ماہ رجب کے خطبات جمعہ میں اسراء و معراج کو ذکر کرنا – شیخ محمد بن صالح العثیمین

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال:   مساجد کے بہت سے خطباء کا اس مہینے (یعنی رجب میں)  خطبے کا موضوع اسراء و معراج ہوتا ہے، کیا اس میں کوئی حرج ہے یا نہیں؟

جواب: میرے خیال سے یہ مناسب نہيں ہے۔ کیونکہ بلاشبہ اس ماہ کے خطبے میں اسراء و معراج کا ذکر کرنے کا مطلب ہوا کہ ہم اس بات کی تاکید کررہے ہیں کہ واقعی معراج اس ماہ میں ہوئی تھی، جبکہ یہ بات غلط ہے۔

معراج کے تعلق سے قریب ترین قول یہ ہے کہ: یہ ربیع الاول میں تھی، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کی ابتداء بھی ماہ ربیع الاول میں ہوئی تھی۔

سب سے پہلے جو وحی آنا شروع ہوئی تو وہ ماہ ربیع الاول میں تھی۔ اورآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خواب دیکھا کرتے تھے جو کہ روشن صبح کی طرح نمودار ہوتا۔ اور رمضان میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قرآن مجید کا نزول ہوا۔

اگرچہ اس بارے میں کوئی صریح صحیح نص نہیں ہے البتہ جو قریب ترین بات اس تعلق سے کہی گئی ہے وہ یہ ہے  کہ: یہ ربیع الاول میں ہوئی ناکہ رجب میں۔

اسی لیے خطباء کو اس مہینے میں قصۂ معراج نہيں بیان کرنا چاہیے، کیونکہ یہ اس کے (اس ماہ میں ہونے کے) ثابت کرنے کے مترادف ہے۔ اور جب عوام کے دل میں یہ بات ثابت ہوجائے تو عقیدہ بن جایا کرتی ہے۔

مصدر: اللقاء الشهري>اللقاء الشهري [40]، حكم الكلام عن الإسراء والمعراج في خطبة شهر رجب۔

ترجمہ: طارق علی بروہی

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*