کیا حکمرانوں کی اطاعت کا عقیدہ بزدلی ہے اور ان کے خلاف بغاوت غیرت مندی ہے؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

Is the Aqeedah of obeying the rulers a Cowardliness while Rebelling Against them considered as Religious Zeal?

سوال: سماحۃالوالد:ہم یہ جانتے ہیں کہ حکمرانوں کی اطاعت وفرمانبرداری کا عقیدہ اہل سنت والجماعت کے عقیدے کے اصولوں میں سے ایک اصل ہے لیکن صدافسوس کہ بعض فرزندان اہل سنت والجماعت ہی اس قسم کی فکر رکھتے ہیں کہ یہ عقیدہ شکست خوردہ قسم کے لوگوں کی سوچ ہے اور اس میں بزدلی سی پائی جاتی ہےاور اس قسم کا کلام کرتے ہیں۔۔۔لہذا وہ قوت کا استعمال کرکے نوجوانوں کو انقلاب پر ابھارتے ہیں؟

جواب از شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز  رحمہ اللہ :

یہ قائل کی جانب سے غلطی ہے اور قلت فہم کی علامت ہے۔ کیونکہ انہوں نے نہ سنت کا فہم حاصل کیا اور نہ کماحقہ اسے سمجھا۔ بلکہ انہیں محض منکر کے ازالے کی غیرت وغصے نے اس بات پر ابھارا کہ وہ اس چیز میں واقع ہوجائیں جس میں گمراہ فرقے خوارج اور معتزلہ واقع ہوئے تھے۔ انہیں اس بات پر حقیقت کی نصرت اور حق کی غیرت ہی نے ابھارا تھا کہ وہ ایسے باطل میں مبتلا ہوگئے یہاں تک کہ مسلمانوں کو محض گناہوں کی وجہ سے کافر کہنے لگے یا انہیں ہمیشہ کے لیے جہنم واصل سمجھنے لگے جیسا کہ معتزلہ نے کیا۔

پس خوارج گناہوں کے سبب تکفیر کے قائل ہیں اور ساتھ ہی گناہ گاروں کے ہمیشہ جہنم میں رہنے کے قائل ہیں۔ جبکہ معتزلہ بھی آخری انجام کے اعتبار سے ان کی موافقت کرتے ہیں کہ گناہ گار ہمیشہ جہنم میں رہیں گے لیکن دنیا کے بارے میں ایک نئے عقیدے کے قائل ہیں کہ وہ کفر اور ایمان کی دومنزلوں کے مابین رہتا ہے نہ مومن نہ کافر۔ اور یہ سب کی سب باتیں ضلالت وگمراہی ہیں۔ جس مؤقف کے اہل سنت قائل ہیں وہی حق ہے کہ کسی بھی گناہ گار کی محض گناہ کرنے کی وجہ سے تکفیر نہیں کی جائے گی جب تک کہ وہ اسے حلال نہ سمجھتا ہو۔

اگر وہ زنا کرے تو کافر نہیں کہا جائے، چوری کرے تو کافر نہیں کہا جائے گا یا شراب پیے تو کافر نہیں کہا جائے گا لیکن گناہ گار ضعیف الایمان اور فاسق کہاجائے گا اور اس پر اسلامی حدود کا نفاذ کیا جائے گا۔ الا یہ کہ وہ گناہ کو حلال سمجھے اور کہے کہ یہ حرام کام حلال ہے تو کافر ہوجائے گا۔ اس بارے میں جو خوارج کہتے ہیں وہ باطل ہے اور ان کا لوگوں کی تکفیر کرنا بھی باطل ہے۔اسی لیے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ان کے بارے میں فرمایا کہ اسلام سے ایسے نکل جائیں گے کہ پھر اس میں نہ لوٹیں گے۔ جیسا کہ بخاری ومسلم وغیرہ کی بعض احادیث میں اختلاف الفاظ کے ساتھ ان کے بارے میں آیا ہے۔ اہل اسلام سے قتال کریں گے اور اہل اوثان (مشرکین بت پرستوں) کو چھوڑ دیں گے۔ یہ ہے خوارج کا حال ان کے غلو، جہالت اور ضلالت کی وجہ سے۔

پس نہ نوجوانوں کو اور نہ ان کے علاوہ کسی کو بھی خوارج اور معتزلہ جیسوں کی تقلید کرنی چاہیے۔ بلکہ واجب ہے کہ مذہب اہلسنت والجماعت پر چلیں جو کہ شرعی دلائل کےموافق ہے۔ اور ان نصوص پر جیسے آئیں ہیں اسی طرح عمل درآمد کیا جائے۔  ان کے لیے یہ لائق نہیں کہ وہ حکمران پر کسی گناہ یا گناہوں کی وجہ سے خروج وبغاوت کریں بلکہ ان کے ذمے اس کو لکھ کر یا بالمشافہ یا کوئی بھی اچھے اور حکیمانہ طریقے استعمال کرکے نصیحت کرنا اور خیرخواہی چاہنا ہے۔ یا پھر جدال ومناقشہ بھی احسن طور پر اس سے کیا جائے یہاں تک کہ کامیابی حاصل ہو ،اور یہاں تک کہ شر کم ہوجائے یا ختم ہوجائے اور خیر بڑھ جائے۔ اسی طرح کی احادیث رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے مروی ہیں۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَھُمْ ۚ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ﴾ (آل عمران: 159)

(اللہ  تعالیٰ کی رحمت کے باعث آپ ان پر رحم دل ہیں اور اگر آپ سخت زبان اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے)

پس غیرت الہی رکھنے والوں اور ہدایت کی طرف دعوت دینے والے داعیان پر واجب ہے کہ وہ شرعی حدود کا التزام کریں اور جنہیں اللہ تعالی نے ان کے امور کا والی (حاکم) بنادیا ہے اس کی نصیحت وخیرخواہی چاہیں اچھے کلام کےساتھ، حکمت اور اچھے اسلوب کے ساتھ تاکہ خیر کی کثرت ہو اور شر کی قلت، اور تاکہ داعیان الی اللہ کی کثرت ہو۔ اور وہ اپنی دعوت میں احسن طریقے سے مستعد رہیں ناکہ سختی اور شدت سے۔ اور اپنے حکمرانوں کی مختلف اچھے اور سلامتی والے طریقوں کے ذریعے نصیحت چاہیں ساتھ ہی ان کے لیے پیٹھ پیچھے دعاء کریں کہ اللہ تعالی انہیں ہدایت دے ، اور انہیں توفیق دے ،ان کی مدد کرے ہر خیر کے کام میں ،اور اس معصیت کو جس کے وہ مرتکب ہوتے ہیں انہيں ترک کرنے اور اقامت حق میں ان کی مدد فرمائے۔ اللہ تعالی سے دعاء کی جائے اور اس کے سامنے تضرع وزاری کی جائے کہ اللہ تعالی ان کے حکمرانوں کو ہدایت دے اور باطل کو ترک کرکے خوش اسلوبی کے ساتھ حق کو قائم کرنے میں ان کی مدد فرمائے۔ اسی طور پر اپنے دیگر غیرت مند ساتھیوں کو بھی نصیحت کریں، حوصلہ افزائی کریں اور یاددہانی کرائیں تاکہ وہ بھی بطور احسن وخوش اسلوبی سے دعوت کے لیے مستعد رہیں ناکہ سختی اور شدت سے ۔ پس اسی طرح سے خیر کی کثرت اور شر کا قلع قمع ہوگا۔ اور اللہ تعالی ان کے حکمرانوں کو ہر خیر کی ہدایت فرمائے گا اور اس پر استقامت عطاء فرمائے گا نتیجتاً سب کو قابل ستائش نتائج حاصل ہوں گے۔

(المعلوم من واجب العلاقة بين الحاكم والمحكوم س 2)[1]

سوال : بہت سے نوجوان آج اللہ تعالی کے اس فرمان : ﴿وَلَا يَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَاىِٕمٍ﴾ (المائدۃ: 54) (وہ کسی ملامت گرکی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے) سے  وہ لوگ مراد لیتے ہیں جو حکمرانوں کی غلطیاں برسرعام منبروں پر ، عوام کےاجتماع میں اور ریکارڈ شدہ کیسٹوں میں کرتےہیں، اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو اسی تک محصور کرتے ہیں؛ ہم چاہتے ہیں کہ آپ ایسے لوگوں کےلیے مفید توجیہ و رہنمائی فرمائیں تاکہ اللہ تعالی انہیں صحیح سلوک کی جانب ہدایت عطاء فرمائے۔اور اس آیت کے صحیح معنی کی وضاحت فرمائیں۔ نیز ان لوگوں کا کیاحکم ہےجو حکمرانوں کے خلاف اعلانیہ باتیں کرتے ہیں؟

جواب از شیخ صالح بن فوزان الفوزان  حفظہ اللہ :

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَنْ يَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِهٖ فَسَوْفَ يَاْتِي اللّٰهُ بِقَوْمٍ يُّحِبُّهُمْ وَيُحِبُّوْنَهٗٓ  ۙ اَذِلَّةٍ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اَعِزَّةٍ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ ۡ يُجَاهِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَلَا يَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَاىِٕمٍ ﴾ (المائدۃ: 54)

(اے ایمان والو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے  تو اللہ  تعالیٰ بہت جلد ایسی قوم کو لائے گا جو اللہ کی محبوب ہوگی اور وہ بھی اللہ سے محبت رکھتی ہوگی، وہ نرم دل ہوں گے مسلمانوں پر، جبکہ  سخت اور تیز ہوں گے کفار پر، اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ بھی نہ کریں گے )

یہ آیت تو ہر اس  شخص سے متعلق ہے جو کلمۂ حق کہے اور اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کرےاور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرے، اللہ تعالی کی اطاعت کے جذبے کے ساتھ ایسا کرے اور نصیحت، امربالمعروف ونہی عن المنکر وجہاد فی سبیل کو لوگوں کی خاطر یا ان سے ڈر کر نہ چھوڑے۔ کیونکہ یہ قابل ملامت بات ہے۔ لیکن نصیحت ودعوت الی اللہ کا معاملہ تو ایسا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

﴿اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ﴾ (النحل: 125)

(اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلاؤ اور ان سے بہترین طریقے سے بحث وجدال کرو)

اللہ تعالی نے  موسیٰ وہارون علیہما الصلاۃ والسلام کو فرعون کی جانب بھیجا تو ان سے فرمایا:

﴿فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهٗ يَتَذَكَّرُ اَوْ يَخْشٰى﴾ (طہ: 44)

(اسے نرمی  سے سمجھاؤ کہ شاید وہ سمجھ لے یا ڈر جائے)

اور اللہ تعالی نے ہمارے نبی  محمد  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے حق میں فرمایا:

﴿فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَھُمْ ۚ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ﴾ (آل عمران: 159)

(اللہ تعالیٰ کی رحمت کے باعث تم ان پر رحم دل ونرم واقع ہوئے ہو اور اگر تم سخت  زبان اور سخت دل ہوتے تو یہ سب تمہارے  پاس سے چھٹ جاتے)

حکمرانوں کو نصیحت ایسے طریقوں سے کی جائے جن کی ان تک بلاتشہیر اور سادہ لوح افراد وہنگامہ آرائی کرنے والوں کو مشتعل کیے بغیر پہنچنے کی ضمانت ہو ۔ اورنصیحت حکمران اور نصیحت کرنے والے کے درمیان خفیہ ہو  چاہے وہ بالمشافہ ہو، یا خط لکھ کر یا پھر فون کے ذریعہ ہو،  پھر اس کے سامنے یہ امور بیان کیے جائيں۔ لیکن یہ سب کچھ نرمی اور مطلوبہ ادب کے ساتھ ہو۔

جہاں تک سوال ہے حکمرانوں کو منبروں اور عام تقاریر میں نصیحت کرنا، تو یہ نصیحت کہاں! یہ تو تشہیر ہے۔ اور یہ تو حکومت اور عوام میں فتنہ وعداوت کا بیج بونے کا سبب ہے۔ اس کے نتیجے میں بہت عظیم نقصانات مرتب ہوں گے۔ جیسا کہ ممکن ہے کہ حکمران علماء کرام اور داعیان پر اس قسم کی حرکات کرنے والوں کی وجہ سے سختی کرنا شروع کردیں۔ ایسا کرنے سے جس خیر کا گمان  کیا جاتا ہے اس سے کئی بڑھ کر اس میں شر وبرائیاں پنہاں ہیں۔ اگر آپ کسی عام انسان تک میں کوئی برائی یا شرعی مخالفت دیکھیں ، پھر برسر عام اعلانیہ طور پر اسے بیان کرنا شروع کردیں کہ فلاں نے یہ یہ حرکت کی! تو وہ اسے اپنی تذلیل ورسوائی سمجھے گا نہ کہ نصیحت۔

اور نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے تو فرمایا ہے:

’’مَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ‘‘[2]

(جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا تو اللہ تعالی بھی دنیا وآخرت میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا)۔

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  جب کسی بات پر تنبیہ کرنا چاہتے تو کسی قوم کو خاص کرکے تعین کے ساتھ نہ فرماتے بلکہ فرماتے:

’’مَا بَالُ أَقْوَامٍ یَفعَلُونَ کَذَا وَکَذَا‘‘[3]

(قوم کو یا لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ ایسی ایسی حرکتیں کرتے ہیں)۔

کیونکہ نام کے ساتھ تصریح کرنا اصلاح سے زیادہ فساد کا سبب بنتا ہے، بلکہ کبھی تو اس میں بالکل بھی اصلاح کا پہلو نہیں ہوتا۔ اور اس میں فرد یا جماعت کی برائی پر برائی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ نصیحت کا طریقۂ کار معروف ہے۔ اور جو نصیحت کرنے والے ہیں ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ علم، معرفت، ادراک، مصالح ومفاسد میں موازنہ اور عواقب پر نظر رکھنے کے  مستویٰ پر فائز ہوں ۔

کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ منکر کا انکار کرنا خود ایک منکر بن جاتا ہےجیسا کہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ  رحمہ اللہ  نے فرمایا۔ اور وہ اس وقت ہوتا ہے جب منکر کا انکار غیرشرعی طریقے سے کیا جائے، تو وہ انکار کرنا جس کے نتیجے میں فساد برپا ہو بنفسہ منکر بن جاتا ہے۔ اور اسی طرح سے نصیحت اگر ان شرعی طریقوں کے بغیر ہو کہ جن کا حکم دیا گیا ہے تو ہم شاید اسے نصیحت کے بجائے رسوا کرنے، یا پھر تشہیر کرنے، لوگوں کو برانگیختہ کرنے اور شر وفتنہ کو مزید ہوا دینے کا نام دیں گے[4]۔

(الإجابات المهمة فى المشاكل المدلهمة – س 12)

سوال: لوگوں میں سے ایسے ہیں جو یہ نظریہ رکھتے ہيں کہ حکمرانوں کی اطاعت کا حکم ایک شکست خوردہ اور بزدلانہ  فکر ہے، چنانچہ کیا حکمرانوں کو نصیحت یا منکر کا انکار عوام الناس کے سامنے کرنا  سلف کے منہج میں سے ہے؟

جواب از شیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ:

اگر حکمرانوں کی اطاعت کا اللہ تعالی کی اطاعت میں، جبکہ اللہ کی معصیت میں عدم اطاعت کا حکم ایک شکست خوردہ اور بزدلانہ  فکر ہے تو یہ واللہ! طعن ہے اللہ تعالی پر کہ جس نے حکام کی اطاعت کا حکم فرمایا ہے، اور طعن ہے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پر کہ انہوں نے بھی حکم فرمایا اور اپنے اس حکم کی کئی کئی بار تاکید فرمائی یعنی اس اطاعت کی کہ جو اسلام کے اصولوں میں سے ایک عظیم اصول ہے۔  مسلمانوں کا کوئی حال اور ثبات نہيں جب تک وہ اس اصول کو عملی جامہ نہیں پہناتے یعنی اللہ کی اطاعت میں حکمرانوں کی اطاعت، کیونکہ ظاہر ہے خالق کی معصیت میں مخلوق کی اطاعت نہيں۔

پس ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہيں اللہ تعالی پر اس قسم کی جرأت کرنے سے، اور اس کے دین اور اس کے اولیاء جو اس کی اور اس کے نبی   محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی ہدایت کی پیروی کرتے ہیں پر اس قسم کی جرأت کرنے سے۔

اور ہم یہ نہيں کہتے کہ محض یہ فکر ِخوارج سے متاثر ہیں بلکہ خوارج سے بھی پہلے ان کی جو انقلابی اور باغیانہ سوچ ہے وہ متاثر ہے کمیونسٹ، قوم پرست اور سیکولر انقلابوں سے ، کیونکہ بلاشبہ جنہوں نے مسلمان ممالک کے خلاف تباہ کن انقلابات کی منصوبہ بندی کی ہے وہ صرف اور صرف دشمنان اسلام ہی ہیں یہود ونصاریٰ اور کمیونسٹوں میں ‎سے۔ کسی بھی عاقل کو یہ سمجھنا بعید نہيں کہ بے شک یہود ونصاریٰ میں سے دشمنان الہی مسلمان ممالک کے خلاف  اپنی عداوت کا اظہار کرتے رہتے ہیں اور اس قسم کے حالات پیدا کرتے رہتے ہیں جو ان تباہ کن انقلابات کے لیے سازگار ہوں اور وہ اسے خوب ہوا دیتے ہيں اور آگ کو ایندھن دیتے ہیں[5]۔

بلکہ روافض بھی جو کہ مسلمان ممالک اور مسلمانوں کے سب سے سخت دشمن ہيں  یہ تو خصوصی طور پر اس میں ملوث ہیں، ان کی دشمنی تو یہود ونصاریٰ سے بھی سخت ہے۔ مجھے مکمل جزم کے ساتھ یقین ہے کہ ان کا بہت بڑا ہاتھ ہے ان انقلابی تحریکوں کو بھڑکانے میں کہ جو مسلمانوں کے ممالک کو تباہ کرتی ہیں۔  وہ خود تو ان تباہ کن انقلابات سے بچے رہتے ہيں اور ان سے دور پرے رہتے ہيں لیکن اب تک اسلامی ممالک میں وہ ان انقلابوں  کو  ایندھن بہم پہنچا رہے ہيں  یہاں تک کہ کسی نہ کسی دن وہ ان کے آگے جھک جائيں، پھر وہ اپنے منصوبوں کو ان ممالک میں عملی جامہ پہنا سکے۔

اور یہ بات بھی بعید نہيں کہ بے شک یہود ونصاریٰ میں سے دشمنان اسلام کا بھی بڑا ہاتھ ہے ان تحریکوں کو ہوا دینے میں۔ اس کی دلیل میں سے یہ بھی ہے کہ مسلم ممالک میں ان سازشی تحریکوں ، انقلابوں ، دنگا فساد و آزمائشوں میں ڈالنے والوں کے بڑے بڑے زعماء وقائدین کو کہیں پناہ اور چین وسکون نہيں ملتا مگر انہی امریکہ ویورپ کے دارالحکومتوں میں، اور وہ وہاں سے ہی احکامات، منصوبے اور توجیہات صادر کرتے رہتے ہیں۔

چنانچہ الجزائر میں تباہ کن انقلاب بپا کرنے والا منصوبہ ساز سرغنہ برطانیہ میں پکڑا گیا، اسی طرح سے مسلمان ممالک کے دشمنان جو محض اسلام کا لبادہ اوڑھتے ہیں لیکن دشمنان الہی کے منصوبوں کی تنفیذ کے لیے کام کرتے ہيں وہ سب بھی انہی ممالک میں پکڑے جاتے ہیں۔

اگر العیاذ باللہ جو یہ کہتے ہيں کہ حکام کی اطاعت کرنے کا معاملہ شکست خوردہ اور بزدلانہ سوچ ہے اس کا معنی تو یہ ہوا کہ بلاشبہ خود اللہ تعالی ہی نے ہمیں اس شکست خوردگی اور بزدلی کا مکلف وپابند بنایا ہے، اور خود رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ہی ہماری تربیت شکست خوردگی اور بزدلی پر کی ہے۔ یہ تو اللہ کی قسم! اللہ تعالی پر اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پر طعن ہے۔

چنانچہ ان جاہلوں کو ادب کے دائرے میں رہنا چاہیے کہ جو جانتے ہی نہيں، نہ انہيں اس کا شعور ہے کہ ان کی ان حرکتوں کے نتائج وعواقب کیا نکلیں گے، اور نہ ہی ان خبیث اطلاقات کے نتیجے کی انہیں کوئی پرواہ ہے جن کا اطلاق وہ ان لوگوں پر کرتے پھرتے ہيں کہ جو اسی چیز کا حکم دیتے ہيں جس کا اللہ تعالی نے اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے حکم دیا ہے، اور اسی میں رشد وہدایت وراست بازی ہے۔ ہم اللہ تعالی سے ہی عافیت کا سوال کرتے ہيں۔

واجب ہے کہ ہم  اپنی اولاد کو اس قسم کے تباہ کن افکار سے بچائیں خواہ مدارس (اسکولوں) میں ہوں یا جامعات (یونیورسٹیوں) میں۔ اور واجب ہے کہ ان انقلابی تحریکوں کی حقیقت کے بارے میں بتایا جائے، ان کے خبیث منصوبوں کی وضاحت کی جائے، ان کے ان منحرف عقائد کی نشاندہی کی جائے جس پر ہماری اولادوں کی جامعات، معاہد اور ثانوی مدارس وغیرہ میں وہ تربیت کرتے ہيں اور یہی زہرآلود مواد مکتبات میں بھی بھرتے ہيں۔ واللہ! واجب ہے کہ ہم ان حقیقی شکست خوردہ اور تباہ کن افکار کو جڑ سے نکال پھینکیں اپنے مکتبات اور سلیبس میں سے، ساتھ ہی کمیونسٹ و انقلابی افکار اورفتنے کی آگ بھڑکانے والے اور مسلمانوں کے ممالک کے خلاف منصوبہ سازی  اور سازشیں رچانے والے یہود ونصاریٰ کے مواد کو بھی۔

سوال: اسی سوال کی دوسری شق میں پوچھا گیا تھا کہ: کیا حکمرانوں پر منکر کا انکار عوام کے سامنے کرنا سلف صالحین کا طریقہ ہے؟

جواب: عوام کے سامنے انکار کرنا اس طریقے سے جو ہم جانتے ہیں آج، یہ طریقہ تو ہم ابن سباء (یہودی) کی بغاوت کے حوالے سے ہی جانتے ہيں اور اس کے تلامیذ جنہيں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے منافقین[6] سے موصوف فرمایا اور مسلمانوں نے انہیں خوارج کے نام سے ملقب کیا۔ منکر کا انکار لوگوں کو بھڑکانے والی اس انقلابی باغیانہ صورت میں کرنا کہ جس میں منکر کا انکار منابر پر ہی کیا جاتا ہے ابن سباء کے عہد سے شروع ہوا جو آج تک چلا آرہا ہے۔تو یہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر نہيں ہے بلکہ یہ خود ہی ایک منکر ہے، یہ تو ان منکرات سے بھی بڑھ کر برا اور شدید ہے جس کا معالجہ وہ کررہے ہوتے ہیں، خود یہ منابر پر منکر کا انکار، لوگوں کو اکسانا اور بغاوت وانقلاب کے لیے متحرک کرنا واللہ! وہ تو ان موجودہ منکرات سے بھی سے بڑا اور خبیث تر ہے۔

اس کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اس کے کرنے کا حکم دینے کے بجائے صبر کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:

عنقریب ایسے امراء وحکام آئیں گےجن کی کچھ باتوں کو تم معروف جانوں گے اور کچھ کو منکر۔ عرض کی: ایسی صورت میں ہم کیا کریں یا رسول اللہ؟ فرمایا:

’’أَدُّوا الْحَقَّ الَّذِي عَلَيْكُمْ، وَسَلُوا اللَّهَ الَّذِي لَكُمْ‘‘[7]

(تم پر جو ان کا حق بنتا ہے وہ انہیں دو، اور اپنا حق اللہ تعالی سے مانگو)۔

اور فرمایا:

’’مَنْ رَأَى مِنْ أَمِيرِهِ شَيْئًا يَكْرَهُهُ فَلْيَكْرَهْ ذَلِكَ الشَّيْءَ وَلْيَصْبِرْ‘‘[8]

(جس نے اپنے امیر (حاکم) میں  کوئی ایسی چیز دیکھی جسے وہ ناپسند کرتا ہے (یعنی شرعی مخالفت) تو بس وہ اس چیز کو برا جانے، اور چاہیے کہ صبر کرتا رہے)۔

یہ دیکھیں یہ اللہ کے رسول ہیں  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  جو کہ مجاہد، بہاد وشجاع اور ناصح وخیرخواہ ہیں واللہ! انہوں نے کبھی ہمیں بزدلی کا حکم نہیں دیا، نہ ہی شکست خوردہ ذہنیت کا، اور نہ ہی بغاوت وانقلاب بپا کرنے کا۔ بلکہ انہوں نے ہمیں صرف عقل مندی پر مبنی صبر کا حکم دیا جو اپنا پھل اس دنیا کی زندگی میں بھی دیتا ہے اورآخرت میں بھی، پس واللہ! یہ لوگ تو شر وفتن کے سوا کسی چیز کے بیج نہيں بوتے۔

ان کے باغی انقلابی اور ابن سباء کے طریقے کے مطابق انکار وتنقید  اور روافض، باطنیہ اور کمیونسٹوں کے طریقے کے مطابق کرنے سے واللہ! یہ امت جو فصل کاٹے کی وہ دنیا وآخرت میں تباہی وتخریب کاری کے سوا کچھ نہ ہوگی۔

بالکل، حکمرانوں کو نصیحت کیجیے لیکن سنت نبویہ کے طریقے کے مطابق کیجیے، اور سلف صالحین کے طریقے کے مطابق کیجیے  اس طرح کہ وہ پوشیدہ طریقے سے ہو اور حکمت کے ساتھ، کیونکہ یہ تشہیر اور بھڑکانا اکسانا اس چیز کو ایک کمزور سا انسان اپنے حق میں قبول کرنے کو تیار نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ حکمرانوں اور امراء سے یہ توقع کی جائے۔

پس ہم اللہ تعالی سے دعاء کرتے ہيں کہ ہمیں ایسے بیوقوفوں نادانوں کی قیادت سے محفوظ رکھے کہ اگر امت کی ہلاکت دنیا وآخرت میں مقدر ہو تو وہ انہی جیسوں کے ہاتھوں متحقق ہوگی۔ لہذا سلامتی، رشد وہدایت صرف اللہ تعالی کی دی گئی رہنمائیوں میں ہی پنہاں ہے، پھر اس معصوم وخیرخواہ رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی رہنمائیوں میں پنہاں ہے، جو کہ اچھی طرح سے جانتے ہيں کہ ان کی اس امت کے لیے کیا بہتر ہے چنانچہ اسی کی طرف انہیں دعوت دیتے ہیں، اور یہ بھی جانتے ہيں کہ جو اس امت کے معاملات کے بگاڑ کا سبب ہےتو اس سے خبردار فرماتے ہیں، اللہ تعالی کے آپ پر بے شمار درودوسلام ہوں۔

کیا کوئی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے بڑھ کر بھی اپنی نصیحت میں خیرخواہ، سچا اور مخلص ہوسکتا ہے؟

اور کیا کوئی صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم   سے بڑھ کر بھی امت کے لیے خیرخواہ ہوسکتا ہے؟ جنہوں نے حجاج بن یوسف کا زمانہ پایا جو کہ بے دریغ خون بہاتا، لیکن وہ صبر کا حکم کرتے؟!

حجاج اور اس کے علاوہ جو تھے خون خرابہ کرتے اور زمین میں فساد ڈالتے، لیکن رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے صحابہ  رضی اللہ عنہم  کی طرف سے سوائے صبر کے کچھ نہ ہوتا؟!

اہل مدینہ کی یزید بن معاویہ کے خلاف بغاوت کے واقعے میں بھی اصحاب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اس سے دور رہے،  جابر، ابن عمر و ابو سعید الخدری وغیرہ  رضی اللہ عنہم، وہ لوگوں کو بیعت توڑنے اور اپنے امام پر خروج کرنے  سے خبردار فرمایا کرتے تھے۔ جو فتنے کو لیے پھرتے ان کے ساتھ ایک کلمے کی بھی مشارکت نہيں کی، العیاذ باللہ۔ لہذا ان باغیوں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی رہنمائیوں کی مخالفت کی، اسی طرح سے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم    کی رہنمائیوں کی مخالفت کی جس کے سبب سے ایک ایسی عظیم آزمائش سے دوچار ہونا پڑا جسے تاریخ بھلا نہیں سکتی، اور نہ ہی آج تک امت اسے بھول پائی ہے۔

پس یہ لوگ جو آج منبروں پر خطاب کرتے ہیں اور امت کو ورغلاتے ہیں ان میں سے بعض تو واقعی یہی کچھ چاہتے ہیں، انہيں کوئی پرواہ نہيں کہ امت ہلاک ہو تو ہو، اور بعض ایسے ہیں بیچارے جنہیں اس کے نتائج کا ادراک نہيں ناعاقبت اندیشں ہیں مگر بس اندھے جذبات کی رو میں بہہ رہے ہيں۔ اور دشمنوں کے آگے سرخم کیے ہوئے ہيں اس طرح کہ انہی کے راستے پر گامزن ہيں، پھر اس راستے پر چلنے کا نتیجہ اگر اللہ ان کو نہ بچائے تو تباہی اور بہت بڑی برائی کی صورت میں ہی ظاہر ہوگا۔ لہذا جو کوئی اس امت کے لیے خیر کی چاہت رکھتا ہے اور اس کے لیے راست بازی اور اصلاح ِاحوال کی چاہت رکھتا ہے، اور چاہتا ہے کہ یہ دشمنوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہو تو اسے چاہیے کہ وہ ان مسائل پر ہدایت محمدی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پر چلے۔

کیونکہ بلاشبہ بہترین ہدایت  محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی ہدایت ہے، اور بدترین کام وہ ہیں جو دین میں نوایجاد کیے گئے، اور دین میں ہر نیا کام بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے، او ر ہر گمراہی آگ میں ہے۔

اللہ تعالی ہمیں اور آپ کو اور اس امت کو ان گمراہیوں سے عافیت میں رکھے جو کہ خود دشمنان اسلام سے اخذ کی گئی ہيں  پھر انہيں اسلام پر چسپاں کردیا گیا ہے، حالانکہ اللہ تعالی نے اسلام کو ان سے بری اور پاک رکھا ہے۔

(كشف الستار عما  تحمله بعض الدعوات من أخطار – س 23-24)


[1] یہ مکمل کتاب اردو ترجمے کے ساتھ ہماری ویب سائٹ پر موجود ہے۔

[2] اخرجہ مسلم برقم (2699) من حدیث ابی ھریرۃ  رضی اللہ عنہ ۔

[3] یہ الفاظ متعدد احادیث میں آئے ہیں جن میں سے حدیث  عائشہ  رضی اللہ عنہا   بھی ہے جس میں قصۂ بریرۃ ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا: ’’مَا بَالُ رِجَالٍ يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ‘‘(اخرجہ البخاری برقم (2167) ومسلم برقم (1504)) (مردوں کوکیاہوگیا ہےکہ ایسی شرائط مقرر کرتے ہیں جو کہ کتاب اللہ میں نہیں)۔

[4] ابن سعد نے الطبقات (8/104) میں اور الفسوی نے المعرفۃ والتاریخ (1/231-232) میں روایت نقل فرمائی کہ:

مجھے عبداللہ بن ادریس نے خبر دی کہ محمد بن ابی ایوب روایت کرتے ہیں ہلال بن ابی حمید سے، فرمایا: میں نے عبداللہ بن عکیم کو کہتے ہوئے سنا:

’’لا أُعِينُ عَلَى دَمِ خَلِيفَةٍ أَبَدًا بَعْدَ عُثْمَانَ ، قَالَ: فَيُقَالُ لَهُ: يَا أَبَا مَعْبَدٍ، أَوَ أَعَنْتَ عَلَى دَمِهِ؟ فَقَالَ: إِنِّي لأَعُدُّ ذِكْرَ مَسَاوِيهِ عَوْنًا عَلَى دَمِهِ‘‘

(میں نے  عثمان  رضی اللہ عنہ  کے خون کے بعد کسی خلیفہ کے خون کرنے پر معاونت نہیں کی۔ ان سے کہا گیا اے ابو معبد! کیا آپ نے ان کے قتل کرنے پر معاونت کی تھی! پس انہوں نے جواب دیا کہ: میں ان کی کوتاہیاں بیان کرنے کو گویا کہ ان کے قتل پر معاونت شمار کرتا ہوں)۔

امام عبدالعزیز بن باز  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

’’حکمرانوں کے عیوب کی تشہیر کرنا یا انہیں منبروں پر بیان کرنا سلف صالحین کا منہج نہیں کیونکہ یہ انقلابات، معروف میں بھی حکمرانوں کی عدم سماع واطاعت اور ان کے خلاف خروج پر منتج ہوتا ہے جو کہ فائدہ کے بجائے نقصان کا سبب ہے۔ لیکن نصیحت اس طریقے سے کی جائے جو سلف میں رائج رہی ہے یعنی نصیحت آپ کے اور حکمران کے مابین ہو خواہ خط وکتابت کی صورت میں ہو یا ان علماء کرام سے رابطے کے ذریعہ کےجن کا رابطہ اس حاکم سے رہتا ہو اور وہ اسے خیرکی جانب رہنمائی کرتے ہوں‘‘۔

دیکھیں کتاب: المعلوم من واجب العلاقۃ بین الحاکم والمحکوم۔ (الحارثی)

[5] حالانکہ اس کے برعکس اس فکر والے لوگ اپنی جماعتوں کے  لیڈران وامراء کی معصیت الہی تک میں اطاعت کرتے ہيں، اور جب ان کی حکومت کہیں قائم ہوجاتی ہے تو وہ عقیدے ومنہج میں شریعت الہی کے نفاذ سےتمام لوگ سے بڑھ کر دور ہوتے ہیں! دوسری طرف اپنے بڑوں کی بالکل اندھی اطاعت کرتے ہيں، ان کی شان بڑھا چڑھا کر بیان کرتے اور ان کا باطل طور پر دفاع کرتے ہیں! فاعتبروا يا أولي الألباب.

[6] نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے اس قول کی طرف اشارہ ہے جو آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے  عثمان  رضی اللہ عنہ  سے فرمایا تھا:

’’يَا عُثْمَانُ! إِنَّ اللَّهَ عَسَى أَنْ يُلْبِسَكَ قَمِيصًا، فَإِنْ أَرَادَكَ الْمُنَافِقُونَ عَلَى خَلْعِهِ فَلَا تَخْلَعْهُ حَتَّى تَلْقَانِي، يَا عُثْمَانُ، إِنَّ اللَّهَ عَسَى أَنْ يُلْبِسَكَ قَمِيصًا فَإِنْ أَرَادَكَ الْمُنَافِقُونَ عَلَى خَلْعِهِ، فَلَا تَخْلَعْهُ حَتَّى تَلْقَانِي، ثَلَاثًا‘‘

(اے عثمان! بے شک اللہ تعالی امید ہےکہ تمہیں ایک قمیص پہنائے گا، پس اگر منافقین اسے اتارنا چاہیں تو تم ہرگز اسے نہ اتارنا یہاں تک کہ مجھ سے ملاقات ہو، اے عثمان! بے شک اللہ تعالی امید ہےکہ تمہیں ایک قمیص پہنائے گا، پس اگر منافقین اسے اتارنا چاہیں تو تم ہرگز اسے نہ اتارنا یہاں تک کہ مجھ سے ملاقات ہو ، اور ایسا آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے تین مرتبہ فرمایا)۔

(أخرجه أحمد (6/75)، والترمذي (3705)، وإبن ماجه (112) و(113) وغيرهم من طرق عن عائشة r واللفظ لأحمد وإبن ماجه وهو صحيح وصححه الألباني فى ظلال الجنة برقم (1178) و(1179)،وصحيح الترمذي (2926).

[7] اخرجه أحمد (1/384)، والبخاري (3603) و (7052)، ومسلم (1843) من حديث عبدالله بن مسعود  رضی اللہ عنہ .

[8] أخرجه أحمد (1/275) (3487) و(1/297) (2702)، والبخاري (7053) و (7054) و (7143) ومسلم (1849) عن إبن عباس رضی اللہ عنہما.(حدیث مفہوماً بیان کی گئی ہے)۔

ترجمہ وترتیب: طارق بن علی بروہی