ہیٹر یا انگیٹھی کے سامنے نماز پڑھنا؟

صحیح بخاری کتاب الصلاۃ میں امام بخاری رحمہ اللہ باب قائم کرتے ہیں:

”بَابُ مَنْ صَلَّى وَقُدَّامَهُ تَنُّورٌ أَوْ نَارٌ أَوْ شَيْءٌ مِمَّا يُعْبَدُ، فَأَرَادَ بِهِ اللَّهَ“

 (باب اس بارے میں کہ اگر کوئی نماز پڑھے اور اس کے آگے تندور، یا آگ، یا اور کوئی چیز ہوجس کی عبادت کی جاتی ہے، لیکن اس نمازی کا ارادہ صرف اللہ (کی عبادت) ہو)

زہری فرماتے ہیں مجھے انس بن مالک  رحمہ اللہ نے خبر دیتے ہوئے بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

”عُرِضَتْ عَلَيَّ النَّارُ وَأَنَا أُصَلِّي “

(مجھ پر (جہنم کی) آگ  پیش کی گئی جبکہ میں نماز پڑھ رہا تھا)

ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، فرماتے ہیں:

”انْخَسَفَتِ الشَّمْسُ فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: أُرِيتُ النَّارَ، فَلَمْ أَرَ مَنْظَرًا كَالْيَوْمِ قَطُّ أَفْظَعَ“

(سورج گرہن ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز پڑھی پھر فرمایا کہ:  مجھے آگ دکھائی گئی، آج جو میں نے دیکھا اس سے زیادہ بھیانک منظر میں نے کبھی نہیں دیکھا)۔

امام ابن رجب الحنبلی رحمہ اللہ اپنی صحیح بخاری کی شرح فتح الباری میں فرماتے ہیں:

ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اس حدیث کو آپ اپنی طوالت کے ساتھ ”ابواب صلاۃ الکسوف“ میں لائے ہیں، اور وہاں اس کا معنی بھی اسماء بنت ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہا کی حدیث سے لائے ہیں۔

اور جہاں تک انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کا تعلق ہے جسے آپ نے تعلیقا ً ذکر کیا ہے تو وہ ایک طویل حدیث کا ٹکڑا ہے جس میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زوال کے بعد ظہر کی نماز پڑھی پھر منبر پر چڑھے اور قیامت کا ذکر فرمایا، پھر کہا کہ: جو چاہتا ہو کچھ پوچھنا تو پوچھ لے۔۔۔اس کے آخر میں ہے کہ فرمایا: مجھ پر جنت اور (جہنم  کی) آگ اس دیوار کے کونے یا سامنے پیش کی گئی،  پس میں نے نہ اس (جنت) جیسی کوئی خیر  دیکھی، نہ اس (جہنم) جیسا کوئی شر۔ اور بخاری نے اس حدیث کو مکمل طور پر باب ”وقت الصلاۃ عند الزوال “ میں لائے ہیں، جو عنقریب آئے گا ان شاء اللہ۔ اور اس کا بعض حصہ کتاب العلم میں لائے ہیں  جیسا کہ پہلے گزرا اور اسی معنی کی روایت حدیث قتادہ عن انس رضی اللہ عنہ سے بھی کتاب الفتن میں لائے ہيں۔

 الزہری اور قتادہ عن انس کی حدیث  میں یہ نہيں ہے کہ جنت اور آگ کو نماز میں پیش کیا گیا۔

اسی طرح سے اسے باب ”رفع البر الی الامام فی الصلاۃ“ میں فلیح کی حدیث سے لائے ہيں، ہمیں حدیث بیان کی ہلال بن علی نے انس رضی اللہ عنہ سے کہ فرمایا: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز پڑھائی پھر منبر پر چڑھ گئے اور اپنے ہاتھ سے مسجد کے قبلے کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے کہا: میں ابھی جب تمہیں نماز پڑھا رہا تھا تو میں نے جنت اور آگ کو دیکھا جن کی تمثیل اس دیوار پر قبلے کی جانب ظاہر ہوئيں، میں نے ان جیسے  خیر اور شر نہیں دیکھے۔ ایسا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا۔

اسی طرح مسلم  عبدالملک بن ابی سلیمان سے حدیث  لائے ہيں عن عطاء عن جابر رضی اللہ عنہ فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں سورج گرہن ہوا ۔ پس انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز اور خطبے کا ذکر فرمایا، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس میں یہ بھی فرمایا کہ: کوئی بھی چیز ایسی نہ رہی جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے مگر یہ کہ میں نے اپنی اس نماز میں وہ دیکھ لی، اور (جہنم کی) آگ لائی گئی اس وقت جب تم نے مجھے دیکھا تھا کہ میں پیچھے ہٹا، وہ اس ڈر سے تھا کہ کہیں اس کے تپش مجھے نہ لگ جائے۔ اور پھر یہ حدیث بیان کی۔

بخاری کا اس باب سے مقصود یہ ہے کہ  جو کوئی اللہ عزوجل کے لیے نماز پڑھتا ہے اور اس کے سامنے ایسی چیزوں میں سے کچھ ہو جن کی اللہ کے سوا عبادت کی جاتی ہے جیسا کہ آگ یا تندور وغیرہ، تو بلاشبہ اس کی نماز صحیح ہے۔ اور آپ کے کلام سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اسے مکروہ بھی نہیں سمجھتے۔

اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نماز کی حالت میں آگ کے پیش کیے  جانے سے استدلال فرمایا ہے، حالانکہ اس استدلال میں کچھ نظر ہے۔

الاسماعیلی فرماتے ہیں: جو آگ اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دکھلائی اور آپ اس پر مطلع ہوئے وہ اس درجے پر نہیں جس کی جانب یوں متوجہ ہوا جاتا ہے جو کسی قوم کے نزدیک معبود ہوتی ہے۔ لہذا جسے کوئی چیز دکھائی گئی تاکہ وہ دوسروں کو بتائے کہ کیا دکھایا گیا اس کا وہ حکم نہیں ہوتا جو باقاعدہ اپنے سامنے کوئی چیز خود رکھے یا اپنے سامنے اسے پڑا دیکھے پس اسے اپنے مصلے اور قبلہ کے سامنے کردے۔اھ

چنانچہ مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر اس میں فرق کی جانب اشارہ فرمایا:

جن میں سے یہ ہے کہ: بے شک جو لوگ آگ یا تندور کے سامنے نماز کو مکروہ سمجھتے ہیں وہ اسی صورت میں کرتے ہیں  جب نمازی نے ایسا جان بوجھ کر کیا ہو، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آگ کا پیش کیا جانا اس طرح کا نہ تھا۔

اس میں سے یہ بھی ہے کہ: جو بات مکروہ ہے وہ اس دنیاوی  آگ کی طرف رخ کرنا ہے، کیونکہ اسی کی تو اللہ کے سوا عبادت کی جاتی ہے، جبکہ جو جہنم کی آگ ہے وہ تو کافروں کے لیے دار ِعذاب ہے، پس وہ دنیاوی آگ کی مانند نہیں۔

اور اس میں سے یہ بھی ہے کہ: بلاشبہ جو کچھ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو امور غیب میں سے دکھایا جاتا ہے اس سے دنیاوی امور کے احکامات کو نہيں جوڑا جاتا۔ اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ: جبریل علیہ الصلاۃ والسلام کا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سینہ چیر کر دل کو سونے کی پلیٹ میں دھونے سے یہ حکم ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ دنیا میں سونے کے برتن استعمال کرنا جائز ہے۔

بہت سے علماء کرام نے آگ کی طرف نماز پڑھنے کو مکروہ کہا ہے۔ جن میں سے ابن سیرین ہیں کہ وہ تندور کی طرف نماز کو مکروہ کہتے، اور فرماتے: یہ آگ کا گھر ہے، اور سفیان نے فرمایا:  مسجد کے قبلے کی جانب چراغ رکھنا مکروہ ہے۔ اور اسحاق نے فرمایا: چراغ میں کوئی حرج نہیں البتہ  چولہے کو میں مکروہ سمجھتا ہوں، ان سے حرب نے یہ بات نقل کی۔

مہنا کہتے ہیں: میں نے احمد سے چراغ اور لالٹین کے متعلق پوچھا جو مسجد کے قبلے کی جانب ہوں؟ فرمایا: میں اسے مکروہ سمجھتا ہوں، اور میں (اس بارے میں) ہر چیز کو ہی مکروہ سمجھتا ہوں حتیٰ کہ وہ لوگ قبلے کی جانب کسی چیز کو بھی رکھنا مکروہ سمجھتے تھے چاہے مصحف ہی کیو ں نہ ہو۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما مکروہ سمجھتے کہ ان کے اور قبلے کے مابین کوئی چیز ہو۔ الفرج بن الصباح البرزاطی نقل کرتے ہیں احمد سے کہ فرمایا: اگر تندور ان کے قبلے کی طرف ہوتا تو اس جانب نماز نہ پڑھتے۔ ابن سیرین اسے مکروہ سمجھتے کہ تندور کی طرف نماز پڑھی جائے۔

مکروہ جاننے کی وجہ یہ ہے کہ: کیونکہ اس میں آتش پرستوں کی ظاہر صورت کے لحاظ سے مشابہت پائی جاتی ہے، لہذا وہ اسے مکروہ سمجھتے ہيں اگرچہ نمازی اللہ کے لیے ہی نماز پڑھ رہا ہوتا ہے، جیسا کہ طلوع اور غروب آفتاب کے وقت نماز پڑھنا مکروہ ہے کیونکہ اس وقت اللہ کے لیے سجدہ کرنے والے کی مشابہت سورج کی پوجا کرنے والوں سے ظاہری صورت میں ہورہی ہوتی ہے، جیسا کہ بت کی طرف یا بنائی گئی صورتو ں کی طرف نماز پڑھنا مکروہ ہے۔

میمونی کی روایت میں احمد فرماتے ہیں: اپنے چہرے کی جانب منصوب کی گئی صورت کی طرف نماز نہ پڑھے۔ صورتوں کی طرف نماز پڑھنے کی کراہیت کا ذکر پہلے گزر چکا ہے۔

جہاں تک بات ہے اسحاق کا چراغ کو اس سے مستثنیٰ کرنا تو اس کی جانب حرب نے ان کے استدلال کے تعلق سے اشارہ کیا ہے جو اسباط عن سماک عن عکرمہ عن ابن عباس رضی اللہ عنہما کے طریق سے ہے کہ فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک چٹائی پر نماز پڑھ رہے تھے اور ان کے سامنے چراغ تھا، تو ایک چوہیا آئی اور چراغ کی بتی کو کھینچ کر چٹائی پر گرا دیا جس کی وجہ سے اس میں سے درہم کے جتنی جگہ جل گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک یہ شرارتی گھر والوں کا گھر جلادیتی ہے۔

اسے ابو داود بھی لائے ہیں لیکن اس میں چٹائی پر نماز پڑھنے کا ذکر نہيں ہے، نہ ہی یہ ذکر ہے کہ آپ کے سامنے چراغ تھا۔

اگر نمازی کے سامنے نماز میں آگ لا کر رکھ دی جائے تو اس کی نماز باطل نہیں ہوتی اور اسے حسب قدرت زائل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

صحیح  مسلم میں ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے امامت کروا رہے تھے کہ ہم نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمارہے ہیں: میں تجھ سے اللہ کی پناہ طلب کرتا ہوں۔ پھر فرمایا: اللہ کی لعنت کے ذریعے میں تجھ پر لعنت کرتا ہوں ، تین مرتبہ ایسا فرمایا۔ پھر اپنا ہاتھ پھیلایا گویا کہ آپ کوئی چیز پکڑ رہے ہوں۔ پھر جب نماز سے فارغ ہوئے۔ ہم نے عرض کی یا رسول اللہ! ہم نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز میں ایک چیز کہہ رہے تھے جو ہم نے اس سے پہلے آپ کو کہتے ہوئے نہيں سنا، اسی طرح ہم نے دیکھا کہ آپ نے اپنا ہاتھ پھیلایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ اللہ کا دشمن ابلیس تھا جو آگ کا ایک شعلہ لے کر آیا تھا تاکہ میرے چہرے پر ڈالے، تو میں نے کہا: میں تجھ سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرتا ہوں، تین مرتبہ۔ پھر میں نے کہا: اللہ کی مکمل لعنت کے ذریعے میں تجھ پر لعنت کرتا ہوں لیکن وہ بعض نہ آیا ، تین مرتبہ، پھر میں نے ارادہ کیا کہ اسے پکڑ لوں۔ اللہ کی قسم! اگر ہمارے بھائی سلیمان علیہ الصلاۃ والسلام کی دعاء نہ ہوتی تو صبح ہوتے وہ بندھا ہوتا اور مدینے والوں کے بچے اس سےکھیل رہے ہوتے۔

اسی طرح امام احمد سماک بن حرب کی حدیث میں سے لائے کہ انہوں نے جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز فجر پڑھائی جس میں آپ اپنے ہاتھ کو آگے بڑھا رہے تھے تو نماز سے فارغ ہوکر لوگوں کے پوچھنے پر بتایا کہ: بے شک وہ شیطان تھا جو مجھ پر آگ کا شعلہ ڈالنا چاہتا تھا تاکہ مجھے نماز سے غافل کرے تو میں نے اسے پکڑ لیا، اگر میں اسے پکڑے رہتا تو وہ مجھ سے خود کو چھڑا نہ پاتا یہاں تک کہ میں اسے اس مسجد کے ستونوں میں سے کسی ستون سے باندھ دیتا جسے مدینے کے بچے دیکھتے([1])۔

سوال: سماحۃ الشیخ! انگیٹھی (آتش دان) یا الیکٹرک ہیٹر کے سامنے نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے، کیا ایسا کرنے والا گنہگار ہے؟

جواب شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ:

اس کا ترک کرنا اولیٰ ہے، آگ کی طرف نماز پڑھنا مکروہ ہے، اگر نماز ی کے سامنے آگ ہو تو یہ مکروہ ہے۔ کیونکہ اس میں آگ کے پجاریوں (آتش پرستوں) کی مشابہت پائی جاتی ہے۔ اگر اس کے سامنے کوئی چیز ہو تو اسے بجھا دے، یا  پھر اسے پیچھے یا دائیں یا بائیں لے جائے، سامنے پڑا نہ رہنے دے، یہ مکروہ ہے کہ وہ اس کے سامنے نماز پڑھے۔ البتہ نماز اس کی صحیح ہے (یعنی ادا ہوجاتی ہے)، لیکن یہ عمل مکروہ ہے، کیونکہ اس میں ایک قسم کی مشابہت پائی جاتی ہے۔

سائل: شیخ اگر وہ فرض نماز پڑھ رہا تھا تو کیا اسے لوٹائے گا؟

شیخ: نہيں، کچھ بھی نہيں لوٹائے گا، ایسا نہیں ہے۔ بس اسے ترک کرنا چاہیے تھا، اپنے سامنے جلتے چراغ کو بجھا دے، ورنہ کسی دوسری جگہ منتقل ہوجائے۔البتہ اگر وہ اسی حالت میں نماز پڑھ لیتا ہے کہ آگ اس کے سامنے تھی تو اس کی نماز درست ہے، لیکن یہ مکروہ (ناپسندیدہ) بات ہے([2])۔

سوال: مساجد میں بعض نمازی اس اشکال کا شکار ہیں کہ نمازیو ں کے سامنے الیکٹرک ہیٹر رکھنا کیسا ہے، کیا یہ حرام ہے یا بس مکروہ ہے جس سے بچنا چاہیے؟ اور کیا آگ کے سامنے نماز پڑھنا حرام ہے یا مکروہ ہے؟

جواب از شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ:

علماء کرام کا آگ کے سامنے نماز پڑھنے کے بارے میں اختلاف ہے: بعض اسے مکروہ کہتے ہیں اور بعض اسے مکروہ نہیں سمجھتے۔ جو اسے مکروہ سمجھتے ہيں وہ یہ علت بتاتے ہیں کہ اس میں آتش پرستوں کی مشابہت ہے۔ حالانکہ یہ بات معروف ہے کہ  آتش پرست لوگ شعلے مارتی آگ کی پوجا کرتے ہيں البتہ جو بغیر شعلوں والی ہوتی ہے تو اس علت کا تقاضہ ہے کہ اس کی طرف نماز مکروہ نہ ہو۔

پھر یہ بھی ہے کہ یقیناً لوگوں کو سردیوں میں ان ہیٹرز کی ضرورت ہوتی ہے گرم رہنے کے لیے اگر وہ اسے اپنے پیچھے رکھ دیتے ہیں تو اس کا فائدہ فوت یا کم ہوجائے گا، اور اگر اپنے دائیں یا بائيں رکھتے ہيں تو بھی اس سے سوائے چند لوگوں کے جو اس کے قریب ہوں گے باقی فائدہ نہیں اٹھا پائيں گے ۔ چنانچہ  اس کے سوا کوئی چارہ نہيں رہتا کہ اسے ان کے سامنے ہونا چاہیے تاکہ اس سے مکمل فائدہ اٹھایا جاسکے۔ اور اہل علم کے ہاں یہ معروف قاعدہ ہے کہ بلاشبہ مکروہ ضرورت کے وقت مباح (جائز) ہوجاتا ہے۔

اور یہ بات بھی ہے کہ غالباً  یہ ہیٹرز امام کے سامنے نہیں ہوتے بلکہ مقتدیوں کے سامنے ہوتے ہیں جس سے یہ معاملہ اور بھی ہلکا ہوجاتا ہے، کیونکہ یقیناً امام نمونہ ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ امام کا سترہ مقتدیوں کا سترہ ہوتا ہے([3])۔

سوال: آپ فضیلۃ الشیخ پر مخفی نہيں جو لوگوں کو موسم سرما کے ان سرد ایام میں الیکٹرک ہیٹرز  کی مساجد میں ضرورت پڑتی ہے۔لیکن بعض نمازیوں میں ان ہیٹرز کے سامنے نماز پڑھنے کے بارے میں اختلاف واقع ہوگیا ہے کیونکہ یقیناً یہ اہم معاملہ ہے۔ اور لوگوں کو اس بارے میں صحیح حکم کی طرف رہنمائی ملنا  اور ان کے لیے اسے نشر ہونا ضروری ہے ۔ لہذا ہم آپ فضیلۃ الشیخ سے امید کرتے ہيں کہ اس حکم کے تعلق سے آپ جو رائے رکھتے ہیں وہ لکھ دیجئے۔اس مناسبت سے بھی کہ موسم بہار کی چھٹیاں قریب آچکی ہیں جس میں باکثرت نوجوان صحراء میں خیمے لگاتے ہیں، ہم آپ سے امید کرتے ہیں کہ اس بارے میں بھی بتائيں کہ ایسی جگہوں کے سامنے نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے جو آتش دان کے طور پر استعمال کرتے ہيں اور اس میں آگ بھڑک رہی ہوتی ہے؟

جواب از شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ:

  نمازیوں کے سامنے ہیٹرز رکھنا مکروہ نہيں ہے، بلکہ جائز ہے، اور یہ آگ کی جانب رخ کرنے میں سے نہیں ہے کہ جس کےبارے میں بعض فقہاء نے کہا ہے کہ یہ مکروہ ہے۔ کیونکہ جو بات بعض فقہاء نے ذکر کی ہے وہ اس آگ کے بارے میں ہے جو مجوسیوں کی آگ کی طرح ہو کہ جس کی وہ عبادت کرتے ہیں اور وہ بھڑکتی ہوئی شعلوں والی آگ ہوتی ہے۔

اور جو کچھ خیموں میں ہوتا ہے اگر وہ  الیکٹرک ہیٹرز ہیں  تو ان کا حکم واضح ہوچکا ہے۔ اور اگر شعلوں والی جلتی آگ ہے تو وہ اس میں داخل ہے جسے بعض فقہاء کرام نے مکروہ کہا ہے، لہذا انہيں چاہیے کہ اسے اپنے پیچھے کرلیں، یا دائیں یا بائيں([4])۔


[1] فتح الباری شرح صحیح البخاری لابن رجب الحنبلی ج  3 ص 227-231۔

[2] نور على الدرب حكم الصلاة إلى موقد النار أو المدفأة الكهربائية

[3] مجموع فتاوى و رسائل الشيخ محمد صالح العثيمين المجلد الثاني عشر – باب استقبال القبلة

[4] مجموع فتاوى ورسائل الشيخ محمد صالح العثيمين – المجلد الثالث عشر – كتاب السترة في الصلاة

ترجمہ و ترتیب: طارق بن علی بروہی

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*