صفات باری تعالی کے بارے میں سلف صالحین کی عبارات سے ہٹ کر بحث و جدال کرنا منع ہے

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال: اس شخص کا کیا حکم ہے جو کہتا ہے کہ: اللہ تعالی کی معیت (ساتھ ہونا) حقیقی ہے جس طرح اس کے شان کے لائق ہے جیسا کہ ان کا نزول وغیرہ صفات (حقیقی) ہیں، بنا کسی حلول یا تمثیل کے؟

جواب شیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ:

دیکھو بھائیو! اس قسم کے کلام میں نہ پڑو اور ذرا تحمل مزاجی سے کام لو۔ سلف صالحین نے معیت کی تفسیر ان آیات میں مشاہدے اور اطلاع سے کی ہے(یعنی وہ تمہیں دیکھتا ہے اور مطلع ہے)

وَهُوَ مَعَكُمْ اَيْنَ مَا كُنْتُمْ

اور وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں کہیں بھی تم ہو۔

[الحدید: 4]

وَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ

اور اللہ ہر چیز پر گواہ ہے۔

[المجادلۃ: 6]

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ۭ مَا يَكُوْنُ مِنْ نَّجْوٰى ثَلٰثَةٍ اِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ اِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَآ اَدْنٰى مِنْ ذٰلِكَ وَلَآ اَكْثَرَ اِلَّا هُوَ مَعَهُمْ اَيْنَ مَا كَانُوْا  ۚ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوْا يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ۭاِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ

کیا تم نے نہیں دیکھا کہ بے شک اللہ جانتا ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے۔کبھی تین بندوں  کی کوئی سرگوشی ایسی نہیں ہوتی کہ ان میں چوتھا وہ نہ ہو، اور نہ پانچ کی کہ جس میں چھٹا وہ نہ ہو، اور نہ کبھی اس سے کم ہوتے ہیں نہ زیادہ مگر وہ ان کے ساتھ ہوتا ہے جہاں کہیں بھی وہ ہوں، پھر انہیں وہ قیامت کے دن بتلادے گا جو عمل انہوں نے کیے تھے، بے شک اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے[المجادلۃ: 7]

تو یہ معیت  علم، اطلاع اور مشاہدے کے لحاظ سے ہے، کہ وہ انہیں دیکھتا ہے،  ان کے اقوال کو سنتا ہے اور ان کے حالات کو جانتا ہے جبکہ وہ اپنے عرش کے اوپر ہوتا ہے۔ یہ ہے معیت علم و اطلاع۔ ہمارے لیے بس یہی کافی ہے۔ کیونکہ اگر ہم نے اس حد کو پار کیا تو مشکلات میں پھنسیں گے۔

اور معیت نزول کے علاوہ صفت ہے۔ نزول آسمان دنیا پر ہوتا ہے  جس طرح وہ چاہتا ہے، اور اس بارے میں راجح یہی ہے کہ بلاشبہ اس سے عرش خالی نہيں ہوتا، کیونکہ یقیناً اس کا نزول مخلوقات کے نزول کی طرح نہيں ہے۔

[فتاویٰ فی العقیدۃ والمنہج (الحلقۃ الاولیٰ)]

سوال:  ہم کس طرح بدعتیوں میں سے ایسے شخص کا رد کریں جو سلفیوں کے بارے میں کہتا ہے کہ انہوں نے بھی معیت کی صفت کی تاویل کی ہے کہ معیت سے مراد نصرت  اور اس جیسا مطلب ہے؟

جواب شیخ ربیع المدخلی  حفظہ اللہ  :

نہيں ، یہ تفسیر ہے تاویل نہیں ہے، بالکل واضح تفسیر ہے۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ۭ مَا يَكُوْنُ مِنْ نَّجْوٰى ثَلٰثَةٍ اِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ اِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَآ اَدْنٰى مِنْ ذٰلِكَ وَلَآ اَكْثَرَ اِلَّا هُوَ مَعَهُمْ اَيْنَ مَا كَانُوْا  ۚ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوْا يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ۭاِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ

کیا تم نے نہیں دیکھا کہ بے شک اللہ جانتا ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے۔کبھی تین بندوں  کی کوئی سرگوشی ایسی نہیں ہوتی کہ ان میں چوتھا وہ نہ ہو، اور نہ پانچ کی کہ جس میں چھٹا وہ نہ ہو، اور نہ کبھی اس سے کم ہوتے ہیں نہ زیادہ مگر وہ ان کے ساتھ ہوتا ہے جہاں کہیں بھی وہ ہوں، پھر انہیں وہ قیامت کے دن بتلادے گا جو عمل انہوں نے کیے تھے، بے شک اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے[المجادلۃ: 7]

یہ پوری آیت ہی علم سے متعلق ہے۔ اسی لیے سلف نے اس کی تفسیر علم سے کی ہے، کیونکہ بلاشبہ اس کا سیاق اسی پر دلالت کرتا ہے۔ اور سیاق و سباق کی دلالت الفاظ کی دلالت سے بھی بڑھ کر ہوتی ہے۔ چنانچہ یہ تفسیر ہے اور بالکل بھی تاویل نہيں ہے۔ کیونکہ بے شک یہاں علم کا سیاق بیان ہوا ہے، اللہ کے علم کو ثابت کیا ہے اور یہ کہ اس نے ہر چیز کا احاطہ فرمایا ہوا ہے خواہ افراد ہوں یا جماعتیں۔ یہ ہے معیت عامہ جواپنی  ہر مخلوق کے ساتھ ہے اپنے علم، اطلاع اور مشاہدے کے لحاظ سے۔

اور یہ تفسیر ہے ناکہ تاویل، کیونکہ بلاشبہ سیاق اس بات کو ثابت کرنے پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ کا علم ہر چیز کو شامل ہےجو اس کائنات میں چل رہی ہے:

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ

کیا تم نے نہیں دیکھا کہ بے شک اللہ جانتا ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے۔

پھر ان تفصیلات کے ذریعے اس کی مزید تاکید فرمائی ہے۔ چنانچہ سیاق اللہ تعالی کے ہر چیز کو شامل علم کے اثبات  سے متعلق ہے۔ اور اسے وہ  معیت عامہ کہتے ہیں  یعنی اپنے علم اور اطلاع کے ذریعے۔

اور اللہ تعالی نے موسی و ہارون علیہما الصلاۃ والسلام سے فرمایا:

اِنَّنِيْ مَعَكُمَآ اَسْمَعُ وَاَرٰى

بے شک میں تم دونوں کے ساتھ ہوں،  سن بھی رہا ہوں اور دیکھ بھی رہا ہوں۔

[طہ: 46]

یعنی نصرت و تائید کے طور پر (ساتھ ہوں) کیونکہ ضرور وہ دونوں فرعون کے ظلم سے ڈرے ہوئے تھے۔ تو اللہ تعالی نے ان دونوں سے فرمایا: میں تم دونوں کی نصرت کروں گا اور میں نصرت و تائید کے اعتبار سے تمہارے ساتھ ہوں، ذات کے اعتبار سے نہیں، اللہ پاک اور بلند ہے  اس سے۔ تو یہ معیت خاصہ ہے۔

اور فرمان باری تعالی ہے:

لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا

غم نہ کرو، بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔

[التوبۃ: 40]

یعنی وہ ہمارے ساتھ ہے اطلاع، نصرت اور دشمنوں کی چال کو ناکام کرنے میں:

اِذْ هُمَا فِي الْغَارِ اِذْ يَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا

جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے صحابی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کرو، بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔

[التوبۃ: 40]

ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: یا رسول اللہ! اللہ کی قسم! اگر ان میں سے کوئی اپنے قدموں کے نیچے کی طرف دیکھے گا تو ضرور وہ ہمیں دیکھ لے گا، تو ان سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا

غم نہ کرو، بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔

یعنی  ہمیں بچالے گا، نصرت فرمائے گا اور دشمن کے مقابلے میں ہمارا دفاع فرمائے گا۔

[فتاویٰ فی العقیدۃ والمنہج (الحلقۃ الثالثۃ)]

 شیخ صالح آل الشیخ  حفظہ اللہ  شرح العقیدۃ الواسطیۃ میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمہ اللہ  کے معیت الہی کے متعلق دیے گئے دلائل کی تشریح کرتے ہوئے سلف صالحین کی تفسیر معیت عامہ سے علم قدرت وغیرہ مراد اور معیت خاصہ سے نیک بندوں کی نصرت و تائید وغیرہ ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ “مع” کا معنی ہی ہر جگہ اس کے اپنے سیاق کے اعتبار سے ہوتا ہے، پھر شیخ الاسلام  رحمہ اللہ  کی دی گئی مثالوں کی وضاحت فرمائی  اشاعرہ کا استدلال ذکر کیا کہ وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں کہیں بھی تم ہو سے وہ  یہ سمجھتے ہيں کہ  بے شک اللہ عرش کے اوپر نہیں بلکہ وہ ہر جگہ ہے۔اور اس کا سبب یہ ہے کہ  وہ اللہ کے اس فرمان:

وَهُوَ مَعَكُمْ اَيْنَ مَا كُنْتُمْ

سے یہ سمجھے ہيں کہ اللہ کا مخلوق کے ساتھ اختلاط ہے۔ اور ان کے گمان کے مطابق وجۂ استدلال میں یہ کہتے ہيں کہ: اس  سبحانہ و تعالی  نے کلمہ “مع” ذکر فرمایا ہے، اور “مع” کا یہاں معنی ہے ذاتی معیت۔ اور اپنے اس قول کی وجہ سے وہ استواء اور علو ذاتی کو باطل قرار دیتے ہیں۔

ہم یہ کہتے ہیں: یہ بات باطل ہے، وہ اس لیے کیونکہ بلاشبہ اللہ تعالی نے  یہ بھی تو بیان فرمایا ہے کہ:

اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِيْنَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ 

بے شک  اللہ ان کے ساتھ جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور جو محسنین ہیں۔

[النحل: 128]

اور یہ صفت کا مفہوم ہے۔اور صفت کا مفہوم مخالف بھی ہےاور مفہوم مخالف کا تقاضہ ہے کہ جو اس طرح کا(تقویٰ واحسان والا)  بندہ نہ ہو  تو اللہ  سبحانہ و تعالی  اس کے ساتھ نہیں ہے۔ لہذا ان کے قول کے مطابق اس کا یہ معنی بنتا ہےکہ وہ  سبحانہ و تعالی  کافر کے ساتھ نہيں جہاں بھی وہ متوجہ ہو، جبکہ یہ نص قرآن کے خلاف ہے۔

چنانچہ ان کے قول کے بطلان پر پہلی دلیل یہ ہے کہ بلاشبہ جب معیت کو اہل تقویٰ و اہل احسان کے ساتھ خاص کیا گیا اور اسی طرح اہل صبر کے ساتھ، اور نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اور الصدیق  رضی اللہ عنہ  کے ساتھ، جب آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہ  کے ساتھ غار میں تھے اور فرمایا:

لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا

غم نہ کرو، بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔

[التوبۃ: 40]

اور مشرکین غار کے اوپر کھڑے تھے اور اللہ  سبحانہ و تعالی  ان کے ساتھ بھی تھا، اس فرمان کے بموجب کہ:

وَهُوَ مَعَكُمْ اَيْنَ مَا كُنْتُمْ

لہذا اس مسئلے میں اشاعرہ  اوران کے مشابہہ اہل بدعت کے کلام کے تقاضے کے مطابق  کہ:  بے شک اللہ  سبحانہ و تعالی  کی معیت ذاتی معیت ہوتی ہے کہ وہ اختلاط و حلول فرماتا ہے، اس لحاظ سے تو پھر  آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا کافروں پر کوئی امتیاز نہيں رہا اس فرمان میں کہ: غم نہ کرو، بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے! کیونکہ یہ تو معیت ذات ہوئی، اور وہ غار کے اوپر ہی کھڑے ہیں، اور آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اورصحابی غار کے اندر ہیں، تو پھر کیا فرق رہا اگر معیت فقط معیت ذات تھی، اور وہ  سبحانہ و تعالی  اس جگہ میں موجود تھا؟ پس اس سے یہ معلوم ہوا کہ بے شک اس فرمان میں کہ: غم نہ کرو، بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے! معیت  سے مراد معیت ذات نہيں ہے، تو یہ جواب ہوا اس کی دلالت کے حساب سے۔

اور جہاں تک لغت کا تعلق ہے تو ہم کہتے ہیں: جو کچھ آپ نے بیان کیا باطل ہے لغوی اعتبار سے بھی۔ وہ اس طرح کہ کلمہ “مع” لغت میں مطلق مصاحبت اور اقتران (ساتھ ہونے)  پر دلالت کرتا ہے۔ پس کبھی مصاحبت و اقتران معانی کے لحاظ سے ہوتا ہے، کبھی ذاتوں کے ساتھ ہوتا ہے کہ جس میں اختلاط و قرب بھی پایا جاتا ہے، اور کبھی صرف ذات کے ساتھ ہوتا ہے جبکہ ایک ذات دوسری سے دور ہوتی ہے، یہ تین پہلو سے ہوتا ہے:

1- اللہ سبحانہ و تعالی نے فرمایا:

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَكُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ

اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو او رسچوں کے ساتھ ہوجاؤ۔

[التوبۃ: 119]

پس یہ فرمانا کہ : سچوں کے ساتھ ہوجاؤ، یعنی اپنے ذاتوں کے لحاظ سے ان کے ساتھ ہوجاؤ۔ اب صادقین میں سے ایسے انبیاء و رسل علیہم الصلاۃ والسلام  ہیں جو ہمارے نبی محمد  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے پہلے آئے تھے، اور ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم ان کے ساتھ بھی ہوں، لیکن کس چیز کے ساتھ؟  یقیناً ہم ان کے ساتھ ہوں  اس صفت کو اپنانے میں یعنی ایمان میں سچائی و صدق کی صفت اپنانے میں اور اس میں تردد نہ ہو، اور ہم اللہ تعالی اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے حکم پر فورا لبیک کہیں۔

لہذا یہ فرمان: اللہ سے ڈرو او رسچوں کے ساتھ ہوجاؤ۔ یعنی صدق سچائی کی صفت میں ان کے ہمنوا اور ساتھی بن جاؤ۔

اسی طرح سے عرب کے کلام میں کہا جاتا ہے کہ: فلاں عورت اپنے شوہر کے ساتھ یا پاس ہے یعنی اپنی ذات کے لحاظ سے یا اس کے عقد نکاح میں باقی ہے؟ عرب یہ مراد لیتے ہيں جب کہتے ہيں: فلاں عورت اپنے شوہر کے ساتھ یا پاس ہے مطلب اب تک اس کے بندھن میں بندھی ہوئی ہے، اس نے اسے طلاق نہيں دی ہے اور عقد نکاح کے حکم کے بموجب اس کے ساتھ ہے۔ جبکہ خود وہ شوہر ہوسکتا ہے کسی اور ملک میں ہو اور یہ بیوی کسی اور ملک میں۔

اور یوں پوچھا جائے کہ: کیا فلاں  اب تک اپنے شوہر کے ہی پاس ہے؟ تو کہا جاتا ہے: ہاں وہ اب تک اس کے پاس ہے۔ حالانکہ مثال کے طور پر وہ ریاض میں ہوسکتی ہے اور اس کا شوہر دنیا کے کسی دوسرے کنارے میں، لیکن یہ کلام بالکل ٹھیک ہوگا کیونکہ یہ معنوی معیت ہے۔

2- معیت ذاتوں کے لحاظ سے ہو تو کوئی کہے: میرے پاس فلاں فلاں ایک ساتھ آئے یعنی وہ دونوں جمع تھے۔ یہ ذاتوں کے اعتبار سے ہے۔ مثلاً یوں کہا جائے: فلاں کہاں ہے؟ فلاں اپنی بیوی کے ساتھ ہے یعنی اپنے گھر  میں، تو یہ ذاتوں کے اعتبار سے ہوگا۔

3- معیت اس معنی کے اعتبار سے کہ وہ ذات غائب نہیں ہے۔ اور اس معیت کا ہرگز یہ تقاضہ نہيں کہ حلول یا اختلاط ہو۔

اور شیخ الاسلام رحمہ اللہ  نے اسے چاند کی مثال سے سمجھایا ہے جو سنت والے دلائل میں آئے گی۔ کہتے ہیں: چاند سب کے ساتھ ہوتا ہے خواہ کوئی  دیہات میں ہو یا شہر میں، خواہ کوئی مسافر ہو یا مسافر نہ ہو، حالانکہ چاند کی ذات تو اپنے بلندی میں دور ہوتی ہے، اس کے باوجود وہ مسافر یا غیرمسافر سے غائب نہیں ہوتی۔ پس چاند کی روشنی سب کو شامل ہوجاتی ہے، اسی طرح چاند کا دیدار بھی سب کو شامل ہوتا ہے، چاند کا مشاہدہ  سب کرتے ہیں، حالانکہ اس کے باوجود چاند ہر ذات کے ساتھ اور ہر جگہ نہیں ہوتا ہے۔

اسی لیے ہم یہ کہتے ہيں کہ بے شک آپ لوگوں کی معیت کی تفسیر ان میں سے کسی ایک نوع کے مطابق کرنا یعنی ذات کے اعتبار سے معیت کہنا باطل ہے۔

کیونکہ عرب کے نزدیک یہ مذکورہ تین صورتوں میں سے ایک ہے، اور جو بات آپ کررہے ہيں واجب ہے کہ اسے نہ لیا جائے، کیونکہ دلائل اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ والی قسم اس بارے میں خارج ہے۔ یعنی استواء کے دلائل اور ذات کے علو کے دلائل جن کا بیان پہلے گزرا ہے وہ اس بات کی دلیل ہے کہ ایسا ہونا ممکن نہیں۔ کیونکہ بلاشبہ اللہ تعالی تو اپنے عرش پر مستوی ہے اور اس  سبحانہ و تعالی  کا ذاتی علو ہے۔ لہذا اللہ کی اپنی مخلوق کے ساتھ معیت  ممکن نہیں کہ وہ ایسی ہو جیسے ایک ذات کی دوسرے کے ساتھ ہوتی ہے کہ دونوں ذاتیں ایک دوسرے کے قریب ہوتی ہيں، جیسا کہ فلاں کی ذات کا فلاں کے ساتھ ہونا سمجھ آتا ہے، کیونکہ اس معنی میں تناقض پایا جاتا ہے جو ہم نے پہلے بیان کیا۔

چنانچہ ہم کہتے ہيں ان میں اللہ کی معیت کا وہی معنی ہے جو لغت تقاضہ کرتی ہے جس میں پہلے اور تیسرے معنی کا احتمال ہے یا کبھی یہ دونوں ساتھ مراد ہوتے ہیں۔

جہاں تک  پہلی بات ہے یعنی معنوی معیت تو اللہ  سبحانہ و تعالی  موصوف ہے اس بات سے کہ وہ اپنی تمام مخلوق کے ساتھ ہے اپنے علم اور ان کا احاطہ کرنے کے لحاظ سے۔

اور جو تیسری بات ہے کہ جس طرح چاند بلاشبہ مسافر اور غیر مسافر کے ساتھ ہوتا ہے  تو یقیناً اللہ تعالی بھی اپنی مخلوق کے ساتھ ہوتا ہے ان سے غائب نہیں ہوتا، بلکہ وہ ان پر مطلع رہتا ہے اور ان پر نظر رکھے ہوتا ہے،  اور وہ اس کی بصارت و سماعت کے ماتحت ہوتے ہيں اس پر ان کی کوئی پوشیدہ بات مخفی نہیں ہوتی۔ اور اس کی ذات عزوجل اپنے مخلوق سے غائب نہیں ہوتی۔ جیسا کہ چاند ان تمام زمین والوں سے  کہیں غائب نہیں ہوتا۔ اور یہ تو بس اللہ تعالی کی بعض مخلوقات ہیں جنہیں اس سبحانہ وتعالی نے اس طرح مثال بنایا ہے، تو پھر اس العظیم العلیم(سب سے بڑے اور سب علم رکھنے والے)  کا کہنا؟

چنانچہ وہ عزوجل اپنے عرش پر مستوی ہے، اس پر کوئی چیز مخفی نہیں، ان کے تمام حالات پر مطلع ہے۔

کیونکہ اگر کہنے والا کہے: وہ ہمارے ساتھ بذاتہ (اپنی ذات کے اعتبار سے) ہے۔ تو اس میں بدعتیوں کے اقوال کا وہم پایا جاتا ہے۔ حالانکہ عقیدے کے بارے میں موہوم عبارات کی نفی کرنا اور ان سے دور رہنا واجب ہے۔ اور اگر کسی قول کے صحیح اور باطل معنی دونوں کا احتمال پایا جائے  تو ہم کہتے ہیں اس قول سے اجتناب کریں۔ کیونکہ بے شک اللہ عزوجل نے فرمایا:

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَقُوْلُوا انْظُرْنَا

اے ایما ن والو! راعنا نہ کہا کرو انظرنا کہا کرو۔

[البقرۃ: 104]

کیونکہ یہودی راعنا کہا کرتے تھے جس سے ان کی مراد رعونت (بیوقوفی، طیش میں ہونا) ہوتی، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس حالت میں ہیں۔ لہذا اہل ایمان کو یہودیوں کے قول کی  مشابہت کی وجہ سے اس لفظ کے استعمال سے منع فرمادیا گیا، اور یہودی اس سے کوئی اور معنی مراد لیتے تھے اس کے باوجود ہمیں اس سے منع کردیا گیا۔

بالکل اسی طرح معیت کے تعلق سے ہم معیت ذاتی نہيں کہتے، کیونکہ اس لفظ کے اطلاق سے یہ (غلطیاں)  لازم آتی ہیں:

1- نصوص جس بات پر دلالت کرتے ہیں ان سے خروج اختیار کرنا۔

2- سلف نے جو (الفاظ) استعمال کیے ان سے خروج اختیار کرنا ۔

3- بدعتیوں کے اقوال کی مشابہت۔

یعنی اس بات میں فرق ہے اگر کوئی کہتا ہے:

بے شک معیت جوہے وہ معیت ذاتی ہے اس طورپر کہ وہ ہر جگہ میں حلول کیے ہوئے ہے، اور اللہ کے عرش پر استواء کی نفی کرتا ہے، یہ اہل بدعت کے اقوال میں ہے۔

اور جو کہتا ہے:

وہ اپنی مخلوق کے ساتھ بذاتہ ہے اور  ساتھ ہی بے شک وہ اپنے عرش پر مستوی ہے، اور وہ مخلوق میں  یا ہرجگہ حلول کی بھی نفی کرتا ہے۔

یہ جو (دوسرا) قو ل ہے کہ وہ اپنی مخلوق کے ساتھ بذاتہ ہے، ساتھ عرش پر بھی مستوی ہے، اور مخلوق میں یا ہر جگہ حلول نہيں کیے ہوئے ہے، اس قول میں اصل اشکال “بذاتہ” کے لفظ کا ہے۔ کیونکہ ویسے تو یہ سارا سلف کا کلام ہے لیکن “بذاتہ”  لفظ کا اضافہ جتنا ہمیں علم ہے اسے سلف کے اقوال سے خارج کرتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ بدعتیوں کا قول ہے، نہیں! یہ کچھ اور بات ہے اور وہ (بدعتیوں والی) کچھ اور بات ہے۔   اس نے صرف اس میں لفظ بذاتہ کی صراحت کی ہے کیونکہ لوگوں میں سے کچھ ایسے ہیں جو اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ معیت کے کسی تیسرے معنی کا بھی احتمال ہے(جو تقسیم میں پہلے گزرا)  تو اس کے لیے  تنصیص (حتمی صراحت) کی ضرورت پڑی تاکہ تیسرا معنی نہ نکالا جائے۔

لیکن سلف کا کلام اس بارے میں واضح ہے کہ ان کا اجماع ہے کہ بذاتہ کے لفظ کا اطلاق نہیں کیا جائے، ہمیں نہیں معلوم کہ سلف میں سے کسی نے اس لفظ کا استعمال کیا ہو اور کہا ہو: وہ اپنی مخلوق کے ساتھ ہے بذاتہ معیت عامہ کے لحاظ سے، یا وہ اپنے مومنین بندوں کے ساتھ ہے بذاتہ معیت خاصہ کے لحاظ سے، یا اس جیسی بات۔ حالانکہ بے شک  معیت حق ہے  اپنے حقیقی اعتبار سے، اگر ہم اس کی تفسیر معیت علمی سے کرتے ہیں تو وہ اس کے تقاضوں میں سے ہے، اور اگر اس کی تفسیر  معیت نصر و تائید و توفیق و الہام وغیرہ سے کرتے ہيں تو وہ بھی اس کے تقاضوں میں سے ہیں، لیکن معیت ذاتی یا وہ ان کے ساتھ بذاتہ ہوتا ہے، تو اس کا  ہم اطلاق اس لیے نہيں کرتے کیونکہ سلف نے اس طرح سے کلام نہیں کیا ہے۔

اور اللہ تعالی کی اپنی مخلوق کے ساتھ  معیت مجازی معیت نہیں ہے بلکہ یہ معیت باقی صفات کی طرح حقیقت پر مبنی ہے ۔ اور ہمارا اس کی تفسیر علم (معیت عامہ کے لحاظ سے) یا توفیق (معیت خاصہ کے لحاظ سے) کرنا اس کی حقیقت کے اعتبار سے ہی تفسیر ہے۔ پس یہ معیت حقیقی ہے جیسا کہ اللہ جل جلالہ کے لائق شان ہے۔ یہ ٹھیک نہیں ہے کہ اس سے مقصود معیت ذات لیا جائے۔ ہاں اگر آپ صرف کہیں کہ معیت حقیقی ہے،  تو پھر ٹھیک ہے اہل سنت نے اس کا اطلاق کیا ہے۔

اور حقیقی معیت دو اقسام میں تقسیم ہوتی ہے:

1- معیت عامہ جو کہ علم کے لحاظ سے معیت ہے۔

2- معیت خاصہ جو کہ نصرت، تائید اور توفیق وغیرہ کے لحاظ سے معیت ہے۔

تو یہ اہل سنت کے کلام میں سے ہے، البتہ جہاں تک بات ہے معیت ذاتیہ تو یہ ایک مشتبہ کلمہ ہے، اولیٰ یہی ہے کہ اسے ترک کیا جائے کیونکہ سلف کے ہاں یہ کلام نہیں ہوا کرتا تھا۔

اور شیخ الاسلام  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں: حقیقی معیت۔

یہاں تک کہ شیخ محمد بن ابراہیم آل الشیخ  رحمہ اللہ  جب اپنی الواسطیہ کی شرح میں اس مقام پر پہنچے تو فرمایا:

 یہ حقیقی معیت ہے جیسا کہ اللہ عزوجل کی شان کے لائق ہے جس کا تمام مخلوق کے لحاظ سے تقاضہ بنتا ہے کہ وہ علم کے اعتبار سے ہے، اور مخلوق میں سے خصوصی طور پر مومنین، متقیوں، محسنین و صابرین کے لحاظ سے تقاضہ بنتا ہے کہ وہ نصرت، تائید و توفیق کے اعتبار سے ہے، ورنہ تو اصل میں یہ معیت حقیقی ہے جیسا کہ اللہ تعالی کی شان کے لائق ہے۔

یہ ہے اہل علم اور محققین کے (الفاظ کا) استعمال اس بارے میں۔ کیونکہ الفاظ ایسے ہوتے ہیں کہ جس سے کسی کی مراد صحیح ہوتی ہے، لیکن کسی دوسرے معنی کا احتمال ہوتا ہے۔ اور اس قسم کے احتمالات سے اجتناب عقیدے کے باب میں واجب ہے۔

[اللآلئ البهية في شرح العقيدة الواسطية ص 430 – 435]

ترجمہ و ترتیب

طارق بن علی بروہی

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*