رمضان میں باکثرت قرآن کریم کے ختم نکالنا افضل ہے یا تدبر کے ساتھ قرأت کرنا؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال: کیا رمضان میں انسان کے لیے افضل ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ ختم قرآن کرتا رہے  یا آرام اور آہستگی (ترتیل) سے اس کی تفسیر کے ساتھ ایک یا دو بارمکمل پڑھ لے؟

جواب از شیخ احمد بن یحیی النجمی  رحمہ اللہ :

اللہ کی قسم اگر وہ ایک مرتبہ ہی اس کی تفسیر اور فہم کے ساتھ پڑھے گا اس سے بہت بہتر ہے کہ وہ بس یوں ہی جلدی جلدی پڑھتا رہے۔

عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  کو جب کسی شخص نے کہا کہ میں نے گزشتہ رات مفصل سورتیں پڑھیں (اور مفصل سورتیں تقریباً 4 پارے ہیں یعنی سورۂ ق سے لے کر جو اس کے بعد ہیں) اس پر انہوں نے اس شخص کو کہا:

’’هَذًّا كَهَزِّ الشِّعْرِ‘‘([1])

(کیا شعر کی طرح تیز رفتاری سے پڑھ لیا!)۔

پس انسان کو چاہیے کہ غور و تدبر کے ساتھ پڑھے اگر اس نے تفسیر پڑھ رکھی ہے اور اسے معانی معلوم ہیں تو یہ اچھی بات ہے کہ وہ تحمل کے ساتھ اور غور و تدبر کے ساتھ پڑھے اور جو تفسیر اس نے پڑھی ہے اسے یاد کرکے مستعد رہے۔ اھ

امام ابن القیم  رحمہ اللہ  اس مسئلے کے تعلق سے فرماتےہیں:

لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے کہ قلت قرأت کے ساتھ ترتیل سے قرآن پڑھا جائے یا پھر تیزی سے باکثرت تلاوت کی جائے، ان میں سے کیا افضل ہے؟

اس بارے میں دو اقوال ہیں:

پس ابن مسعود و ابن عباس  رضی اللہ عنہما  وغیرہ اس طرف گئے ہیں کہ قلت قرأت کے ساتھ ترتیل و تدبر سے پڑھنا تیزی سے باکثرت پڑھنے سے افضل ہے۔

اس قول کے قائلین یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ قرأت سے مقصود اس کا فہم، تدبر، فقہ، عمل، اور اس کی تلاوت وحفظ ہے جو اس کے معانی جاننے کا ایک وسیلہ ہیں۔ جیسا کہ بعض سلف نے فرمایا:

’’قرآن کریم اس لیے نازل فرمایا گیا تاکہ اس پر عمل کیا جائے تو لوگوں نے محض اس کی تلاوت کو ہی ایک عمل بنادیا‘‘۔

اسی لیے اہل قرآن اس کا علم رکھتے تھے اور جو کچھ اس میں ہے اس پر عمل کیا کرتے تھے۔ اگرچہ انہیں مکمل حفظ نہ بھی ہو۔ دوسری طرف جو اسے حفظ تو کرتا ہے مگر نہ اس کا فہم رکھتا ہے اور نہ اس پر عمل کرتا ہے تو وہ  اس کے اہل میں سے نہیں۔ اگرچہ وہ تیر کی طرح فر فر ہی کیوں نہ پڑھتا ہو۔

وہ فرماتے ہیں کہ: کیونکہ ایمان افضل ترین عمل ہے اور ایمان قرآن کے فہم و تدبر کا ہی ثمرہ ہے۔ البتہ بغیر فہم اور تدبر کے محض تلاوت تو نیک، بد، فاسق وفاجر، مومن ومنافق سب کرتے ہیں۔ جیساکہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

’’وَمَثَلُ الْمُنَافِقِ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ الرَّيْحَانَةِ رِيحُهَا طَيِّبٌ وَطَعْمُهَا مُرٌّ‘‘([2])

(اور اس منافق کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے ریحانہ  کے جیسی ہے جس کی خوشبو تو اچھی ہے لیکن اس کا ذائقہ کڑوا ہوتا ہے)۔

اور لوگ اس بارے میں چار طبقوں میں ہیں:

1- اہل قرآن وایمان (یہ لوگ افضل ترین لوگ ہیں)۔

2- قرآن و ایمان سے عاری شخص۔

3- جسے قرآن تو دیا گیا لیکن ایمان نہیں۔

4- جسے ایمان دیا گیا لیکن قرآن نہیں۔

فرماتے ہیں: جیسا کہ وہ شخص جو قرآن کے بغیر ایمان دیا گیا اس سے افضل ہے جسے قرآن بغیر ایمان کے دیا گیا، اسی طرح سے جسے تلاوت میں فہم و تدبر دیا گیا اس سے افضل ہے جو باکثرت اور تیزی سے بلاتدبر قرأت کرتا ہے۔

فرماتے ہیں: اور یہی نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا طریقہ ہے کہ کسی سورۃ کو اس طرح ترتیل سے پڑھتے کہ وہ اپنے سے بڑی سورۃ سے بھی بڑی محسوس ہوتی اور کبھی تو ایک ہی آیت کو پڑھتے پڑھتے صبح کردیتے۔

اور اصحاب شافعی رحمہم اللہ فرماتے ہیں: کثرت قرأت افضل ہے اور وہ بطور دلیل ابن مسعود  رضی اللہ عنہ  کی حدیث پیش کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

’’مَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ فَلَهُ بِهِ حَسَنَةٌ، وَالْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا، لَا أَقُولُ الم حَرْفٌ، وَلَكِنْ أَلِفٌ حَرْفٌ وَلَامٌ حَرْفٌ وَمِيمٌ حَرْفٌ‘‘([3])

(جو کوئی کتاب اللہ میں سے ایک حرف پڑھتا ہے تو اسے اس کے بدلے ایک نیکی دی جاتی ہے اور اللہ تعالی کے نزدیک ایک نیکی کا ثواب دس گنا دیا جاتا ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف ہے، لام ایک حرف ہے اور میم الگ حرف ہے)۔

اسے امام ترمذی نے روایت کرکے صحیح قرار دیا ہے۔

فرماتے ہیں: کیونکہ  عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ  نے ایک ہی رکعت میں پورا قرآن پڑھ ڈالا تھا اور اس کے علاوہ سلف سے کثرت قرأت کے متعلق بہت سے آثار نقل کرتے ہیں۔

اس مسئلے میں صواب بات یہ ہے کہ کہا جائے:

ترتیل اور تدبر کے ساتھ کی گئی قرأت ثواب کے اعتبار سے بہتر اور عالی قدر ہے جبکہ کثرت قرأت ثواب کے عدد کے اعتبار سے زیادہ ہے۔

پس پہلے کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے عظیم جوہر صدقہ کیا یا نفیس و قیمتی غلام آزاد کیا ہو۔ جبکہ دوسرے کی مثال اس شخص کی سی ہے کہ جس نے تعداد میں بہت زیادہ درہم صدقہ کیے اور غلاموں کی ایک بہت بڑی تعداد آزاد کی مگر سستی قیمت کے غلام۔

صحیح بخاری میں قتادہ  رحمہ اللہ  سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں: میں نے انس  رضی اللہ عنہ  سے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی قرأت کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا:

’’كَانَ يَمُدُّ مَدًّا‘‘([4])

(آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  مد وغیرہ کو کھینچ کر تلاوت فرمایا کرتے تھے)۔

اور شعبہ  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں: ہمیں ابوجمرہ نے بیان فرمایا کہ انہوں نے ابن عباس  رضی اللہ عنہما  سے کہا: میں بہت تیزی سے قرأت کرتا ہوں کبھی کبھار تو میں ایک ہی رات میں ایک بار یا دوبار مکمل قرآن ختم کرلیتا ہوں۔ اس پر آپ  رضی اللہ عنہما  نے فرمایا:

’’لِأَنْ أَقْرَأَ سُورَةً وَاحِدَةً، أَعْجَبُ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَفْعَلَ مِثْلَ الَّذِي تَفْعَلُ، فَإِنْ كُنْتَ فَاعِلاً لَا بُدَّ فَاقْرَأْهُ قِرَاءَةً تُسْمِعُ أُذُنَيْكَ وَيَعِيهِ قَلْبُكَ‘‘([5])

(مجھے تو ایک سورۃ ہی پڑھ لینا زیادہ پسند ہے اس عمل سے جو تم کرتے ہو۔ اگر تمہیں ایسا کرنا ہی ہے تو ایسی قرأت کرو کہ جسے تمہارے کان سنیں اور دل سمجھ کر محفوظ کرلے)۔

اور ابراہیم  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں: علقمہ نے ابن مسعود  رضی اللہ عنہ  پر قرآن پڑھا اور علقمہ بہت خوش الحان تھے اس پر آپ  رضی اللہ عنہ  نے فرمایا:

’’رَتِّلْ، فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي، فَإِنَّهُ زَيْنُ الْقُرْآنِ‘‘

(میرے ماں باپ تجھ پر فدا ہوں قرآن ترتیل سے پڑھا کرو کیونکہ یہی قرآن کی زینت ہے)۔

اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں:

’’لَا تَهُذُّوا الْقُرْآنَ كَهَذِّ الشِّعْرِ، وَلَا تَنْثُرُوهُ نَثْرَ الدَّقَلِ، وَقِفُوا عِنْدَ عَجَائِبِهِ، وَحَرِّكُوا بِهِ الْقُلُوبَ‘‘([6])

(قرآن کو شعرکی طرح تیزی سے نہ پڑھو اور نہ بکھری ردی کھجوروں جیسا سلوک کرو، اور عجائب قرآن پر رکو سوچو اور اس کے ذریعے دلوں کو متحرک کرو)۔

اور فرمایا:

’’وَلَا يَكُنْ هَمُّ أَحَدِكُمْ آخِرَ السُّورَةِ ‘‘([7])

(تم میں سے کسی کا مقصد بس سورۃ کو پڑھ کر ختم کرنا نہ ہو)۔

’’الهذّ‘‘  تیزی سے قرأت کو کہتے ہیں اور ’’الدَّقَل‘‘  ردی کھجوروں کو کہتےہیں۔

اسی طرح سے ابن مسعود  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں:

’’إِذَا سَمِعْتَ اللَّهَ يَقُولُ فِي كِتَابِهِ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا، فَأَصْغِ لَهَا سَمْعَكَ، فَإِنَّهُ خَيْرٌ تُؤْمَرُ بِهِ، أَوْ شَرٌّ تُصْرَفُ عَنْهُ‘‘([8])

(اگر تم اللہ تعالی کو قرآن میں یہ فرماتے ہوئے سنو کہ: اے ایمان والو!۔۔۔تو اپنے کان کھڑے کرکے ہمہ تن گوش ہوجاؤ (یعنی پوری توجہ سے سنو) کیونکہ وہ یا تو کوئی خیر ہوگی جس کا تمہیں حکم دیا جارہا ہوگا یا پھر کوئی شر ہوگا جس سے تمہیں روکا جارہا ہوگا۔۔۔)۔

(زاد المعاد 1/337-340)

فتح الباری باب ’’في كم يقرأ القرآن؟‘‘ شرح حدیث رقم 5052 میں ہے کہ:

۔۔۔ابن مسعود  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے:

’’اِقْرَءُوا الْقُرْآن فِي سَبْع وَلَا تَقْرَءُوهُ فِي أَقَلّ مِنْ ثَلَاث‘‘

(قرآن کریم کو سات دنوں میں پڑھو اور اسے تین دن سے کم میں نہ پڑھو)۔

اور ابی عبید کی روایت ہے الطیب بن سلمان عن عمرہ عن عائشہ رضی اللہ عنہا کے طریق سے:

’’أَنَّ النَّبِيّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لَا يَخْتِم الْقُرْآن فِي أَقَلّ مِنْ ثَلَاث‘‘

(نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  تین دن سے کم میں قرآن ختم نہيں فرمایا کرتے تھے)۔

اور اسی کو احمد، ابی عبید اور اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ وغیرہ نے اختیار کیا ہے۔ لیکن بہت سے سلف سے ثابت ہے کہ وہ اس سے کم میں بھی قرآن ختم فرمادیا کرتے تھے۔ امام نووی  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں: ہم نے جو اختیار کیا ہے کہ یہ شخصیات کے اعتبار سے مختلف ہوتا ہے۔ جو کوئی اہل فہم ہوتے ہیں اور دقت فکر رکھتے ہیں ان کے لیے مستحب ہے کہ وہ اسی قدر پر اقتصار کرے جو تدبر اور استخراج معانی کے مقصود کو حاصل کرنے میں خلل کا سبب نہ بنے۔ اسی طرح سے جسے علم یا دیگر مہمات دین وعام مصالح مسلمین کے مشاغل ہوں ان کے لیے مستحب ہے کہ وہ اسی قدر پر اقتصار کریں جو اس کے مقصود میں خلل کا سبب نہ ہو۔ اور جو ان میں سے نہ ہو تو اس کے لیے اولیٰ یہی ہے کہ وہ کثرت کرے جتنا ممکن ہو لیکن خیال رہے کہ بیزاری کی حد تک نہ پہنچ جائے اور نہ اسے ناقابل فہم تیز رفتاری میں پڑھے۔ واللہ اعلم۔

سوال: کیا حدیث میں جبرئیل  علیہ الصلاۃ والسلام   کا رمضان میں نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ساتھ قرآن کا دور کرنے سے ختم قرآن کی افضلیت ثابت ہوتی ہے؟

جواب از شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ :

اس سے دور کرنا یعنی ایک دوسرے کا قرآن سننا سنانا ثابت ہوتا ہے۔ اور ایک مومن کے لیے مستحب ہےکہ وہ کسی ایسے کے ساتھ قرآن کا دور کرے جو اسے فائدہ اور نفع پہنچائے۔  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  جبرئیل  علیہ الصلاۃ والسلام  کے ساتھ اسی استفادہ کی خاطر یہ دور فرمایا کرتے تھے۔ کیونکہ وہ جبرئیل  علیہ الصلاۃ والسلام  ہی تھے جو اسے اللہ تعالی کے پاس سے لایا کرتے تھے وہ اللہ تعالی اور اس کے رسولوں کےمابین بطور سفیر کام کرتے تھے۔ پس لازم ہے کہ جبرئیل  علیہ الصلاۃ والسلام   نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو اللہ تعالی کے، حروف قرآن کے اور ان کے معانی جو اللہ تعالی کی مراد ہوا کرتی تھی ان کے اعتبار سےاستفادہ پہنچایا کرتے تھے۔ اگر انسان کسی ایسے کے ساتھ قرآن کا دور کرتا ہے جو اسے فہم قرآن میں اور اس کے الفاظ کو صحیح قائم کرنے میں مدد دے تو یہی مطلوب ہے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  جبرئیل  علیہ الصلاۃ والسلام  کے ساتھ دور فرمایا کرتے تھے۔ اس سے یہ ثابت نہيں ہوتا کہ جبرئیل  علیہ الصلاۃ والسلام   رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے افضل ہیں، بلکہ دراصل جبرئیل  علیہ الصلاۃ والسلام   ہی وہ پیغام رساں تھے جو اللہ تعالی کی طرف سے اس کے احکام یعنی قرآن، اس کے الفاظ اور اس کے معانی  پہنچایا کرتے تھے۔ پس رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اس حیثیت سے جبرئیل  علیہ الصلاۃ والسلام  سے مستفید ہوئے۔ اس لیے نہیں کہ جبرئیل  علیہ الصلاۃ والسلام  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے افضل تھے بلکہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  تو افضل البشر ہیں اور تمام فرشتوں سے افضل ہیں۔ لیکن اس دور کرنے میں خود رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی امت کے لیے خیر کثیر تھا۔ کیونکہ دور اس چیز کا تھا جو اللہ تعالی کی جانب سے نازل ہوئی اور استفادہ بھی انہی سے تھا جو اللہ تعالی کی جانب سے اسے لے کر آئے۔

اس میں دوسرا فائدہ بھی ہے اور وہ یہ کہ رات کو دور کرنا دن میں دور کرنے سے افضل ہے۔ کیونکہ یہ دور کرنا رات کے وقت ہوا کرتا تھا۔ اور یہ بات معلوم ہے کہ رات دل جمعی اور حضور قلب کے زیادہ قریب ہوتی ہے لہذا اس میں استفادہ دن کے نسبت زیادہ ہوتا ہے۔ (جیسا کہ سورۃ مزمل میں بھی ذکر ہے)

اس میں یہ بھی فائدہ ہے کہ اس سے دور کرنے کی مشروعیت معلوم ہوتی ہے اور یہ کہ یہ ایک نیک عمل ہے اگرچہ رمضان کے علاوہ ہی کیوں نہ ہو۔ کیونکہ اس میں دونوں کے لیے فائدہ ہے۔ اگر دو سے زیادہ بھی ہوجائیں تو کوئی مضائقہ نہیں کہ سب اپنے بھائی سے مستفید ہوں اور اسے قرأت پر حوصلہ افزائی کریں اور اسے چست رکھیں کیونکہ کبھی انسان اکیلا ہونے کے سبب اتنا چست نہیں ہوتا۔ لیکن اگر اس کے ساتھ اس کے ساتھی و دوست بیٹھے ہوں تو یہ بات اس کے لیے زیادہ حوصلہ افزائی اور زیادہ چستی کا سبب بنے گی۔ ساتھ ہی مذاکرہ و مطالعہ سے عظیم فائدہ حاصل ہوگا کہ کسی کو کوئی اشکال ہوگا تو وہ رفع ہوجائے گا، غرض ان تمام باتوں میں خیر کثیر ہے۔

مزید اس سے یہ مفہوم لیا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم کی مکمل قرأت رمضان میں امام وجماعت کے ساتھ اسی دور کی شکل میں سے ہے۔ کیونکہ اس میں پورے قرآن کی تلاوت سنا کر سب کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے۔ اسی لیے امام احمد  رحمہ اللہ  اس بات کو پسند فرمایا کرتے تھے کہ جو ان کی امامت کروائے وہ قرآن کریم کو ختم کرے۔ اور یہ سلف کی سماع قرآن سے محبت کی جنس کا عمل ہے۔ لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ جلدی جلدی قرآن پڑھا جائے اور تحمل و ترتیل کو بالائے تاک رکھ دیا جائے، اور خشوع و اطمینان کی کوشش نہ کی جائے۔ بلکہ ان امور کی رعایت کرنا تو ختم قرآن کی رعایت کرنے سے اولیٰ ہے۔

(شیخ کی آفیشل ویب سائٹ فتوی رقم 555)


[1] المسند للشاشی 313۔آگے فرمایا:

’’اقْرَأْ كَمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَلَى آلِهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ سُورَتَيْنِ مِنَ الْمُفَصَّلِ فِي رَكْعَةٍ‘‘

(بلکہ اس طرح پڑھو جیسا کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پڑھا کرتے تھے، آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  مفصل میں سے دو سورتیں ایک رکعات میں پڑھتے تھے)

(مترجم)

[2] صحیح بخاری 5059، صحیح مسلم 799۔

[3] صحیح ترمذی 2910۔

[4] صحیح بخاری 5054۔

[5] السنن الکبری للبیہقی 2/396۔

[6] مصنف ابن ابی شیبہ 8817۔

[7] شعب الایمان للبیہقی 944۔

[8] التفسیر من سنن سعید بن منصور 848۔

ترجمہ و ترتیب

طارق بن علی بروہی