہوگئی  جو بعض لوگ کرتے ہيں کہ جب ان کے ہاں کوئی میت ہوجاتی ہے، تو وہ کسی قاری کو اجرت  پر لاکر قرآن پڑھواتے ہیں، یہ گمان کرتے ہوئے کہ یہ میت کی روح کے لیے  ہے، تو یہ حرام ہےاور قاری کو اس  طرح کی تلاوت کا اجر بھی نہیں ملتا ہے۔ لہذا اسے اجرت  پر لانا مال کا بیکار ضائع کرنا ہے۔

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے ایک ایسے شخص کے بارے میں  پوچھا گیا جو لوگوں سے کہتا ہے کہ میں رمضان میں تمہیں نماز نہيں پڑھاؤ گا مگر اتنے اتنے (پیسوں) میں، تو آپ رحمہ اللہ نے فرمایا: نعوذ باللہ! ایسے شخص کے پیچھے کون نماز پڑھے گا!

            البتہ جہاں تک بات ہے قرآن کی تعلیم پر اجرت لینا یا کسی مریض یا ڈسے ہوئے  یا اس جیسے کسی شخص پر اسے پڑھنا تو اس میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إِنَّ أَحَقَّ مَا أَخَذْتُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا كِتَابُ اللَّهِ

جس پر تم اجرت لیتے ہو  اس میں سب سے زیادہ حقدار اللہ کی کتاب ہے۔[2]

تو فرق کیا جاتا ہے کہ جو محض تلاوت کرنے پر اجرت لیتا ہے، اور جو کسی ایسے کام پر اجرت لیتا ہے جو قرأت کے ذریعے حاصل ہوتا ہے یعنی تلاوت قرآن سے، اس میں سے دوسرا جائز ہے اور پہلا ناجائز ہے۔[3]


1] نور على الدرب – حكم أخذ الأجرة على مجرد التلاوة للقرآن

[2] صحیح بخاری 5737

[3] فتاوى نور على الدرب الشريط رقم [288] حكم الاستئجار على قراءة القرآن

ترجمہ و ترتیب

طارق بن علی بروہی

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*