بنا تصدیق افواہیں پھیلانے کا حکم؟ – شیخ صالح بن فوزان الفوزان

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال: افواہوں کا معاملہ بہت خطرناک ہے، بعض لوگ ان افواہوں کے پیچھے لگتے ہیں، اور وہ انہیں انہی کی طرح کے (وسائل نشر ) جیسے فارمز، مجالس اور انٹرنیٹ پر نقل کرنا شروع کردیتے ہيں، اور اس کی کوئی پرواہ ہی نہيں کرتے۔ آپ ہمارے سامنے شریعت اسلامیہ میں افواہیں نشر کرنے کی خطرناکی بیان فرمائيں؟

جواب: بسم الله الرحمن الرحيم ، الحمدلله رب العالمين وصلى الله وسلم على نبينا محمد وعلى آله وأصحابه أجمعين۔

بلاشبہ ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنی زبان کی حفاظت کرے کوئی ایسی بات کہنے سے کہ جس میں کوئی مصلحت نہ ہو یا جس میں نقصان ہو خود اس کے لیے یا کسی دوسرے کے لیے۔اسی میں سے افواہیں پھیلانا بھی ہے چاہے وہ بری افواہیں ہوں ، یا کچھ افراد یا پوری امت کے متعلق ہوں۔ کیونکہ ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ تصدیق کرلیا کرے اور اسے بلاضرورت آگے بیان نہ کرے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاۗءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْٓا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًۢا بِجَــهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰي مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِيْنَ﴾ 

(اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لائے تو اچھی طرح تحقیق وتصدیق کرلیا کرو، ایسا نہ ہو کہ تم کسی قوم کو لاعلمی میں نقصان پہنچا بیٹھو ، پھر جو تم نے کیا اس پر ندامت اٹھانی پڑے)([1])

 (الحجرات: 6)

پس ایک مسلمان کو چاہیے کہ جب اسے اپنے بھائی کی طرف سے کوئی بری بات پہنچے بھی تو اسے چھپائے، اور  اسے لوگوں میں نہ پھیلائے اگرچہ وہ سچا ہی کیوں نہ ہو۔چاہے اس کی طرف جو کچھ بات پہنچائی گئی سچی ہی کیوں نہ ہو لیکن اس میں اس کے بھائی کے لیے نقصان ہو تو وہ اپنے بھائی کا پردہ رکھے، اور آپس میں ہی اسے نصیحت کرلے۔ اس کے متعلق بری خبر عام نہ کرے اگرچہ وہ حقیقت ہی کیوں نہ ہو۔ کیونکہ یہ بھی غیبت میں داخل ہے، اور اللہ تعالی نے یہ فرمایا ہے کہ:

﴿وَلَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا ۭ اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ يَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِيْهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ ۭ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِيْمٌ﴾ 

(اور نہ تم میں سے کوئی دوسرے کی غیبت کرے، کیا تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے، تمہیں اس سے تو گھن آئے گی، اور اللہ سے ڈرو، یقیناً اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے)

(الحجرات: 12)

اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غیبت کی تفسیر یوں فرمائی کہ:

’’ذِكْرُكَ أَخَاكَ بِمَا يَكْرَهُ، قالوا يا رسول الله: أَفَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ فِي أَخِي مَا أَقُولُ؟ قَالَ:  إِنْ كَانَ فِيهِ مَا تَقُولُ فَقَدِ اغْتَبْتَهُ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِيهِ فَقَدْ بَهَتَّهُ‘‘([2])

(تم اپنے بھائی کا اس طور پر ذکر کرو جو اسے ناگوار ہو۔ عرض کی یا رسول اللہ!  اگر میرے بھائی میں واقعی وہ بات ہو جومیں کہہ رہا ہوں تو پھر؟ فرمایا: اگر واقعی اس میں وہ بات ہو جو تم کہہ رہے ہو تو یقیناً تم نے اس کی غیبت کی کیونکہ اگر وہ بات اس میں نہ ہو جو تم نے کی پھر تو تم نے اس پر بہتان باندھا)۔

یعنی اس پر جھوٹ بول کر اس پر بہتان باندھا۔ تو آپ ہر حال میں گنہگار ہی بنیں گے۔یعنی چاہے اس میں وہ بات پائی جاتی ہو یا نہ پائی جاتی ہو برابر ہے۔ کیونکہ یقیناً آپ بچ نہيں سکتے یا تو غیبت کررہے ہوں گے یا پھر اس پر جھوٹ باندھ رہے ہوں گے، اور یہ دونوں ہی جرم ہیں۔ یہ تو تھا افراد کے تعلق سے۔

اسی طرح سے معاشرے کے بارے میں، امن وامان کے بارے میں کہ جس سے امن میں خلل آئے، تو اس مسلمان کو چاہیے حادثات اور خبروں کو چھپائے لوگوں کو ان سے خوفزدہ نہ کرے، یا انہیں لوگوں میں رواج دیتا پھرے۔ یہ تو منافقوں کا طریقہ ہے، وہ ایسی خبروں افواہوں کی ٹوہ میں رہتے ہيں اور پھر اسے خوب نشر کرتے ہيں تاکہ مسلمانوں کو دہشت زدہ اور خوفزدہ کریں۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿لَوْ خَرَجُوْا فِيْكُمْ مَّا زَادُوْكُمْ اِلَّا خَبَالًا وَّلَا۟اَوْضَعُوْا خِلٰلَكُمْ يَبْغُوْنَكُمُ الْفِتْنَةَ  ۚ وَفِيْكُمْ سَمّٰعُوْنَ لَهُمْ  ۭ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌۢ بِالظّٰلِمِيْنَ﴾ 

(اگر وہ تم میں مل کر نکلتے بھی تو خرابی کے سوا تم میں کسی چیز کا اضافہ نہ کرتے، اور ضرور تمہارے درمیان فتنہ انگیزی کے لیے بھاگ دوڑ کرتے، اور تم میں کچھ ان کی باتیں کان لگا کر سننے والے جاسوس ہیں، اور اللہ ان ظالموں کو خوب جاننے والا ہے)

 (التوبۃ: 47)

اور فرمایا:

﴿اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ  ۙ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ﴾  

(بےشک جو لوگ پسند کرتے ہیں کہ ان لوگوں میں بےحیائی پھیلے جو ایمان لائے ہیں، ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے)

(النور: 19)

یہ نہایت ہی شدید وعید ہے۔

پس ایک مسلمان ایسی افواہوں اور بری خبروں کو پھیلانے والا نہ بنے کہ جو مسلمانوں کو خوفزدہ کرے۔ اگرچہ اس خبر کا یا حادثے کا مسلمانوں کو خطرہ ہو اور اس کے علاج کی ضرورت ہو، پھر بھی اس کا یہ طریقہ نہيں کہ اسے ایسے لوگوں کے درمیان نشر کیا جائےجو اس کے کسی علاج کا اختیار ہی نہيں رکھتے۔ بلکہ اس میں صرف اولی الامر (حکومت کے ذمہ داران) کی جانب رجوع کرنا چاہیے، اولی الامر کی طرف  رجوع اس لیے کہ وہ اس کا علاج کریں اور خطرے کو دور کریں۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿وَاِذَا جَاۗءَھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِه وَلَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓى اُولِي الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْھُمْ ۭ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطٰنَ اِلَّا قَلِيْلًا﴾  

(اور جب ان کے پاس امن یا خوف کا کوئی معاملہ آتا ہے وہ اس کی نشر و تشہیر شروع کر دیتے ہیں اور اگر وہ اسے رسول کی طرف اور اپنے اولی الامر  کی طرف لوٹاتے تو وہ لوگ اسے ضرور جان لیتے جو ان میں استنباط کرتے (ان میں سے اس کا اصل مطلب نکالتے ) ہیں، اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو بہت تھوڑے لوگوں کے سوا تم سب شیطان کے پیچھے لگ جاتے)

(النساء:  83)

بہرحال ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنی زبان کی حفاظت کرے اور ان افواہوں کو نہ اڑاتا پھرے، نہ ہی  رسوا کرنے والی باتیں پھیلائے، بلکہ خاموشی اور پردہ پوشی کرنے پر عمل کرے۔ اور اسلام و مسلمانوں اور ان کے معاملات کی  اصلاح کی دعاء کرتا رہے۔ ایک  مسلمان کو اس طرح ہونا چاہیے۔

مصدر: حكم نشر الإشاعات قبل التأكد۔


[1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی فرمایا:

’’ كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِبًا، أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ ‘‘ 

(کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو آگے بیان کردے)۔

(صحیح مسلم  5)

اور فرمایا:

’’كَفَى بِالْمَرْءِ إِثْمًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ ‘‘ 

(کس شخص کے گنہگار ہونے کے لیے کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو آگے بیان کردے)۔

(صحیح ابی داود 4992)

(مترجم)

[2] صحیح مسلم 2591۔

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*