
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ تعالی کے فضل و احسان پر تمام تعریفیں اسی کے لیے ہیں، جس نے ہمیں اپنے فضل وکرم سے رمضان المبارک تک پہنچا دیا، اور اس میں ہمیں ایسے اعمالِ صالحہ کرنے کی توفیق عنایت فرمائی جو اس کا تقرب حاصل کرنے کا باعث ہیں، اور درود وسلام ہو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جو نیکیوں میں رغبت کے معاملے میں سب سے آگے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل اور اصحاب پرکہ:
﴿فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَعَزَّرُوْهُ وَنَصَرُوْهُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ مَعَهٗٓ ۙ أُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ﴾
(پس جو لوگ اس نبی پر ایمان لاتے ہیں، اور ان کی حمایت کرتے ہیں ،اور ان کی مدد کرتے ہیں ،اور اس نور کی اتباع کرتے ہیں جو ان کے ساتھ بھیجا گیا ہے، ایسے ہی لوگ پوری کامیابی پانے والے ہیں)۔
(الاعراف: 157)
اما بعد:
سب سے پہلے میں آپ کو اور اپنے آپ کو بھی اس ماہِ مبارک اور باقی مہینوں میں بھی اللہ تعالی کا تقویٰ اختیار کرنے کی وصیت کرتا ہوں۔ لیکن اس مہینے کو اللہ تعالی نے ایک اہم خصوصیت دی ہے۔ یہ نیکیوں کا موسمِ بہار ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو رمضان المبارک تک پہنچنے کی دعاء فرمایا کرتے تھے، چنانچہ جب ماہِ رجب آتا تو دعاء فرماتے:
’’اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي رَجَبٍ وَشَعْبَانَ، وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ ‘‘[1]
(اے اللہ! ہمارے لیے رجب اور شعبان میں برکت عطاء فرما کر رمضان المبارک تک پہنچنا نصیب فرمادے)۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو اس مہینے کی آمد کی بشارت دیا کرتے تھے اور اس کی خصوصیات بیان فرمایا کرتے تھے۔ پس فرمایا:
’’أَيُّهَا النَّاسُ، قَدْ أَظَلَّكُمْ شَهْرٌ عَظِيمٌ، شَهْرٌ مُبَارَكٌ‘‘[2]
(اے لوگو! تم ایک ایک عظیم الشان اور مبارک مہینہ سایہ فگن ہوچکا ہے)۔
ساتھ ہی اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو اس مہینے میں اعمالِ صالحہ خواہ فرائض ہوں یا نوافل، نمازیں ہوں یا صدقات سب میں سخت محنت کرنے کی ترغیب دیا کرتے تھے۔ اسی طرح اس مہینے میں نیکی پھیلانا ،احسان کرنا، اللہ تعالی کی اطاعت پر صبر کرنا، اس مہینے کے دنوں کو روزے سے تروتازہ رکھنا اور راتوں کو قیام سے روشن رکھنا، ہر پل تلاوتِ قرآن اور ذکرِ الہی میں بسر کرنا چاہیے، اور اسے غفلت اور اعراض برت کر ہرگز بھی ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ جیسا کہ ان بدبختوں کا حال ہوتا ہے کہ جنہوں نے اللہ تعالی کو بھلادیا تو اس نے انہیں خود اپنی نفسوں سے بیگانہ کردیا۔ پس انہیں نیکیوں کے ان گزرتے ہوئے موسموں سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا، نہ انہیں اس کی حرمت کا کوئی پاس ہوتا ہے، اور نہ ہی ان کی نظر میں اس کی کوئی قدروقیمت ہوتی ہے۔
رمضان المبارک میں لوگوں کی اقسام
کھانے پینے والے
بہت سے لوگ رمضان کو جانتے ہی نہیں مگر اس طور پر کہ یہ مہینہ محض طرح طرح کے کھانوں کا مہینہ ہے، پس وہ اپنے نفس کو جو وہ خواہش کرتا ہے دینے میں مبالغہ کرتے ہیں، اور کثرت سے کھانے پینے کی بہترین انواع واقسام کی چیزیں خریدتے ہیں۔ جبکہ یہ بات معلوم ہے کہ کثرتِ اکل وشرب سے انسان اطاعتِ الہی میں سست ہوجاتا ہے، حالانکہ ایک مسلمان سے تو یہ مطلوب ہے کہ وہ اپنا کھانا پینا کچھ کم کرے تاکہ اطاعت ِالہی میں چستی آئے۔
سوتے رہنے والے
بعض لوگ رمضان کو جانتے ہی نہیں مگر اس طور پر کہ یہ دن کو سونے اور ساری رات بے فائدہ یا نقصان دہ کاموں کے لیے جاگنے کا مہینہ ہے۔ چنانچہ وہ اس میں رات کے بڑے حصے یا پوری رات جاگتے رہتے ہیں پھر سارا دن سوئے پڑے رہتے ہیں، یہاں تک کہ وہ فرض نمازیں تک نہیں پڑھتے نہ جماعت سے اور نہ ہی کم از کم اس کے وقت پر۔
افطاری کے منتظر
بعض لوگ افطاری کے دسترخوان پر جمے رہتے ہیں اور جماعت کے ساتھ مغرب کی نماز تک ادا نہیں کرتے۔
یہ جن لوگوں کا بیان ہوا ان کے ہاں رمضان المبارک کی کوئی قدروقیمت نہیں اور وہ اس کی حرمت کو حرام شب بیداری، ترکِ واجبات اور فعلِ محرمات کے ذریعہ پامال کرتے ہیں۔
رمضانی تاجر
دوسری طرف ایسے لوگ ہیں جو رمضان المبارک کو جانتے ہی نہیں مگر اس طور پر کہ یہ تجارت چمکانے، بازار گرم کرنے اور اس قریبی دنیا کو کمانے کا موسم ہے؛ لہذا وہ خرید وفروخت میں مگن رہتے ہیں، بازاروں سے چمٹے اور مساجد سے دور رہتے ہیں، اور اگر کبھی مسجد میں آبھی جائیں تو نہایت عجلت میں ہوتے ہیں، انہیں مسجد میں قرار نہیں آتا اور بھاگنے کے لیے بیتاب ہوتے ہیں کیونکہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک تو بازار میں ہے[3]۔
چندہ بٹورنے اور بھیک مانگنے والوں کا رمضان
لوگوں کی ایک قسم وہ بھی ہے جو رمضان کو جانتے ہی نہیں مگر اس طور پر کہ مساجد وسڑکوں پر مانگا جائے، چنانچہ وہ اپنا زیادہ تر وقت یہاں وہاں آنے جانے، گھومنے پھرنے اور سوال کرکر کے مال جمع کرنے کی خاطر ایک شہر سے دوسرے شہر جانے میں گنواں دیتے ہیں۔ یہ لوگ محتاجوں کا سا حلیہ دھار لیتے ہیں حالانکہ وہ غنی ہوتے ہیں، اور اپنے جسم میں کسی بیماری کا ناٹک کرتے ہیں حالانکہ وہ صحیح سلامت ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی نے انہیں صحت اور غنیٰ کی جو نعمت عطاء فرمائی ہے اس کی ناشکری کرتے ہیں، اور ناحق مال ہڑپ کرجاتے ہیں۔ اور اپنا قیمتی وقت ایسی چیز میں ضائع کرتے ہیں جو درحقیقت ان کے لیے نقصان دہ ہے۔
پس ان مندرجہ بالا اقسام کے تمام لوگوں کے ہاں رمضان کی کوئی خصوصیت واہمیت باقی نہیں رہتی۔
آخری نصیحت
اللہ کے بندوں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مہینے میں اتنی محنت فرماتے تھے جتنی اور کسی مہینے میں نہیں فرماتے تھے، اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے تمام اوقات ہی میں اللہ تعالی کی عبادت میں بہت محنت فرمایا کرتے تھے۔ مگر اس مہینے میں خصوصیت سے اپنے وقت کو ایسے بہت سے کاموں سے بھی فارغ کردیتے جو درحقیقت عبادت ہی ہوا کرتے تھے، لیکن انہیں چھوڑ کر ایسے عمل کے لیے فارغ کرتے جو اس سے افضل ہوتا۔
اسی طرح سلف صالحین نے اس بات میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی فرمائی۔ پس اس مہینے کا خاص اہتمام فرماتے ہوئے اپنے آپ کو اعمال صالحہ کے لیے فارغ فرما دیتے۔ اس کی راتوں کو تہجد کے ذریعہ اور دن کو روزے، ذکرِ الہی اور تلاوتِ قرآن کے ذریعہ زندہ رکھتے۔ اور ان تمام امور سے مساجد کو آباد رکھتے تھے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اور ان کے حال کا موازنہ کریں اور یہ دیکھیں کہ ہمیں کس حد تک اس کا احساس و شعور ہے، اور یہ جان لیں کہ جس طرح اس میں نیکیوں کا ثواب بڑھا چڑھا کر دیا جاتا ہے اسی طرح سے اس میں کیے گئے گناہوں کا وبال اور سزا کی سنگینی بھی بڑی ہوگی۔ پس ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ تعالی سے ڈریں اور اس کی حرمتوں کی تعظیم بجالائیں۔
﴿وَمَنْ يُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَّهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ ﴾
(اور جو کوئی اللہ تعالی کی حرمتوں کی تعظیم کرے تو یہ اس کے رب کے پاس اس کے اپنے لئے ہی بہتری ہے)۔
(الحج: 30)
اللہ تعالی ہم سب کو نیک قول وعمل کی توفیق عنایت فرمائے۔
وصلى الله وسلم على نبينا محمد وآله وصحبه أجمعين .
[1] فضیلۃ الشیخ سے ایک موقع پر سوال ہوا کہ: یہ عبارت کہ ’’اللهم بارك لنا في رجب وشعبان وبلغنا رمضان‘‘ (اے اللہ! ہمارے رجب اور شعبان میں برکت عطاء فرما کر ہمیں رمضان المبارک تک پہنچنا نصیب فرمادے)، کیا یہ صحیح ہے؟
جواب: یہ ایک حدیث ہے مگر صحیح نہیں ہے بلکہ ضعیف ہے۔
(ان فتاویٰ کا ترجمہ ہماری ویب پر بعنوان ’’ماہِ رجب کی بدعات‘‘ موجود ہے)۔ (مترجم)
[2] صحیح ابن خزیمہ 1778، قال الالبانی فی تخریج مشکاۃ المصابیح ’’إسناده ضعيف جداً‘‘۔
[3] ہمارے ہاں بعض تجارتی افراد اس قسم کی تراویح کا بھی انتظام کرتے ہیں یعنی 5 دن یا 3 دن وغیرہ میں کسی تیزرفتار قاری صاحب کو مقرر کرکے نہایت ہی عجلت کے ساتھ پورا قرآن ختم کرتے ہيں، تاکہ پھر سارے مہینے قیام اللیل کی زحمت نہ کرنی پڑے اور اطمینان سے اپنے کاروبار میں لگے رہیں۔ (مترجم)
ترجمہ و تبویب: طارق بن علی بروہی
مصدر: ویب سائٹ سحاب السلفیہ سے ماخوذ۔