
بسم اللہ الرحمن الرحیم
A Doubt: We should only rectify the mistakes of individuals, but shouldn’t disparage and degrade them – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
اس شبہے کا ماحصل یہ ہے کہ: ہم منحرف ومخالف لوگوں کی بس غلطیوں کی اصلاح کریں اور تنقید کریں لیکن ان کی جرح کرکے انہیں بالکل ساقط ومسخ نہ کردیں، اگرچہ ان کی غلطیاں کتنی ہی بڑی ہوں اور تعداد وخطرناکی میں کتنی ہی بڑھی ہوئی ہوں، پس ہم محض اس غلطی کو چھوڑ دیں گے لیکن اس شخصیت کو نہ چھوڑیں گے نہ اسے منہدم کریں گے (گرائیں گے)۔
اس جھوٹے شبہہ کا علامہ ربیع المدخلی حفظہ اللہ نے کئی مقامات پر اور کئی ایک طرح سے پردہ چاک فرمایا ہے، اور اس پر فاسد ہونے کا حکم لگایا ہے، جیسا کہ اپنے رسالے ’’جناية أبي الحسن على الأصول السلفية‘‘ میں فرمایا:
ابو الحسن اس فاسد قاعدے کو اخذ کرنے کے بارے میں دراصل عدنان عرعور کے طریقے پر چل رہا ہے کہ: ’’نصحح الأخطاء ولا نهدم الأشخاص‘‘ (ہم غلطیوں کی تصحیح واصلاح کریں مگر شخصیات کو نہ گرائيں) اور یہ بعینہ عدنان کا قاعدہ ہے کہ: ’’نصحح ولا نجرح‘‘ (ہم تصحیح کریں جرح نہيں کریں) لیکن حال یہ ہے کہ وہ اہل حق کو تو گرادیتے ہيں اور کوئی تصحیح واصلاح پیش ہی نہيں کرتے، لہذا جو کسی چیز کا خود حامل نہ ہو وہ کسی دوسرے کو بھی نہيں دے سکتا[1]۔
اور آپ حفظہ اللہ نے اس عنوان ’’قاعدة نصحح ولانهدم عند أبي الحسن‘‘ کے تحت فرمایا:
پھر اس کے تحت آپ ابو الحسن کا وہ کلام لے کر آئے جس میں اس نے اس قاعدے کو مکرر کیا تھا، فرمایا:
ابو الحسن جنہیں حدادی کی صفت سے متصف کرتا ہے ان پر تنقید کرنے کے سیاق میں کہتا ہے کہ:
’’انہو ں نے میری کیسٹ ’’حقیقۃ الدعوۃ‘‘ کے بارے میں میرے تعلق سے کہا کہ: غلطیو ں کی اصلاح وتصحیح کی جائے گی اور کوئی بھی شخص نصیحت سے بالاتر تو نہيں۔ لیکن ہم غلطیوں کی اصلاح شخصیات کو مسخ کرکے، انہيں گرا کر نہیں کریں گے، تو کیا حدادیوں کے علاوہ بھی میرے اس کلام پر کوئی نکیر کرسکتا ہے؟
وہ غلطیاں جن میں اہل سنت میں سے کوئی شخص واقع ہوجائے تو اس کی تصحیح ہوگی، اور کوئی بھی شخص نصیحت سے بالاتر نہیں۔
کوئی بھی نہیں کہتا کہ اس قسم کے شخص کو نصیحت نہيں کی جائے گی یا ہم کبھی بھی اس سے مرعوب ہوں گے، بلکہ ہر کسی کو ہی نصیحت کی جائے گی (جیسا کہ حدیث میں ہے) :
’’الدِّينُ النَّصِيحَةُ، الدِّينُ النَّصِيحَةُ، قِيْلَ: لِمَنْ؟ قَالَ: لِلَّهِ، وَلِكِتَابِهِ، وَلِرَسُولِهِ، وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ، وَعَامَّتِهِمْ‘‘[2]
(دین نصیحت وخیرخواہی کا نام ہے، کہا گیا: کس کے لیے؟ فرمایا: اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول کے لیے اور حکام مسلمین اور ان کی عوام کے لیے)۔
اس حدیث کو کبھی نہيں چھوڑا جائے گا، کوئی بھی ایسا شخص نہیں جو نصیحت سے بالاتر یا حق سے برتر ہو، ہر کسی کو اس کے آگے سر تسلیم خم کرنا چاہیے اور اس کی جانب رجوع کرناچاہیے۔
لیکن ہم غلطیوں کی اصلاح شخصیات کو مسخ کرکے نہ کریں۔
ٹھیک ہے، فلاں شخص کے پاس خیر ہے، لیکن اس سے ایک لغزش یا بہت سی لغزشیں ہوجاتی ہیں تو جو کچھ اس کے پاس ہے ہم اس کی تصحیح واصلاح کریں ، لیکن اسے مسخ نہ کریں ،گرائیں نہیں اور نہ ہی اس کے پاس جو خیر ہے اسے گرادیں اورفراموش کردیں، جبکہ وہ سیکولروں اور لبرلوں کے مقابل کھڑا ہوتا ہے، یا صوفیوں کے مقابل کھڑا ہوتا ہے، یا روافض کے مقابل کھڑا ہوتا ہے، یا پھر ان حزبیوں کے مقابل کھڑا ہوتا ہے جو سلفی دعوت کا چہرہ داغدار کرتے ہيں، تو ایسے شخص سے اگر لغزشیں ہوجائيں تو ہم اس کو مسخ نہ کریں، بس ان غلطیوں کی اصلاح کریں۔
لہذا یہ (ماشاء اللہ) نہیں معلوم کہ ان لوگوں کی نظر میں یہ منقبت و اچھائی گویا کہ برائی بن گئی ہے، میں اسے اہل علم کے لیے چھوڑتا ہوں کہ وہ اس بارے میں حکم لگائیں‘‘۔ (ابو الحسن کا کلام ختم ہوا)
پھر شیخ ربیع المأربی کی کیسٹوں کے سلسلے بعنوان ’’القول الامین‘‘ میں سے حوالہ دیتے ہيں کیسٹ رقم 5 بی سائیڈ:
پھر شیخ ربیع فرماتے ہیں:
ابو الحسن کے اس کلام پر تعلیق:
1- یہ عدنان عرعور کا وہ قاعدہ ہے جس کے ذریعے اس نے سلفیوں اور سلفی منہج میں بڑا فتنہ برپا کیا۔ اس قاعدےاور اس کے علاوہ جو عدنان کے فاسد قواعد ہیں ان پر علماء کی ایک گروہ نے شدید نقد فرمائی ہے۔ اور علامہ شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ نے انہیں مداہنت پر مبنی قواعد قرار دیا ہے۔ اور علماء کی ایک تعداد نے اس پر نقد فرمائی ہے جن کی تعداد تیرہ علماء کرام تک پہنچتی ہے:
ان میں سے شیخ الفوزان ہیں، اور شیخ زید محمد ہادی، شیخ احمد بن یحیی النجمی بھی ہیں اور عدنان کی طرف سے ان علماء کے خلاف نفرت آمیز جنگ ، انہيں بیوقوف وجاہل گرداننے کے سوا کوئی جواب نہيں یہاں تک کہ اس قول تک وہ جسارت کرگیا کہ: ’’بلاشبہ فلاں یا یہ لوگ اللہ تعالی کی چہیتی قوم ہیں جو آدم کے دبر سے نکلی ہے‘‘۔
اللہ تعالی اس کا منہ بند کرے! یقیناً اس نے یہ کلمۂ کفر کہہ دیا ہے۔ اس کے باوجود وہ ابو الحسن کے اولیاء اور گروہ میں سے ہے ، اس کی طرف سے ہم اس کے خلاف کسی صحیح سلفی مؤقف کو نہيں جانتے۔
اب تک ابو الحسن عدنان کے ان قواعد کا اقرار کرتا آیا ہے بلکہ اس پر اضافے کیے ہیں:
اور ابو الحسن کی اس قاعدے کے تعلق سے جو تعبیر ہے وہ عدنان کی تعبیر سے بھی گئی گزری ہے، چنانچہ عدنان نے نقد کو جرح شمار کیا، جبکہ ابو الحسن نے اسے ’’ہدم‘‘ (گرادینا، منہدم کرنا، مسخ کرنا) قرار دیا۔
2- ابو الحسن کے اس کلام میں اور اس کے علاوہ کلام میں شدید تلبیس موجود ہے کیونکہ باطل رواج ہی نہيں پاسکتا جب تک اس کی حق کے ساتھ آمیزش نہ کی جائے۔ تو وہ کہتا ہے: نصیحت ہونی چاہیے، کوئی بھی شخص نصیحت سے بالاتر نہیں، لیکن درحقیقت اس کا کلام حق ہے مگر اس سے مراد باطل کی ترویج ہے۔
آپ دیکھیں سلف کی نقد جو وہ کرتے تھے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر آئمہ جرح وتعدیل تک، کیا آپ ان میں سے کسی کو پاتے ہیں کہ وہ اس شخص سے لڑتے ہوں جو اہل باطل پر نقد و تنقید کرتا ہے، کیا آپ ان میں سے کسی کو پاتے ہیں کہ جو باطل پر نقد کرنے والے اہل حق وسنت کو قبیح ترین صفات سے متصف کرتا ہو جس سے وہ بالکل بری ہيں جیسے ہدامین(بہت منہدم کرنے والے)، مفسدین، غلاۃ، حدادی، سلفی دعوت کے دشمنان اور اس کے خلاف لڑنے والے اور آخر تک جو بہت سا شر اور خطرناک ظلم اس کی طرف سے روا رکھا جاتا ہے۔ اس پر اضافہ یہ بھی کہ جو وہ سلفی منہج کے علماء کے ساتھ سلوک کرتے ہیں کہ اہل باطل کے بارے میں ان کے احکام اور فتاویٰ کو مسترد کردیتے ہیں۔
3- آپ دیکھیں اس عجیب اسلوب کو جس میں کئی ایک قواعد جمع ہیں:
’’حمل المجمل على المفصل‘‘ (مجمل کو مفصل پر محمول کرو) اس کے اپنے طریقے کے مطابق۔
’’منهج الموازنات بين الحسنات والسيئات‘‘ (مخالفین کا رد کرتے ہوئے ان کی اچھائیوں اور برائیوں میں موازنہ پیش کیا جائے)۔
اور اس کا یہ قاعدہ جس کا وہ دفاع کرتا پھرتا ہے:
’’نصحح ولانهدم‘‘۔
اور اس کا یہ قول کہ: ’’نريد منهجاً واسعاً يسع الأمة‘‘ (ہم ایک ایسا وسیع منہج چاہتے ہیں جو پوری امت کو اپنے اندر سمو لے)۔
کیا آپ نے اسے نہيں دیکھا کہ وہ کہتا ہے:
’’لیکن ہم غلطیوں کی اصلاح شخصیات کو مسخ کرکے نہ کریں۔ ٹھیک ہے، فلاں شخص کے پاس خیر ہے، لیکن اس سے ایک لغزش یا بہت سی لغزشیں ہوجاتی ہیں تو جو کچھ اس کے پاس ہے ہم اس کی تصحیح واصلاح کریں ، لیکن اسے مسخ نہ کریں ،گرائیں نہیں اور نہ ہی اس کے پاس جو خیر ہے اسے گرادیں اورفراموش کردیں، جبکہ وہ سیکولروں اور لبرلوں کے مقابل کھڑا ہوتا ہے‘‘۔
پس کیا یہ کلام سلف نے کیا ہے کبھی؟! اور اگر یہ لوگ سلفی منہج اور سلفیوں کے خلاف جنگ کرتے ہو تو پھر ان کے ہاں وہ تنگ نظری پر مبنی منہج ہے، اور مسلمانوں کے مابین فتنے کی آگ بھڑکانا ہے، اور ان کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنا ہے، اور اس منہج کے علماء جاسوس، ایجنٹ اور خائن ہيں، اور حکمران کے خچروں کے دم چھلے ہيں۔۔۔ اور آخر تک جو حقائق کو مسخ کرکے ہر محاذ پر جس میں وہ کودتے ہيں ان کے خلاف زہر پھیلاتے رہتے ہیں۔
اور گمراہی کے آئمہ ان کے یہاں منارۂ ہدایت اور مصلحین ہیں، اور ان کے مناہج ہی موجودہ دور کے چیلنجوں کا مقابلہ کرسکتے ہيں اور آخر تک جو وہ گمراہ کن دعوے کرتے پھرتے ہيں۔
ہم یہ کہیں گے:
جب معتزلہ لوگ ملحدین، فلاسفہ اور روافض کا مقابلہ کررہے ہوتے تھےتو کیا علماء سنت اس قسم کا کلام کہتے تھے جو ابو الحسن کہہ رہا ہے، اور جن لوگوں کے بارے میں وہ دعویٰ کررہا ہے کہ یہ لوگ سیکولروں کے مقابلے میں کھڑے ہوتے ہیں یہ ان اخوان المسلمین، سروری، قطبی اور ان جیسے دیگر سلفیوں کے دشمن لوگوں کے سوا اور کون ہیں ۔
پھر یہ بھی دیکھیں کہ کیا جو سلفی ہیں وہ ان سیکولروں اور روافض وغیرہ کے مقابلے میں کھڑے نہيں ہوتے؟! (جس کا احسان جتلایا جارہا ہے کہ بس یہی ان کا مقابلہ کرتے ہيں، یہ نہيں تو کوئی نہیں!)۔
اور یہ بھی دیکھیں کہ کیا یہ اخوان المسلمین جو ہیں ان سیکولروں اور کمیونسٹوں کے ساتھی اور دوست نہیں؟ اور ان کے علاوہ کے بارے میں تو یہ خود کہتے ہیں (جن کے خلاف ان کی حمایت کو کہا جارہا ہے کہ) کہ نصاریٰ ہمارے بھائی ہیں! (یا ہندو ہمارے بھائی ہیں!)۔
اور پھر یہ بھی دیکھیں کہ کیا یہ اخوان المسلمین اور سروری لوگ سلفیوں پر طعن وتشنیع سے باز آتے ہیں، خاموش رہتے ہیں؟
اور کیا یہ کافی ہے کہ بس ہم جلدی سے ایک اشارہ کرتے ہوئے ان کے سلفی منہج اور سلفیوں کے خلاف ان مکروہ افعال سے گزر جائيں۔
4- آپ یہ بھی دیکھیں کہ کس طرح وہ ان بدعات وضلالات کی خطرناکی کو کم کرنے کی کوشش کررہا ہے یہ کہتے ہوئے کہ محض ایک لغزش یا لغزشیں، پس کیا یہ سلف کی منطق ہے؟!
سلف کے دور میں تو کوئی شخص عقیدے میں ایک لغزش کا شکار ہوتا تو آئمہ سلف وحدیث اسے ساقط کردیتے، تو کیا وہ ہدامون (شخصیات کو مسخ کرنے والے) مفسدون، اور سلفی دعوت کے دشمنان تھے؟!
آپ نے نہيں دیکھا کہ خلیفۂ راشد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے صبیغ [3] کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ آخر صبیغ کے پاس کتنی بدعات اور فاسد اصول تھے؟! (بس ایک آدھ غلطی) تو اس خلیفہ راشد نے اس پر چار سزائیں اور عقوبتيں جمع کردیں:
1- قید۔
2- مار۔
3- جلاوطنی۔
4- ایک سال تک اس سے بائیکاٹ کا حکم یہاں تک کہ اس کی سچی توبہ ظاہر ہو۔
اس رشد وہدایت والے عہد سے لے کر ہمارے آج کے اس دن تک عالم اسلام میں سے کسی نے بھی اس خلیفۂ راشد پر انکار واعتراض نہیں کیا، الا یہ کہ روافض ہوں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل کو ان کی برائیاں گنتے ہیں۔
یہ عمل ابو الحسن کی منطق کے مطابق ہدم سے بھی بڑھ کر ہے۔
جو لوگ بدعات ومخالفات پر تنقید کرتے ہیں ہوسکتا ہے بیچارے بہت سی بدعات پر انکار کرنے سے عاجز ہوں یا کوتاہی ہو (یعنی جتنا یہ کرتے ہیں اس سے بھی زیادہ ہونا چاہیے مگر ان ابو الحسن جیسوں سے تو اتنا تک برداشت نہیں) اس کے باوجود ابو الحسن ان کے خلاف یہ شدید وسنسنی خیز مہم جوئی کرتا ہے۔اور ان کے خلاف جنگ کرنے اور ان کی صورت کو ، اور ان کے منہج ودعوت کو بدنما کرکے پیش کرنے کے لیے فاسد قواعد واصول گھڑتا ہے۔ اور ان کے خلاف پے درپے وہ سب وشتم وتہمتیں لگائے جاتا ہے جسے لکھنے کے لیے کئی صحائف بھی کم پڑجائيں۔۔۔
اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مواقف خوارج اور قدریہ کے خلاف بھی معروف و مشہور ہيں۔
اسی طرح سے تابعین عظام رحمہم اللہ کے اہل بدعت کے خلاف مواقف، اور تبع تابعین رحمہم اللہ کے بھی تمام اصناف کے اہل بدعت کے خلاف مواقف معروف ومشہور ہيں خواہ خوارج ہوں یا قدریہ، مرجئہ، شیعہ وروافض۔ حتیٰ کہ جو اہل سنت میں سے بھی بدعت میں واقع ہوجاتا تو اس سے اسی اسلامی منہج کے مطابق معاملہ کرتے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ اور جنہوں نے اچھے طور پر ان کی پیروی کی گامزن تھے۔
امام احمد رحمہ اللہ اور اہل حدیث کا مؤقف اپنے زمانے میں ان لوگو ں کے ساتھ جو علم و دین میں آئمہ اور اہل حدیث (محدثین) میں سے تھے لیکن وہ ابو الحسن کے بقول کسی لغزش یا لغزشوں میں واقع ہوئے تو اہل سنت ان تک کے خلاف کھڑے ہوگئےاور انہيں بدعت وضلات کا لیبل لگایا۔
پس ان میں سے بعض نے توبہ کی اور رجوع فرمایا جیسے اسماعیل بن علیہ رحمہ اللہ تھے۔
اور بعض اپنی لغزش پر قائم رہے اور ان پروہ لیبل چسپاں رہا جو امام احمد اور آئمہ حدیث رحمہم اللہ نے لگایا تھا جیسے داود الظاہری، حسین الکرابیسی، الحارث المحاسبی اور یعقوب بن شیبہ۔
پس یہ جو قطبی ،سروری[4] اور اخوان المسلمین والے ہیں ان مندرجہ بالا لوگوں کے مقابلے میں علم وفضل اور دین کے اعتبار سے کوئی برابری و وقعت نہيں رکھتے۔
تو کیا یہ آئمہ ہدامون (شخصیات کو مسخ کرنے والے) تھے کیونکہ بلاشبہ یہ ابو الحسن کے قواعد کو نہ جانتے تھے اور نہ ہی اس کی تطبیق کرتے تھے۔
پس ابو الحسن اور ان کے انصار کو چاہیے کہ وہ ان سے بغض رکھیں، ان کے خلاف جنگ کریں اور انہيں حدادی، ہدامین اور مفسدین کے القاب دیں، کیونکہ انہوں نے بلاشبہ ان کے ساتھ جو ان لوگوں سے شاید کہ سینکڑوں گنا بہتر تھے جن کا ابو الحسن دفاع کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ اہل سنت میں سے ہيں، اور ابو الحسن کہتا ہے جمعیت والوں کے ساتھ ان میں داخل ہونا چاہیے جیسے جمعیت الحکمۃ اور الاحسان[5] اور یہ کہ یہ اہل سنت اور سلفی ہيں۔
حالانکہ اہل سنت ان وساوس اور ان اول فول باتوں کو جنہیں ابو الحسن سلفی منہج کے نام سے رٹتا رہتا ہے نہیں جانتے۔
اور سلفی منہج اور سلفی پوری تاریخ میں ان اول فول باتوں اور اوچھی حرکتوں سے بری رہے ہیں کہ جو سلفی منہج اور سلفیوں کو ہی منہدم وتباہ و برباد کردے، جو نہ سنت کا پرچم بنائے نہ بلند کرے، جو اہل بدعت کو کوئی فائدہ نہيں بلکہ نقصان پہنچاتے ہیں اس طور پر کہ وہ اس کی وجہ سے اپنی خودفریبی میں ہی بڑھتے جاتے ہيں، اور ان کے باطل پر جمے رہنے میں انہيں بڑھاوا دینے کا سبب ہے۔ خصوصاً جبکہ ابو الحسن انہيں اہل سنت سے موصوف کرتا ہے۔ تو یہ بیچارہ غلاۃ مرجئہ کے منہج پر گامزن ہے جو کہتے ہیں کہ: ’’ایمان کے ساتھ کوئی گناہ نقصان دہ نہيں رہتا‘‘ اور یہ کہتا ہے: ’’سلفیت کے ساتھ کوئی چیز نقصان نہیں دیتی‘‘۔
اسی طرح سے وہ اخوان المسلمین کے منہج پر بھی گامزن ہے اس بارے میں کہ بدعت کے معاملے کو حقیر و ہلکا بنا کر پیش کرتا ہے[6]۔
اور علامہ ربیع المدخلی حفظہ اللہ سے پوچھا گیا: ہم آپ سے عدنان کے بنائے گئے اس قاعدے پر تعلیق کی امید کرتے ہیں کہ: ’’نصحح ولا نجرح‘‘ (ہم تصحیح کریں جرح نہ کریں) کیا یہ صحیح ہے جیسا کہ وہ اس کا دفاع کرتے ہوئے سمجھتا ہے، یا پھر یہ شرعی اعتبار سے غیرصحیح ہے؟
شیخ حفظہ اللہ نے جواب دیا:
بسم الله، والحمدلله، والصلاة والسلام على رسول الله:
یہ قاعدہ کہ’’نصحح ولا نجرح‘‘ (ہم تصحیح کریں جرح نہ کریں) اگرچہ یہ خود اس کے اپنے دوسرے قاعدے کے خلاف ہے کہ’’إذا حكمت حوكمت‘‘ (اگر تم کسی پر حکم لگاؤ گے تو تم پر بھی حکم لگایا جائے گا) یا اگر میں کسی پر حکم لگاؤ گا تو تیار رہوں کہ مجھ پر بھی حکم لگایا جائے گا، بہرحال دونوں صورتوں میں نتیجہ و مقصود تو ایک ہی ہے، اور وہ یہ ہے کہ سلفیوں کو خاموش کروانا کہ جو حق ہے ان کے پاس اسے ظاہر نہ کریں اور جو غیروں کے پاس باطل ہے اس کا رد و ابطال نہ کریں، اور انہیں اہل بدعت وضلات پر نقد کرنے سے خاموش کروادیا جائے۔
بہرحال اس کا مقصد جو بھی ہے یہ باطل ہے صیغے اور مقصد دونوں اعتبار سے۔ہم نے آج تک اس بات پر اس کی طرف سے کوئی دلیل نہیں سنی، اور اگر کبھی وہ استدلال کرتا بھی ہے تو بھی بالکل بےسروپا، اور اس کا بطلان تو قرآن کریم کی بہت سے آیات و سورتوں سے واضح ہے کہ ان میں اہل باطل کا محض نقد ورد کیا گیا ہے جس میں صرف اور صرف ان کفار و منافقین وغیرہ اللہ کے دشمنوں کے نقد اور جرح کے سوا کچھ نہیں ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نقد فرمائی، سلف صالحین نے نقد فرمائی، اور کتب جرح وتعدیل خصوصاً وہ کتب جو محض جرح کے لیے مخصوص ہیں، کیونکہ بلاشبہ کتبِ جرح میں وارد ہونے والا ہر ترجمہ (سوانح/تعارف) اس فاسد قاعدے کا رد کرتا ہے اور اسے باطل قرار دیتاہے۔۔۔
اسی طرح سے جو جرح وتعدیل کی مشترکہ کتب ہیں وہ بھی ایسی نقد ِمجرد (صرف نقد) سے بھری پڑی جس میں سوائے جرح کے اور کچھ نہیں۔۔۔
اور ہمارے لیے تو یہی کافی ہے کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعض لوگوں پر نقد فرمائی صرف ان کے عیب پر اقتصاد کرتے ہوئے۔۔۔
( اس کے بعد شیخ حفظہ اللہ نے اس بارے میں بعض احادیث ذکر فرمائيں)۔
فرماتے ہیں:
پھر ان لوگوں کو کیا کہا جائے جو اپنے فاسد قواعد کے ذریعے ا0س منہج نقد کو ساقط کرنا چاہتے ہیں، حالانکہ منہج نقد کو ساقط کرنا ایک ایسی اصل عظیم کو ساقط کرنا ہے کہ اسلام قائم ہی نہیں مگر اس کے ذریعے[7]۔
اور شیخ حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
اور ان کے اصولوں میں سے جو کہ سلفیت کا لبادہ اوڑھ کر اہل سنت اور ان کے منہج کے خلاف جنگ کرتےہیں یہ بھی ہے کہ:
’’نصحح ولا نجرح‘‘ (ہم تصحیح واصلاح کریں جرح نہيں کریں) جس سے وہ لوگوں کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں گویا کہ ہم بڑے اہل زہد وورع، متقی پارسا وانصاف پسند لوگ ہیں۔حالانکہ وہ اپنے اس خودساختہ اصول کے ذریعے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور منہج سلف صالحین جو کہ کتاب وسنت پر قائم ہے کی مخالفت کررہے ہوتے ہیں، اور اہل حدیث وسنت اور جرح وتعدیل میں جو ان کے اصول ہیں ان کی تاریخ کی صبح سے لے کر آج تک اس سے تصادم کررہے ہوتے ہیں، جن کی جرح وتعدیل پر اور خاص جرح کی مؤلفات بھری پڑی ہیں اہل بدعت وغیرہ جیسے کذابین اور متہم لوگوں کی جرح سے۔ اسی طرح سے وہ اور دواوین اہل سنت کے بھی متصادم ہیں جو اہل بدعت کی نقد اور ان کے عقائد کے بیان پر مدون ہیں جیسے جہمیہ، معتزلہ، خوارج، مرجئہ اور صوفیہ وغیرہ، انہوں نے ان پر نقد کی اور ان کے گروہوں کے گروہوں پر بھی جرح کی اور ان کی مخصوص ومتعین شخصیات خصوصاً ان کے داعیان پر بھی جرح کی[8]۔
[1] دیکھیں مجموعۃ کتب ورسائل 13/80۔
[2] اخرجہ مسلم فی کتاب الایمان، باب بیان ان الدین النصیحۃ، حدیث رقم 55۔
[3] اس کا قصہ عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ الدارمی نے اپنی سنن 1/54، الآجری نے الشریعۃ ص 73 میں اور اللالکائی نے اصول الاعتقاد 1137 میں روایت کیا ہے۔
[4] قطبی اور اخوان المفلسین کا ترجمہ وتعارف پہلے گزر چکا ہے۔ البتہ سروری محمد سرور زین العابدین تکفیری کے پیروکار ہيں، اور ان کا فرقہ قطبیوں سے ہی نکلا ہے، انہی کے اصولوں پر گامزن ہے۔ اور محمد سرور تکفیری کا ایک مجلہ بھی ہے جسے اس نے ’’مجلۃ السنۃ‘‘ کا نام دیا ہے ، جس کے تعلق سے شیخ مقبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمیں حق پہنچتا ہے کہ ہے اس مجلے کو مجلۃ البدعۃ کا نام دیں، اور حقیقت بھی وہی ہے جیسا کہ شیخ رحمہ اللہ نے فرمایا۔
آپ کے پیش خدمت ہے بعض بکواسیں جو اس سروری نے اپنے مجلہ میں کی ہیں:
1- شمارہ 26 صادر سن 1413ھ ص 2-3 میں کہتا ہے:
۔۔۔ان منتخب فقروں سے قارئین کو وہ بہت سی باتیں سمجھ آجائيں گی جو ہمارے عالم اسلام میں چل رہی ہیں۔ چنانچہ عبودیت وبندگی کے آج درجہ بندی کے اعتبار سے یہ طبقات ہیں:
پہلا طبقہ: جو اس کے تخت پر براجمان ہے وہ اقوام متحدہ کا صدر جورج بش ہے جو کل کلنٹن بھی ہوسکتا ہے۔
دوسرا طبقہ: یہ طبقہ عرب ممالک کے حکمرانوں کا ہے۔
تیسرا طبقہ: ان عرب کے حکمرانوں کے حاشیہ نشین جیسے وزراء، وزراء کے وکلاء، فوجی قائدین، مشیر، تو یہ لوگ اپنے بڑوں کے لیے منافقت اختیار کرتے ہیں، اور بےحیائی، بےشرمی وبے مروتی سے ان کے لیے ہر باطل کو مزین کرکے پیش کرتے ہیں۔
چوتھا، پانچواں اور چھٹا طبقہ: وزراء کے پاس بڑے ملازمین جو یہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اگر اپنا عہدہ بڑھانا ہے تو اس کی اولین شرط ہے نفاق و ذلت اختیار کرو اور جو بھی آرڈر انہیں دیا جائے اس کی بلاچوں چراں تعمیل کرو۔۔۔
اور اسی مجلہ کے شمارے 16 میں اسی سابقہ کلام کو ذکر کرکے کہتا ہے:
پہلے زمانے کی غلامی سادہ سی ہوتی تھی، کیونکہ غلام اور اس کا آقا کا براہ راست تعلق ہوتا تھا۔ لیکن آج کی غلامی بڑی پیچیدہ ہے۔ میرے تو حیرت کی انتہاء نہیں رہتی ان لوگوں کے تعلق سے جو توحید کی باتیں کرتے ہیں حالانکہ درحقیقت وہ غلام در غلام در غلام درغلام درغلام ہوتے ہیں۔ اور ان کا سب سے آخری آقا کوئی نصرانی ہوتا ہے۔
(اور اس کی اس سے مراد علماء سنت ہیں خصوصاً سعودی عرب کے سلفی مشایخ، دیکھیں کتاب ’’القطبية هي الفتنة فاعرفوها‘‘)۔
اس فرقے کے تعلق سے خلاصۂ کلام یہ ہے جو کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ بلاشبہ یہ: ’’خارجية عصرية‘‘ (اس دور کی خارجیت ہے)۔
[5] یہ دونوں حزبی جمعیات ہیں:
ان دونوں کے تعلق سے شیخ مقبل بن ہادی الوادعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں جیسا کہ آپ کی کتاب ’’تحفة المجيب على أسئلة الحاضر والغريب‘‘ ص 291-293 میں ہے کہ:
’’اور ہم جمعیت الحکمۃ والوں کو بدعتی مانتے ہیں، اسی طرح سے جمعیت الاحسان والوں کو بھی، اور ان ہی کی طرح الاصلاح والوں، صوفیوں اور شیعہ کو بھی‘‘۔
اور علامہ ربیع المدخلی حفظہ اللہ اپنی کتاب ’’حقيقة المنهج الواسع عند أبي الحسن‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’اور ان میں سے سب سے شدید جمعیت والے ہيں جو سلفیت کا دعویٰ کرتے ہيں جو جمعیت الحکمۃ اور جمعیت الاحسان والے ہيں کہ جو دو مجلات اہل سنت کے خلاف جھوٹ اور بہتان پر مبنی جنگ کے لیے نکالتے ہيں جن کا نام ’’مجلۃ الفرقان‘‘ اور ’’مجلۃ المنتدیٰ‘‘ ہے، کتنے ہی ان میں شیخ مقبل اور ان کے تلامیذ اسی طرح شیخ ربیع کے خلاف ظالمانہ مہم چلائی جاتی ہے خصوصاً مجلۃ الفرقان جس کہ کرتا دھرتا لوگوں کو ذرا بھی حیاء نہیں کہ وہ اس الترابی کا دفاع کرتے ہیں جو وحدت ادیان کی طرف دعوت دیتا ہے، اور سیدقطب کا جو کہ وحدۃ الوجود کا داعی، اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب وشتم کرنے والا بلکہ اللہ تعالی کے نبی ورسول موسی علیہ الصلاۃ والسلام کو سب وشتم کرنے والا، اشتراکیت کا داعی، اہل ضلالت وگمراہی کے اصولوں کی طرف دعوت دینے والا ہے، اور انہیں کوئی حیاء شرم نہیں آتی کہ وہ الشعراوی، ابو غدہ، الغزالی اور ان جیسے اہل ضلالت وگمراہی کی ایک بڑی تعداد کا دفاع کرتے ہیں‘‘۔
[6] دیکھیں مجموعۃ کتب ورسائل الشیخ 13/373-378۔
[7] دیکھیں مجموعۃ کتب ورسائل 11/152-153۔
[8] دیکھیں شیخ کی ویب سائٹ پر مقالہ ’’من بيان الجهل والخبال في مقال حسم السجال رد على المسمى بـِ “مختار طيباوي”‘‘ (پہلا حلقہ)۔
ترجمہ: طارق بن علی بروہی
مصدر: جهود العلامة ربيع المدخلي في نقض شبهات الحزبيين (الفصل الثاني في نقض شبهات متعلقة ببعض قواعد الجرح والعتديل والرد على المخالف: الشبهة الأولى)۔