خوارج کا دنیا، مال و کرسی کی چاہت کو دین داری اور دینی غیرت کا رنگ دینا – شیخ ربیع بن ہادی المدخلی

Beautifying the love for this world, wealth & positions as religious zeal & commitment by Khawarij – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

شیخ ربیع المدخلی حفظہ اللہ کتاب الشریعۃ للآجری کی شرح الذریعہ ص 88-89 میں عنوان قائم کرتے ہیں کہ:

خوارج کا اپنی پیدائش سے لے کر آج تک مال سے متعلق مسائل سے جڑے رہنا

امام الآجری رحمہ اللہ  نے ان احادیث کی طرف اشارہ فرمایا جو ان کی صفات اور ان کے شر ، خباثت اور امت کے لیے فتنوں کو بیان کرتی ہیں۔ اور ا ن کا خون بہانا، اہل اسلام کو قتل کرنا جبکہ اہل اوثان کو چھوڑ دینا۔ یہ تمام صفات جن سے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے انہیں متصف فرمایا ان میں بالکل نمایا ں طورپر واضح ہيں۔ او راسی طرح ان میں بھی رہیں گی جو تاقیامت ان کے طریقے پر چلیں گے۔

آپ اس (خوارج کے بانی) ذوالخویصرہ ہی کو دیکھ لیں  اس نےسب سے پہلے جس چیز کا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پر انکارکیا اور آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے عدل و انصاف پر طعن کیا وہ یہی مال کا مسئلہ تھا (یعنی ان کے مطابق دولت کی غیر منصافانہ تقسیم)۔

اور جو خوارج ہیں خصوصاً اس دور میں (دینی سیاسی و جہادی خوارج) وہ انہی مال سے متعلق مسائل سے جڑے رہتے ہیں۔ حالانکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پہلے ہی یہ خبر دے چکے ہیں کہ حکمران مال و منصب کے بارے میں امتیازی سلوک کریں گے اور تمہیں محروم کریں گے، پس آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے مسلمانوں کو ا س پر  صبر کرنے کا حکم دیا، اپنے انصاری صحابہ کو محروم کیے جانے اور دوسروں کو ترجیح دیے جانے پر صبر کا حکم دیا[1]۔

پس اہل سنت مال، یا عدل و انصاف اور آخر تک جو مسائل ہيں انہيں (حکمرانوں کے خلاف بھڑکانے کے لیے ) نہیں اچھالتے بلکہ صبر کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ کفر بواح (کھلم کھلا کفر) دیکھیں، جیساکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا حکم دیا ہے۔ لہذا خوارج کا سب سے پہلا قائد بھی  یہی اقتصادی مسائل  کو لے کر چیخا چلایا تھا۔

اور تو اور ہمارے زمانے کے خوارج کے پاس تو باقاعدہ شماریات ہوتی ہیں ملکی آمدن اور پٹرول وغیرہ بتاتے جتاتے رہتے ہیں۔۔۔اور ان مسائل کے ذریعے لوگوں کو بھڑکاتے ہيں، لیکن ظاہر یہ کرتے ہيں کہ ہم تو نیکی کا حکم کررہے ہیں اور برائی سے روک رہے ہیں، جیسا کہ خوارج کا ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہے، پس یہی ان کا طریقہ ہے۔

سب سے پہلے وہ عثمان  رضی اللہ عنہ  کے دور خلافت میں جب نکلے  مصرو غیرہ میں تو وہاں بھی خلیفہ کے خلاف  انہی مناصب اور اموال  وغیرہ کی باتوں کے ذریعے بھڑکانا شروع کیا۔۔۔لیکن ظاہر یہ کرتے ہيں کہ ہمیں اسلام کی بڑی غیرت ہے اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر ہورہا ہے۔ پس  جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے، چناچہ جن امور اور مسائل  کے بارے میں خوارج اس وقت چیخے چلائے تھے جب ابتداء میں ان کے فتنوں کے سینگ نے اپنا سر نکالا تھا، ان کے وہی مسائل تاقیامت بالکل جوں کے توں  رہیں گے، کہ امر بالمعروف (نیکی کا حکم) اور نہی عن المنکر (برائی سے منع کرنا) کو بس  ظاہر کرتے ہیں (اور اس کا لبادہ اوڑھ رکھا ہوتا ہے جبکہ) مسئلے وہی مال کے، اور مناصب (کرسی وحکومت) اور ان چیزوں کے ہوتے ہیں۔


[1] اس حدیث کی جانب اشارہ ہے جو امام بخاری اپنی صحیح میں ”بَابُ مَا أَقْطَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْبَحْرَيْنِ، وَمَا وَعَدَ مِنْ مَالِ الْبَحْرَيْنِ وَالْجِزْيَةِ، وَلِمَنْ يُقْسَمُ الْفَيْءُ وَالْجِزْيَةُ؟“کے تحت حدیث رقم 3163 میں لائے ہيں کہ انس بن مالک  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ :

”دَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَنْصَارَ لِيَكْتُبَ لَهُمْ بِالْبَحْرَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ لَا وَاللَّهِ حَتَّى تَكْتُبَ لِإِخْوَانِنَا مِنْ قُرَيْشٍ بِمِثْلِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ ذَاكَ لَهُمْ مَا شَاءَ اللَّهُ عَلَى ذَلِكَ يَقُولُونَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَإِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ بَعْدِي أَثَرَةً، ‏‏‏‏‏‏فَاصْبِرُوا حَتَّى تَلْقَوْنِي عَلَى الْحَوْضِ“

(نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   نے انصار کو بلایا، تاکہ بحرین میں ان کے لیے کچھ زمین لکھ دیں۔ لیکن انہوں نے عرض کیا کہ نہیں! اللہ کی قسم! (ہمیں اسی وقت وہاں زمین عنایت فرمائیے) جب اتنی زمین ہمارے قریشی بھائیوں (مہاجرین) کے لیے بھی لکھیں۔ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا : جب تک اللہ کو منظور ہے یہ (معاش) ان کو بھی  ملتی رہے گی۔ (لیکن)  وہ (انصار) ان سے یہی عرض کرتے رہے۔  آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:   میرے بعد تم  دیکھو گے کہ (تمہاری حق تلفی کرکے) دوسروں کو تم پر ترجیح دی جائے گی، (لیکن) تم صبر سے کام لینا یہاں تک کہ تم مجھ سے (بروز قیامت) حوض (کوثر) پر آ کر ملو)۔

ترجمہ: طارق بن علی بروہی

مصدر: الذَّريعَةُ إلى بيانِ مقاصدِ كتابِ الشَّريعَةِ.

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*